اعزاز آدم علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حضرت آدم نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں نبی بھی ، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو ۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی ۔ سورۃ اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا ۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی ۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا ۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں ۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی ۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ جاگے ، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے؟ حضرت آدم نے کہا حوا انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی ، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا ۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی ۔ کوئی کہتا ہے ۔ گیہوں کا درخت تھا ۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے ۔ کسی نے کھجور ، کسی نے انجیر کہا ہے ۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں ۔ کسی نے کہا ہے ، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا ۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے ۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں ۔ لہذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے ۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے ۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ ۔ ایک قرأت فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بےتعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا ۔ سفر ارضی کا آغاز لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت ( یوفک عنہ ) میں ۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان ، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے ، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے ۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا ۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے ، تاہم ہم انہیں سورۃ اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا ۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے ، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم میرے پاس سے چلے جاؤ ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے ، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقینا میں اسے بھی نافرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں ۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا ۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا ۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے ، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر دھنا میں اترے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں ۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے ۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا ۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے ۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی ۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں ۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا ۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں ، دیکھئے کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں ۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے ، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے ، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں ۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندہء درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونامنع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے ۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا ۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور باموقع ہیں ۔
35۔ 1 یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ 35۔ 2 یہ درخت کس چیز کا تھا ؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بےاصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔
