خلافت آدم کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے ۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ اذ یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ آیت ( هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ) 35 ۔ فاطر:39 ) دوسری جگہ فرمایا آیت ( وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ ) 27 ۔ النمل:62 ) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے ۔ ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں ۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی ۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں ۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت ( لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:27 ) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے ( اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے ) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا ۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں ، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے ۔ ان میں عابد ، زاہد ، اولیاء ، ابرار ، نیکوکار ، مقرب بارگاہ ، علماء ، صلحاء ، متقی ، پرہیزگار ، خوف الٰہی ، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے ۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے ، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں ۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں ۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے ۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں ۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے ۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے ۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم ۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی ۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا ۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں ۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہو جاتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے ۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم ۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے ۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں ، حسد و بغض کریں ، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں ۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے ۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے ۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں ۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے ۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے ۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی ۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے ۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی ۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی ۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو ۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا ۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے ۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے ۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی ۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا ، بڑائی اور عظمت کرنا ہے ۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے ۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں ۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ ( صحیح مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت ٭٭ امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے ، ان کے جھگڑے چکائے ، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے ، حدیں قائم کرے ، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے ۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا ۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو ۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے کیا ۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد ( یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ ) اس کی بیعت پر اجماع کرلیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا ۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم ۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے ۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے ۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں ، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں ۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں ۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے ۔ واللہ اعلم ۔ امام کا مرد ہونا ، آزاد ہونا ، بالغ ہونا ، عقلمند ہونا ، مسلمان ہونا ، عادل ہونا ، مجتہد ہونا ، آنکھوں والا ہونا ، صحیح سالم اعضاء والا ہونا ، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا ، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے ۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو ، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے ۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے ۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں ۔ کرامیہ ( شیعہ ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے ۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے ( لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو ۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا ) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو ۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں ، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا ۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے ۔
