بنی اسرائیل سے خطاب ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو ۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو ۔ تمہیں چاہیے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو ۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو ۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے ۔ آیت ( ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا ) 17 ۔ الاسرآء:3 ) یعنی ہمارے شکر گزار بندے حضرت نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل حضرت یعقوب کا نام تھا کا وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ ۔ اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں ۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا ۔ من و سلوی اتارنا ۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا ۔ انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا ۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ کی ذات پر ایمان لانا ۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا ۔ دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت ( ۭوَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا ) 5 ۔ المائدہ:12 ) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے زکوٰۃ رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا ۔ حضرت امام رازی نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا ۔ اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں ۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے ۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی ۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی ۔ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں ، جو بشیر ہیں ، جو نذیر ہیں ، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لئے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو بعض کہتے ہیں بہ کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے بما انزلت اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں ۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے ۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے ۔ لہذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لئے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا ۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ سنن ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوئی ہے اس لئے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں ۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی ، امام احمد اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا حدیث ( ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ) یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث ( زوجتکھا بما معک من القران ) میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مر یاد کرا دے ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ حضرت ابی بن کعب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے ۔ ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلاشک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہو چکا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے ۔ غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں ۔
40۔ 1 اسرا ئِیْلُ (بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔
[٥٩] بنی اسرائیل سے خطاب کا آغاز :۔ یہاں سے خطاب کا رخ عوام الناس کے بجائے بنی اسرائیل کی طرف ہوگیا ہے جو چودھویں رکوع تک چلتا ہے۔ یہود مدینہ میں بکثرت آباد تھے۔ چونکہ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) سے لے کر ان میں تقریباً چار ہزار نبی آچکے تھے۔ اس لیے تمام عرب پر ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے بیشمار انعامات کئے تھے۔ مگر کچھ مدت گزرنے پر ان میں بہت سے عیوب پیدا ہوگئے تھے اپنے اس علمی تفوق کی بنا پر اور اس حسد کی بنا پر کہ آنے والا نبی اسحاق کی اولاد سے نہیں، انہوں نے دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چناچہ اگلی آیات میں ان کا مفصل ذکر آ رہا ہے۔- اسرائیل کا معنی عبداللہ ہے اور یہ یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا اور بنو اسرائیل سے مراد ان کی اولاد یا یہودی قوم ہے۔ جن کے لیے تورات نازل ہوئی۔- [٦٠] بنی اسرائیل کا کتاب اللہ سے سلوک :۔ وہ عہد یہ تھا کہ تم تورات کے احکام کے پابند رہو گے اور میں جو پیغمبر بھیجوں اس پر ایمان لا کر اس کا ساتھ دو گے اور اللہ کا عہد یہ تھا کہ ملک شام تمہارے قبضہ میں رہے گا۔ بنی اسرائیل نے اس اقرار کو قبول تو کرلیا مگر بعد میں اس پر قائم نہ رہے، بدنیتی کی، رشوت لے کر غلط مسئلے بتائے، حق کو چھپایا۔ آنے والے نبیوں کی اطاعت کے بجائے ان میں سے بعض کو قتل ہی کر ڈالا اور اپنی ریاست جمائی اور تورات میں جہاں کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توصیف تھی اسے بھی بدل ڈالا۔