[٤٨] آدم (علیہ السلام) اور نظریہ ارتقاء :۔ واضح رہے کہ آدم (علیہ السلام) سلسلہ ارتقاء کی کڑی نہیں جیسا کہ آج کل ڈارون کا نظریہ ارتقاء کالجوں وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے کہ انسان بندر کی اولاد یا اس کا چچیرا بھائی ہے۔ جب کہ آدم (علیہ السلام) کا پتلا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا (٣٨ : ٧٥) پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا (١٥ : ١٩، ٣٨ : ٧٢) اسی نفخ روح سے انسان میں فہم، قوت ارادہ و اختیار وتمیز و استنباط پیدا ہوئی، جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔- [٤٩] حوا کی پیدائش پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ سیدہ حوا جنہیں سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ بعض مساوات مرد و زن کو شریعت سے ثابت کر دکھانے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ سیدہ حوا کو بھی اسی مٹی یا مادہ سے پیدا کیا گیا جس سے سیدنا آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ (خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا) میں ھَا کی ضمیر مونث ہے۔ اگر حوا آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوتی تو ضمیر مذکر ہونی چاہئے تھی۔ یہ دلیل دو لحاظ سے غلط ہے۔ ایک اس لیے ھا کی ضمیر (نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ) کی طرف ہے جو مونث ہے اور دوسرے اس لحاظ سے کہ احادیث صریحہ میں موجود ہے کہ سیدہ حوا کو پسلی سے پیدا کیا گیا۔ لہذا اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ دو گے۔ پس اس سے حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب خلق آدم و ذریتہ و قول اللّٰہ تعالیٰ آیت وَ ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً 30) 2 ۔ البقرة :30) - [٥٠] جنت ارضی یا سماوی ؟ یہ بحث بھی جاری ہے کہ یہ جنت ارضی تھی یا سماوی، بعض لوگ اسے ارضی سمجھتے اور اس کا مقام عدن یا فلسطین قرار دیتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ الجنہ وہی ہے جو مسلمانوں میں معروف ہے اور وہ اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق پیدا کی جا چکی ہے۔ اس جنت میں آدم (علیہ السلام) و حوا کو آباد ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کا اصل ٹھکانہ یہی ہے۔ تاہم یہاں آباد کرنے سے اس بات کا امتحان بھی مقصود تھا کہ آدم (علیہ السلام) (اور اسی طرح اس کی اولاد) شیطانی ترغیبات کے مقابلہ میں اللہ کی کس قدر اطاعت کرتے ہیں ؟- [٥١] اس آزمائش کے لیے جنت سے ایک درخت کا انتخاب کیا گیا کہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس کے علاوہ تم جنت کے تمام درختوں کے پھل کھا سکتے ہو۔ یہ شجرہ ممنوعہ گندم کا تھا، یا انگور کا یا کسی اور چیز کا ؟ یہ بحث لاحاصل ہے اور پیش نظر مقصد کے لحاظ سے یہ بتانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔- [٥٢] ظلم کا لغوی مفہوم :۔ ظلم کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو ناجائز طریقہ سے اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا ہے اور یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ہر ناانصافی کی بات خواہ وہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہو یا حقوق العباد سے، ظلم ہے، بالفاظ دیگر ہر گناہ پر ظلم کے لفظ کا اور گنہگار پر ظالم کے لفظ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں ظلم سے مراد اللہ رب العزت کی نافرمانی بھی ہے اور اپنے نفس پر زیادتی بھی جس کی وجہ سے جنت سے نکلنا پڑا۔
اس آیت میں آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کروانے کے بعد انھیں جنت کی سکونت عطا فرمائی۔ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ حوا [ اس وقت پیدا ہوچکی تھیں، ان کی پیدائش کے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء (١) اور سورة اعراف (١٨٩) ۔ - یہ کون سا درخت تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا، نہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا، اگر اس کی ضرورت ہوتی، یا اس سے کوئی فائدہ ہوتا تو ضرور بتادیا جاتا۔ بعض مفسرین نے گندم یا انگور یا انجیر وغیرہ کا نام لیا ہے، مگر یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ - وَلَا تَـقْرَبَا اس درخت کے کھانے سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا۔ اس سے شریعت کا قاعدہ سد ذرائع ثابت ہوتا ہے، یعنی جو چیز حرام کا ذریعہ بنتی ہے اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً 1 زنا سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى) [ بنی إسرائیل : ٣٢ ] ” اور زنا کے قریب مت جاؤ۔ “ حرام سے بچنے کے لیے مشتبہات یعنی شبہ والی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا۔ نعمان بن بشیر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، بیشک حلال بالکل ظاہر ہے اور بیشک حرام بالکل ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ ( شبہ والی) چیزیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جو شخص شبہات سے بچے گا وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو پوری طرح بچا لے گا اور جو شبہات میں پڑجائے گا، وہ حرام میں پڑجائے گا، جیسے وہ چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ میں جانور چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے اندر چرنے لگے۔ یاد رکھو اور ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ - [ مسلم، المساقاۃ والمزارعۃ، باب أخذ الحلال و ترک الشبہات : ١٥٩٩ ]- اللہ تعالیٰ کو گالی سے بچانے کے لیے معبودان باطل کو گالی دینے سے منع فرمایا : (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ) [ الأنعام : ١٠٨ ] ” اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، پس وہ زیادتی کرتے ہوئے کچھ جانے بغیر اللہ کو گالی دیں گے۔ “
خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم رہا کرو تم اور تمہاری بی بی (جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے کوئی مادہ لے کر بنادیا تھا) بہشت میں پھر کھاؤ دونوں اس میں سے بافراغت جس جگہ سے چاہو اور نزدیک نہ جائیو اس درخت کے ورنہ تم بھی انہی میں شمار ہوجاؤ گے جو اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں (خدا جانے وہ کیا درخت تھا مگر اس کے کھانے سے منع فرما دیا اور پھر آقا کو اختیار ہے کہ اپنے گھر کی چیزوں سے غلام کو جس چیز کے برتنے کی چاہے اجازت دیدے اور جس چیز کو چاہے منع کردے) پس لغزش دے دیآدم وحوا کو شیطان نے اس درخت کی وجہ سے سو برطرف کرکے رہا ان کو اس عیش سے جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کہ نیچے اترو تم میں سے بعضے بعضوں کے دشمن رہیں گے اور تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھہرنا ہے اور کام چلانا ایک میعاد معین تک (یعنی وہاں جاکر بھی دوام نہ ملے گا کچھ عرصہ کے بعد وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا) - معارف و مسائل :- یہ آدم (علیہ السلام) کے قصہ کا تکملہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جس آدم (علیہ السلام) کی فضیلت اور خلافت ارضی کیلئے صلاحیت فرشتوں پر واضح کردی گئی انہوں نے تسلیم کرلیا اور ابلیس اپنے تکبر اور معارضہ کی وجہ سے کافر ہو کر نکال دیا گیا تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ حوّا کو یہ حکم ملا کہ تم دونوں جنت میں رہو اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ مگر ایک معین درخت کے لئے یہ ہدایت کی کہ اس کے پاس نہ جانا یعنی اس کے کھانے سے مکمل پرہیز کرنا شیطان جو آدم (علیہ السلام) کی وجہ سے مردود ہوا وہ خار کھائے ہوئے تھا اس نے کسی طرح موقع پاکر اور مصلحتیں بتلا کر ان دونوں کو اس درخت کے کھانے پر آمادہ کردیا ان کی لغزش کی وجہ سے ان کو بھی یہ حکم ملا کہ اب تم زمین پر جاکر رہو اور یہ بھی بتلا دیا کہ زمین کی رہائش جنت کی طرح بےغل وغش نہ ہوگی بلکہ آپس میں اختلافات اور دشمنیاں بھی ہوں گی جس سے زندگی کا لطف پورا نہ رہے گا،- وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور ہم نے کہا کہ اے آدم ٹھرو تم اور تمہاری زوجہ جنت میں یہ واقعہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور ملائکہ کے سجدہ کے بعد کا ہے بعض حضرات نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ تخلیق اور سجدہ کا واقعہ جنت سے باہر کہیں ہوا ہے اس کے بعد جنت میں داخل کیا گیا لیکن ان الفاظ میں یہ مفہوم یقینی نہیں بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تخلیق بھی جنت میں ہوئی اور سجدے کا واقعہ بھی جنت میں پیش آیا مگر اس وقت تک ان کو کوئی فیصلہ اس کے متعلق نہیں سنایا گیا تھا کہ آپ کا مسکن ومستقر کہاں ہوگا اس واقعہ کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا،- وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۔ رَغَدًا کے معنی عربی لغت میں اس نعمت ورزق کے ہیں جس کے حاصل کرنے میں کوئی محنت ومشقت بھی نہ ہو اور وہ اتنی کثیر اور وسیع ہو کہ اس کے کم یا ختم ہوجانے کا خطرہ نہ ہو معنی یہ ہوئے کہ آدم وحوّا (علیہما السلام) کو فرمایا کہ جنت کے پھل با فراغت استعمال کرتے رہو نہ ان کے حاصل کرنے میں تمہیں کسی محنت کی ضرورت ہوگی اور نہ یہ فکر کہ یہ غذا ختم یا کم ہوجائے گی، وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَة کسی خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ اس کے قریب نہ جاؤ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس کا پھل نہ کھاؤ مگر تاکید کے طور پر عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ اس کے پاس بھی نہ جاؤ اور مراد یہی ہے کہ کھانے کے لئے اس کے پاس نہ جاؤ یہ درخت کونسا تھا قرآن کریم نے متعین نہیں کیا اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی تعین مذکور نہیں ائمہ تفسیر میں سے کسی نے گندم کا درخت قرار