Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔ آیت ( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:23 ) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے ۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے ۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے ۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا ؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے ۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا ؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں ۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں ۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے ۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا ( اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا ) 25 ۔ الفرقان:71 ) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم ، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 حضرت آدم (علیہ السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 007:023 بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ یہ روایت بےسند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعا یہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] وہ کلمات یہ تھے آیت ( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 23؀) 7 ۔ الاعراف :23) آدم و حوا دونوں کہنے لگے : اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔- ان کلمات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورة اعراف کی آیت نمبر ٢٣ میں کردیا ہے۔ اس کے باوجود بعض واعظ حضرات اس آیت کی تشریح میں ایک موضوع حدیث بیان کیا کرتے ہیں یہ حدیث مرفوع بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ :- جب سیدنا آدم (علیہ السلام) جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کی : اے باری تعالیٰ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ وحی نازل ہوئی کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کیسے جانتے ہو ؟ عرض کیا۔ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اونچی کوئی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ٣٠٢) - اب دیکھئے اس میں مندرجہ بالا باتیں قابل غور ہیں :- سیدنا آدم (علیہ السلام) کا وسیلہ پکڑنا :۔ ١۔ اس حدیث میں یہ ذکر کہیں نہیں آیا کہ پھر سیدنا آدم (علیہ السلام) کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے توبہ قبول ہوئی بھی یا نہیں ؟ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو اور بھی مایوس کردیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے، کسی سائل کو اگر ایسا جواب دیا جائے تو بتائیے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے ؟- موضوع حدیث کی عجمی ترکیب :۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اس جواب کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک موضوع حدیث گھڑی گئی یعنی یہ حدیث قدسی ہے اور اس کا متن یوں ہے : عن ابن عباس یقول اللّٰہ وبعزتی و جلالی لو لاک ماخلقت الدنیا ترجمہ : ابن عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اس قدسی موضوع حدیث کا مفہوم ایک دوسری روایت میں ان الفاظ میں ہے۔ لَولاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَ کَ ترجمہ : اگر تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی بھی چیز پیدا نہ کرتا۔ (ریاض السالکین ص ١٠١) ان حدیثوں کو ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے موضوعات ابن الجوزی جلد ١ ص ٢٨٩ نیز ان احادیث کے موضوع ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لولاک کی ترکیب عربی نہیں بلکہ عجمی ہے۔ عربی قواعد کے مطابق لو لا انت آنا چاہئے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوہ خندق کے دوران خندق کی مٹی ڈھوتے وقت یہ شعر گنگنا رہے تھے : اللھُمَّ لَوْ لاَ اَنْتَ مَا اھْتَدَیْتَنَا (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خندق) گویا لولاک کی ترکیب ہی غلط ہے، جو اس کے موضوع ہونے پر دلیل ہے۔- ان موضوعات کا مقصد صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کی عظمت یا قدامت بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور بھی مقاصد ہیں جو ان حضرات کے نزدیک بہت اہم ہیں مثلاً :- ١۔ اللہ سے خواہ کتنے ہی برس رو رو کر مغفرت طلب کی جائے وہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑا جائے اور (٢) یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال کا نہیں کسی بزرگ ہستی کا ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو یا خواہ اس دنیا میں موجود ہو یا اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہو۔ کاش سیدنا آدم (علیہ السلام) کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی یہ باتیں معلوم ہوجاتیں۔ شیعہ حضرات نے جب موضوعات کا وسیع میدان دیکھا تو وہ ان حضرات سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ ان کی قدسی حدیث کا متن یوں ہے لو لاعلی ماخلقتک یعنی اللہ نے رسول اللہ کو مخاطب کر کے فرمایا : اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کلمات یہ تھے : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ )[ الأعراف : ٢٣ ] - مستدرک حاکم (٢؍٦٧٢، ح : ٤٢٢٨) میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے عرش پر ” لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلے سے دعا مانگی تو ان کی توبہ قبول ہوئی، مگر ذہبی نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق خود امام حاکم نے ” المدخل إلی الصحیح “ میں فرمایا کہ وہ اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی گھڑی ہوئی ہیں، یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں، سب میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا سکھایا گیا ہے، کسی نبی یا ولی کا واسطہ و وسیلہ نہیں بتایا گیا۔ مزید دیکھیے سورة مائدہ (٣٥) اور بنی اسرائیل (٥٧) ۔ - (فَتَابَ عَلَيْهِ ) خالص توبہ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں، اپنے گناہ کے نقصان کا احساس، اس پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم (فَتَابَ عَلَيْهِ ) سے معلوم ہوا کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں کہ لا محالہ ان کے نتیجے میں سزا ہی مل کر رہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، چاہے تو گناہ کی سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے، انسان توبہ کرلے تو گناہ کا اثر ختم کردیا جاتا ہے۔ - (التَّوَّاب الرَّحِيْمُ ) اس سے بڑھ کر کیا مہربانی ہوگی کہ خود دعا سکھائی اور پھر قبول بھی فرمائی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- بعدازاں حاصل کرلئے حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند الفاظ (یعنی معذرت کے کلمات کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل ہوئے تھے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ندامت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی اور خود ہی معذرت کے الفاظ تلقین فرما دئیے) تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی ان پر (یعنی توبہ قبول کرلی) بیشک وہی ہیں بڑی توبہ قبول کرنے والے بڑے مہربان (اور حضرت حوّا کی توبہ کا بیان سورة اعراف میں ہے قالا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا جس سے معلوم ہوا کہ وہ بھی توبہ اور قبول توبہ میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شریک رہیں مگر معاف فرمانے کے بعد بھی زمین پر جانے کے حکم کو منسوخ نہیں فرمایا کیونکہ اس میں ہزاروں حکمتیں اور مصلحتیں مضمر تھیں البتہ اس کا طرز بدل دیا کہ پہلا حکم زمین پر اترنے کا حاکمانہ طور پر بطرز سزا تھا اب یہ حکم حکیمانہ انداز سے اس طرح ارشاد ہوا قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا الآیہ یعنی) ہم نے حکم فرمایا کہ نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت (یعنی احکام شرعیہ بذرعیہ وحی) سو جو شخص پیروی کرے گا میری اس ہدایت کی تو نہ کچھ اندیشہ ہوگا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے (یعنی ان پر کوئی خوفناک واقعہ نہ پڑے گا اور قیامت کے ہولناک واقعات سے ان کا بھی خوف زدہ ہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ احادیث صحیحہ میں سب پر ہول اور خوف کا عام ہونا معلوم ہوتا ہے حزن وہ کیفیت ہے جو کسی مضرت و مصیبت کے واقع ہوجانے کے بعد قلب میں پیدا ہوتی ہے، اور خوف ہمیشہ قبل وقوع ہوا کرتا ہے، یہاں حق تعالیٰ نے حزن وغم دونوں کی نفی فرمادی کیونکہ ان پر کوئی آفت وکلفت واقع نہ ہوگی جس سے حزن یا خوف آگے ان لوگوں کا حال بیان کیا ہے جو اس ہدایت کی پیروی نہ کریں فرمایا) اور جو لوگ کفر کریں گے اور تکذیب کریں گے ہمارے احکام کی یہ لوگ ہوں گے دوزخ والے وہ اس میں ہمیشہ کو رہیں گے،- معارف و مسائل :- ربط آیات :- پچھلی آیات میں شیطانی وسوسہ اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور اسکے نتیجہ میں جنت سے نکلنے اور زمین پر اترنے کا حکم مذکور تھا حضرت آدم (علیہ السلام) نے ایسے خطاب و عتاب کہاں سنے تھے نہ ایسے سنگدل تھے کہ اس کی سہار کرجاتے بےچین ہوگئے اور فوراً ہی معافی کی التجاء کرنے لگے مگر پیغمبرانہ معرفت اور اس کی وجہ سے انتہائی ہیبت سے کوئی بات زبان سے نہ نکلتی تھی یا اس خوف سے کہ معافی کہ التجا کہیں خلاف شان ہو کر مزید عتاب کا سبب نہ بن جائے زبان خاموش تھی اللہ رب العزت دلوں کی بات سے واقف اور رحیم و کریم ہیں یہ حالت دیکھ کر خود ہی معافی کے لئے کچھ کلمات ان کو سکھا دئیے اس کا بیان ان آیات میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے حاصل کرلئے اپنے رب سے چند الفاظ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی (یعنی ان کی توبہ قبول کرلی) بیشک وہی ہیں بڑے توبہ قبول کرنے والے مہربان مگر چونکہ روئے زمین پر آنے میں اور بھی ہزاروں حکمتیں اور مصلحتیں مضمر تھیں مثلاً ان کی نسل سے فرشتوں اور جنات کے درمیان ایک نئی نوع انسان کا وجود میں آنا اور ان کو ایک طرح کا اختیار دے کر احکام شرعیہ کا مکلف بنانا پھر ان میں خلافت الہیہ قائم کرنا حدود اور احکام شرعیہ نافذ کرنا تاکہ یہ نئی مخلوق ترقی کرکے اس مقام پر پہنچ سکے جو بہت سے فرشتوں کو بھی نصیب نہیں اور ان مقاصد کا ذکر تخلیق آدم (علیہ السلام) سے پہلے ہی کردیا گیا تھا، اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً - اس لئے خطا معاف کرنے کے بعد بھی زمین پر اترنے کا حکم منسوخ نہیں فرمایا البتہ اس کا طرز بدل دیا کہ پہلا حکم حاکمانہ اور زمین پر اترنا بطور سزا کے تھا اب یہ ارشاد حکیمانہ اور زمین پر آنا خلافت الہیہ کے اعزاز کے ساتھ ہوا اس لئے بعد کی آیات میں ان فرائض منصبی کا بیان ہے جو ایک خلیفۃ اللہ ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد کئے گئے تھے اسی لئے زمین پر اترنے کے حکم کو پھر مکرر بیان کرکے فرمایا کہ ہم نے حکم فرمایا کہ نیچے جاؤ اس جنت میں سے سب کے سب پھر اگر آوے تمہارے پاس میری طرف سے کسی قسم کی ہدایت، یعنی احکام شرعیہ بذریعہ وحی کے تو جو شخص پیروی کرے گا میری اس ہدایت کی تو نہ کچھ اندیشہ ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے یعنی نہ کسی گذشتہ چیز کے فوت ہونے کا غم ہوگا نہ آئندہ کسی تکلیف کا خطرہ، - تَلَـقّيٰٓ۔ تلقی کے معنی ہیں شوق اور رغبت کے ساتھ کسی کا استقبال کرنا اور اس کو قبول کرنا (ورح کشاف) مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب ان کو توبہ کے کلمات کی تلقین کی گئی تو آدم (علیہ السلام) نے اہتمام کے ساتھ ان کو قبول کیا،- كَلِمٰتٍ وہ کلمات جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغرض توبہ بتلائے گئے کیا تھے اس میں مفسرین صحابہ سے کئی روایات منقول ہیں مشہور قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ وہ کلمات وہی ہیں جو قرآن مجید میں دوسری جگہ منقول ہیں یعنی قالا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (٢٣: ٧) - تاب۔ توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے کے ہیں اور جب توبہ کی نسبت بندہ کی طرف کی جاتی ہے تو اس کے معنی تین چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے اول اپنے کئے ہوئے گناہ کو گناہ سمجھنا اور اس پر نادم وشرمندہ ہونا دوسرے اس گناہ کو بالکل چھوڑ دینا، تیسرے آئندہ کے لئے دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کرنا اگر ان تین چیزوں میں سے ایک کی بھی کمی ہوئی تو وہ بھی توبہ نہیں اس سے معلوم ہوا کہ محض زبان سے اللہ توبہ کے الفاظ بول دینا نجات کے لئے کافی نہیں جب تک یہ تینوں چیزیں جمع نہ ہوں یعنی گذشتہ پر ندامت اور حال میں اس کا ترک اور مستقبل میں اس کے نہ کرنے کا عزم و ارادہ، تاب علیہ : یہاں توبہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس کے معنی ہیں توبہ قبول کرنا،- بعض سلف سے پوچھا گیا کہ جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے وہ کیا کرے تو فرمایا وہی کام کرے جو اس کے پہلے والدین آدم وحوّا (علیہما السلام) نے کیا کہ اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی کے لئے عرض کیا قالا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا (یعنی ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا ہے اگر آپ معاف نہ کریں اور ہم پر رحم نہ کریں تو ہم سخت خسارہ والوں میں داخل ہوجائیں گے) اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ (٢١: ٢٨) یعنی اے میرے پالنے والے میں نے اپنی جان پر ظلم کرلیا ہے تو آپ ہی میری مغفرت فرمائیے اور حضرت یونس (علیہ السلام) سے جب لغزش ہوگئی تو عرض کیا اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ (٨٧: ٢١) یعنی اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں آپ ہر برائی سے پاک ہیں میں ظلم کرنے والوں میں داخل ہوگیا ہوں (مطلب یہ ہے کہ مجھ پر رحم فرمائیے) (قرطبی) - فائدہ : حضرت آدم وحوا سے جو اجتہادی لغزش یا بھول صادر ہوئی ہے اولا تو قرآن کریم نے دونوں ہی کی طرف اس کی نسبت کی ہے، فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا اور زمین پر اترنے کے حکم میں بھی حضرت حوّا کو شریک کرکے لفظ اِھْبِطُوْا فرمایا ہے مگر بعد میں توبہ اور قبول توبہ میں بہ لفظ مفرد صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف کرکے کیا گیا ہے۔