اس سے پہلے ” يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ “ کے ساتھ تمام لوگوں کو دعوت تھی، اب بنی اسرائیل کو خصوصی خطاب ہے، کیونکہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ حق ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں۔ یہ خطاب کبھی انعامات یاد دلا کر ہے جو ان پر کیے گئے، کبھی ان کی بد اعمالیوں پر ڈانٹ کے ساتھ ہے اور کبھی ان سزاؤں کے ذکر کے ساتھ ہے جو ان کی نافرمانیوں پر انھیں دی گئیں۔ یہاں سے لے کر آیت ایک سو سینتالیس تک ان پر دس انعامات، ان کی دس بد اعمالیوں اور انھیں دی جانے والی دس سزاؤں کا ذکر ہے۔ ( التسہیل )- اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام یا لقب ہے، جس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ۔ اس لیے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل میں پہلے پیغمبر یوسف (علیہ السلام) اور آخری پیغمبر عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ (قرطبی)- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے بنی اسرائیل کو یہ چیزیں یاد دلائی گئیں، حالانکہ یہ سب کچھ پہلے بنی اسرائیل پر گزرا تھا، کیونکہ ان کے بزرگوں پر انعام ان پر بھی انعام تھا اور وہ اب بھی اپنے بزرگوں کی بد عادتوں میں ان کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ گزشتہ بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ آپ کے زمانے میں موجود بنی اسرائیل کے اعمال بد کا بھی ذکر فرمایا، مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود کفر، کتاب اللہ کی تحریف، جبریل (علیہ السلام) سے عداوت، جادو کرنا، ایک دوسرے کو قتل کرنا وغیرہ۔ بنی اسرائیل کے احوال اتنی تفصیل سے ذکر فرمانے سے یہ بھی مقصود ہے کہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بد اعمالیوں سے بچے اور ان کے نتائج سے ڈرتی رہے۔ - نِعْمَتِىَ ) اگرچہ یہ لفظ واحد ہے، مگر جنس مراد ہے، جس میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ - (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ) یہاں اس عہد کی تفصیل بیان نہیں فرمائی، سورة مائدہ (١٢) میں اس عہد کی تفصیل موجود ہے۔ اس کے مطابق ان کا اللہ تعالیٰ سے عہد یہ تھا کہ تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے اور میرے رسولوں پر (جن میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شامل ہیں) ایمان لاؤ گے، ان کی مدد کرو گے اور اللہ کو اچھا قرض دو گے اور اللہ کا ان سے عہد یہ تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور تم سے تمہارے گناہ دور کروں گا اور تمہیں جنتوں میں داخل کروں گا۔ - (وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ) کا معنی ” خاص مجھ سے “ ہے۔ ” َ فَارْھَبُوْنِ “ اصل میں ” فَارْہَبُوْنِیْ “ تھا۔ ” یاء “ حذف ہوگئی، اس کا معنی بھی مجھ سے ڈرو ہے۔ خاص مجھ سے کے بعد دوبارہ ” مجھ سے ڈرو “ کی وجہ سے ” خاص مجھی سے ڈرو۔ “ ترجمہ کیا گیا ہے، ورنہ خاص کے بعد ” مجھ “ کا لفظ کافی تھی، مجھی کی ضرورت نہ تھی۔
خلاصہ تفسیر :- اے بنی اسرائیل (یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد) یاد کرو تم لوگ میرے ان احسانوں کو جو کئے ہیں میں نے تم پر (تاکہ حق نعمت سمجھ کر ایمان لانا تمہارے لئے آسان ہوجائے، آگے اس یاد کرنے کی مراد بتلاتے ہیں) اور پورا کرو تم میرے عہد کو (یعنی تم نے جو تورات میں مجھ سے عہد کیا تھا جس کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے، وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا (١٢: ٥) پورا کروں گا میں تمہارے عہد کو (یعنی میں نے جو عہد تم سے کیا تھا ایمان لانے پر جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ اور صرف مجھ ہی سے ڈرو (اپنے عوام معتقدین سے نہ ڈرو کہ ان کا اعتقاد نہ رہے گا اور ان سے آمدنی بند ہوجاوے گی) اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے (یعنی قرآن پر) ایسی حالت میں کہ وہ سچ بتلانے والی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے (یعنی تورات کے کتاب الہی ہونے کی تصدیق کرتی ہے اور جو اس میں تحریفات کی گئی ہیں وہ خود تورات و انجیل ہونے ہی سے خارج ہیں ان کی تصدیق اس سے لازم نہیں آتی) اور مت بنو تم پہلے انکار کرنے والے اس قرآن کے (یعنی تمہیں دیکھ کر جو دوسرے لوگ انکار کریں گے ان سب میں اول بانی انکار و کفر کے تم ہوگے اس لئے قیامت تک ان کے کفر و انکار کا وبال تمہارے نامہ اعمال میں ہی درج ہوتا رہے گا) اور مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیر اور خاص مجھ ہی سے پورے طور پر ڈرو (یعنی میرے احکام چھوڑ کر یا ان کو بدل کر یا چھپا کر عوام الناس سے دنیائے ذلیل و قلیل کو وصول مت کرو جیسا کہ ان کو عادت تھی جس کی تصریح آگے آتی ہے وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ اور مخلوط مت کرو حق کو ناحق کے ساتھ اور پوشیدہ بھی مت کرو حق کو جس حالت میں کہ تم جانتے بھی ہو (کہ حق کو چھپانا بری بات ہے) - معارف و مسائل :- ربط آیات :- سورة بقرہ قرآن کے ذکر سے شروع کی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ قرآن کی ہدایت اگرچہ ساری مخلوق کے لئے عام ہے مگر اس سے نفع صرف مؤمنین اٹھائیں گے اس کے بعد ان لوگوں کے عذاب شدید کا ذکر فرمایا جو اس پر ایمان نہیں لائے ان میں ایک طبقہ کھلے کافروں اور منکروں کا تھا دوسرا منافقین کا دونوں کا مع ان کے کچھ حالات اور غلط کاریوں کا ذکر کیا گیا اس کے بعد مؤمنین مشرکین، منافقین کے تینوں طبقوں کو خطاب کرکے سب کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تاکید کی گئی اور قرآن مجید کے اعجاز کا ذکر کرکے سب کو دعوت ایمان دی گئی پھر تخلیق آدم (علیہ السلام) کا ذکر کرکے ان پر ان کی اصلیت اور حقیقت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ واضح کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی ترغیب اور نافرمانی سے بچنے کی فکر ہو،- پھر کفار کی دو جماعتیں جن کا ذکر اوپر آیا ہے کھلے کافر اور منافق ان دونوں میں دو طرح کے لوگ تھے ایک تو بت پرست مشرکین