Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں ۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا ۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا ( آخر تک ) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے ۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا ۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے ۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت ( وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) 55 ۔ الرحمن:15 ) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے ۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو جن کہا جاتا تھا ۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا ۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا ۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی ۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لاتا مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا ۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے آیت ( وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا ) 17 ۔ الاسرآء:11 ) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں ۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت ( الحمد للہ رب العلمین ) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا ( یرحمک اللہ ) پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں ۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں ۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے ۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا پھر حضرت آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو ۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں ۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے ۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں ۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بےخبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباس تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا ۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی ۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں ۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہو گا واللہ اعلم ۔ تعارف ابلیس حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی ۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت ( کان من الجن ) کی تفسیر میں آئے گی ۔ ابن عباس کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا ۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا ۔ اس کے چار پر تھے ۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں ۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے ۔ سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا ۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا ۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے ۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے ۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا ۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے ۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا ۔ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے ۔ امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا ۔ حضرت آدم بطور قبلہ ( یعنی سمت ) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ) 17 ۔ الاسرآء:78 ) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی ۔ امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا ۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا ۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا ۔ اسی تکبر کفر و عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا ۔ یہاں کان صار کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت ( فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ ) 11 ۔ ہود:43 ) اور آیت ( فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:19 ) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا ۔ قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا ۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44 ۔ الدخان:10 ) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ ۔ بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرنے اسے مارا ۔ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ ۔ حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت ( فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ 30؀ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ ) 15 ۔ الحجر:31-30 ) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر کلھم سے تاکید کرنا پھر اجمعون کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا 34۔ 2 ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔ 34۔ 3 یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦] سجدہ تعظیمی :۔ جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی فضیلت کو تسلیم کرلیا تو انہیں آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سجدہ کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سجدہ چونکہ اللہ کے حکم سے تھا لہذا یہ سجدہ آدم (علیہ السلام) کو نہیں بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرنے کے مترادف تھا اور اللہ ہی کے حکم کی تعمیل تھی۔ دوسرا یہ کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا جو ہماری شریعت سے پہلے جائز تھا۔ جیسا کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بھی سیدنا یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا۔ یہ دونوں توجیہات درست ہیں۔ تاہم شریعت محمدی میں سجدہ تعظیمی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ - [٤٧] ابلیس کی رقابت کی وجہ :۔ ابلیس دراصل جنوں کی جنس سے تھا (١٨ : ٥٠) اور اپنی عبادت گزاری کی کثرت کی بنا پر فرشتوں میں گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فتنہ و فساد کی بنا پر فرشتوں نے جنوں کو سمندروں کی طرف مار بھگایا تو اس وقت بھی یہ فرشتوں میں ہی شامل تھا، اور جن بھی چونکہ مکلف مخلوق ہیں اور قوت اختیار و ارادہ رکھتے ہیں۔ لہذا جنوں کے بعد ابلیس خود خلافت ارضی کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ بنادیا تو یہ اندر ہی اندر جلتا بھنتا رہا اور جب فرشتوں کو حکم سجدہ ہوا تو اس کے اندرونی حسد و کینہ نے جوش مارا اور سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اکڑ گیا اور آدم پر اپنی فضیلت کا برملا اظہار شروع کردیا (٧ : ١٢) اس وجہ سے راندہ درگاہ الٰہی اور کافر قرار پایا۔ گویا اس کا جرم صرف یہی نہ تھا کہ اس نے سجدہ نہیں کیا بلکہ اس سے زیادہ جرم یہ تھا کہ تکبر کی بنا پر حکم الٰہی کے مقابلہ میں اپنی برتری بیان کرنا شروع کردی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

آدم (علیہ السلام) کی پہلی فضیلت علم ظاہر فرمائی، اب یہ دوسرا شرف ہے کہ فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ صرف آداب بجا لانا یا تابع ہونا نہیں تھا، بلکہ زمین پر پیشانی رکھنا تھا، کیونکہ سجدے کا حقیقی معنی یہی ہے۔ - یہ عبادت کا سجدہ نہیں تھا، کیونکہ غیر اللہ کی عبادت تو شرک ہے، جس کی اجازت کسی بھی امت میں نہیں تھی، پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو شرک کا حکم کیسے دے سکتا تھا، بلکہ یہ تعظیم کا سجدہ تھا، جو پہلی امتوں میں جائز تھا، ہماری امت میں حرام ہے، جیسا کہ بعض پہلی امتوں میں بہن سے نکاح جائز تھا، اب حرام ہے۔ - عبد اللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ معاذ (رض) جب شام سے واپس آئے تو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” معاذ یہ کیا ہے ؟ “ کہا، میں شام گیا تو میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے پادریوں اور افسروں کو سجدہ کرتے ہیں، میں نے دل میں چاہا کہ ہم آپ کے ساتھ اس طرح کریں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم یہ کام نہ کرو، کیونکہ اگر میں کسی کو حکم دینے والا ہوتا کہ وہ غیر اللہ کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ “ [ ابن ماجہ، النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ : ١٨٥٣] مگر افسوس کہ جاہل صوفی اور عوام جب پیروں کے پاس حاضری دیتے ہیں تو انھیں سجدہ کرتے ہیں اور وہ بھی اس پر خاموش رہ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ - ابلیس فرشتہ نہیں تھا بلکہ جنوں سے تھا۔ [ الکہف : ٥٠ ] یہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ ابلیس فرشتہ تھا، یا یہ کہ اسے حکم ہی نہ تھا، بلکہ یہاں بات مختصر بیان ہوئی ہے۔ سورة اعراف (١٢) میں تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے علاوہ ابلیس کو خاص طور پر سجدے کا حکم دیا تھا : ( مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ ) [ الأعراف : ١٢ ] ” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو سجدہ نہیں کرتا، جب میں نے تجھے حکم دیا ؟ “ - ابلیس کے انکار کا باعث اس کا کبر تھا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- ربط آیات :- پچھلے واقعہ میں جب آدم کی فضیلت فرشتوں پر ظاہر ہوچکی اور دلائل سے یہ امر ثابت ہوگیا کہ صلاحیت خلافت کے لئے جن علوم کی ضرورت ہے وہ آدم (علیہ السلام) میں سب مجتمع ہیں اور ملائکہ کو ان میں سے بعض علوم حاصل ہیں اور جنوں کو تو بہت ہی کم حصہ ان علوم کا حاصل ہے جیسا کہ اوپر تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے اور اس حیثیت خاص سے کہ ملائکہ وجن ہر دو گروہ کے علوم کے یہ جامع ہیں ان کا شرف ہر دو گروہ پر ظاہر فرما دیا جاوے اور ملائکہ اور جنوں سے ان کو کوئی خاص تعظیم کرائی جاوے جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ دونوں سے کامل اور مصداق، - آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری - کے ہیں اور آدم (علیہ السلام) ان علوم خاصہ میں ملائکہ اور جن ہر دو گروہ سے کامل اور دونوں کے علوم وقویٰ کو جامع ہیں جیسا کہ مفصل طور پر مذکور ہوا اب حق تعالیٰ کو منظور ہوا کہ ان غیر کاملوں سے اس کامل کی کوئی ایسی تعظیم کرائی جاوے کی عملاً بھی یہ امر ظاہر ہوجاوے کہ یہ ان دونوں سے کامل اور جامع ہیں جب تو یہ دونوں ان کی تعظیم کر رہے ہیں اور گویا بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ جو اوصاف ہم میں الگ الگ ہیں وہ ان کے اندر یکجا ہیں اس لئے جو عمل تعظمیی تجویز فرمایا گیا ہے اس کی حکایت ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور غرور میں آگیا،- کیا سجدہ کا حکم جنات کو بھی تھا - اس آیت میں جو بات صراحۃ مذکور ہے وہ تو یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا تو اس سے فرشتے اور جنات سب داخل ہیں مگر حکم میں صرف فرشتوں کے ذکر پر اس لئے اکتفا کیا گیا کہ وہ سب سے افضل اور اشرف تھے جب آدم (علیہ السلام) کی تعظیم کا حکم ان کو دیا گیا تو جنات کا بدرجہ اولیٰ اس حکم میں شامل ہونا معلوم ہوگیا،- سجدہ تعظیمی پہلی امتوں میں جائز تھا اسلام میں ممنوع ہے :- اس آیت میں فرشتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں اور سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین اور بھائیوں کا مصر پہنچنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا مذکور ہے - وَخَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًا (١٢: ١٠٠) یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سجدہ عبادت کے لئے نہیں ہوسکتا کیونکہ غیر اللہ کی عبادت شرک و کفر ہے جس میں احتمال ہی نہیں کہ کسی وقت کسی شریعت میں جائز ہوسکے اس کے سوا کوئی احتمال نہیں کہ قدیم انبیاء (علیہم السلام) کے زمانے میں سجدے کا بھی وہی درجہ ہوگا جو ہمارے زمانے میں سلام، مصافحہ، معانقہ اور دست بوسی یا تعظیم کے لئے کھڑے ہوجانے کا ہے۔- امام جصاص نے احکام القرآن میں یہی فرمایا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سابقین کی شریعت میں بڑوں کی تعظیم اور تحیہ کے لئے سجدہ مباح تھا شریعت محمدیہ میں منسوخ ہوگیا اور بڑوں کی تعظیم کے لئے صرف سلام مصافحہ کی اجازت دی گئی، رکوع، سجدہ اور بیئت نماز ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے کو ناجائز قرار دے دیا گیا ،- توضیح اس کی یہ ہے کہ اصل کفر و شرک اور غیر اللہ کی عبادت تو اصول ایمان کے خلاف ہے وہ کبھی کسی شریعت میں جائز نہیں ہوسکتے لیکن کچھ افعال و اعمال ایسے ہیں جو اپنی ذات میں شرک و کفر نہیں مگر لوگوں کی جہالت اور غفلت سے وہ افعال ذریعہ شرک و کفر کا بن سکتے ہیں ایسے افعال کو انبیاء سابقین کی شریعتوں میں مطلقاً منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کو ذریعہ شرک بنانے سے روکا گیا جیسے جانداروں کی تصویر بنانا اور استعمال کرنا اپنی ذات میں کفر و شرک نہیں اس لئے پچھلی شریعتوں میں جائز تھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصہ میں مذکور ہے،- يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ (٣٧: ١٣) یعنی جنات ان کے لئے بڑی محرابیں اور تصویریں بنایا کرتے تھے،- اسی طرح سجدہ تعظیمی پچھلی شریعتوں میں جائز تھا لیکن آخر کار لوگوں کی جہالت سے یہی چیزیں شرک وبت پرستی کا ذریعہ بن گئیں اور اسی راہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے دین و شریعت میں تحریف ہوگی،- اور پھر دوسرے انبیاء (علیہم السلام) اور دوسری شریعتوں نے آکر اس کو مٹایا شریعت محمدیہ چونکہ دائمی اور ابدی شریعت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت و رسالت ختم اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے اس لئے اس کو مسخ و تحریف سے بچانے کے لئے ہر ایسے سوراخ کو بند کردیا گیا جہاں سے شرک وبت پرستی آسکتی تھی اسی سلسلہ میں وہ تمام چیزیں اس شریعت میں حرام قرار دے دیگئیں جو کسی زمانے میں شرک وبت پرستی کا ذریعہ بنی تھیں، - تصویر سازی اور اس کے استعمال کو اس وجہ سے حرام کیا گیا سجدہ تعظیمی اسی وجہ سے حرام ہوا ایسے اوقات میں نماز پڑھنے کو حرام کردیا گیا جن میں مشرکین اور کفار اپنے معبودوں کی عبادت کیا کرتے تھے کہ یہ ظاہری مطابقت کسی وقت شرک کا ذریعہ نہ بن جائے،- صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آقاؤں کو یہ حکم دیا کہ اپنے غلام کو عبد یعنی بندہ کہہ کر نہ پکاریں اور غلاموں کو یہ حکم دیا کہ وہ آقاؤں کو اپنا رب نہ کہیں حالانکہ لفظی معنی کے اعتبار سے بندہ کے معنی غلام کے اور رب کے معنی پالنے والنے اور تربیت کرنے والے کے ہیں ایسے الفاظ کا استعمال ممنوع نہ ہونا چاہئے تھا مگر محض اس لئے کہ یہ الفاظ موہم شرک ہیں کسی وقت جہالت سے یہی الفاظ آقاؤں کی پرستش کا دروازہ نہ کھول دیں اس لئے ان الفاظ کے استعمال کو روک دیا گیا۔