36۔ 1 شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم (وَلَا تَقْرَبَا) کی تاویل کر کے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا جس کی تفصیل سورة اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ 36۔ 2 مراد آدم (علیہ السلام) اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
[٥٣] شیطان کی حقیقت :۔ یہ شیطان دراصل ابلیس ہی تھا جو جنوں کی جنس سے تھا اور آگ سے پیدا ہوا تھا۔ شیطان کی حقیقت یوں سمجھئے کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جن آگ سے یا نار سے۔ اور نور اور نار دونوں کا مادہ ایک ہی ہے، یعنی نور اور روشنی نور میں بھی ہوتی ہے اور نار میں بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر حدت اور تمازت (گرمی کی شدت) کم ہو یا ندارد ہو اور روشنی کا عنصر ہی غالب ہو تو یہ نور ہے اور روشنی کا عنصر کم اور حدت و تمازت کا عنصر غالب ہو تو یہ نار ہے۔ اب جنوں کی ایک قدر مشترک تو فرشتوں سے ملتی ہے یعنی وہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں اور اسی بنا پر ابلیس فرشتوں میں شامل ہوجاتا تھا، اور ایک قدر مشترک انسانوں سے ملتی ہے یعنی جن اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں (٥١: ٥٦) اور صاحب اختیار و ارادہ ہیں۔ اسی بنا پر ابلیس نے تو سجدہ سے انکار کردیا تھا۔ لیکن فرشتوں میں سے کوئی ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اب جنوں یا انسانوں میں سے جو کوئی اس قوت اختیار و ارادہ کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے وہ شیطان ہے۔ گویا شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ پھر شیطان کا لفظ ہر بد روح، خبیث اور موذی چیز پر بھی استعمال ہونے لگا۔ سانپ کو اسی وجہ سے جان (١٠: ٢٧) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو شیطان جنوں سے ہوگا۔ وہ دوسروں کو بدراہ اور گمراہ کرنے کے لحاظ سے انسانی شیطان سے زیادہ وسائل رکھتا ہے۔ جن شیطان اپنی شکلیں بدل کر اندر داخل ہو کر اور وسوسہ ڈال کر بھی دوسروں کو گمراہ کرسکتا ہے۔ جب کہ انسانی شیطان ان باتوں پر قادر نہیں ہوتا۔- فرشتوں کی مختلف اقسام اور ان کی ذمہ داریاں :۔ فرشتوں اور جنوں کی بہت سی اقسام اور صفات قرآن اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔ فرشتوں کی پہلی قسم مقربین فرشتے ہیں۔ جن میں سے کچھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ چار ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب لینے کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے تو اس وقت وہ فرشتے آٹھ ہوں گے۔ پھر کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ انہیں مقربین میں سے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو بہت سے فرشتوں کے سردار ہیں۔ مثلاً فرشتوں کی ایک قسم رسولوں یا پیغامبروں کی ہے۔ ان کے سردار جبریل ہیں۔ جن کی بہت سی صفات قرآن میں مذکور ہیں۔ وہ بڑے زور آور اور امین ہیں۔ ان کا نام روح، روح الامین اور روح القدس بھی ہے انبیاء (علیہم السلام) کے دلوں پر یہی جبریل اللہ کا کلام لے کر نازل ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے سردار میکائیل یا میکال ہیں جو بادلوں، بارشوں اور برق ورعد وغیرہ پر مامور ہیں۔ تیسرے سردار عزرائیل ہیں جن کا دوسرا نام عزازیل بھی ہے، اور قرآن میں انہیں ملک الموت بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی جان نکالنے والے فرشتوں کی پوری جمعیت کے سردار ہیں کیونکہ کسی شخص کی جان نکالنے کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی فرشتے آتے ہیں۔ ان میں ایک سردار اسرافیل ہیں جو قیامت کو ہونے والے واقعات اور نفخہ صور اول اور نفخہ صور ثانی اور بعض کے نزدیک نفخہ صور ثالث پر مامور ہیں۔ ان سب فرشتوں کو ملاء اعلیٰ بھی کہتے ہیں۔- پھر ان کے بعد سات آسمانوں کے اندر لاتعداد فرشتوں کی جمعیت موجود ہے جو آسمانوں یا کائنات یا اجرام فلکی کے انتظام و انصرام پر مامور ہیں۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو ان میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے اور گھبراہٹ اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور وہ گھبراہٹ اس وقت دور ہوتی ہے۔ جب اللہ کا حکم متعلقہ آسمان تک پہنچ جاتا ہے اور نیچے والے فرشتے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کونسا حکم نازل ہوا تھا ؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حکم جو بھی ہے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اور پھر وہ اس کی بجا آوری پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل اور تقدیس میں مصروف رہتے ہیں۔- ان کے بعد وہ فرشتے ہیں جو آسمان دنیا کے نیچے اور ہماری زمین کے قریب رہتے ہیں۔ ان میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو ہر انسان کی حفاظت کے لیے اللہ نے مامور کئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو انسانوں کے اعمال نامے لکھنے والے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اللہ کے بندوں کی بروقت مدد کو پہنچتے ہیں، وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں چلنے والوں مثلاً جہاد یا طلب علم کی خاطر سفر کرنے کے راستہ میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔ ایسے فرشتوں کو ملائک ارضیہ بھی کہا جاتا ہے پھر کچھ فرشتے جنت کو سجانے اور اس کے انتظام و انصرام میں مصروف ہیں اور کچھ جہنم پر مامور ہیں۔ ان کی تعداد انیس ہے یعنی جہنم میں انیس قسم کے عذاب ہوں گے۔ جن کا انتظام ایک ایک فرشتہ کے سپرد ہے۔ ان انیس فرشتوں کے سردار کا نام مالک ہے اور اس جہنم کے عذاب پر پورے عملے یا محکمے کا نام زبانیہ ہے۔- صفات کے لحاظ سے فرشتوں کی اقسام :۔ صفات کے لحاظ سے بھی فرشتوں کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ فرشتے دو پروں والے ہیں کچھ تین والے، کچھ چار والے۔ حتیٰ کہ جبریل امین کو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے، اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ فرشتوں کی پیدائش نور سے ہوئی ہے جو نہایت لطیف چیز ہے۔ سب سے لطیف تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر حاملین عرش اور گھیرا ڈالنے والے اور مقربین فرشتے ہیں۔ پھر ان کے بعد آسمانوں کے فرشتے، پھر ان کے بعد ملکوت ارضیہ کی باری آتی ہے۔ گویا نور اور اس کی لطافت کے بھی کئی درجے ہیں۔ ملکوت ارضیہ نسبتاً کم لطیف ہوتے ہیں۔ تاہم ان سب فرشتوں میں چند صفات مشترک پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سب فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی ہے۔ سب فرشتے اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار ہیں اور ان کی یہ عبادت اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں شر کا مادہ موجود ہی نہیں ہے۔ نیز یہ سب فرشتے غیر مرئی ہیں انسانوں کو نظر نہیں آسکتے اور یہ سب فرشتے اپنی شکلیں بدل سکتے اور ہر مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔- جنوں کی اقسام اور صفات :۔ جنوں کا قصہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش نور کے بجائے ناریا آگ سے ہوئی ہے۔ جو نور سے بہرحال کم تر لطیف چیز ہے۔ پھر لطافت اور صفات کے لحاظ سے ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ کچھ ایسے جن ہیں جو آدمیوں کی بستیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں عامر کہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک قسم ہے جو ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی اور اسے برے کاموں پر اکساتی اور وسوسے ڈالتی رہتی ہے۔ اسے ہماری زبان میں ہمزاد کہتے ہیں۔ اس قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ جس کے متعلق نبی نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ پھر کچھ ایسے جن ہیں جو لڑکوں بالوں کو ستاتے ہیں۔ ان کو اہل عرب ارواح کہتے ہیں اور ہم بھوت پریت یا آسیب کہتے ہیں اور جو جنگل میں آواز دیتے اور چیختے چلاتے ہیں ان کو ہاتف کہتے ہیں اور جو مسافروں کو بھولی ہوئی راہ بتا دیتے ہیں ان کو رجال الغیب کہتے ہیں اور کبھی جنگل میں مشعل سی دکھائی دیتی ہے ان کو شہابہ کہتے ہیں۔- جن بھی انسان کی طرح مکلف مخلوق ہے یعنی ان کی فطرت میں خیر و شر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ان میں کچھ جن صالح اور ایماندار ہیں اور اکثر شریر اور بدکردار ہیں۔ ان کو شیطان کہتے ہیں اور جو بہت زیادہ سرکش ہوں ان کو مارد کہتے ہیں اور جسامت کے لحاظ سے جو بہت عظیم الجثہ اور طاقتور ہوں انہیں عفریت کہتے ہیں۔ جنوں میں لطیف تر وہ جن ہیں جن کی رسائی آسمانی دنیا تک بھی ہوسکتی ہے اور کثیف وہ ہیں جو زمین پر ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ابلیس ایک صالح اور عبادت گزار جن تھا جو ملائکہ ارضیہ کے ساتھ گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو آدم (علیہ السلام) سے رقابت کی بنا پر اس کے شر کی رگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کی انا نے گوارا نہ کیا۔ کہ ایک ارضی مخلوق کی برتری تسلیم کرے، اور یہی انا اور تکبر اسے لے ڈوبا، اور چونکہ جنوں میں بھی توالدو تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ لہذا ابلیس کی اور پھر اس کی اولاد کی پہلے دن سے آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد سے ٹھن گئی، اور چونکہ اس سجدہ آدم کے مقابلہ میں ابلیس نے ایک صالح جن کا کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ شیطان جن کا کیا تھا۔ لہذا قرآن میں ابلیس کو ہی کئی مقامات پر شیطان کہا گیا ہے۔