جو محض باپ دادوں کی رسوم کی پیروی کرتے تھے کوئی علم قدیم یا جدید ان کے پاس نہ تھا عام طور پر ان پڑھ امی تھے جیسے عام اہل مکہ اسی لئے قرآن میں ان لوگوں کو امیین کہا گیا ہے - دوسرے وہ لوگ تھے جو انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لائے اور پہلی کتابوں تورات و انجیل وغیرہ کا علم ان کے پاس تھا لکھے پڑھے لوگ کہلاتے تھے ان میں بعض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے تھے عیسیٰ (علیہ السلام) پر نہیں ان کو یہود کہا جاتا تھا اور بعض موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے تھے حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کو بحیثیت نبی معصوم نہیں مانتے تھے یہ نصاریٰ کہلاتے تھے ان دونوں کو قرآن میں اس بناء پر اہل کتاب کہا گیا ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتاب تورات یا انجیل پر ایمان رکھتے تھے یہ لوگ لکھے پڑھے اہل علم ہونے کہ وجہ سے لوگوں کی نظر میں معزز اور قابل اعتماد مانے جاتے تھے ان کی بات ان پر اثر انداز ہوتی تھی یہ راستے پر آجائیں تو دوسروں کے مسلمان ہونے کی توقع بڑی تھی مدینہ طیبہ اور اس کے قرب و جوار میں ان لوگوں کی کثرت تھی،- سورة بقرہ چونکہ مدنی سورت ہے اس لئے اس میں مشرکین و منافقین کے بیان کے بعد اہل کتاب کو خصوصیت اور اہتمام کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے چالیسویں آیت سے شروع ہو کر ایک سو تئیس آیات آخر پارہ (الۗمّۗ) تک انہیں لوگوں سے خطاب ہے جس میں ان کو مانوس کرنے کے لئے اوّل ان کی خاندانی شرافت اور اس سے دنیا میں حاصل ہونے والے اعزاز کا پھر اللہ تعالیٰ کی مسلسل نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے پھر ان کی بےراہی اور غلط کاری پر متنبہ کیا گیا اور صحیح راستہ کی طرف دعوت دی گئی ان میں سے پہلی سات آیتوں میں اجمالی خطاب ہے جن میں تین میں دعوت ایمان اور چار میں اعمال صالحہ کی تلقین ہے اس کے بعد بڑی تفصیل سے ان کو خطاب کیا گیا تفصیلی خطاب کے شروع میں اور بالکل ختم پر پھر اہتمام کے لئے يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فرما کر انھیں الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جن سے شروع کیا گیا تھا ؛ جیسا کہ کلام کو موثر اور وقیع بنانے کے لئے ایسا کرنے کا دستور ہے،- (يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ) اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی عبداللہ ہیں یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام ہے بعض علماء نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور نبی کے نام متعدد نہیں ہیں صرف حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دو نام ہیں یعقوب اور اسرائیل، قرآن میں اس جگہ ان کو نبی یعقوب کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ دوسرے نام اسرائیل کا استعمال کیا اس میں حکمت یہ ہے کہ خود اپنے لقب اور نام ہی سے ان کو معلوم ہوجائے کہ ہم عبداللہ یعنی اللہ کے عبادت گذار بندے کی اولاد ہیں ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اس آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ پورا کرو تم میرے عہد کو یعنی تم نے مجھ سے عہد کیا تھا توریت میں جس کا بیان بقول قتادہ و مجاہد اس آیت میں ہے : وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا (پارہ ٦ سورة مائدہ، آیت نمبر ١٢) اس میں سب سے اہم معاہدہ تمام رسولوں پر ایمان لانے کا شامل ہے جن میں ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خصوصیت سے داخل ہیں نیز نماز، زکوٰۃ، اور صدقات بھی اس عہد میں شامل ہیں جس کا خلاصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور آپ کا مکمل اتباع ہے اسی لئے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع ہے (ابن جریر بسند صحیح) - پورا کروں گا میں تمہارے عہد کو یعنی اسی آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور جنت میں داخل کیا جائے گا تو حسب وعدہ ان لوگوں کو جنت کی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا،- خلاصہ یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل تم میرا عہد محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا پورا کرو تو میں اپنا عہد تمہاری مغفرت اور جنت کا پورا کردوں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرو اور عوام الناس معتقدین سے نہ ڈرو کہ ان کی منشاء کے خلاف کلمہ حق کہیں گے تو وہ معتقد نہ رہیں گے آمدنی بند ہوجائے گی۔- (١) امت محمدیہ کی ایک خاص فضیلت :- تفسیر قرطبی میں ہے کہ اللہ جل شانہ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں اور احسانات یاد دلا کر اپنی یاد اور اطاعت کی طرف دعوت دی ہے اور امت محمدیہ کو جب اسی کام کے لئے دعوت دی تو احسانات و انعامات کے ذکر کے بغیر فرمایا فاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ یعنی تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اس میں امت محمدی کی خاص فضیلت کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا تعلق محسن ومنعم سے بلا واسطہ ہے یہ محسن کو پہچان کر احسان کر کے پہچانتے ہیں بخلاف دوسری امتوں کے کہ وہ احسانات کے ذریعہ محسن کو پہچانتے ہیں، - (٢) ایفائے عہد واجب اور عہد شکنی حرام ہے :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ عہد ومعاہدے کو پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے سورة مائدہ کی پہلی آیت میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مضمون آیا ہے : اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عہد شکنی کرنے والوں کو جو سزا آخرت میں ملے گی اس سے پہلے ہی ایک سزا یہ دی جائے گی کہ محشر کے میدان میں جہاں تمام اولین وآخرین کا اجتماع ہوگا عہد شکنی کرنے والے پر ایک جھنڈا بطور علامت کے لگا دیا جائے گا اور جیسی بڑی عہد شکنی کی ہے اتنا ہی یہ جھنڈا بلند ہوگا اس طرح ان کو میدان حشر میں رسوا اور شرمندہ کیا جائے گا (صحیح مسلم عن سعید) - (٣) جو شخص کسی گناہ یا ثواب کا سبب بنتا ہے اس پر بھی کرنے والوں کا گناہ یا ثواب لکھا جاتا ہے