30۔ 1 مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ 30۔ 2 خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ 30۔ 3 فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے ؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر)
[٣٨] فرشتوں کی مستقل حیثیت : آج کل بعض ملحدین کی طرف سے یہ شبہ وارد کیا گیا ہے کہ فرشتوں سے مراد وہ مجرد قوتیں ہیں جو اس کارگاہ کائنات میں کارفرما ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایسی ہستیاں ہیں جو مستقل شخصیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان مکالمہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بعض ہستیوں کے قرآن میں نام بھی مذکور ہیں۔- [٣٩] آدم (علیہ السلام) خلیفہ کس کا ؟ یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائمقام) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صراحتاً یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو حي لایموت اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہذا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے، تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم (علیہ السلام) ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجودگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجودگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے، کیونکہ اس کی تائید ایک آیت ٣٣: ٧٢ سے بھی ہوجاتی ہے، اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی، محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے : ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ کیونکہ انسان تو انتہائی ظالم اور نادان واقع ہوا ہے (٣٣: ٧٢) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اسی کا دوسرا نام نظام خلافت ہے۔- [٤٠] فرشتوں کا یہ قیاس کہ بنی آدم دنیا میں فتنہ فساد اور قتل و غارت ہی کریں گے۔ یا تو اس لحاظ سے تھا کہ جن بھی زمین میں پہلے یہی کچھ کرچکے تھے اور یا اس لحاظ سے کہ جس ہستی کو اختیارات تفویض کر کے اسے اپنے اختیار و ارادہ کی قوت بھی دی جا رہی ہے وہ افراط وتفریط سے بچ نہ سکے گا اور اس طرح فتنہ و فساد رونما ہوگا۔- [٤١] تخلیق آدم پر فرشتوں کا اعتراض کیا تھا ؟ فرشتوں کا یہ جواب تخلیق آدم پر اعتراض نہ تھا بلکہ اس سے تخلیق آدم کی عدم ضرورت کا اظہار مقصود تھا۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ جب ہم مدبرات امر ہونے کی حیثیت سے کارگاہِ کائنات کو پوری سرگرمی اور خوبی سے چلا رہے ہیں۔ ہم تیرے حکم کی نافرمانی بھی نہیں کرتے تیری تسبیح تقدیس بھی کرتے رہتے ہیں، اور اس کائنات کو پاک و صاف بھی رکھتے ہیں اور جب یہ سب کام بخیر و خوبی سر انجام پا رہے ہیں تو پھر آدم (علیہ السلام) کو بطور خلیفہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے بالخصوص ایسی صورت میں کہ اس خلیفہ سے فتنہ و فساد بھی متوقع ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم چونکہ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ لہذا خلافت کے اصل حقدار تو ہم تھے۔ نہ کہ آدم جو ایسے اور ایسے کام کرے گا۔- تسبیح و تقدیس کا فرق :۔ اس آیت میں جو تسبیح و تقدیس کے الفاظ آئے ہیں۔ تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا یا سبحان اللہ کا ذکر کرنا یا اس ذات کی زبان قال یا زبان حال سے صفت بیان کرنا ہے جو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ گویا یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی خوبیوں کو مثبت انداز میں بیان کرنے اور اس کی حمد یا تعریف بیان کرنے کے لیے آتا ہے اور تقدیس کے معنی ایسی باتوں کی نفی کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔ اور قدوس معنی وہ ذات ہے جو دوسروں کی شرکت کی احتیاج اور شرک جیسی دوسری نجاستوں سے پاک ہو یعنی اضداد اور انداد دونوں سے پاک ہو (مقاییس اللغۃ) تسبیح سے حمد بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور تقدیس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔- [٤٢] یہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو اجمالی جواب ہے۔ تفصیلی جواب آگے آ رہا ہے۔ البتہ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ علم غیب فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایک الگ مخلوق ہیں اور وہ انسان کی پیدائش سے پہلے موجود تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان کی تعریف میں اللہ پر ایمان کے بعد فرشتوں پر ایمان کا ذکر فرمایا۔ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٥٠ ] نیک انسانوں یا نیکی کی قوتوں کو فرشتے قرار دینا درحقیقت ان کے وجود سے انکار ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔ - خلیفہ وہ ہے جو کسی کی موت کے بعد یا اس کے غائب ہونے کی صورت میں اس کا جانشین بنے، یا تمام امور خود سر انجام نہ دے سکنے کی صورت میں بعض معاملات میں اس کا نائب ہو۔ یہاں خلیفہ سے اللہ کا خلیفہ مراد لینا درست نہیں، کیونکہ نہ اللہ تعالیٰ پر موت آئے گی نہ وہ غائب ہے اور نہ وہ اپنے کاموں میں کسی کا محتاج ہے، بلکہ بقول ابن کثیر (رض) ” قَوْمًا یَخْلُفُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ جِیْلاً بَعْدَ جِیْلٍ “ یعنی خلیفہ سے ایسے لوگ مراد ہیں جو نسلاً بعد نسل ایک دوسرے کے جانشین بنیں گے۔ اسی طرح خلیفہ سے مراد صرف آدم (علیہ السلام) نہیں بلکہ پوری نوع انسان ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زمین میں فساد اور خون بہانا آدم (علیہ السلام) کا نہیں بلکہ اولاد آدم کا کام تھا۔ [ ابن کثیر ]- فرشتوں کو انسان کا زمین میں فساد کرنا کیسے معلوم ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے انھیں بتادیا تھا۔ دلیل ان کا یہ کہنا ہے کہ ” ہمیں کچھ علم نہیں مگر جو تو نے ہمیں سکھایا۔ “ فرشتوں کا سوال اعتراض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی پیدائش کی حکمت معلوم کرنے کے لیے تھا۔