- عصٰی ادم وغیرہ، - ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ رعایت ہو کر عورت کو اللہ تعالیٰ نے مستور رکھا ہے اس لئے بطور پردہ پوشی کے گناہ اور عتاب کے ذکر میں اس کا ذکر صراحۃ نہیں فرمایا اور ایک جگہ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا میں دونوں کی توبہ کا ذکر بھی کردیا گیا تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ رہے کہ حضرت حوّا کا قصور معاف نہیں ہوا اس کے علاوہ عورت چونکہ اکثر احوال میں مرد کے تابع ہے اس لئے اس کے مستقل ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی (قرطبی) - تواب اور نائب میں فرق :- امام قرطبی نے فرمایا کہ لفظ تواب بندہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے جیسے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّـوَّابِيْنَ (٢٢٢: ٢) اور اللہ تعالیٰ کیلئے بھی جیسے اس آیت میں ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِيْمُ جب بندے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو معنی ہوتے ہیں گناہ سے اطاعت کی طرف رجوع کرنے والا اور جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو معنی ہوتے ہیں توبہ قبول کرنے والا یہ صرف لفظ تَوَّابٌ کا حکم ہے اسی معنی کا دوسرا لفظ تائبٌ ہے اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے جائز نہیں اگرچہ لغوی معنی کے اعتبار سے وہ بھی غلط نہیں مگر اللہ تعالیٰ کی شان میں صرف وہی صفات اور القاب استعمال کرنا جائز ہیں جن کا ذکر قرآن وسنت میں وارد ہے باقی دوسرے الفاظ اگرچہ معنی کے اعتبار سے صحیح ہوں مگر اللہ تعالیٰ کے لئے اس کا استعمال درست نہیں، - گناہ سے توبہ قبول کرنے کا اختیار خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں :- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ قبول کرنے اور گناہ معاف کرنے کا اختیار سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں یہود و نصاریٰ اس قاعدہ سے غفلت کی بنا پر سخت فتنہ میں مبتلا ہوگئے کہ پادریوں اور پیروں کے پاس جاتے اور ان کو کچھ ہدیہ دے کر اپنے گناہ معاف کرا لیتے اور سمجھتے تھے کہ انہوں نے معاف کردیا تو اللہ کے نزدیک بھی معاف ہوگیا آج بھی بہت سے ناواقف مسلمان اس طرح کے غلط اور خام عقیدے رکھتے ہیں جو سراسر غلط ہیں کوئی عالم یا مرشد کسی کے گناہ کو معاف نہیں کرسکتا زیادہ سے زیادہ دعا کرسکتا ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَلَـقّٰٓي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِيْمُ۝ ٣٧- ( لقی) تلقی - السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6]- وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- تَّوَّاب - والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ- [ الرعد 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] .- التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) حضرت آدم (علیہ السلام) کو وہ کلمات سکھائے گئے اور انہوں نے سیکھ لیے یا ان کو بطور الہام بتائے گئے تاکہ یہ کلمات حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے لئے تو بہ کا ذریعہ ہوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی کو معاف کردیا اور جو شخص بھی توبہ کی حالت میں مرجائے اللہ تعالیٰ اس کی غلطی کو معاف کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط) - اس کی وضاحت سورة الاعراف میں ہے۔ جب حضرت آدم ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا حکم عتاب آمیز سنا اور جنت سے باہر آگئے تو سخت پشیمانی اور ندامت پیدا ہوئی کہ یہ میں نے کیا کیا ‘ مجھ سے کیسی خطا سرزد ہوگئی کہ میں نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ لیکن ان کے پاس توبہ و استغفار کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں۔ اللہ کی رحمت یہ ہوئی کہ اس نے الفاظ انہیں خود تلقین فرما دیے۔ یہ اللہ کی شان رحیمی ہے۔ توبہ کی اصل حقیقت انسان کے اندر گناہ پر ندامت کا پیدا ہوجانا ہے۔ اقبال نے عنفوان شباب میں جو اشعار کہے تھے ان میں سے ایک شعر کو سن کر اس وقت کے اساتذہ بھی پھڑک اٹھے تھے ؂- موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے - قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے - یعنی شرمندگی کے باعث میری پیشانی پر پسینے کے جو قطرے نمودار ہوگئے میرے پروردگار کو وہ اتنے عزیز ہوئے کہ اس نے انہیں موتیوں کی طرح چن لیا۔ حضرات آدم و حوا ( علیہ السلام) کو جب اپنی غلطی پر ندامت ہوئی تو وہ گریہ وزاری میں مشغول ہوگئے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں چند کلمات القا فرمائے جن سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ کلمات سورة الاعراف میں بیان ہوئے ہیں : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ” اے ہمارے ربّ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ‘ اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہوجائیں گے۔ “ تباہ و برباد ہوجائیں گے۔- اس مقام پر شیطنت اور آدمیت کا فوری تقابل موجود ہے۔ غلطی ابلیس سے بھی ہوئی ‘ اللہ کے حکم سے سرتابی ہوئی ‘ لیکن اسے اس پر ندامت نہیں ہوئی بلکہ وہ تکبر کی بنا پر مزید اکڑ گیا کہ ” اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ “ اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ دوسری طرف غلطی آدم سے بھی ہوئی ‘ نافرمانی ہوئی ‘ لیکن وہ اس پر پشیمان ہوئے اور توبہ کی۔ وہ طرزعمل شیطنت ہے اور یہ آدمیت ہے۔ ورنہ کوئی انسان گناہ سے اور معصیت سے مبراّ نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث ہے : - (کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ ) (٥)- ” آدم ( علیہ السلام) کی تمام اولاد خطاکار ہے ‘ اور ان خطاکاروں میں بہتر وہ ہیں جو توبہ کرلیں۔ “- حضرت آدم (علیہ السلام) سے غلطی ہوئی۔ انہیں اس پر ندامت ہوئی ‘ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔- (اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ ) - توبہ کا لفظ دونوں طرف سے آتا ہے۔ بندہ بھی توّاب ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ) (البقرۃ) جبکہ توّاب اللہ تعالیٰ بھی ہے۔ اس کی اصل حقیقت سمجھ لیجیے۔ بندے نے خطا کی اور اللہ سے دور ہوگیا تو اللہ نے اپنی رحمت کی نگاہ اس سے پھیرلی۔ بندے نے توبہ کی تو اللہ پھر اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف متوجہّ ہوگیا۔ توبہ کے معنی ہیں پلٹنا۔ بندہ معصیت سے توبہ کر کے اپنی اصلاح کی طرف ‘ بندگی کی طرف ‘ اطاعت کی طرف پلٹ آیا ‘ اور اللہ نے جو اپنی نظر رحمت بندے سے پھیرلی تھی ‘ پھر اپنی شان غفاری اور رحیمی کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرمالی۔ اس کے لیے حدیث میں الفاظ آتے ہیں :- (۔۔ وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا ‘ وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً ) (٦)- ”۔۔ اور اگر وہ (میرا بندہ) بالشت بھر میری طرف آتا ہے تو میں ہاتھ بھر اس کی طرف آتا ہوں ‘ اور اگر وہ ہاتھ بھر میری طرف آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف آتا ہوں ‘ اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں۔ “- ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں - راہ دکھلائیں کسے راہ رَوِ منزل ہی نہیں - وہ تو توّاب ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ” تَابَ “ بندے کے لیے آئے گا تو ” اِلٰی “ کے صلہ کے ساتھ آئے گا۔ جیسے (اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ ) اور جب اللہ کے لیے آئے گا تو ’ عَلٰی “ کے صلہ کے ساتھ ” تَابَ عَلٰی “ آئے گا ‘ جیسے آیت زیر مطالعہ میں آیا : (فَتَابَ عَلَیْہِ ) ۔ اللہ کی شان بہت بلند ہے۔ انسان توبہ کرتا ہے تو اس کی طرف توبہ کرتا ہے ‘ جبکہ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ بندے پر توبہ کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :51 یعنی آدم کو جب اپنے قصُور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا ، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے رب سے اپنی خطا معاف کرائیں ، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دُعا کر سکتے ۔ اللہ نے ان کے حال پر رہم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے ۔ توبہ کے اصل معنی رُجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں ۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا ، طریقِ بندگی کی طرف پلٹ آیا ۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجّہ ہو گیا ، پھر سے نظرِ عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :52 قرآن اس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں ، اور وہ بہر حال انسان کو بُھگتنے ہی ہوں گے ۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے ، کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گار انہ زندگی میں مبتلا ہو گیا ، اس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اصلاح کرنا چاہے ، تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں ، جو کچھ تو کر چکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے ۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بَھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے ۔ تمہیں جس بَھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بَھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے ، بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے ۔ البتہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہمرشتہ ہے ۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دُھند استعمال نہیں کرتا ۔ جب کسی بَھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بَھلائی کی تھی ۔ اور جس بَھلائی کو رَد کر دیتا ہے ، اسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بَھلے کام کی سی تھی ، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا ۔ اسی طرح وہ سزا اس قصُور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکابِ جُرم کی خواہش موجود ہو ۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصُور پر دیتا ہے ، جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو ۔ بڑے سے بڑے مجرم ، کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف ، اپنی نافرمانی پر نادم ، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی رَوش اختیار کر نے کے لیے تیار ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36 : جب آدم علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہوگئے، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ سے کن الفاظ میں معافی مانگیں، اس لئے زبان سے کچھ نکل نہیں رہا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال سے بھی خوب واقف ہے اور رحیم وکریم بھی ہے ان کی اس کیفیت کے پیش نظر خود ہی ان کو توبہ کے الفاظ سکھائے جو سورہ اعراف میں مذکور ہیں : قالا ربنا ظلمنا انفسنا واِن لم تغفِر لنا وترحمنا لنکونن مِن الخاسِرِین (آیت نمبر : ۳۲)یعنی: ’’اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا، اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے۔‘‘ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے زمین پر بھیجنے سے پہلے انسان کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کبھی نفسانی خواہشات یا شیطان کے بہکاوے میں آکر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے فورا اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے، اور اگرچہ توبہ کے لئے کوئی خاص الفاظ لازمی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ جملہ جس میں اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ شامل ہو، اس کے ذریعے توبہ ممکن ہے، لیکن چونکہ یہ الفاظ خود اﷲ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے ہیں، اس لئے ان الفاظ میں توبہ کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جیساکہ پیچھے آیت 30 سے واضح ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے شروع ہی سے آدم علیہ السلام کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے لئے پیدا فرمایا تھا، لیکن زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں جنت میں رکھنے اور اس کے بعد کے واقعات کا تکوینی مقصد بظاہر یہ تھا کہ ایک طرف حضرت آدم علیہ السلام جنت کی نعمتوں کا خود تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ ان کی اصل منزل کیا ہے، اور زمین پر پہنچنے کے بعد اس منزل کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں اور ان سے نجات پانے کا کیا طریقہ ہوگا؟ چونکہ فرشتوں کے مقابلے میں انسان کا امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں کی صلاحیت رکھی گئی تھی، اس لئے ضروری تھا کہ اسے زمین پر بھیجنے سے پہلے ایسے تجربے سے گزارا جائے۔ پیغمبر چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد نہیں ہوسکتا، اس لئے حضرت آدم (علیہ السلام) کی یہ غلطی درحقیقت اجتہادی غلطی ( )تھی، یعنی سوچ کی یہ غلطی کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کو شیطان کے بہکانے سے ایک خاص وقت تک محدود سمجھ لیا، ورنہ اﷲ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کا ہرگز ان سے تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم چونکہ یہ قصور بھی ایک پیغمبر کے شایانِ شان نہ تھا اس لئے اسے بعض آیات میں گناہ یا حکم عدولی سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس پر توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ساتھ ہی زیر نظر آیت میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور اس طرح اس عیسائی عقیدہ کی تردید فرمادی گئی جس کا کہنا یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کا یہ گناہ ہمیشہ کے لئے انسان کی سرشت میں داخل ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گناہگار پیدا ہوتا ہے، اور اس مشکل کے حل کے لئے اﷲ تعالیٰ کو اپنا بیٹا دنیا میں بھیج کر اسے قربان کرناپڑا تاکہ وہ ساری دنیا کے لئے کفارہ بن سکے۔ قرآنِ کریم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان فرمادیا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی تھی اس لئے نہ وہ گناہ باقی رہا تھا، نہ اس کے اولادِ آدم کی طرف منتقل ہونے کا کوئی سوال ہے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے قانونِ عدل میں ایک شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے کے سرپر نہیں ڈالا جاتا۔