- خلاصہ یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کا سجدہ اور یوسف (علیہ السلام) کو ان کے والدین اور بھائیوں کا سجدہ جو قرآن میں مذکور ہے یہ سجدہ تعظیمی تھا جو ان کی شریعت میں سلام، مصافحہ، اور دست بوسی کا درجہ رکھتا تھا اور جائز تھا شریعت محمدیہ کو کفر و شرک کے شائبہ سے بھی پاک رکھنا تھا اس لئے اس شریعت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بقصد تعظیم بھی سجدہ یا رکوع کرنا جائز نہیں رکھا گیا،- بعض علماء نے فرمایا کہ نماز جو اصل عبادت ہے اس میں چار طرح کے افعال ہیں کھڑا ہونا بیٹھنا، رکوع، سجدہ ان میں سے پہلے دو یعنی کھڑا ہونا اور بیٹھنا تو ایسے کام ہیں جو عادۃ بھی انسان اپنی ضرورتوں کے لئے کرتا ہے اور عبادۃ بھی نماز میں کئے جاتے ہیں مگر رکوع اور سجدہ ایسے فعل ہیں جو انسان عادۃ نہیں کرتا وہ عبادت ہی کے ساتھ مخصوص ہیں اس لئے ان دونوں کو شریعت محمدیہ میں عبادت ہی کا حکم دے کر غیر اللہ کے لئے ممنوع کردیا،- اب یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ سجدہ تعظیمی کا جواز تو قرآن کی مذکورہ آیات سے ثابت ہے شریعت محمدیہ میں اس کا منسوخ ہونا کس دلیل سے ثابت ہے ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث متواترہ مشہورہ سے سجدہ تعظیمی کا حرام ہونا ثابت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں غیر اللہ کے لئے سجدہ تعظیمی کو جائز قرار دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ شوہر کو سجدہ کیا کرے (مگر اس شریعت میں سجدہ تعظیم مطقاً حرام ہے اس لئے کسی کو کسی کے لئے جائز نہیں) - یہ حدیث بیس صحابہ کرام کی روایت سے ثابت ہے اصول حدیث کی معروف کتاب تدریب الراوی میں ہے کہ جس روایت کو دس صحابہ کرام (رض) اجمعین نقل فرمادیں تو وہ حدیث متواتر ہوجاتی ہے جو قرآن کی طرح قطعی ہے یہاں تو بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین سے منقول ہے یہ بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین روایتیں حاشیہ بیان القرآن میں حضرت حکیم الامت تھانوی نے جمع فرمادی ہیں ضرورت ہو تو وہاں سے دیکھا جاسکتا ہے، - ابلیس کا کفر محض عملی نافرمانی کا نتیجہ نہیں :- مسئلہ : ابلیس کا کفر محض عملی نافرمانی کا نتیجہ نہیں کیونکہ کسی فرض کو عملاً ترک کردینا اصول شریعت میں فسق و گناہ ہے کفر نہیں ابلیس کے کفر کا اصل سبب حکم ربانی سے معارضہ اور مقابلہ کرنا ہے کہ آپ نے جس کو سجدہ کرنے کا مجھے حکم دیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ میں اس کو سجدہ کروں یہ معارضہ بلاشبہ کفر ہے،- ابلیس کو طاؤس الملائکہ کہا جاتا تھا :- مسئلہ : یہ بات قابل غور ہے کہ ابلیس علم و معرفت میں یہ مقام رکھتا تھا کہ اس کو طاؤس الملائکہ کہا جاتا تھا پھر اس سے یہ حرکت کیسے صادر ہوئی ؟ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کے تکبر کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی دی ہوئی معرفت اور علم وفہم کی دولت سلب کرلی اس لئے ایسی جہالت کا کام کر بیٹھا بعض نے فرمایا کہ حب جاہ اور خود پسندی نے حقیقت شناسی کے باوجود اس بلا میں مبتلا کردیا تفسیر روح المعانی میں اس جگہ ایک شعر نقل کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعض اوقات کسی گناہ کے وبال سے تائید حق انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو اس کی ہر کوشش اور عمل اس کو گمراہی کی طرف دھکیل دیتا ہے شعر یہ ہے،- اذا لم یکن عون من اللہ للفتٰی - فاول ما یجنی علیہ اجتہادہ - روح المعانی میں اس سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انسان کا ایمان وہی معتبر ہے جو آخر عمر اور اول منازل آخرت تک ساتھ رہے موجودہ ایمان وعمل اور علم و معرفت پر غرہ نہ ہونا چاہئے (روح )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۝ ٠ ۭ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ۝ ٠ ۤۡوَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٣٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- لام - اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه :- الأول :- الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع .- الثاني : للملک والاستحقاق،- ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان :- ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ.- وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله :- لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل :- قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى»- في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ .- الثالث : لَامُ الابتداء .- نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] .- الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم .- الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية- نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] .- السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم .- نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم .- السابع : اللَّامُ في خبر لو - : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک .- الثامن : لَامُ المدعوّ ،- ويكون مفتوحا، نحو :- يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید .- التاسع : لَامُ الأمر،- وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] ، وقرئ :- ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] .- ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ - اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔- (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے - (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے - اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔- میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔- (3) لا ابتداء جیسے - فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ - (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔- یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔- ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔- جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔- ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے - جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔- ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے - مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ - ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے - جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔- فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی:- أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س )- الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ - أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

غیر اللہ کو سجدہ کرنا - قول باری ہے : واذ قلنا للملٓئکۃ اسجدوالا دم فسجدوا (اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا) شعبہ نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دراصل فرشتوں نے اللہ کی اطاعت کی تھی۔ اللہ ہی نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مسحور ملائکہ ہونے کا اعزاز بخشا تھا۔ معمر نے قتادہ سے قول باری : وخروالہ سجداً (اور اس کے سامنے سجدے میں گرپڑے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ برادران یوسف (علیہ السلام) کی تحیت یعنی سلام کرنے کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اس مقصد کے لئے سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔- اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کا سجدہ دراصل اللہ کی عبادت اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے اعزاز اور ان کے حق میں تحیت کی صورت تھی۔ یہی بات برادران یوسف (علیہ السلام) کی سجدہ ریزی کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے عبادت جائز نہیں اور اعزاز و تحیت اس شخص کے لئے جائز ہے جو ایک گونہ تعظیم کا مستحق قرار پائے۔ اس سلسلے میں بعض حضرات کا قول ہے کہ فرشتوں نے سجدہ تو اللہ کو کیا تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) ان کے لئے بمنزلہ قبلہ تھے، لیکن یہ ایک کھوکھلی توجیہہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے کسی مزیت و فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا جبکہ زیر بحث آیت کا ظاہر اس امر کا مقتضی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم ہوئی تھی۔ اس بنا پر سجدہ کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے گا جس طرح حمد کے ظاہر لفظ کو اس صورت میں اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جب یہ لفظ حمد کے ظاہر لفظ کو اس صورت میں اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جب یہ لفظ حمد کے مستحق کے لئے واقع ہو اسے مجازی معنوں پر معمول نہیں کیا جائے گا جس طرح یہ فقرہ کہا جائے کہ ” اخلاق فلان محمودۃ “ (فلاح کے اخلاق محمود، یعنی قابل ستائش ہیں) یا ” اخلاق فلان مذمومۃ “ (فلاں کے اخلاق قابل مذمت ہیں) اس لئے کہ لفظ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اسے اس کی حقیقت اور اس کے باب پر مجہول کیا جائے۔ سجدے کا حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے اعزاز کے طور پر تھا، اس پر ابلیس کا وہ قول دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ان الفاظ میں کیا ہے : آ اسجد لمن خلقت طیناً ہ فال ارائیتک ھذا الذی کر مت علی (کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔ پھر وہ بولا :” دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی) ابلیس نے یہاں پر بتادیا کہ سجدہ کرنے سے اس کا باز رہنا اس بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر آدم (علیہ السلام) کی تفصیل اور ان کے اعزاز کا اظہار کردیا تھا۔ - اگر سجدے کا حکم اس بنا پر ہوتا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے والوں کے لئے بس قبلہ بنادیا گیا تھا اور اس میں ان کے اعزاز کی کوئی بات نہ ہوتی تو پھر اس صورت میں ابلیس کو ان سے اس فضیلت پر حسد کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوتی جس طرح کعبہ شریف کو قبلہ بنادیا گیا ہے اور اس میں کعبہ سے حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دراصل حضرت آدم (علیہ السلام) کی شریعت میں مخلوق کو سجدہ کرنا جائز تھا اور عین ممکن ہے کہ یہی صورت حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے تک باقی رہی ہو کہ جو شخص کسی قسم کی تعظیم کا مستحق ہو اس کے اعزاز اور عظمت کا اظہار کرنے کے لئے لوگ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہوں جس طرح ہمارے زمانے میں اس مقصد کے لئے مصافحہ اور معانقہ کرنے، نیز ہاتھوں کو بوسہ دینے کا رواج ہے۔- ہاتھوں کو بوسہ دینے کی اباحت کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی روایات منقول ہیں۔ اس بارے میں کراہت بھی مروی ہے ، البتہ ہماری شریعت میں غیر اللہ کو اعزاز اور تحیت کے طور پر سجدہ کرنا منسوخ ہوگیا ہے۔ اس منسوخی کی دلیل حضرت عائشہ، حضرت جابر اور انس سے مروی حدیث ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کسی بشر کو کسی بشر کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ اگر کسی بشر کے لئے کسی بشر کو سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں بیوی پر اس کے شوہر کے حق کی عظمت کی بنا پر اسے اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا۔ “(یہ الفاظ حضرت انس (رض) کی روایت کردہ حدیث کے ہیں۔ )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) یقیناً ہم نے فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے لئے تعظیمی سجدہ کرنے کا حکم دیا مگر شیطان ابلیس نے حکم الہی کو نہ مانا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کیا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور شیطان اس کے بعد حکم الہی کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے کافروں میں شمار ہونے لگا اور یہ بھی تفسیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہی یہ بات تھی کہ وہ کافروں میں سے ہے۔ یا یہ کہ سب سے پہلا کافر شیطان بنا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَط - یہاں ایک بات تو یہ سمجھئے کہ آدم ( علیہ السلام) ‘ کو تمام ملائکہ کے سجدے کی ضرورت کیا تھی ؟ کیا یہ صرف تعظیماً تھا ؟ اور اگر تعظیماً تھا تو کیا آدم خاکی کی تعظیم مقصود تھی یا کسی اور شے کی تعظیم تھی ؟ مکی سورتوں میں یہ بات دو جگہ بایں الفاظ واضح کی گئی ہے : (فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ ) (الحجر : ٢٩ و صٓ: ٧٢) ” پھر جب میں اس (آدم) کی تخلیق مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گرپڑنا اس کے سامنے سجدے میں “۔ چناچہ تعظیم اگر ہے تو آدم خاکی کی نہیں ہے ‘ اس کے اندر موجود ” روحِ رّبانی “ کی ہے ‘ جو ایک یا ہے ‘ جسے خود خالق نے ” مِنْ رُّوْحِیْ “ سے تعبیر فرمایا ہے۔ - دوسرے یہ کہ اس سجدے کی حکمت کیا ہے ؟ اس کی علت اور غرض وغایت کیا ہے ؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ اس کائنات یعنی اس آفاقی حکومت کے کارندے تو فرشتے ہیں اور خلیفہ بنایا جا رہا ہے انسان کو۔ لہٰذا جب تک یہ ساری سول سروس اس کے تابع نہ ہو وہ خلافت کیسے کرے گا جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کوئی فعل کرنا چاہتے ہیں تو اس فعل کے پورا ہونے میں ‘ اس کے ظہور پذیر ہونے میں نمعلوم کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور فطرت کی کون کون سی قوتیں ( ) ہمارے ساتھ موافقت کرتی ہیں تو ہم وہ کام کرسکتے ہیں ‘ اور ان سب پر فرشتے مأمور ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اقلیم ( ) ہے۔ اگر وہ انسان کے تابع نہ ہوں تو خلافت کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اسے خلافت دی گئی ہے ‘ یہ جدھر جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ چوری کے لیے نکلا ہے نکلنے دو ۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے اس کے استعمال میں یہ تمام قوتیں اس کے ساتھ موافقت کرتی ہیں تب ہی اس کا کوئی ارادہ ‘ خواہ اچھا ہو یا برا ‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اس موافقت کی علامت کے طور پر تمام فرشتوں کو انسان کے آگے جھکا دیا گیا۔- اس آیت میں ” اِلَّآ اِبْلِیْسَ “ (سوائے ابلیس کے) سے یہ مغالطہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید ابلیس بھی فرشتہ تھا۔ اس لیے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ اس مغالطے کا ازالہ سورة الکہف میں کردیا گیا جو سورة البقرۃ سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : (کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ط) (آیت ٥٠) ” وہ جنوں میں سے تھا ‘ پس اس نے سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے “۔ فرشتوں میں سے ہوتا تو نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔ فرشتوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ) (التحریم) ” وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں “۔ جناتّ بھی انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے ایمان و کفر اور طاعت و معصیت دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ چناچہ جنات میں نیک بھی ہیں بد بھی ہیں ‘ اعلیٰ بھی ہیں ادنیٰ بھی ہیں ‘ جیسے انسانوں میں ہیں۔ لیکن یہ ” عزازیل “ جو جن تھا ‘ علم اور عبادت دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہوگیا تھا اور فرشتوں کا ہم نشین تھا۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اس طور پر شامل تھا جیسے بہت سے انسان بھی اگر اپنی بندگی میں ‘ زُہد میں ‘ نیکی میں ترقی کریں تو ان کا عالم ارواح کے ساتھ ‘ عالم ملائکہ کے ساتھ اور ملأ اعلیٰ کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح عزازیل بھی جن ہونے کے باوجود اپنی نیکی ‘ عبادت ‘ پارسائی اور اپنے علم میں فرشتوں سے بہت آگے تھا ‘ اس لیے ” مُعَلِّمُ الْمَلَکوت “ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا اور اسے اپنی اس حیثیت کا بڑازعم تھا۔- جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ قرآن حکیم میں قصۂ آدم و ابلیس کے ضمن میں یہ بات سات مرتبہ آئی ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ سب جھک گئے مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا۔ آیات زیر مطالعہ میں قصہ آدم و ابلیس ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ اگرچہ مصحف میں یہ پہلی مرتبہ آرہا ہے لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہاں ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ آدم و ابلیس کا یہ قصہ سورة البقرۃ کے بعد سورة الاعراف میں ‘ پھر سورة الحجر میں ‘ پھر سورة بنی اسرائیل میں ‘ پھر سورة الکہف میں ‘ پھر سورة طٰہٰ میں اور پھر سورة صٓ میں آئے گا۔ یعنی یہ قصہ قرآن حکیم میں چھ مرتبہ مکی سورتوں میں آیا ہے اور ایک مرتبہ مدنی سورت سورة البقرۃ میں۔ - ابلیس کا اصل نام ” عزازیل “ تھا ‘ ابلیس اب اس کا صفاتی نام ہے۔ اس لیے کہ اَبْلَسَ ‘ یُبْلِسُ کے معنی ہوتے ہیں مایوس ہوجانا۔ یہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہے اور جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے وہ شیطان ہوجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب میرا تو چھٹکارا نہیں ہے ‘ میری تو عاقبت خراب ہو ہی چکی ہے ‘ لہٰذا میں اپنے ساتھ اور جتنوں کو برباد کرسکتا ہوں کرلوں۔ ع ” ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے “ اب وہ شیطان اس معنی میں ہے کہ انسان کی عداوت اس کی گھٹی میں پڑگئی۔ اس نے اللہ سے اجازت بھی لے لی کہ مجھے مہلت دے دے قیامت کے دن تک کے لیے (اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ) تو میں ثابت کر دوں گا کہ یہ آدم اس رتبے کا حق دار نہ تھا جو اسے دیا گیا۔ (اَبٰی وَاسْتَکْبَرَز) - قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : (اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) (الاعراف : ١٢ و صٓ: ٧٦) ” میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے گارے سے بنایا “۔ درحقیقت یہی وہ تکبرّ ہے جس نے اسے راندۂ درگاہِ حق کردیا ؂- تکبر عزازیل را خوار کرد کہ در طوق لعنت گرفتار کرد - (وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ) ۔ یا ” اور تھا وہ کافروں میں سے۔ “ - کَانَعربی زبان میں دو طرح کا ہوتا ہے : ” تامہ “ اور ” ناقصہ “۔ کَانَناقصہ کے اعتبار سے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اپنے اس استکبار اور انکار کی وجہ سے وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ جبکہ کان تامہّ کے اعتبار سے یہ معنی ہوں گے کہ وہ تھا ہی کافروں میں سے۔ یعنی اس کے اندر سرکشی چھپی ہوئی تھی ‘ اب ظاہر ہوگئی۔ ایسا معاملہ کبھی ہمارے مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ کسی شخص کی بدنیتی پر نیکی اور زہد کے پردے پڑے رہتے ہیں اور کسی خاص وقت میں آکر وہ ننگا ہوجاتا ہے اور اس کی باطنی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :45 “اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں ، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہوجانے کا حکم دیا گیا ۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جارہا تھا ، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط ، جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو ، جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں ، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کر لینے کا موقع دے دیں ، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل سے وہ کام متعلق ہو ، وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے ۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے ، نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے ، دونوں صُورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اِذن دے رہے ہیں ، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی ۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرمانروا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صُو بے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے ، تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں ، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں ، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے ، اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں ، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں ۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرمانروا کا اشارہ ہوجائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے ، تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور انہیں ایسا محسُوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کر دی ہے ۔ حتّٰی کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزُولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے ، تو وہی ماتحت و خُدّام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے ، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑ یاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دارُالفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں ۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجُود ہوجانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی ۔ ممکن ہے کہ صرف مسخّر ہوجانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو ، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :46 اِبْلِیسْ: لفظی ترجمہ” انتہائی مایوس“ ۔ اصطلاحاً یہ اس جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسلِ انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے ۔ اسی کو ”الشَیْطَان“ بھی کہا جاتا ہے ۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس بھی محض کسی مجرّد قوت کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحب تشخّص ہستی ہے ۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا ۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کر دی ہے کہ وہ جِنّوں میں سے تھا ، جو فرشتوں سے الگ ، مخلوقات کی ایک مستقل صِنف ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :47 اِن الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا ، بلکہ جِنّوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا ۔ لیکن اس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” وہ کافروں میں سے تھا“ ۔ اس صُورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جِنّوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی ، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا ۔ قرآن میں بالعموم ”شیاطین“ کا لفظ اِنہی جِنّوں اور ان کی ذرّیّت ( نسل ) کے لیے استعمال ہوا ہے ، اور جہاں شیاطین سے مراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو ، وہاں یہی شیاطینِ جن مراد ہوتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

31 : فرشتوں کے سامنے آدم علیہ السلام کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا، بعد میں تعظیم کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کردی جائیں، تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔ 32: اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا، مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں، لہٰذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی۔ لیکن جیسا کہ خود قرآنِ کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے، وہ اﷲ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں، میں اسے کیوں سجدہ کروں؟ (قرآنِ کریم، سورۂ اعراف ۷: ۱۲) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اور دوسرا سبق یہ کہ جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آجائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دِل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے