جنت کے حصول کی شرائط جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت حضرت آدم حضرت حوا اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے ، معجزات ظاہر کئے جائیں گے ، دلائل بیان فرمائے جائیں گے ، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی ، آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے ، آپ پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا ، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا ۔ سورۃ طہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے ، نہ بدبخت و بےنصیب ۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی ، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی ، ہاں جن موحد ، متبع ، سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لئے جائیں گے ۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم ۔
[٥٧] کیا نیکی اور بدی کے نتائج لازمی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ گناہ معاف کردیا۔ مگر جنت سے اخراج کا حکم بحال رہنے دیا، بلکہ اسے مکرر بیان فرمایا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور یہی کچھ اقتضائے مشیئت الہی تھا۔- اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج لازمی نہیں جو بہرحال انسان کو بھگتنا پڑیں یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دینا کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، بھلائی پر انعام بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اور چاہے تو کئی گنا زیادہ دے دے۔ اسی طرح وہ چاہے تو کسی کا گناہ معاف کر دے، اور چاہے تو سزا دے دے۔ وہ حکیم بھی ہے اور عادل بھی۔ لہذا ان صفات کے مطابق وہ سب کچھ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ - کفارہ مسیح کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کا سیدنا آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول کرنے سے نصاریٰ کے اس غلط عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے اس گناہ کے داغ کو بنی نوع انسان کے دامن سے دور کرنے کے لیے خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھانا پڑا۔
(قُلْنَا مِنْهَا جَمِيْعًا ۚ ) توبہ کی قبولیت کے بعد پھر پہلا حکم دہرایا، مقصد یہ کہ گناہ کی معافی کے باوجود اب تمہیں اور تمہاری اولاد سب کو زمین ہی پر رہنا ہوگا، جس کی خلافت کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جنت میں واپسی کے لیے تمہیں اس ہدایت اور راستے پر چلنا ہوگا جو میری طرف سے تمہارے پاس آئے گی۔ - ( فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى) مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی ہیں، مگر مراد ان کی اولاد ہے، یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء و رسل بذریعہ وحی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی آخری وحی الٰہی ہے، اس دوران میں کتنے نبی اور رسول آئے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ دیکھیے سورة نساء، حاشیہ آیت ١٦٤۔ آج ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دو ہی چیزیں ہیں۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ” میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت۔ “ [ المؤطا، القدر، باب النہی عن القول بالقدر : ٣۔- مستدرک حاکم : ١؍١٧١، ح : ٣١٨۔ الصحیحۃ : ١٧٦ ]- (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ ) پہلے ” فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى“ میں اپنی طرف سے ہدایت آنے کی بات کی پھر (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ ) میں ” ھُدَاىَ “ کو یائے متکلم کی طرف مضاف کیا، یعنی ” پھر جو میری ہدایت کی پیروی کرے۔ “ معلوم ہوا ہدایت صرف وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے۔ لوگوں کی رائے کبھی ہدایت قرار نہیں پاسکتی خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں۔ - ( فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ) خوف آنے والی کسی چیز سے ڈر کو اور حزن ہاتھ سے نکل جانے والی کسی چیز پر غم کو کہتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کی پیروی کریں گے وہ آخرت میں نہ دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے، جیسا کہ کفار کو افسوس ہوگا۔ [ الأنعام : ٢٧] اور نہ قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے انھیں کوئی غم ہوگا۔ ( دیکھیے الأنبیاء : ١٠٣ ) فرمایا : ( وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ ) [ النمل : ٨٩ ] ” اور وہ اس دن بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔ “
آدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لئے تھا۔- قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا جنت سے زمین پر اترنے کا حکم اس سے پہلی آیت میں آچکا ہے اس جگہ پھر اس کو مکرر لانے میں غالبا حکمت یہ ہے کہ پہلی آیت میں زمین پر اتارنے کا ذکر بطور عتاب اور سزا کے آیا تھا اسی لئے اس کے ساتھ انسانوں کی باہمی عداوت کا بھی ذکر کیا گیا اور یہاں زمین پر اتارنے کا ذکر ایک خاص مقصد خلافت الہیہ کی تکمیل کے لئے اعزاز کے ساتھ ہے اسی لئے اس کے ساتھ ہدایت بھیجنے کا ذکر ہے جو خلافت الہیہ کے فرائض منصبی میں سے ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگرچہ زمین پر اترنے کا ابتدائی حکم بطور عتاب اور سزا کے تھا مگر بعد میں جب خطا معاف کردی گئی تو دوسری مصالح اور حکمتوں کے پیش نظر زمین پر بھیجنے کے حکم کی حیثیت سے ہوا اور یہ وہی حکمت ہے جس کا ذکر تخلیق آدم کے وقت ہی فرشتوں سے کیا جاچکا تھا کہ زمین کے لئے ان کو خلیفہ بنانا ہے،- رنج وغم سے نجات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ فرمانبردار ہیں :- فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ اس آیت میں آسمانی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں ایک یہ کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے،- خَوْفٌ آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشہ کا نام ہے اور حزن کسی مقصد و مراد کے فوت ہوجانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے غور کیا جائے تو عیش و راحت کی تمام انواع و اقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کردیا گیا ہے کہ آرام و آسائش کا کوئی فرد اور کوئی قسم اس سے باہر نہیں پھر ان دونوں لفظوں کی تعبیر میں ایک خاص فرق کیا گیا ہے کہ خوف کی نفی تو عام انداز میں کردی گئی مگر حزن کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ لاحزن علیہم بلکہ بصیغہ فعل لایا گیا اور اس کی ضمیر فاعل کو مقدم کرکے وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ فرمایا گیا اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء اللہ کا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں ان کے سوا کوئی انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار، کیونکہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کے خلاف کوئی بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے،- دریں دنیا کسے بےغم نباشد - وگر باشد بنی آدم نباشد - بخلاف اولیاء اللہ کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ رب العزت کی مرضی اور ارادے میں فنا کردیتے ہیں اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی اس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ خاص اہل جنت ہی کا یہ حال ہوگا کہ وہ جنت میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا اس پر شکر کریں گے کہ ان سے غم دور کردیا گیا،- الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (٣٤: ٣٥) اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ غم ہونا ہر انسان کے لئے ناگزیز ہے بجز اس شخص کے جس نے اپنا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ مکمل اور مضبوط کرلیا ہو خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے خوب فرمایا،- جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہوجائے،- اس آیت میں اللہ والوں سے خوف وغم کی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی کسی تکلیف یا کسی خواہش و مراد پر ان کو خوف وغم نہ ہوگا آخرت کی فکر وغم اور اللہ جل شانہ کی ہیبت و جلال تو ان پر اور سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں یہ آیا ہے کہ آپ اکثر غمگین اور متفکر رہتے تھے وجہ یہ ہے کہ آپ کا یہ فکر وغم کسی دنیوی نعمت کے فوت ہونے یا کسی مصیبت کے خطرہ سے نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی ہیبت و جلال سے اور امت کے حالات کی وجہ سے تھا، - نیز اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ دنیا میں جو چیزیں خوفناک سمجھی جاتی ہیں ان سے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو بشری طور پر طبعی خوف نہ ہو کیونکہ حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کے سامنے جب لاٹھی کا سانپ بن گیا تو انکا ڈر جانا قرآن مجید میں مذکور ہے فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى (٦٧: ٢٠) کیونکہ یہ فطری اور طبعی خوف ابتداء حال میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاتخف تو یہ ڈر بالکل نکل گیا،- اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خوف عام انسانوں کی طرح اس بنیاد پر نہ تھا کہ یہ سانپ ان کو تکلیف پہنچائے گا بلکہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اس سے کہیں گمراہی میں نہ پڑجائیں تو یہ خوف ایک قسم کا اخروی خوف تھا،
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا ٠ ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٣٨- هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٣٨) پھر ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) حوا علیہا السلام، ابلیس اور سانپ سے کہا کہ آسمان سے اترو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ جب وقت اور جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے کتاب اور رسول آئے تو جو شخص کتاب رسول کی اتباع کرے گا تو اسے پیش آنے والے عذاب کا خوف اور جو انھوں نے کام کیے ہیں ان پر غم نہیں ہوگا اور یہ بھی تفسیر ہے کہ انھیں ہمیشہ خوف اور غم نہیں ہوگا، یہ بھی کہا گیا جس وقت موت کو ذبح کیا جائے گا اس وقت انہیں خوف اور جب دوزخ کو بھرا جائے گا تب انھیں غم نہ ہوگا اور جن لوگوں نے کتاب اور رسول کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں۔ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ ہی وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے۔
آیت ٣٨ (قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج) اب یہاں لفظ ” اِھْبِطُوْا “ آیا ہے جو اس سے پہلے بھی آیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق آدم ( علیہ السلام) آسمانوں پر ہوئی ہے اور وہ جنت بھی آسمانوں پر ہی تھی جہاں حضرت آدم ( علیہ السلام) آزمائش یا تربیت کے لیے رکھے گئے تھے وہ ” اِھْبِطُوْا “ کا ترجمہ کریں گے کہ انہیں آسمان سے زمین پر اترنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو زمین پر ہی کسی بلند مقام پر رکھا گیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ” اِھْبِطُوْا “ سے مراد بلند جگہ سے نیچے اترنا ہے نہ کہ آسمان سے زمین پر اترنا۔ وہ آزمائشی جنت کسی اونچی سطح مرتفع پر تھی۔ وہاں پر حکم دیا گیا کہ نیچے اترو اور جاؤ ‘ اب تمہیں زمین میں ہل چلانا پڑے گا اور روٹی حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی۔ یہ نعمتوں کے دستر خوان جو یہاں بچھے ہوئے تھے اب تمہارے لیے نہیں ہیں۔ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال اسی سورة البقرۃ کے ساتویں رکوع میں ہوا ہے : (اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ) (آیت ٦١)- (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) “ - یہ ہے علم انسانی کا دوسرا گوشہ ‘ یعنی علم بالوحی ( ) ۔ اس چوتھے رکوع کا حسن ملاحظہ کیجیے کہ اس کے شروع میں علم بالحواس یا اکتسابی علم ( ) کا ذکر ہے جو بالقوّ ۃ ( ) حضرت آدم ( علیہ السلام) میں رکھ دیا گیا اور جسے انسان نے پھر اپنی محنت سے ‘ اپنے حواس اور عقل کے ذریعے سے آگے بڑھایا۔ یہ علم مسلسل ترقی پذیر ہے اور آج مغربی اقوام اس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ کبھی ایک زمانے میں مسلمان بہت آگے نکل گئے تھے ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس دنیا میں عروج تو انہی کو ہوگا جنہیں سب سے زیادہ اس کی آگہی حاصل ہوگی۔ البتہ وہ علم جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ عطائی ( ) ہے ‘ جو وحی پر مبنی ہے۔ اور انسان کے مقام خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام اس کے پاس آئیں ‘ وہ جو ہدایات بھی بھیجے ان کی پورے پورے طور پر پیروی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :53 اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے ۔ اُوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے ۔ گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا ۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا ، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوعِ انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھوانا پڑتا ۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم علیہ السّلام کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا ، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوّت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائِں ۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دُہرایا گیا ، تو اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ قبولِ توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اُتارا جاتا ۔ زمین ان کے لیے دارُالعذاب نہ تھی ، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اُتارے گئے ، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا ۔ جنت ان کی اصلی جائے قیام نہ تھی ۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا ۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اُتارنے کی تھی ۔ البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا ، جس کا ذکر اُوپر حاشیہ نمبر ٤۸ میں کیا جا چکا ہے ۔