دیا کسی نے انگور کا کسی نے انجیر کا مگر جس کو قرآن و حدیث نے مبہم چھوڑا ہے اس کو متعین کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے (قرطبی) - فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِينَ یعنی اگر آپ نے اس شجر ممنوعہ کو کھایا تو آپ ظالموں میں داخل ہوجائیں گے،- آیات مذکورہ سے متعلقہ مسائل و احکام شرعیہ :- اُسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ میں حضرت آدم وحوا (علیہما السلام) دونوں کے لئے جنت کو مسکن بنانے کا ارشاد ہے جس کو مختصر لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے اسکنا الجنۃ یعنی آپ دونوں جنت میں رہیں جیسا کہ اس کے بعد کلا اور لاتقربا میں دونوں کو ایک ہی صیغہ میں جمع کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے خلاف اَنْتَ وَزَوْجُكَ کے الفاظ کو اختیار کرنے میں مخاطب صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو قرار دیا اور انہی سے فرمایا کہ آپ کی زوجہ بھی جنت میں رہے اس میں دو مسئلوں کی طرف اشارہ ہے،- مسئلہ : اول یہ کہ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے دوسرے یہ کہ سکونت میں بیوی شوہر کے تابع ہے جس میں شوہر رہے اس میں اس کو رہنا چاہئے،- مسئلہ : لفظ اُسْكُنْ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس وقت ان دونوں حضرات کے لئے جنت کا قیام محض عارضی تھا دائمی قیام جو شان ملکیت کی ہوتی ہے وہ نہ تھی کیونکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ آئندہ ایسے حالات پیش آئیں گے کہ آدم وحوا (علیہما السلام) کو جنت کا مکان چھوڑنا پڑے گا نیز جنت کا استحقاق ملکیت ایمان اور عمل صالح کرکے معاوضہ میں حاصل ہوتا ہے جو قیامت کے بعد ہوگا اسی سے حضرات فقہاء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کہے کہ میرے گھر میں رہا کرو یا یہ کہ میرا گھر تمہارا مسکن ہے اس سے مکان کی ملکیت اور دائمی استحقاق اس شخص کو حاصل نہیں ہوتا (قرطبی) - غذا و خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں :- وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا یعنی کھاؤ تم دونوں جنت سے بافراغت اس میں بطرز مذکور سابق خطاب صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو نہیں کیا گیا بلکہ دونوں کو ایک ہی لفظ میں شریک کرکے وَكُلَا مِنْهَا فرمایا اس میں اشارہ اس کی طرف ہوسکتا ہے کہ غذاء اور خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں وہ اپنی ضرورت و خواہش کے وقت اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے اور یہ اپنی خواہش کے مطابق۔- ہر جگہ چلنے پھرنے کی آزادی انسان کا فطری حق ہے :- رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا لفظ رَغَدًا ماکولات میں وسعت و کثرت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں کھا سکتی ہیں بجز ایک درخت کے اور کسی چیز میں رکاوٹ اور ممانعت نہیں اور لفظ شئتما میں مقامات کی وسعت کا بیان ہے کہ پوری جنت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں کھائیں کوئی خطہ ممنوع نہیں اس میں اشارہ ہے کہ چلنے پھرنے اور مختلف مقامات سے اپنی ضروریات حاصل کرنے کی آزادی انسان کا فطری حق ہے ایک محدود ومعین مقام یا مکان میں اگرچہ ضرورت و خواہش کی ساری چیزیں مہیا کردی جائیں مگر وہاں سے باہر جانا ممنوع ہو تو یہ بھی ایک قسم کی قید ہے اس لئے حضرت آدم (علیہ السلام) کو کھانے پینے کی تمام چیزیں بکثرت و فراغت عطا کردینے پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ حَيْثُ شِـئْتُمَـا فرما کر ان کو چلنے پھرنے اور ہر جگہ جانے کی آزادی بھی دی گئی۔- سید ذرائع کا مسئلہ :- وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ یعنی اس درخت کے قریب بھی نہ جاؤ ظاہر ہے کہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس درخت یا اس کے پھل کو نہ کھاؤ، مگر احتیاطی حکم یہ دیا گیا کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ اس سے اصول فقہ کا مسئلہ سدّ ذرائع ثابت ہوا یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میں ناجائز یا ممنوع نہیں ہوتیں لیکن جب یہ خطرہ ہو کہ ان چیزوں کے اختیار کرنے سے کسی حرام ناجائز کام میں مبتلا ہوجائے گا تو اس جائز چیز کو بھی روک دیا جاتا ہے جیسے درخت کے قریب جانا ذریعہ بن سکتا تھا اس کے پھل پھول کھانے کا اس ذریعہ کو بھی منع فرما دیا گیا اسی کا نام اصول فقہ کی اصطلاح میں سدذرائع ہے،- مسئلہ عصمت انبیاء (علیہم السلام) :- اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو کسی خاص درخت کے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا اور اس پر بھی متنبہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گناہ میں مبتلا کردے اس کے باوجود حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس درخت سے کھالیا جو بظاہر گناہ ہے حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) گناہ سے معصوم ہوتے ہیں تحقیق یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت تمام گناہوں سے عقلا اور نقلا ثابت ہے ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ صغیرہ گناہ ان سے بھی سرزد ہوسکتے ہیں جمہور امت کے نزدیک صحیح نہیں (قرطبی) - وجہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو لوگوں کا مقتدا بنا کر بھیجا جاتا ہے اگر ان میں سے بھی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خواہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ صادر ہوسکے تو انبیاء کے اقول و افعال سے امن اٹھ جائے گا اور وہ قابل اعتماد نہیں رہیں گے جب انبیاء (علیہم السلام) ہی پر اعتماد و اطمینان نہ رہے تو دین کا کہاں ٹھکانہ ہے،- البتہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ قصہ بھی اسی میں داخل ہے،- ایسے واقعات کا حاصل باتفاق امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطاء ونسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا غلطی اجتہادی ہوتی ہے یا خطاء ونسیان کے سبب قابل معافی ہوتی ہے جس کو اصطلاح شرع میں گناہ نہیں کہا جاسکتا اور یہ سہو ونسیان کی غلطی ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ وتعلیم اور تشریع سے ہوا بلکہ ان سے ذاتی افعال اور اعمال میں ایسا سہو ونسیان ہوسکتا ہے (تفسیر بحرا لمحیط) - مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کا مقام نہایت بلند ہے اور بڑوں سے چھوٹی سی غلطی بھی ہوجائے تو بہت بڑی غلطی سجھی جاتی ہے اس لئے قرآن حکیم میں ایسے واقعات کو معصیت اور گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر عتاب بھی کیا گیا ہے اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ گناہ ہی نہیں۔- حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کے متعلق علماء تفسیر نے بہت سے توجیہات لکھی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :- اول یہ کہ جس وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کو منع کیا گیا تھا تو ایک خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا کہ اس کے قریب نہ جاؤ اور مرادخاص یہی درخت نہیں تھا بلکہ اس کی جنس کے سارے درخت مراد تھے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ ریشمی کپڑا اور ایک ٹکڑا سونے کا ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ظاہر ہے کہ حرمت صرف اس کپڑے اور سونے کے ساتھ مخصوص نہیں تھی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک میں تھے بلکہ تمام ریشمی کپڑے اور سونے کا یہی حکم ہے لیکن یہاں کسی کو یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ ممانعت صرف اس کپڑے اور سونے کے ساتھ وابستہ ہے جو اس وقت آپ کے دست مبارک میں تھے اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ خیال ہوگیا کہ جس درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا تھا ممانعت اسی کے ساتھ خاص ہے شیطان نے یہی وسوسہ ان کے دل میں مزین اور مستحکم کردیا اور قسمیں کھا کر یہ باور کرایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں تمہیں کسی ایسے کام کا مشورہ نہیں دے رہا جو تمہارے لئے ممنوع یا مضر ہو جس درخت کی ممانعت کی گئی ہے دوسرا ہے اس درخت کی ممانعت نہیں ہے،- اور یہ بھی ممکن ہے کہ شیطان نے یہ وسوسہ دل میں ڈالا ہو کہ اس درخت کی ممانعت صرف آپ کی ابتداء پیدائش کے وقت کے ساتھ مخصوص تھی جیسے چھوٹے بچوں کو اول عمر میں قوی غذا سے روکا جاتا ہے ہلکی غذاء دی جاتی ہے اور قوت پیدا ہوجانے کے بعد ہر غذاء کی اجازت ہوجاتی ہے تو اب آپ قوی ہوچکے ہیں اس لئے ممانعت باقی نہیں رہی۔- اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جس شیطان نے اس درخت کے کھانے کے منافع بتلائے کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتوں میں رہنے کا اطمینان ہوجائے گا اس وقت ان کو وہ ممانعت یاد نہ رہی ہو ابتداء آفرینش کے وقت اس درخت کے متعلق کی گئی تھی قرآن مجید کی آیت فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (١١٥: ٢٠) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی یہ اسی احتمال کی تائید کرتی ہے،- بہرحال اس طرح کے متعدد احتمالات ہوسکتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جان بوجھ کر نافرمانی کا صدور حضرت آدم (علیہ السلام) سے نہیں ہوا بھول ہوگئی یا اجتہادی لغزش جو درحقیقت گناہ نہیں مگر حضرت آدم (علیہ السلام) کی شان نبوت میں اور قرب خداوندی کے مقام عالی کے اعتبار سے یہ لغزش بھی بڑی سمجھی گئی اور قرآن میں اس کو معصیت کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ و استغفار کے بعد معاف کرنے کا ذکر فرمایا گیا۔