- فرشتوں کے وجود کے منکرین اور ان کی تاویلات :۔ فرشتوں اور ابلیس کے متعلق ہمیں یہ لمبی چوڑی تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ یہ قصہ آدم و ابلیس کے اہم کردار ہیں۔ نیز اس لیے بھی فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ازروئے قرآن نہایت ضروری اور ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ان تمام تر قرآنی تصریحات کے علی الرغم مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ فرشتوں کے خارجی وجود اور ذاتی تشخص کے قائل نہیں۔ ہمارے ملک میں اس طبقہ کے سرخیل سر سید احمد خان ہیں۔ جن کا کچھ ذکر سورة فاتحہ کے آخر حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ - سرسید کی مغربی افکار سے مرعوبیت :۔ وہ مغربی افکار و نظریات سے سخت مرعوب تھے۔ انہوں نے معجزات اور خرق عادت امور کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ فرشتوں اور جنوں کے بارے میں بھی کئی قسم کی تاویلات کر کے ان کا انکار کردیا اور جب علماء کی طرف سے شدید گرفت ہوئی تو اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ صاحبو میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو سلف کا ہے۔ مگر اس وقت اسلام پر علوم جدیدہ سے وہ مصیبت برپا ہے جو بنی عباس کے دور میں یونانی فلسفہ سے برپا تھی۔ جس طرح اس وقت کے علماء نے ان کے جواب دینے کے لیے علم کلام بنایا۔ میں نے ان اعتراضات کے رفع کرنے کے لیے کلام جدید کی بنیاد ڈالی اور موجودہ دور کی مصیبت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے تو علماء حجروں میں بیٹھ کر خیالی دلائل بنا کر ہی رفع کردیتے تھے اور اب تو مخالفین دور بینوں وغیرہ آلات کے ذریعہ سے مشاہدہ کرا دیتے ہیں۔ آپ کے اس اقتباس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ مغربی افکار سے کس قدر مرعوب تھے نیز یہ کہ آپ نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی جو ٹھان رکھی تھی اس کے اصل محرکات کیا تھے ؟ پھر آپ کی دلیل پر بھی غور فرمائیے دوربینوں سے صرف محسوسات اور مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جبکہ فرشتے اور جن دونوں محسوسات کے دائرہ سے خارج ہیں۔ بلکہ بلا خوف و تردید ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے کوئی بھی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جس کا سائنسی آلات یا علوم جدیدہ سے ابطال کیا جاسکے۔ بہرحال آپ نے فرشتوں اور جنوں سے متعلق جو انہونی تاویلات پیش فرمائیں ان کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں اور میں یہ تاویلات تفصیل کے ساتھ اپنی تصنیف آئینہ پرویزیت میں پیش کرچکا ہوں۔ البتہ فرشتوں سے متعلق ان تاویلات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو ان کے ہونہار جانشین پرویز صاحب نے اپنی تصنیف قصہ آدم و ابلیس میں پیش کی ہیں پرویز صاحب مختلف مقامات پر فرشتوں سے مختلف تاویلات یا مرادیں پیش فرما دیتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں :- ملائکہ سے مرادخارجی قوائے فطرت : ١۔ ملائکہ سے مراد و مفہوم وہ قوتیں ہیں جو کائنات کی عظیم القدر مشینری کو چلانے کے لیے مامور ہیں یعنی قوائے فطرت اس لیے قانون خداوندی کی زنجیر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ان سے انسان کام لے سکے۔ اسی لیے قصہ آدم میں کہا گیا ہے کہ ملائکہ نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کردیا۔ مطلب یہ کہ فطرت کی قوتیں انسان کے تابع فرمان بنادی گئی ہیں۔ (ابلیس و آدم ١٤٤) - اب سوال یہ ہے کہ اگر ملائکہ سے مراد فطرت کی قوتیں لیا جائے تو یہ فطرت کی قوتیں ہرگز انسان کے تابع فرمان نہیں ہیں۔ طوفان بادو باراں سے سینکڑوں انسان مرجاتے ہیں۔ مکانات منہدم ہوجاتے ہیں۔ چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ آفات ارضی و سماوی سے تیار شدہ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ کیا انسان کا ان فطرت کی قوتوں پر اس وقت کوئی بس چلتا ہے ؟ پھر انسان ایسے ملائکہ کا مسجود کیسے ہوا ؟- اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کائنات کی قوتوں کا تو کوئی دہریہ بھی منکر نہیں ہوتا۔ پھر ایسے ملائکہ پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب ہوا ؟- قرآن پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (٦٩: ١٧) اب اس کی تشریح پرویز صاحب کی زبان سے سنئے :- ٢۔ حاملین عرش ملائکۃ کی وضاحت :۔ عرش وہ مرکز حکومت خداوندی ہے۔ جہاں کائنات کی تدبیر امور ہوتی ہے اور چونکہ یہ تدبیر امور ملائکہ کی وساطت سے سر انجام پاتی ہے۔ اس لیے ملائکہ، عرش الٰہی کے اٹھانے والے اور کمر بستہ اس کے گرد گھومنے والے ہیں۔ (ایضاً ص ١٤٧) - اب دیکھئے اس تشریح میں پرویز صاحب نے قرآن کریم کے دو مختلف مقامات کی آیات کو گڈ مڈ کر کے پیش کردیا ہے۔ آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کا ذکر سورة الحاقہ (٦٩) کی ساتویں آیت میں ہے اور گھومنے والے فرشتوں کا ذکر سورة زمر (٣٩) کی آخری آیت نمبر ٧٥ میں ہے اور یہ گھومنے والے حافین کا ترجمہ کیا گیا ہے، جو ویسے بھی غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ گھیرا ڈالے ہوئے ہے نہ کہ گھومنے والے۔ علاوہ ازیں گھیرا ڈالنا یا گھومنا الگ عمل ہے اور عرش کو اٹھانا الگ عمل ہے، جو عرش کو اٹھائے ہوں وہ گھوم نہیں سکتے اور جو گھوم رہے ہوں گے وہ اٹھانے والے نہیں ہوں گے، جو کچھ بھی ہو ان دونوں آیات سے فرشتوں کا خارجی وجود اور ذاتی تشخص دونوں باتیں ثابت ہو رہی ہیں جو آپ کے پہلے نظریہ قوائے فطرت کے برعکس ہیں۔- ٣۔ لہٰذا یہ ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں۔ یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آتے ہیں قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ (ایضا ص ١٦٢) - ملائکہ سے مراد داخلی قوتیں :۔ اب دیکھئے اس مختصر سے اقتباس میں پرویز صاحب نے بہت سے پیچیدہ مسائل کو حل فرما دیا۔ مثلاً :- ١۔ ہماری داخلی قوتیں، قوت باصرہ، لامسہ، ذائقہ، سامعہ، دافعہ، حافظہ وغیرہ یا کچھ بھی ہیں۔ اگر یہی قوتیں ملائکہ ہیں تو پھر ان پر ایمان بالغیب لانے کا قرآنی مطالبہ ہی غلط قرار پاتا ہے۔ اسلئے کہ ان داخلی قوتوں کو تو کافر اور دہریئے بھی تسلیم کرتے ہیں۔- ٢۔ آپ کی پہلی تعریف کے مطابق ملائکہ سے مراد خارجی قوتیں تھا۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے ملائکہ سے مراد انسان کی داخلی قوتیں بن گیا۔- ٣۔ اب ان داخلی قوتوں سے بھی مراد یہ ہے کہ ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ گویا ملائکہ کی تیسری تعریف ہماری ذات پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔- ٤۔ قیامت کا مفہوم آپ نے یہ بتایا کہ جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آجائیں تو قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کسان اگر بیج بوتا ہے تو جب اس سے کونپل نکل آئے یا زیادہ سے زیادہ فصل پک کر تیار ہوجائے اور اس کے عمل کا نتیجہ محسوس شکل میں سامنے آگیا تو گویا قرآن کی رو سے اس کی قیامت آگئی۔ اس تصریح سے آپ کے قیامت پر ایمان لانے کے تصور پر بھی روشنی پڑتی ہے۔- ان مقامات سے ظاہر ہے کہ جو طبعی تغیرات انسان کے جسم میں رونما ہوتے ہیں اور جن کا آخری نتیجہ انسان کی طبعی موت ہوتی ہے۔ انہیں بھی ملائکہ کی قوتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (ایضاً ص ١٥٩) - ملائکہ سے مراد طبعی تغیرات :۔ اب دیکھئے یہ طبعی تغیرات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ کھانا کھانے سے بھوک مٹ جاتی ہے۔ سیر اور ورزش سے جسم مضبوط اور صحت بحال رہتی ہے۔ دوسرے طبعی تغیرات وہ جن میں انسان کے عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جیسے اس کا بچہ سے جوان ہونا، پھر بوڑھا ہونا، پھر مرجانا۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن کا ایمان بالغیب سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ طبعی ہیں، اور واقع ہو کر رہیں گے پھر ان طبعی تغیرات کو ملائکہ سے تعبیر کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ ان طبعی تغیرات کو تو دہریے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ایسے ملائکہ پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب ؟- ٤۔ ان مقامات (یعنی بدر کے موقعہ پر تین ہزار ملائکہ کا نزول یا ایسی ہی دوسری آیات) پر غور کیجئے۔ ملائکہ کی مدد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس سے جماعت مومنین کے دلوں کو تسکین ملی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف دشمنوں کے دل خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کے حوصلے چھوٹ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (ایضاً ص ١٥٥) - ملائکہ سے مراد نفسیاتی محرکات :۔ اب دیکھئے اس اقتباس میں بھی پرویز صاحب نفسیاتی محرکات کو داخلی قسم کی کوئی شے قرار دے کر فریب دینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ جب معاملہ داخلی قسم کا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اسی انداز میں پیش فرماتے ہیں۔ جیسے مومنوں کے لیے فرمایا آیت (فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ ) 9 ۔ 40) اور کافروں کے لیے فرمایا آیت (وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ ) 59 ۔ 2) لیکن یہ میدان بدر کا معاملہ داخلی قسم کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خارجی امداد یا محرکات تھے۔ جیسے اگر ایک انسان دوسرے کو گالی دے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے یا کوئی دوسرے کا خوف رفع کر دے تو وہ مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور اس مصیبت کو رفع کرنے کا مشکور بھی ہوتا ہے۔ یہی صورت حال بدر میں پیش آئی تھی۔ اب اگر اس سے وہی مطلب لیا جائے جو پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ تو تین سو تیرہ مجاہدین کے لیے پانچ ہزار ملائکہ کی مدد کی کیا صورت بن سکتی ہے ؟- اگر ایک طرف ملائکہ ایمان و استقامت کی بنا پر اللہ کی رحمتوں کی نور افشانی کرتے ہیں تو دوسری طرف کفر و سرکشی کے لیے عذاب خداوندی کے حامل بھی ہوتے ہیں عذاب خداوندی سے مفہوم یہ ہے۔ غلط قوموں کی پرورش کے تباہ کن نتائج۔ لہذا اس باب میں ملائکہ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو قانون خداوندی کے مطابق انسانی اعمال کے نتائج مرتب کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں۔ (ایضاً ١٥٨) - رحمت اور عذاب کے فرشتے : اب دیکھئے لوط (علیہ السلام) کے پاس فرشتے آئے اور لوط (علیہ السلام) کو بستی سے نکل جانے کو کہا۔ جب وہ نکل گئے تو ان فرشتوں نے قوم لوط کی بستی کو لواطت کے جرم میں الٹ مارا۔ اب اگر محض قوانین خداوندی اور علت و معلول کا سہارا لیا جائے تو ہر لوطی قوم کا یہی انجام ہونا ضروری ہے کیونکہ قوانین خداوندی میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان میں یہی عمل قوم لوط موجود ہے اور اسے قانونی جواز کی سند بھی حاصل ہے۔ اب قوانین خداوندی کے مطابق ان قوتوں (ملائکہ) کو یقینا ان کے اعمال کا نتیجہ وہی مرتب کرنا چاہیے تھا جیسا کہ قوم لوط کے اعمال کا مرتب ہوا۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ اعمال کو مرتب کرنے والی ہستی کوئی باشعور ہستی ہے جو اپنی مشیئت کے مطابق ہی نتائج مرتب کرتی ہے جو اپنے ہی بنائے قوانین کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی ملائکہ بےجان و بےشعور قوتیں ہیں جو لگے بندھے نتائج مرتب کریں۔ وہ فرشتے جاندار اور باشعور ہستیاں ہیں اور قانون خداوندی کی نہیں بلکہ خداوند کے حکم کی اطاعت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہی فرشتے جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور سیدنا لوط (علیہ السلام) کے پاس آتے ہیں تو رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور وہی فرشتے قوم لوط کے لیے عذاب کے فرشتے بن جاتے ہیں۔- دو ، تین چار پروں سے اپنی قوت کے اعتبار سے ملائکہ کے مختلف مدارج و طبقات کا ذکر مقصود ہے۔ (ایضاً ١٦٧) - دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتے اور ان کی قوت اور مدارج :۔ گویا پرویز صاحب کے نزدیک جیسے کوئی بجلی کی موٹر ٢ ہارس پاور کی ہوتی ہے۔ کوئی تین ہارس پاور کی اور کوئی چار کی۔ یہی صورت حال فرشتوں کی بھی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قوت اور مدارج یہ دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور قرآن میں انہی معروف معانی میں استعمال بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر فرشتوں کے لیے قوت اور درجہ کی بجائے اجنحہ (بازو، پر) کے لفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟- علاوہ ازیں چڑیا کے بھی دو پر ہوتے ہیں اور چیل کے بھی۔ لیکن ان دونوں کے دو دو پر ہونے کے باوجود قوت میں بڑا فرق ہے۔ اور مختلف مدارج کا معاملہ تو پرویز صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہر انسان کے دو دو ہی بازو ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کی قوت میں فرق ہوتا ہے اور مدارج میں بھی۔ مدارج کا انحصار بازوؤں پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہوتا ہے - سو یہ ہے فرشتوں پر ایمان بالغیب، اصل مسئلہ یہ تھا کہ آیا فرشتے کوئی الگ مخلوق ہیں یا نہیں اور ان کا کوئی خارجی تشخص ہے یا نہیں ؟ چونکہ یہ مسئلہ مافوق العادت ( ) ہے اس لیے آپ کو ہر مقام پر تاویلات کرنا پڑیں، پرویز نے جتنی بھی ملائکہ کی تعبیریں پیش کی ہیں۔ یہ سب انسانوں حتیٰ کہ کافروں اور دہریوں میں بھی مسلم ہیں۔ لہذا ان کا نہ ایمان بالغیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ قرآن کے واضح ارشادات ہیں۔- [٥٤] شیطان کی آدم کو فریب دہی :۔ مندرجہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان (ابلیس) نے جو آدم (علیہ السلام) کا پہلے دن سے ہی رقیب اور دشمن بن گیا تھا۔ آدم کو گمراہ کرنے اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا شیطان وسوسے ڈالتا رہا اور سیدنا آدم (علیہ السلام) بچتے ہی رہے۔ آخر ایک مدت گزرنے کے بعد شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو کئی طرح کے سبز باغ دکھا کر اسے اپنے دامن تزویر میں پھانس ہی لیا۔ اس لیے آدم (علیہ السلام) سے کہا : اللہ کی قسم میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور جس درخت سے تم بچ رہے ہو اسے کھاؤ گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہو گے اور اللہ کے مقرب بن جاؤ گے۔ سیدنا آدم (علیہ السلام) اس کے فریب میں آگئے، درخت کے پھل کو کھایا تو فوراً جنتی لباس چھن گیا اور جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے لگے اور فوراً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔- ضمناً یہ بحث بھی نکلی کہ انبیاء سے خطا سرزد ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :- (فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا ١١٥ ) 20 ۔ طه :115) آدم (مدت مدید گزرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عہد کو) بھول گئے تھے اور ہم نے اس میں (نافرمانی کا) ارادہ نہیں پایا۔ گویا معلوم ہوا کہ انبیاء سے بھول چوک لغزش یا نافرمانی ہوسکتی ہے۔ عمداً نہیں اور عصمت انبیاء کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر انبیاء سے کوئی غلطی یا خطا سرزد ہو تو وہ معاف کردی جاتی ہے اور اگر کوئی قابل تلافی معاملہ ہو تو بذریعہ وحی اس کی تلافی بھی کردی جاتی ہے۔- [٥٥] یعنی شیطان کے روز اول سے انسان کا دشمن ہونے کی وجہ تو واضح طور پر بیان ہوچکی ہے لہذا انسان اگر شیطان کو فی الواقع دشمن سمجھے گا تو تب ہی اس کی نجات کی توقع ہوسکتی ہے اور بغض و عداوت کا مقام دنیا تو ہوسکتا ہے۔ جنت نہیں ہوسکتی۔ لہذا سب کو جنت سے نکالا اور دنیا میں چلے جانے کا حکم دے دیا گیا۔
شیطان کے اس پھسلانے کی تفصیل سورة اعراف (٢٠) میں ہے۔ - (بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۚ ) یعنی آدم (علیہ السلام) اور ابلیس اور ان کی اولاد ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ [ الکہف : ٥٠، یٰسٓ : ٦٠ ] یہ مطلب بھی درست ہے کہ اولاد آدم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جیسا کہ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا قصہ ہے۔ [ المائدۃ : ٢٧ ] فرشتوں نے بھی (وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ) میں اسی عداوت کا ذکر کیا تھا۔ - ( وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ) یہ الفاظ دلیل ہیں کہ آدم (علیہ السلام) جس جنت میں رکھے گئے تھے وہ آسمان پر تھی، زمین پر جنت سے نکلنے کے بعد آئے۔ (اھْبِطُوْا) سے بھی یہی بات نکلتی ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم (علیہ السلام) پیدا کیے گئے اسی میں جنت میں داخل کیے گئے اور اسی میں اس سے نکالے گئے۔ “ [ مسلم، الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ : ٨٥٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ]- اِلٰى حِيْنٍ یعنی موت تک کے لیے، کیونکہ انسان کے لیے مرنے کے بعد زمین سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں۔ ” ایک وقت تک “ سے معلوم ہوا کہ زمین پر رہائش عارضی ہے، دائمی نہیں۔
(آیت) فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا۔ زلۃ کے معنی عربی میں لغزش کے ہیں ازلال کے معنی کسی کو لغزش دینا معنی یہ ہیں کہ شیطان نے آدم وحوا کو لغزش دے دی قرآن کے یہ الفاظ صاف اس کا اظہار کررہے ہیں کہ حضرت آدم وحوّا کی یہ خلاف ورزی اس طرح کی نہ تھی جو عام گناہگاروں کی طرف سے ہوا کرتی ہے بلکہ شیطانی تلبیس سے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا ہو کر ایسے اقدام کی نوبت آگئی کہ جس درخت کو ممنوع قرار دیا تھا اس کا پھل وغیرہ کھا بیٹھے۔ عنہا میں لفظ عن بمعنی سبب ہے یعنی اس درخت کے سبب و ذریعہ سے شیطان نے آدم وحوّا کو لغزش میں مبتلا کردیا،- یہاں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ جب شیطان کو سجدے سے انکار کی بنا پر پہلے ہی مردود کرکے جنت سے نکال دیا گیا تھا تو یہ آدم وحوا کو بہکانے کے لئے جنت میں کیسے پہنچا ؟ اس کا بےغبار جواب یہ ہے کہ شیطان کے بہکانے اور وہاں تک پہنچنے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر ملاقات کے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ شیطان جنات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے جنات کو بہت سے ایسے تصرفات پر قدرت دی ہے جو عام طور پر انسان نہیں کرسکتے ان کی مختلف شکلوں میں متشکل ہوجانے کی بھی قدرت دی ہے ہوسکتا ہے کہ اپنی قوت جنیہ کے ذریعہ مسمریزم کی صورت سے آدم وحوّا کے ذہن کو متأثر کیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی دوسری شکل میں مثلاً سانپ وغیرہ کی شکل میں متشکل ہو کر جنت میں داخل ہوگیا ہو اور شاید یہی سبب ہوا کہ آدم (علیہ السلام) کو اس کی دشمنی کی طرف دھیان نہ رہا قرآن مجید کی آیت وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ (٢١: ٧) سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے صرف وسوسہ اور ذہنی اثر ڈالنے سے کام نہیں لیا بلکہ آدم وحوّا سے زبانی گفتگو کرکے اور قسمیں کھا کر متاثر کیا۔- فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ یعنی شیطان نے اس دھوکہ اور لغزش کے ذریعہ آدم وحوا (علیہما السلام) کو ان نعمتوں سے نکال دیا جن میں وہ آرام سے گذر بسر کر رہے تھے یہ نکالنا اگرچہ بحکم خداوندی ہوا مگر سبب اس کا شیطان تھا اس لئے نکالنے کی نسبت اس کی طرف کردی گئی۔- وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ یعنی ہم نے حکم دیا کہ نیچے اتر جاؤ اس طرح کہ تم میں بعضے بعضوں کے دشمن رہیں گے اس حکم کے مخاطب حضرت آدم وحوا ہیں اور اگر شیطان کو اس وقت تک آسمانوں سے باہر نہیں کیا گیا تھا تو وہ بھی اسی خطاب میں شامل ہے اس صورت میں باہم عداوت ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ شیطان کے ساتھ تمہاری عداوت کا سلسلہ دنیا میں بھی جاری رہے گا اور اگر بقول بعض اس واقعہ کے وقت سے پہلے ہی شیطان نکالا جاچکا تھا تو پھر اس کلام کا رخ آدم وحوا اور ان کی اولاد کی طرف ہوگا کہ ان کو بطور عتاب کے یہ جتلایا گیا کہ ایک سزا تو یہ ہے کہ جنت سے زمین پر اتارا گیا دوسری سزا اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ کی اولاد کے درمیان باہم عداوتیں بھی ہوں گی، اور ظاہر ہے کہ اولاد کے باہم عداوت ہونے سے والدین کا لطف زندگی بھی رخصت ہوجاتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کی معنوی اور روحانی سزا ہوگی (بیان القرآن) - وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ یعنی آدم وحوا (علیہما السلام) کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے یعنی زمین پر جاکر بھی دوام نہ ملے گا کچھ مدت کے بعد اس گھر کو بھی چھوڑنا پڑے گا،
فَاَزَلَّہُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِـمَّا كَانَا فِيْہِ ٠ ۠ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ٠ ۚ وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ ٣٦- زل - الزَّلَّةُ في الأصل : استرسال الرّجل من غير قصد، يقال : زَلَّتْ رِجْل تَزِلُّ ، والْمَزِلَّةُ : المکان الزّلق، وقیل للذّنب من غير قصد : زَلَّةٌ ، تشبيها بزلّة الرّجل . قال تعالی: فَإِنْ زَلَلْتُمْ- [ البقرة 209] ، فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة 36] ، واسْتَزَلَّهُ : إذا تحرّى زلّته، وقوله : إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران 155] ، أي : استجرّهم الشّيطان حتی زلّوا، فإنّ الخطيئة الصّغيرة إذا ترخّص الإنسان فيها تصیر مسهّلة لسبیل الشّيطان علی نفسه . وقوله عليه السلام :«من أُزِلَّتْ إليه نعمةٌ فلیشکرها»أي : من أوصل إليه نعمة بلا قصد من مسديها، تنبيها أنه إذا کان الشّكر في ذلک لازما فكيف فيما يكون عن قصده . والتَّزَلْزُلُ : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً- [ الأحزاب 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب .- ( ز ل ل ) الزلۃ - کے اصل معیل بلا قصد کے قدم پھسل جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ زلت ( ض ) رجل تزل اور پھسلنے کی جگہ کو زکۃ کہا جاتا ہے نیز جو گناہ بلا قصد سرزد ہوجائے اسے بھی بطور تشبیہ زلۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَإِنْ زَلَلْتُمْ [ البقرة 209] اگر تم لغزش کھا جاؤ ۔ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة 36] انہیں شیطان نے پھسلا دیا ۔ استزلہ استفعال ) کسی کو پھسلانے کا قصد د ارادہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران 155] شیطان نے انہیں پھسلا دیا کے معنی یہ ہیں کہ شیطان انہیں آہستہ آہستہ پھسلانے کی کوشش کرتا رہا حتٰی کہ وہ پھسل گئے کیونکہ جب انسان صغائر میں بےپرواہی سے کام لیتا ہے تو وہ شیطان کے تسلط کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ جسے بلا طلب نعمت مل جائے اسے منعم کا شکر گزار ہونا چاہیئے ۔ جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ جب بلا قصد نعمت حاصل ہونے پر شکر گزاری لازم ہے تو جو احسان کسی کے قصد اور ارادہ سے ہو اس کا لشکر یہ بالا دلی ضروری ہے ۔ التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - اسْتَقَرَّ- فلان : إذا تحرّى الْقَرَارَ ، وقد يستعمل في معنی قرّ ، کاستجاب وأجاب . قال في الجنّة : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ، وفي النار : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] ، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور «5» . وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- استقر فلان قرار پکڑنے کا فصد کرنا اور کبھی یہ بمعنی قرر ( قرار پکڑنا ) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چناچہ جنت کے متعلق فرمایا : خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [ الفرقان 24] ٹھکانا بھی بہترہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جن ہم کے متعلق فرمایا : ساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان 66] اور درزخ ٹھہرنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے - متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔
(٣٦) چناچہ ان دونوں (آدم وحواہ) کو شیطان نے جنت سے پھسلانے کی کوشش کی اور اس وسعت و کشادگی کی جگہ سے ان کو نکلوا دیا اور ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) ، حوا، شیطان اور سانپ سے کہا، کہ زمین پر اترو جہاں تمہارے لیے موت تک ٹھکانا، فائدہ اور معیشت ہے۔
آیت ٣٦ (فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا) - اس کی تفصیل سورة طٰہٰ میں آئی ہے کہ شیطان نے انہیں کس کس طریقے سے پھسلایا اور انہیں اس درخت کا پھل چکھنے پر آمادہ کیا۔- (فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِص) - وہ کیا کیفیت تھی کہ نہ کوئی مشقتّ ہے ‘ نہ کوئی محنت ہے اور انسان کو ہر طرح کا اچھے سے اچھا پھل مل رہا ہے ‘ تمام ضروریات فراہم ہیں اور خاص خلعت فاخرہ سے بھی نوازا گیا ہے ‘ جنت کا خاص لباس عطا کیا گیا ہے۔ لیکن ان کیفیات سے نکال کر انہیں کہا گیا کہ اچھا اب جاؤ اور زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرو۔ یاد رکھنا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری نسل کا دشمن ہے اور وہ تمہیں پھسلائے گا جیسے آج پھسلایا ہے ‘ تم اس کی شرارتوں سے ہوشیار رہنا : (اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط) (فاطر : ٦) ” یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو “۔ لیکن اگر کچھ لوگ اسے اپنا دوست بنا لیں اور اس کے ایجنٹ اور کارندے بن جائیں تو یہ ان کا اختیار ہے جس کی سزا انہیں ملے گی۔ - (وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج - نوٹ کیجیے یہاں جمع کا صیغہ آیا ہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے۔ تو ایک دشمنی تو شیطان اور آدم اور ذریت آدم کی ہے ‘ جبکہ ایک اور دشمنی انسانوں میں مرد اور عورت کے مابین ہے۔ عورت مرد کو پھسلاتی ہے اور غلط راستے پر ڈالتی ہے اور مرد عورتوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ج) (التغابن : ١٤) ” اے اہل ایمان یقیناً تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں تمہارے دشمن ہیں ‘ ان سے ہوشیار رہو۔ “ کہیں ان کی محبت تمہیں راہ حق سے منحرف نہ کر دے۔ شوہر ایک اچھا کام کرنا چاہتا ہے لیکن بیوی رکاوٹ بن گئی یا بیوی کوئی اچھا کام کرنا چاہتی ہے اور شوہر رکاوٹ بن گیا تو یہ محبت نہیں عداوت ہے۔- (وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ ) اب زمین تمہاری جائے قیام ہے اور یہاں ضرورت کی تمام چیزیں ہم نے فراہم کردی ہیں ‘ لیکن یہ ایک وقت معین تک کے لیے ہے ‘ یہ ابدی نہیں ہے ‘ ایک وقت آئے گا کہ ہم یہ بساط لپیٹ دیں گے۔ (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط) (الانبیاء : ١٠٤) ” جس دن کہ ہم تمام آسمانوں کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے اوراق کا طومار لپیٹ لیا جاتا ہے۔ “ یہ تخلیق ابدی نہیں ہے ” اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی “ ہے ” اِلٰی حِیْنٍ “ ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :50 یعنی انسان کا دشمن شیطان ، اور شیطان کا دشمن انسان ۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا ، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دُشمنی ہی کی مقتضی ہے ، مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے ، ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے ۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتًہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی ، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دُشمن دُوسرے دُشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا ۔
34 : یعنی شیطان نے انہیں بہکاکر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کردیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یوں تو یہ درخت بڑا مفید ہے کیونکہ اس کو کھانے سے ابدی زندگی حاصل ہوجاتی ہے ؛ لیکن شروع میں آپ کو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ آپ کی جسمانی کیفیت اس کو برداشت نہ کرسکتی تھی اب چونکہ آپ جنت کے ماحول کے عادی ہوگئے ہیں اور آپ کے قوی مضبوط ہوچکے ہیں اس لئے اب وہ ممانعت باقی نہیں رہی۔ اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف (7: ١٩ تا ٢٣) اور سورۃ طہ (٢٠ : ١٢٠) 35: مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتیجے میں آدم (علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہوگا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہوگا۔