خلاصہ تفسیر :- اور جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے (تاکہ وہ اپنی رائے ظاہر کریں جس میں حکمت و مصلحت تھی مشورہ کی حاجت سے تو حق تعالیٰ بالا و برتر ہیں غرض اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ) ضرور میں بناؤں گا زمین میں ایک نائب (یعنی وہ میرا نائب ہوگا کہ اپنے احکام شرعیہ کے اجراء ونفاذ کی خدمت اس کے سپرد کروں گا) کہنے لگے کیا آپ پیدا کریں گے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اس میں اور خوں ریزیاں کریں گے اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں بحمد اللہ اور آپ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں (فرشتوں کی یہ گذارش نہ بطور اعتراض اور نہ اپنا استحقاق جتانے کے لئے بلکہ فرشتوں کو کسی طرح یہ معلوم ہوگیا تھا کہ جو نئی مخلوق زمین سے بنائی جائے گی ان میں نیک وبد ہر طرح کے لوگ ہوں گے بعض لوگ اس نیابت کے کام کو اور زیادہ خراب کریں گے اس لئے نیاز مندانہ عرض کیا کہ ہم سب کے سب ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں اور گروہ ملائکہ میں کوئی گناہ کرنے والا بھی نہیں اس لئے کوئی نیا عملہ بڑھانے اور نئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے خصوصاً جب کہ اس نئی مخلوق میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ آپ کی مرضی کے خلاف کام کریں گے جس سے آپ ناخوش ہوں ہم ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں اور ہماری خدمت آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہوگی) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے (یعنی جو چیز تمہاری نظر میں تخلیق بنی آدم سے مانع ہے کہ ان میں بعض فساد بھی پھیلائیں گے وہی چیز درحقیقت ان کی تخلیق کا اصلی سبب ہے کیونکہ اجراء احکام و انتظام تو جبھی وقوع میں آسکتا ہے جب کوئی اعتدال سے تجاوز کرنے والا بھی ہو یہ مقصود تم فرمانبرداروں کے جمع ہونے سے پورا نہیں ہوسکتا، اور اعتدال سے تجاوز کرجانے والی ایک مخلوق جنات پہلے سے موجود تھی اس سے یہ کام کیوں نہ لیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کام کے لئے موزوں وہ مخلوق ہوسکتی ہے جن میں شر و فساد کا عنصر موجود تو ہو مگر غالب نہ ہو جنات میں یہ عنصر غالب تھا اس لئے تخلیق آدم کی تجویز فرمائی آگے اسی حکمت الہیہ کی مزید توضیح اس طرح کی گئی کہ نیابت خداوندی کے لئے ایک خاص علم کی ضرورت ہے وہ علم ملائکہ کی استعداد سے خارج ہے اس لئے فرمایا کہ) اور علم دے دیا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو (ان کو پیدا کرکے) سب چیزوں کے اسماء کا (یعنی سب چیزوں کے نام اور ان کے خواص وآثار سب کا علم آدم کو دے دیا گیا) پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کردیں پھر فرمایا کہ بتلاؤ مجھ کو اسماء ان چیزوں کے (یعنی مع ان کے آثار و خواص کے) اگر تم سچے ہو (یعنی اپنے اس قول میں سچے ہو کہ ہم خلافت ارضی کا کام اچھا انجام دے سکیں گے) فرشتوں نے عرض کیا کہ آپ تو پاک ہیں (اس الزام سے (کہ آدم (علیہ السلام) پر اس علم کو ظاہر فرمادیا ہم سے پوشیدہ رکھا کیونکہ کسی آیت یا روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو علم اسماء کی تعلیم فرشتوں سے الگ کرکے دی گئی اس سے ظاہر یہ ہے کہ تعلیم تو سب کے سامنے یکساں دی گئی مگر آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں اس علم کے حاصل کرلینے کی صلاحیت تھی انہوں نے حاصل کرلیا فرشتوں کی طبیعت اس کی متحمل نہ تھی ان کو یہ علم حاصل نہ ہوا) مگر ہم کو ہی علم نہیں مگر وہی جو کچھ آپ نے ہم کو علم دیا بیشک آپ بڑے علم والے ہیں حکمت والے ہیں (کہ جس قدر جس کے لئے مصلحت جانا اسی قدر علم وفہم اس کو عطا فرمایا اس سے فرشتوں کا یہ اعتراف تو ثابت ہوگیا کہ وہ اس کام سے عاجز ہیں جو نائب کے سپرد کرنا ہے آگے حق تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ آدم (علیہ السلام) میں اس علم خاص کی مناسبت کو فرشتوں کے سامنے آشکارا فرمادیں اس لئے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم تم بتلادو ان کو ان چیزوں کے اسماء (یعنی مع حالات و خواص کے جب آدم (علیہ السلام) نے یہ سب فرشتوں کے روبرو بتلا دیا تو فرشتے اتنا سمجھ گئے کہ آدم (علیہ السلام) اس علم کے ماہر ہوگئے ہیں) سو جب بتلا دئیے ان کو آدم (علیہ السلام) نے ان چیزوں کے اسماء تو حق تعالیٰ نے فرمایا (دیکھو) میں تم سے نہ کہتا تھا کہ بیشک میں جانتا ہوں تمام پوشیدہ چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جس بات کو ظاہر کردیتے ہو اور جس کو دل میں رکھتے ہو - معارف و مسائل :- ربط آیات :- پچھلی آیات میں اللہ جل شانہ کی خاص وعام نعمتوں کا ذکر کر کے انسان کو ناشکری اور نافرمانی سے بچنے کی ہدایت کی گئی اس آیت سے آخر رکوع تک دس آیتوں میں آدم (علیہ السلام) کا قصہ بھی اسی سلسلہ میں ذکر فرمایا ہے کیونکہ نعمت دو قسم کی ہوتی ہے ایک صوری یعنی محسوس جیسے کھانا، پینا، روپیہ، مکان جائیداد دوسری معنوی جیسے عزت وآبرو، مسرت علم۔ پچھلی آیات میں صوری اور ظاہری نعمتوں کا ذکر تھا اور ان گیارہ آیتوں میں معنوی نعمتوں کا ذکر ہے کہ ہم نے تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو دولت علم دی اور مسجود ملائکہ بنانے کی عزت دی اور تم کو ان کی اولاد میں ہونے کا فخر عطا کیا،- خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے جب تخلیق آدم اور دنیا میں اس کی خلافت قائم کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے بظاہر ان کا امتحان لینے کے لئے اس ارادے کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ یہ تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کریں فرشتوں نے رائے یہ پیش کی کہ انسانوں میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد اور خوں ریزی کریں گے ان کو زمین کی خلافت اور انتظام سپرد کرنا سمجھ میں نہیں آتا اس کام کے لئے تو فرشتے زیادہ انسب معلوم ہوتے ہیں کہ نیکی ان کی فطرت ہے برائی کا صدور ہی ان سے ممکن نہیں وہ مکمل اطاعت گذار ہیں دنیا کے انتظامات بھی وہ درست کرسکیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے کے غلط ہونے کا اظہار اول ایک حاکمانہ طرز سے دیا کہ خلافت ارضی کی حقیقت اور اس کی ضروریات سے تم واقف نہیں اس کو میں ہی مکمل طور پر جانتا ہوں، - پھر دوسرا جواب حکیمانہ انداز سے آدم (علیہ السلام) کی فرشتوں پر ترجیح اور مقام علم میں آدم کے تفوق کا ذکر کرکے دیا گیا اور بتلایا گیا کہ خلافت ارض کے لئے زمینی مخلوقات کے نام اور ان کے خواص وآثار کا جاننا ضروری ہے اور فرشتوں کی استعداد اس کی متحمل نہیں،- تخلیق آدم کی گفتگو فرشتوں سے کس مصلحت پر مبنی تھی :- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ حضرت حق جل وعلا شانہ کا فرشتوں کی مجلس میں اس واقعہ کا اظہار کس حیثیت سے تھا ؟ کیا ان سے مشورہ لینا مقصود تھا ؟ یا محض ان کو اطلاع دینا پیش نظر تھا ؟ یا فرشتوں کی زبان سے ان کی رائے کا اظہار کرانا اس کا منشاء تھا ؟- سو یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کی ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں مسٔلہ کے سب پہلو کسی پر روشن نہ ہوں اور اپنے علم و بصیرت پر مکمل اطمینان نہ ہو اس لئے دوسرے عقلاء واہل دانش سے مشورہ کیا جاتا ہے یا ایسی صورت میں جہاں حقوق دوسروں کے بھی مساوی ہوں تو ان کی رائے لینے کے لئے مشورہ ہوتا ہے جیسے دنیا کی عام نسلوں میں رائج ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ یہاں دونوں صورتوں نہیں ہوسکتیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خالق کائنات ہیں ذرہ ذرہ کا علم رکھتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر چیز ان کے علم وبصر کے سامنے برابر ہے ان کو کیا ضرورت کہ کسی سے مشورہ لیں ؟- اسی طرح یہاں یہ بھی نہیں کہ کوئی پارلیمانی حکومت ہے جس میں تمام ارکان کے مساوی حقوق ہیں اور سب سے مشورہ لینا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کے خالق اور مالک ہیں فرشتے ہوں یا جن وانس سب ان کی مخلوق ومملوک ہیں کسی کو حق نہیں کہ ان کے کسی فعل کے متعلق سوال بھی کرسکے کہ آپ نے یہ کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ (٢٣: ٢١) - (اللہ تعالیٰ سے اس کے کسی فعل کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتا اور سب سے ان کے اعمال کا سوال کیا جائے گا) - بات یہی ہے کہ درحقیقت یہاں مشورہ لینا مقصود نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے مگر صورت مشورہ کی بنائی گئی جس میں مخلوق کو سنت مشورہ کی تعلیم کا فائدہ ہوسکتا ہے جیسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کی ہدایت قرآن میں فرمائی گئی حالانکہ آپ تو صاحب وحی ہیں تمام معاملات اور ان کے تمام پہلو آپ کو بذریعہ وحی بتلائے جاسکتے تھے مگر آپ کے ذریعہ مشورہ کی سنت جاری کرنے اور امت کو سکھانے کے لئے آپ کو بھی مشورے کی تاکید فرمائی گئی، حالانکہ آپ تو صاحب وحی ہیں تمام معاملات اور ان کے تمام پہلو آپ کو بذریعہ وحی بتلائے جاسکتے تھے، مگر آپ کے ذریعہ مشورہ کی سنت جاری کرنے اور امت کو سکھانے کے لئے آپ کو بھی مشورے کی تاکید فرمائی گئی، - غرض فرشتوں کی مجلس میں اس واقعہ کے اظہار سے ایک فائدہ تو تعلیم مشورہ کا حاصل ہوا (کما فی روح البیان) دوسرا فائدہ خود الفاظ قرآنی کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے فرشتے یہ سمجھتے تھے کہ ہم سے زیادہ افضل واعلم کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کریں گے،- اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ خلقت آدم (علیہ السلام) سے پہلے فرشتے آپس میں کہتے تھے کہ : لن یخلق اللہ خلقاً اکرم علیہ منا ولا اعلم (یعنی اللہ تعالیٰ کوئی مخلوق ہم سے افضل اور اعلم پیدا نہ فرماویں گے) حضرت حق جل شانہ کے علم میں تھا کہ ایک ایسی مخلوق بھی پیدا کرنے اور زمین کے نائب بنانے کا ذکر کیا گیا کہ وہ اپنے خیال کا اظہار کریں، - اس لئے فرشتوں کی مجلس میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے اور زمین کے نائب بنانے کا ذکر کیا گیا کہ وہ اپنے خیال کا اظہار کریں، - چنانچہ فرشتوں نے اپنے علم و بصیرت کے مطابق نیاز مندی کے ساتھ رائے کا اظہار کیا کہ جس مخلوق کو آپ خلیفہ زمین بنا رہے ہیں اس میں تو شر و فساد کا مادہ بھی ہے وہ دوسروں کی اصلاح اور زمین میں امن وامان کا انتظام کیسے کرسکتا ہے جبکہ وہ خود خوں ریزی کا بھی مرتکب ہوگا اس کے بجائے آپ کے فرشتوں میں شر و فساد کا کوئی مادہ نہیں وہ خطاؤں سے معصوم ہیں اور ہر وقت آپ کی تسبیح و تقدیس اور عبادت و اطاعت میں لگے ہوتے ہیں وہ بظاہر اس خدمت کو اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں، - غرض اس سے معاذ اللہ حضرت حق جل شانہ کے فعل پر اعتراض نہیں کیونکہ فرشتے ایسے خیالات و حالات سے معصوم ہیں بلکہ مقصد محض دریافت کرنا تھا کہ ایک ایسی معصوم جماعت کے موجود ہوتے ہوئے دوسری غیر معصوم مخلوق پیدا کر کے یہ کام اس کے حوالے کرنا اور اس کو ترجیح دینا کس حکمت پر مبنی ہے ؟ - چنانچہ اس کے جواب میں پہلے تو حق تعالیٰ نے اجمالی طور پر یہ فرمایا کہ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی تم خلافت الہیہ کی حقیقت اور اس کے لوازم سے واقف نہیں اس لئے یہ سمجھ رہے ہو کہ ایک معصوم مخلوق ہی اس کو انجام دے سکتی ہے اس کی پوری حقیقت کو ہم ہی جانتے ہیں - خلافت ارض کا مسئلہ :- زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لئے اس کی طرف سے کسی نائب کا مقرر ہونا جو ان آیات سے معلوم ہوا اس سے دستور مملکت اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ (٥٧: ٦) اور لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (١٠٧: ٢) اور اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (٥٤: ٧) وغیرہ زمین کے انتظام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں جو بأذن خداوندی زمین پر سیاست و حکومت اور بندگان خدا تعالیٰ کی تعلیم و تربیت کا کام کرتے اور احکام الہیہ کو نافذ کرتے ہیں اس خلیفہ ونائب کا تقرر بلا واسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس میں کسی کے کسب وعمل کا کوئی دخل نہیں اسی لئے پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ نبوت کسبی چیز نہیں جس کو کوئی اپنی سعی وعمل سے حاصل کرسکے بلکہ حق تعالیٰ ہی خود اپنے علم و حکمت کے تقاضے سے خاص خاص افراد کو اس کام کے لئے چن لیتے ہیں جن کو اپنا نبی و رسول یا خلیفہ ونائب قرار دیتے ہیں قرآن حکیم نے جگہ جگہ اس کا اظہار فرمایا ہے ارشاد ہے،- اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ (٧٥: ٢٢) اللہ تعالیٰ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے اپنے رسول کو اور انسانوں میں سے بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے،- نیز ارشاد ہے :- اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (١٢٤: ٦) اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ اپنی رسالت کس کو عطا فرماویں،- یہ خلیفۃ اللہ بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں یہ سلسلہ خلافت ونیابت الہیہ کا آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ایک ہی انداز میں چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہو کر بہت ہی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے،- ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ سے قبل انبیاء خاص خاص قوموں یا ملکوں کے طرف مبعوث ہوتے تھے ان کا حلقہ حکومت اختیار انہی قوموں اور ملکوں میں محدود ہوتا تھا ابراہیم (علیہ السلام) ایک قوم کی طرف لوط (علیہ السلام) دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کے درمیان آنے والے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے،- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین میں اللہ کے آخری خلیفہ ہیں اور آپ کی خصوصیات :- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے عالم اور اس کی دونوں قوم جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا آپ کو اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی فرمایا گیا قرآن کریم نے آپ کی بعثت ونبوت کے عام ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا :- قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (١٥٨: ٧) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ وہ ذات جس کے قبضہ میں ہے ملک آسمانوں اور زمین کا :- اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء (علیہم السلام) پر چھ چیزوں میں خاص فضیلت بخشی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو تمام عالم کا نبی رسول بنا کر بھیجا گیا،- دوسری خصوصیت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء کی خلافت ونیابت جس طرح خاص خاص ملکوں اور قوموں میں محدود ہوتی تھی اسی طرح ایک خاص زمانے کے لئے مخصوص ہوتی تھی اس کے بعد دوسرا رسول آجاتا تو پہلے رسول کی خلافت ونیابت ختم ہو کر آنے والے رسول کی خلافت قائم ہوجاتی تھی، ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنادیا کہ آپ کی خلافت ونیابت قیامت تک قائم رہے گی اس کا زمانہ بھی کوئی مخصوص زمانہ نہیں بلکہ جب تک زمین و آسمان قائم اور زمانہ کا وجود ہے وہ بھی قائم ہے،- تیسری خصوصیت یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات و شریعت ایک زمانہ تک محفوظ رہتی اور چلتی تھی رفتہ رفتہ اس میں تحریفات ہوتے ہوئے وہ کالعدم ہوجاتی تھیں اس وقت کوئی دوسرا رسول اور دوسری شریعت بھیجی جاتی تھی، - اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (٩: ١٥) ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم اس کے محافظ ہیں، - اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات و ارشادات جن کو حدیث کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص انتظام فرما دیا کہ قیامت تک آپ کی تعلیمات اور ارشادات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والی ایک جماعت باقی رہے گی جو آپ کے علوم و معارف اور آپ کے شرعی احکام صحیح صحیح لوگوں کو پہونچاتی رہے گی کوئی اس جماعت کو مٹا نہ سکے گا اللہ تعالیٰ کی تایئد غیبی ان کے ساتھ رہے گی، - خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی کتابیں اور صحیفے سب مسخ ومحرف ہوجاتے اور بالآخر دنیا سے گم ہوجاتے یا غلط سلط باقی رہتے تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی کتاب قرآن اور آپ کی بتلائی ہوئی ہدایات حدیث سب کی سب اپنے خدوخال کے ساتھ قیامت تک موجود و محفوظ رہیں گی اسی لئے اس زمین پر آپ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے نہ کسی اور خلیفۃ اللہ کی گنجائش، - چوتھی خصوصیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی خلافت ونیابت جو محدود وزمانہ کے لئے ہوتی تھی ہر نبی و رسول کے بعد دوسرا رسول منجانب اللہ مقرر ہوتا اور نیابت کا کام سنبھالتا تھا،- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نظام خلافت :- خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ خلافت ونیابت تا قیامت ہے اس لئے قیامت تک آپ ہی اس زمین میں خلیفۃ اللہ ہیں آپ کی وفات کے بعد نظام عالم کیلئے جو نائب ہوگا وہ خلیفۃ الرسول اور آپ کا نائب ہوگا صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا،- کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی کلفہ نبی وانہ لانی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون : بنی اسرائیل کی سیاست و حکومت ان کے انبیاء کرتے تھے ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے،- پانچویں خصوصیت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا جو انبیاء (علیہم السلام) کا ہوتا ہے یعنی امت کے مجموعے کو معصوم قرار دے دیا کہ آپ کی پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی یہ پوری امت جس مسئلہ پر اجماع و اتفاق کرے وہ حکم خداوندی کا مظہر سمجھا جائے گا اسی لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام میں تیسری حجت اجماع امت قرار دی گئی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، لن تجتمع امتی علی الضلالۃ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی،- اس کی مزید تفصیل اس حدیث سے معلوم ہوجاتی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہے گی دنیا کتنی ہی بدل جائے حق کتنا ہی مضمحل ہوجائے مگر ایک جماعت حق کی حمایت ہمیشہ کرتی رہے گی اور انجام کار وہی غالب رہی گی،- اس سے بھی واضح ہوگیا کہ پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی اور جب کہ امت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی اسی کے سپرد کردیا گیا اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نیابت زمین اور نظم حکومت کے لئے انتخاب کا طریقہ مشروع ہوگیا یہ امت جسے خلافت کے لئے منتخب کردے وہ خلیفہ رسول کی حیثیت سے نظام عالم کا واحد ذمہ دار ہوگا اور خلیفہ سارے عالم کا ایک ہی ہوسکتا ہے ،- خلفائے راشدین کے آخری عہد تک یہ سلسلہ خلافت صحیح اصول پر چلتا رہا اور اسی لئے ان کے فیصلے صرف دینی اور ہنگامی فیصلوں کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ایک محکم دستاویز اور ایک درجہ میں امت کے لئے حجت مانے جاتے ہیں کیونکہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے متعلق فرمایا،- علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ؛- میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو :- خلافت راشدہ کے بعد :- خلافت راشدہ کے بعد کچھ طوائف الملوکی کا آغاز ہوا مختلف خطوں میں مختلف امیر بنائے گئے ان میں سے کوئی بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق نہیں ہاں کسی ملک یا قوم کا امیر خاص کہا جاسکتا ہے اور جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع کسی ایک فرد پر متعذر ہوگیا اور ہر ملک ہر قوم کا علیٰحدہ علیحٰدہ امیر بنانے کی رسم چل گئی تو مسلمانوں نے اس کا تقرر اسی اسلامی نظریہ کے تحت جاری رکھا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت جس کو امیر منتخب کرے وہ ہی اس ملک کا امیر اور اولو الامر کہلائے قرآن مجید کے ارشاد وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ (٤٢: ٣٧) - مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق :- اسمبلیاں اسی طرز عمل کا ایک نمونہ ہیں فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد وخود مختار ہیں محض اپنی رائے سے جو چاہیں اچھا یا برا قانون بنا سکتے ہیں اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ ان کو ملا ہے اس اسمبلی یا مجلس شوریٰ کی ممبری کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور جس شخص کو یہ منتخب کریں اس کے لئے بھی کچھ حدود وقیود ہیں پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول کے دائرہ میں ہوسکتی ہے اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں، - آیت مذکورہ سے دستور مملکت کی چند اہم دفعات کا ثبوت :- اول یہ کہ آسمان اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے تنفیذ کے لئے اس کا نائب و خلیفہ اس کا رسول ہوتا ہے اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ خلافت الہیہ کا سلسلہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا تو اب خلافت رسول کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا اور اس خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔
رکوع نمبر 4- وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً ٠ ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْہَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْہَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ٠ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ٠ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٣٠- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- سفك - السَّفْكُ في الدّم : صَبُّهُ ، قال تعالی: وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة 30] ، وکذا في الجوهر المذاب، وفي الدّمع .- ( س ف ک ) السفک ( ض ) کے معنی خون ریزی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَسْفِكُ الدِّماءَ [ البقرة 30] اور کشت وخون کرتا پھرے ۔ ویسے یہ لفظ ہر سیاں چیز اور آنسو بہانے کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے ۔- دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ ح ُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- قدس - التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ- [ البقرة 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس .- وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة .- وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة .- ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة 21] تو بھائیو تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا
(٣٠) اب اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کا واقعہ بیان کرتے ہیں، جنہیں آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے جو کہ زمین میں رہنے والے تھے، فرمایا میں تمہارے بدلے زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں، انہوں نے کہا کہ کیا آپ ایسے لوگوں کو پیدا کرنے والے ہیں جو گناہ اور ظلم کا ارتکاب کریں گے اور ہم آپ کے حکم کے مطابق عبادت کرتے ہیں اور پاکی کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے ہیں، ارشاد ہوا کہ میں اس خلیفہ (آدم علیہ السلام) کی حکمتوں کو زیادہ جانتا ہوں۔
آیت ٣٠ (وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط) - خلیفہ درحقیقت نائب کو کہتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ خلیفہ اور جانشین کسی کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے ‘ زندگی میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے وائسرائے کا تصور ذہن میں رکھیے۔ ١٩٤٧ ء سے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے۔ ہمارا اصل حاکم (بادشاہ یا ملکہ) انگلستان میں تھا ‘ جبکہ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا۔ وائسرائے کا کام یہ تھا کہ یا کی حکومت کا جو بھی حکم موصول ہو اسے بلا چون و چرا بغیر کسی تغیر اور تبدلّ کے نافذ کرے۔ البتہ وائسرائے کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی معاملے میں انگلستان سے حکم نہ آئے تو وہ یہاں کے حالات کے مطابق اپنی بہترین رائے قائم کرے۔ وہ غور و فکر کرے کہ یہاں کی مصلحتیں کیا ہیں اور جو چیز بھی سلطنت کی مصلحت میں ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ بعینہٖ یہی رشتہ کائنات کے اصل حاکم اور زمین پر اس کے خلیفہ کے مابین ہے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک اللہ تعالیٰ ہے ‘ لیکن اس نے اپنے آپ کو غیب کے پردے میں چھپالیا ہے۔ زمین پر انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آرہی ہے اس پر تو بےچون و چرا عمل کرے اور جس معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے وہاں غور و فکر اور سوچ بچار کرے اور استنباط و اجتہاد سے کام لیتے ہوئے جو بات روح دین سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسے اختیار کرے۔ یہی درحقیقت رشتۂخلافت ہے جو اللہ اور انسان کے مابین ہے۔ - یہ حیثیت تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور بالقوۃ ( ) ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے ‘ لیکن جو اللہ کا باغی ہوجائے ‘ جو خود حاکمیت کا مدعی ہوجائے تو وہ اس خلافت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا ولی عہد اپنے باپ کی زندگی ہی میں بغاوت کر دے اور حکومت حاصل کرنا چاہے تو اب وہ واجب القتل ہے۔ اسی طرح جو لوگ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے منکر ہو کر خود حاکمیت کے مدعی ہوگئے اگرچہ وہ واجب القتل ہیں ‘ لیکن دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ختم نہیں کرتا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ ط) (الشوریٰ : ١٤) ” اور اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی ایک وقت معینّ تک تمہارے رب کی طرف سے تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا “۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک وقت معینّ تک کے لیے مہلت دی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر ختم نہیں کیا جاتا ‘ لیکن کم از کم اتنی سزا ضرور ملتی ہے کہ اب وہ خلافت کے حق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ گویا کہ اب دنیا میں خلافت صرف خلافت المسلمین ہوگی۔ صرف وہ شخص جو اللہ کو اپنا حاکم مطلق مانے ‘ وہی خلافت کا اہل ہے۔ تو یہ چند باتیں خلافت کی اصل حقیقت کے ضمن میں یہیں پر سمجھ لیجیے۔ (وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط) ” اور یاد کرو جب تمہارے رب نے کہا تھا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ - (قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج) (وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط) ( قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ )- اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو انسان کے بارے میں یہ گمان یا یہ خیال کیسے ہوا ؟ اس کے ضمن میں دو آراء ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اس زمین پرّ جنات موجود تھے اور انہیں بھی اللہ نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا اور انہوں نے یہاں فساد برپا کر رکھا تھا۔ ان ہی پر قیاس کرتے ہوئے فرشتوں نے سمجھا کہ انسان بھی زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ ایک دوسری اصولی بات یہ کہی گئی ہے کہ جب خلافت کا لفظ استعمال ہوا تو فرشتے سمجھ گئے کہ انسان کو زمین میں کوئی نہ کوئی اختیار بھی ملے گا۔ جناتّ کے بارے میں خلافت کا لفظ کہیں نہیں آیا ‘ یہ صرف انسان کے بارے میں آ رہا ہے۔ اور خلیفہ بالکل بےاختیار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جہاں واضح حکم ہے اس کا کام اس کی تنفیذ ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے بہتر سے بہتر رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے جہاں اختیار ہوگا وہاں اس کے صحیح استعمال کا بھی امکان ہے اور غلط کا بھی۔ پولٹیکل سائنس کا تو یہ مسلمہ اصول ( ) ہے : - " . "- چنانچہ اختیار کے اندر بدعنوانی کا رجحان موجود ہے۔ اس بنا پر انہوں نے قیاس کیا کہ انسان کو زمین میں اختیار ملے گا تو یہاں فساد ہوگا ‘ خون ریزی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی حکمتوں سے میں خود واقف ہوں۔ میں انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہوں ‘ یہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :36 اُوپر کے رکوع میں بندگیِ ربّ کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے ، پروردگار ہے ، اسی کے قبضہ قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے ، اور جس کائنات میں تم رہتے ہو ، اس کا مالک و مدبّر وہی ہے ، لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دُوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے ، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو ، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے ، تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے ۔ اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوعِ انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دُوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے ۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں ، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :37 مَلَک کے اصل معنی عربی میں ”پیامبر“ کے ہیں ۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستادہ یا فرشتہ ہے ۔ یہ محض مجرّد قوتیں نہیں ہیں ، جو تشخُّص نہ رکھتی ہوں ، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں ، جن سے اللہ اپنی اس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے ۔ یُوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنتِ الہٰی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں ۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصّہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :38 خلیفہ: وہ جو کسی کی مِلک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے ۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا ، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے ۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے ، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا ، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پُورا کرنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے ، یا اصل مالک کے سوا کسی اَور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے ، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :39 یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا ۔ فرشتوں کی کیا مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں ۔ وہ ”خلیفہ“ کے لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیرِ تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں ، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنتِ کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے ، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دیے جائیں ، تو سلطنت کے جس حصّے میں بھی ایسا کیا جائے گا ، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا ۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :40 ”اس فقرے سے فرشتوں کا مدّعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے ، ہم اس کے مستحق ہیں ، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے ، آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سرگرم ہیں ، مرضیِ مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدامِ ادب کر رہے ہیں ، اب کمی کس چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے ۔ ( تسبیح کا لفظ ذو معنیَین ہے ۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی ۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں ، ایک تقدیس کا اظہار و بیان ، دُوسرے پاک کرنا ) ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :41 یہ فرشتوں کے دُوسرے شبہہ کا جواب ہے ۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے ۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو ، وہ کافی نہیں ہیں ، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے ۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں ۔
27: آیت نمبر ٢٢ میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہونے کی نہایت مختصر اور سادہ مگر مضبوط دلیل یہ دی گئی تھی کہ جس نے تمہیں وہی عبادت کا مستحق ہے۔ آیت نمبر ٢٨ میں کافروں کے کفر پر تعجب کا اظہار بھی اسی بنا پر کیا گیا تھا۔ اب انسان کی پیدائش کا پورا واقعہ بیان کرکے اس دلیل کو مزید پختہ کیا جارہا ہے آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی کروانے کی کوشش کرے۔ 28: فرشتوں کے اس سوال کا منشاء خدا نخواستہ کوئی اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ وہ حیرت کررہے تھے کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی رکھتی ہوگی جس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلنے کا امکان ہوگا،، مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات پیدا کیا گئے تھے اور انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کرڈالا تھا، فرشتوں نے سوچا کہ شائد انسان کا انجام بھی ایساہی ہو۔