Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔ 41۔ 2 تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو : کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو ۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] عقائد، اخبار انبیاء اور احوال آخرت تمام الہامی کتابوں میں تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ فرق ہوتا ہے تو صرف بعض احکام میں جو احوال و ظروف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ لہذا قرآن جب تورات کی تصدیق کر رہا ہے تو اس کے پہلے منکر تم ہی نہ بن جاؤ۔ امی اہل عرب اور تمہاری اولاد تو تمہاری ہی روش پر چلیں گے۔ اس طرح سب کے گناہ کا حصہ تم پر بھی ہوگا۔ اور حدیث میں ہے کہ :- اہل کتاب کے ایمان لانے پر دوہرا اجر :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں کے لیے دوہرا ثواب ہے ایک تو وہ اہل کتاب جو اپنے پیغمبر پر ایمان لایا، پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا۔ دوسرے وہ غلام جو اللہ کا بھی حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا بھی، تیسرے وہ شخص جس کے پاس ایک لونڈی ہو جس سے وہ محبت کرتا ہو اسے اچھی طرح ادب سکھائے پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ عامر شعبی نے صالح سے کہا ہم نے یہ حدیث تمہیں مفت بتادی جبکہ لوگ اس سے کم درجہ کی حدیث کے لیے مدینہ جایا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب العلم، باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

سب سے پہلے کافر بننے سے مراد یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، تمہیں تو سب سے پہلے ایمان لانا چاہیے تھا۔ - اس کے برعکس اگر تم ان کے ساتھ کفر کرتے ہو تو تم پہلے کافر ہوئے جو جانتے بوجھتے ہوئے کفر کر رہے ہو، اپنے آپ پر یہ ظلم نہ کرو۔ اس سے پہلے مشرکین مکہ نے جو کفر کیا تھا وہ جہالت کی وجہ سے تھا۔ اس لیے اشکال لازم نہیں آتا کہ کفار مکہ نے ان سے پہلے کفر کیا تھا۔ ( بیضاوی )- (وَلَا تَشْتَرُوْا) اس سے مراد دنیاوی مفاد کے لیے آیات الٰہی کو چھپانا ہے۔ یہ مسلم قاعدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ دوسرے مقامات پر اللہ کی آیات کے بدلے کم قیمت خریدنے کا ذکر جہاں آیا ہے اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ اس سے کیا مراد ہے، چناچہ سورة بقرہ میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بالْهُدٰى وَالْعَذَاب بالْمَغْفِرَةِ ۚفَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ) [ البقرۃ : ١٧٤، ١٧٥ ] ” بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو اللہ نے کتاب میں سے اتارا ہے اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں یہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھا رہے اور نہ اللہ ان سے قیامت کے دن بات کرے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو بخشش کے بدلے خریدا، سو وہ آگ پر کس قدر صبر کرنے والے ہیں ؟ “ اور سورة آل عمران میں فرمایا : (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ للنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَـــنًا قَلِيْلًا ۭ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ ) [ آل عمران : ١٨٧ ] ” اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے تو انھوں نے اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ “ دنیا کی خاطر احکام الٰہی کو بدلنا بھی اس میں شامل ہے۔ وہ لوگ بھی اس میں داخل ہیں جو رشوت لے کر غلط فتویٰ دیتے ہیں۔ اس آیت کا تعلیم کتاب کی اجرت سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ یہ اجرت کسی غلط کام پر نہیں، بلکہ ایک نہایت پاکیزہ محنت پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا کِتَاب اللّٰہِ ) ” سب سے زیادہ حق چیز جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے۔ “ [ بخاری، کتاب الطب، باب الشروط فی الرقیۃ ۔۔ : ٥٧٣٧ ]” بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف دم کی اجرت ہے مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند سورتوں کی تعلیم کے بدلے ایک صحابی سے ایک خاتون کا نکاح کردیا تھا۔ [ بخاری، النکاح، باب التزویج علی القرآن ۔۔ : ٥١٤٩ عن سہل بن سعد (رض) ] وہاں دم کی تاویل کیسے ہوگی ؟ جن حضرات نے قرآن و حدیث کی تعلیم پر اجرت منع کی تھی، ان کے نام لیواؤں نے یہ کہہ کر تنخواہ لینا شروع کردی ہے کہ آج کل قرآن و حدیث کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے، ورنہ مدارس اور مساجد ویران ہوجائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل ہی نہیں ہمیشہ سے یہ اجرت حلال تھی، بلکہ بہترین محنت اور بہترین اجرت تھی اور ہے، اس کا قرآن بیچنے سے کوئی تعلق نہیں۔ - تھوڑی قیمت کا مطلب یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے لو، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آیات الٰہی کے بدلے میں پوری دنیا بھی ملے تو متاع قلیل ہے، فرمایا : (قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ) [ النساء : ٧٧ ] ” کہہ دو ، دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ ) کافر ہونا خواہ سب سے پہلے ہو یا بعد میں بہرحال انتہائی ظلم اور جرم ہے مگر اس آیت میں یہ فرمایا کہ پہلے کافر نہ بنو اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو شخص اول کفر اختیار کرے گا تو بعد میں اس کو دیکھ کر جو بھی کفر میں مبتلا ہوگا اس کا وبال جو اس شخص پر پڑے گا اس پہلے کافر پر بھی اس کا وبال آئے گا اس طرح یہ پہلا کافر اپنے کفر کے علاوہ بعد کے لوگوں کے کفر کا سبب بن کر ان سب کے وبال کفر کا بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اور اس کا عذاب چند ورچند ہوجائے گا۔- فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا میں دوسروں کے لئے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے مبتلائے گناہ ہوں گے ان سب کا گناہ ان لوگوں کو بھی ہوگا اور اس شخص کو بھی اسی طرح جو شخص دوسروں کے لئے کسی نیکی کا سبب بن جائے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے نیک عمل کریں گے اس کا ثواب جیسا ان لوگوں کو ملے گا ایسا ہی اس شخص کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متعدد احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے،- (٤) وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے میں قیمت لینے کی ممانعت کا مطلب وہ ہی ہے جو آیت کے سباق وسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی مرضی اور ان کی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کی آیات کا مطلب غلط بتلا کر یا چھپا کر لوگوں سے پیسے لئے جائیں یہ فعل باجماع امت حرام ہے،- (٥) تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے :- رہا یہ معاملہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات صحیح صحیح بتلا کر یا پڑھا کر اس کی اجرت لینا کیسا ہے ؟ اس کا تعلق آیت مذکورہ سے نہیں، خود یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل غور وبحث ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت و معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں فقہا امت کا اس میں اختلاف ہے امام مالک شافعی، احمد بن حنبل جائز قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ منع فرماتے ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو ذریعہ کسب معاش کا بنانے سے منع فرمایا ہے ،- لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گذارہ ملا کرتا تھا اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا یہ اگر آپ نے معاش کے لئے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں تو بچوں کو تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا کیونکہ وہ دن بھر کا مشغلہ چاہتا ہے اس لئے تعلیم قرآن پر تنخواہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا جیسا کہ صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ آج کل اسی پر فتویٰ دینا چاہئے کہ تعلیم قرآن پر اجرت وتنخواہ لینا جائز ہے صاحب ھدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہا نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے مثلاً امامت و اذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی بھی اجازت دی (درمختار، شامی) - (٦) ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن پر اجرت لینا باتفاق جائز نہیں :- علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی تفصیل اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین فقہاء نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کیلئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے کیونکہ اس پر کسی عام دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کر پڑہناحرام ہوا تو اس طرح پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گناہگار ہوئے اور جب پڑھنے والے ہی کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو وہ کیا پہنچائے گا علامہ شامی نے اس بات پر فقہاء کی بہت سی تصریحات تاج الشریعۃ، عینی شرح ہدایہ، حاشیہ خیر الدین بر بحر الرائق وغیرہ سے نقل کی ہیں اور خیر الدین رملی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ایصال ثواب کے لئے قبر پر قرآن پڑھوانا یا اجرت دے کر ختم قرآن کرانا صحابہ وتابعین اور اسلاف امت سے کہیں منقول نہیں اس لئے بدعت ہے (شامی ص ٤٧، ج ١)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍؚ بِہٖ۝ ٠ ۠ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰــتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ ۡ وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ۝ ٤١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : وامنوا بما انزلت مصدقاً لما معکم ولاتکونوا اول کافر بہ (اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو۔ یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جائو) ایک قول کے مطابق قول باری : ولاتکونوا اول کافربہ کا فائدہ یہ ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے اور سب سے آخر دونوں سے کفر کا صدور قبیح ہے اور سب کو اس سے روکا گیا ہے، تاہم کفر کے اندر سابق شخص کی پیروی دوسرے لوگ کریں گے جس کی بنا پر اس کا جرم اور گناہ دوسروں کے جرم اور گناہ سے بڑھ کر ہوگا۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ولیحملن اثقالھم و اتقا لا مع اثقالھم (اور یہ لوگ ضرور اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے اس بوجھ کے ساتھ دیگر بوجھ بھی اٹھائیں گے) نیز : من جل ذلک کتبنا علی بنی اسرآئیل انہ من قتل نفساً بغیر نفس او فساد فی الارض فکا نما قتل الناس جمیعاً (اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آدم کے قاتل بیٹے پر ظلماً قتل ہونے والے ہر مقتول کے قاتل کے گناہ کا ایک حصہ ہ وگا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کرنے کی رسم جاری کی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” جو شخص نیکی کی کوئی رسم جاری رکے گا اسے اس کا اجر ملے گا، نیز ان تمام لوگوں کا بھی اجر اسے ملے گا جو قیامت تک اس پر عمل کرتے جائیں گے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١) باطل کو حق کے ساتھ نہ ملاؤ کہ دجال کی صفت کو العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت کے ساتھ مخلوط کرنے لگو اور تم اپنے پوشیدہ کرنے کو جانتے ہوئے حق بات کو مت چھپاؤ۔ (اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ ) ” - ان الفاظ کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایمان لاؤ اس قرآن پر جو تصدیق کرتا ہے تورات کی اور انجیل کی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ ج) (المائدۃ : ٤٤) ” ہم نے نازل کی تورات جس میں ہدایت اور روشنی تھی “۔ (وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ) (المائدۃ : ٤٦) ” اور ہم نے اس (عیسیٰ ( (علیہ السلام) ) کو دی انجیل جس میں ہدایت اور روشنی تھی “۔ اور دوسرے یہ کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پیشین گوئیوں کے مصداق بن کر آئے ہیں جو تورات میں تھیں۔ ورنہ وہ پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتیں۔ - (وَلاَ تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖص) - یعنی قرآن کی دیدہ و دانستہ تکذیب کرنے والوں میں اوّل مت ہو۔ تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے۔ تم جانتے ہو کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ تم تو آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتظار میں تھے اور ان کے حوالے سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ اس نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے ہماری مدد فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرما۔ (یہ مضمون آگے چل کر اسی سورة البقرۃ ہی میں آئے گا۔ ) لیکن اب تم ہی اس کے اوّلین منکر ہوگئے ہو اور تم ہی اس کے سب سے بڑھ کر دشمن ہوگئے ہو۔- (وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً ز) - یہ آیات الٰہیہ ہیں اور تم ان کو صرف اس لیے ردّ کر رہے ہو کہ کہیں تمہاری حیثیت ‘ تمہاری مسندوں اور تمہاری چودھراہٹوں پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ یہ تو حقیر سی چیزیں ہیں۔ یہ صرف اس دنیا کا سامان ہیں ‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ - (وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ) ”

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :57 تھوڑی قیمت سے مراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے ۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے ، بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے ، کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38: بنی اسرائیل کو یاد دلایاجارہا ہے کہ قرآنِ کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں، قرآنِ کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے، ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد وبدل کرڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشینگوئیاں کی گئی تھیں قرآنِ کریم نے انہیں سچا کردکھایا۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہویہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لارہے ہیں، اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لارہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں ۔اسی لئے کہا گیا کہ: ’’تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ‘‘ بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رِشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کردیا کرتے تھے، اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپالیتے تھے۔ ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو… اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ‘‘۔