رکوع نمبر 5- يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ ٠ ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ٤٠- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .- (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- وفی - وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] - ( و ف ی) الوافی - اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں - عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔
اب یہاں سے بنی اسرائیل سے خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ خطاب پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ مسلسل دس رکوعات پر محیط ہے۔ البتہ ان میں ایک تقسیم ہے۔ پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ اور جب کسی گروہ کو دعوت دی جاتی ہے تو تشویق و ترغیب ‘ دلجوئی اور نرمی کا انداز اختیار کیا جاتا ہے ‘ جو دعوت کے اجزاء لاینفک ہیں۔ اس انداز کے بغیر دعوت مؤثرّ نہیں ہوتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ سات آیات (پانچواں رکوع) ان دس رکوعوں کے لیے بمنزلۂ فاتحہ ہیں۔ بنی اسرائیل کی حیثیت سابقہ امت مسلمہ کی تھی ‘ جن کو یہاں دعوت دی جا رہی ہے۔ وہ بھی مسلمان ہی تھے ‘ لیکن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے کافر ہوگئے۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے ‘ شریعت ان کے پاس تھی ‘ بڑے بڑے علماء ان میں تھے ‘ علم کا چرچا ان میں تھا۔ غرضیکہ سب کچھ تھا۔ یہاں ان کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آج مسلمانوں میں ‘ جو اپنی حقیقت کو بھول گئے ہیں ‘ اپنے فرض منصبی سے غافل ہوگئے ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ‘ اگر کوئی ایک داعی گروہ کھڑا ہو تو ظاہر بات ہے سب سے پہلے اسے اسی امت کو دعوت دینی ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا تو اسلام کو اسی امت کے حوالے سے پہچانے گی ( ) ۔ پہلے یہ خود ٹھیک ہو اور صحیح اسلام کا نمونہ پیش کرے تو دنیا کو دعوت دے سکے گی کہ آؤ دیکھو یہ ہے اسلام چناچہ ان کو دعوت دینے کا جو اسلوب ہونا چاہیے وہ اس اسلوب کا عکس ہوگا جو ان سات آیات میں ہمارے سامنے آئے گا۔- آیت ٤٠ (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ) - ” بنی اسرائیل “ کی ترکیب کو سمجھ لیجیے کہ یہ مرکب اضافی ہے۔ ” اسر “ کا معنی ہے بندہ یا غلام۔ اسی سے ” اسیر “ بنا ہے جو کسی کا قیدی ہوتا ہے۔ اور لفظ ” ئیل “ عبرانی میں اللہ کے لیے آتا ہے۔ چناچہ اسرائیل کا ترجمہ ہوگا ” عبداللہ “ یعنی اللہ کا غلام ‘ اللہ کی اطاعت کے قلادے کے اندر بندھا ہوا۔ ” اسرائیل “ لقب ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ ان ہی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور انہیں تورات دی گئی۔ پھر یہ ایک بہت بڑی امت بنے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت تک ان پر عروج وزوال کے چار ادوار آ چکے تھے۔ دو مرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا ‘ جبکہ دو مرتبہ دنیا پرستی ‘ شہوت پرستی اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دینے کی سزا میں ان پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے۔ اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آئے گا۔ اس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا وہ اپنے اس زوال کے دور میں تھے۔ حال یہ تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہی ان کا - ” معبد ثانی “ ( ) بھی منہدم کیا جا چکا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو ہیکل سلیمانی بنایا تھا ‘ جس کو یہ ” معبدِ اوّل “ ( ) کہتے ہیں ‘ اسے بخت نصر ( ) نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) سے بھی چھ سو سال پہلے گرا دیا تھا۔ اسے انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ” معبد ثانی “ کہلاتا تھا۔ لیکن ٧٠ عیسوی میں محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ‘ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو ” معبد ثانی “ انہوں نے تعمیر کیا تھا اسے بھی مسمار کردیا ‘ جو اب تک گرا پڑا ہے ‘ صرف ایک دیوار گریہ ( ) باقی ہے جس کے پاس جا کر یہودی ماتم اور گریہ وزاری کرلیتے ہیں ‘ اور اب وہ اسے سہ بارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کے ” معبد ثالث “ ( ) کے نقشے بن چکے ہیں ‘ اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہوچکا ہے۔ بہرحال جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت یہ بہت ہی پستی میں تھے۔ اس وقت ان سے فرمایا گیا : ” اے بنی اسرائیل ذرا یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھا “۔ وہ انعام کیا ہے ؟ میں نے تم کو اپنی کتاب دی ‘ نبوت سے سرفراز فرمایا ‘ اپنی شریعت تمہیں عطا فرمائی۔ تمہارے اندر داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) جیسے بادشاہ اٹھائے ‘ جو بادشاہ بھی تھے ‘ نبی بھی تھے۔ - (وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ج) - بنی اسرائیل سے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ تورات میں کتاب استثناء یا سفر استثناء ( ) کے اٹھارہویں باب کی آیات ١٨۔ ١٩ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے : - ” میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ‘ نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ “- یہ گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کو بتایا جا رہا تھا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور تمہیں ان کی نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہاں فرمایا کہ تم میرا عہد پورا کرو ‘ میرے اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو تسلیم کرو ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدا پر لبیک کہو تو میرے انعام و اکرام مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔- (وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ )
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :56 اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ، جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا ۔ وہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے تھے ۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی ، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا ۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے ان لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے ۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیشِ نظر رکھنا چاہیے: اوّلاً ، اس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاح کا عنصر موجود ہے ، اُنہیں اس صداقت پر ایمان لانے اور اس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد علیہ السلام اُٹھائے گئے تھے ۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے ۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو ۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے ، خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے ۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے ۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے ۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے ، تمہاری اپنی چیز ہے ۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو ، بلکہ اسے قبول کر لو ۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا ، مگر تم نے نہ کیا ، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں ، ان کا ساتھ دو ۔ ثانیاً ، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے ۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ وہی دین ہے ، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے ۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے ، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو ۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں ، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بری طرح ناکام ہوئے ہو ۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے ۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں ، وسوسہ اندازیوں ، کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے ، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے ، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے ، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی ، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پُھول سکے ۔ اس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا ، اس کی آنکھیں کُھل گئیں ، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا ، وہ ختم ہو گیا ، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہوگئیں کہ وہ اس جُراٴت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو ۔ ثالثًا ، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوت عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا ، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے ۔ ہدایت الہٰی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں ۔ رابعًا ، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے ۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دین حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں ۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتّٰی کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں ، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے ۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا ، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے ۔
۳۷ ’’اسرائیل‘‘ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام ہے، ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی، بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا۔ لہٰذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر : ۳۴۱ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اﷲ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے۔ لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کی من مانی تأویلیں شروع کردیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا۔ چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہوجائیں، اس لئے ان دو آیتوں کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے، اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہئے۔