- اور یہ بحث فضول ہے کہ جب شیطان کو جنت سے مردود کرکے نکال دیا گیا تھا تو پھر وہ آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کے لئے وہاں کس طرح پہنچا ؟ کیونکہ شیطان کے بہکانے اور وسوسہ ڈالنے کے لئے ضروری نہیں کہ جنت میں داخل ہو کر ہی وسوسہ ڈالے جنات و شیاطین کو حق تعالیٰ نے قدرت دی ہے کہ وہ دوسرے بھی دل میں وسوسہ ڈال سکتے ہیں اور اگر داخل ہو کر بالمشافہ گفتگو ہی کو تسلیم کیا جائے تو اس کے بھی مختلف احتمالات ہوسکتے ہیں جس کی تحقیق میں پڑنا بےفائدہ اور لایعنی بحث ہے،- اسی طرح یہ سوال کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ متنبہ کردیا تھا، اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ شیطان تمہارا دشمن ہے ایسا نہ کہ یہ کوئی ایسا کام کرادے جس کی وجہ سے تمہیں جنت سے نکلنا پڑے پھر آدم (علیہ السلام) اس کے دھوکے میں کس طرح آگئے اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات و شیاطین کو مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے کی قدرت عطا فرمائی ہے ممکن ہے کہ وہ کسی ایسی صورت میں سامنے آیا ہو جس کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) یہ نہ پہنچان سکے کہ یہ شیطان ہے،
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ وَكُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا ٠ ۠ وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ ٣٥- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- رغد - عيش رَغَدٌ ورَغِيدٌ: طيّب واسع، قال تعالی: وَكُلا مِنْها رَغَداً [ البقرة 35] ، يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ [ النحل 112] ، وأَرْغَدَ القوم : حصلوا في رغد من العیش، وأَرْغَدَ ماشیتَهُ. فالأوّل من باب جدب وأجدب «1» ، والثّاني من باب دخل وأدخل غيره «2» ، والمِرْغَادُ من اللّبن : المختلط الدّالّ بکثرته علی رغد العیش .- ( رغ د ) رغد - ا ورغیدا ۔ آسودہ زندگی قرآن میں ہے : ۔ وَكُلا مِنْها رَغَداً [ البقرة 35] اور اس میں سے تم دونوں بافراغت کھاؤ ۔ يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ [ النحل 112] ہر طرف سے ان کا رزق بافراغت ان کے پاس چلا آتا تھا ۔ ارغد القوم آرام راحت میں بسر کرنا ۔ ارغد ماشیتۃ اس سے اپنے مویشی چراگاہ میں آزاد چھوڑ دیئے ۔ ان میں اول یعنی ارغد القوم جدب واجدب کی طرح لازم ہے اور دوسرا یعنی ارغد ماشیتہ ادخل کی طرح متعدی ہے ۔ المر غاد ایک قسم کا کھانا جو دودھ میں خرما وغیرہ ڈال کر بنا یا جاتا ہے اور وافر ہونے کی وجہ سے زندگی کی آسودگی پر دلالت کرتا تھا - حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٣٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) کا قصہ خاص بیان کرتے ہیں کہ تم آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہا السلام) جنت میں جاؤ تمہارے لیے وہاں بہت فراخی ہے اور جہاں تمہارا دل چاہے پھرو، باقی اس درخت میں سے مت کھانا ورنہ تم اپنے نفسوں کو نقصان پہنچانے ہوجاؤگے۔
آیت ٣٥ (وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ) - سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کون سی ہے ؟ اکثر حضرات کے نزدیک یہ جنت کہیں آسمان ہی میں تھی اور آسمان ہی میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ البتہ یہ سب مانتے ہیں کہ یہ وہ جنت الفردوس نہیں تھی جس میں جانے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔ اس جنت میں تو آخرت میں لوگوں کو جا کر داخل ہونا ہے اور اس میں داخلے کے بعد پھر وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے ‘ اور میرا رجحان اسی رائے کی طرف ہے ‘ کہ تخلیق آدم ( علیہ السلام) اسی زمین پر ہوئی ہے۔ وہ تخلیق جن مراحل سے گزری وہ اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ بائیولوجی اور وحی دونوں اس پر متفق ہیں کہ قشر ارض ( ) یعنی مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس کے بعد کسی اونچے مقام پر کسی سرسبز و شاداب علاقے میں حضرت آدم ( علیہ السلام) کو رکھا گیا ‘ جہاں ہر قسم کے میوے تھے ‘ ہر شے بافراغتّ میسر تھی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَاُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی۔ ) (طٰہٰ ) ” یہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں موجود ہیں کہ نہ تمہیں اس میں بھوک لگے گی نہ عریانی لاحق ہوگی۔ اور یہ کہ نہ تمہیں اس میں پیاس تنگ کرے گی نہ دھوپ ستائے گی “۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو وہاں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ البتہ یہ جنت صرف ایک کے لیے تھی کہ انہیں نظر آجائے کہ شیطان ان کا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے ‘ وہ انہیں ورغلائے گا اور طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کسی شخص کا انتخاب تو ہوگیا اور وہ میں آگیا ‘ لیکن اس کی تعیناتی ( ) سے پہلے اسے سول سروس اکیڈمی میں زیرتربیت رکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو لفظ ہبوط (اُترنا) آ رہا ہے وہ صرف اسی ایک معنی میں نہیں آتا ‘ اس کے دوسرے معانی بھی ہیں۔ یہ چیزیں پھر متشابہات میں سے رہیں گی۔ اس لیے ان کے بارے میں غور و فکر سے کوئی ایک یا دوسری رائے اختیار کی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم - (وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَاص) - یہاں ہر طرح کے پھل موجود ہیں ‘ جو چاہو بلاروک ٹوک کھاؤ۔ - (وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ ) - یہاں پر اس درخت کا نام نہیں لیا گیا ‘ اشارہ کردیا گیا کہ اس درخت کے قریب بھی مت ‘ جانا۔- (فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) - تم حد سے گزرنے والوں میں شمار ہو گے۔ - اب اس کی بھی حکمت سمجھئے کہ یہ اس کا حصہّ ہے کہ دنیا میں کھانے پینے کی ہزاروں چیزیں مباح ہیں ‘ صرف چند چیزیں حرام ہیں۔ اب اگر تم ہزاروں مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام میں منہ مارتے ہو تو یہ نافرمانی شمار ہوگی۔ اللہ نے مباحات کا دائرہ بہت وسیع رکھا ہے۔ چند رشتے ہیں جو بیان کردیے گئے کہ یہ حرام ہیں ‘ محرمات ابدیہ ہیں ‘ ان سے تو شادی نہیں ہوسکتی ‘ باقی ایک مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے دنیا کے کسی بھی کونے میں شادی کرسکتا ہے ‘ اس کے لیے کروڑوں کھلے ہیں۔ پھر ایک نہیں ‘ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار تک عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسان شادی نہ کرے اور زنا کرے ‘ تو یہ گویا اس کی اپنی خباثت نفس ہے۔ چناچہ آدم و حوا (علیہ السلام) کو بتادیا گیا کہ یہ پورا باغ تمہارے لیے مباح ہے ‘ بس یہ ایک درخت ہے ‘ اس کے پاس نہ جانا۔ درخت کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو صرف ایک آزمائش اور اس کی تھی۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :48 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین ، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے ۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا ، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پاؤ گے ۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا ۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا ۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا ۔ اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا ۔ اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا ۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کرنا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہ انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے ۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے ۔ اپنے اس مقامِ لائق ، اپنی اس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :49 ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے ۔ ”ظلم“ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں ۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے ۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے ، وہ درحقیقت تین بڑے بنیادی حقوق تلف کرتا ہے ۔ اوّلاً خدا کا حق ، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے ۔ ثانیاً ان تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا ۔ اس کے اعضا ئے جسمانی ، اس کے قوائے نفس ، اس کے ہم معاشرت انسان ، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں ، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں ، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے ۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے ، تو درحقیقت ان پر ظلم کیا ۔ ثَا لثًا خود اپنا حق ، کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے ، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے ، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے ۔ انہی وجُوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ۔
33: یہ کونسا درخت تھا؟ قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی نہ اس کے جاننے کی ضرورت ہے اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں روک دیا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ یہ گندم کا درخت تھا بعض میں انگور کا ذکر ہے مگر کوئی روایت ایسی نہیں جس پر پورا بھروسہ کیا جاسکے۔