Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٢] نماز اور زکوٰۃ، ہر زمانہ میں دین اسلام کے اہم ارکان رہے ہیں۔ لیکن یہود میں نماز باجماعت کا اہتمام نہیں تھا اور ان کی نماز میں رکوع بھی نہیں تھا۔ یہود نے نماز ادا کرنا بالکل چھوڑ ہی دیا تھا اور زکوٰۃ ادا کرنے کے بجائے سود کھانا شروع کردیا تھا۔ اس آیت میں انہیں تنبیہہ کی جا رہی ہے۔ کہ اب تمام امور میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرو۔ اس آیت اور اس سے اگلی تین آیات میں خطاب یہود اور مسلمانوں میں مشترک ہے۔ ہماری شریعت میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا بہت فضیلت رکھتا ہے اور بلا عذر ترک جماعت کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- نماز باجماعت کی فضیلت اور فوائد :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلٰوۃ الجماعۃ) - ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کا حکم دوں، اس کے لیے اذان کہی جائے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو امامت کرائے پھر میں (جماعت سے) پیچھے رہنے والوں کے ہاں جا کر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ انہیں (جماعت میں شامل ہونے پر) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو عشاء کی نماز میں ضرور آتے۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ) - نماز کے فضائل اور اہمیت :۔ ٣۔ سیدنا ابو ہریرۃ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بھلا دیکھو اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل کچیل رہ جائے گا ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا نہیں کچھ میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا : بس یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کی وجہ سے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (متفق علیہ) - ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ہر نماز اپنے سے پہلی نماز تک کے، جمعہ اپنے سے پہلے جمعہ تک کے اور رمضان اپنے سے پہلے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء والصلٰوۃ عقبہ) - ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے نماز قیامت کے دن نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے اس دن نہ نور ہوگا، نہ برھان اور نہ نجات اور قیامت کے دن وہ قارون، فرعون، ہامان، اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (احمد، دارمی، بیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ مطبوعہ نور محمد ص ٥٨) - ٦۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے حد کا ایک گناہ کیا ہے۔ مجھے حد لگائیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اتنے میں نماز کا وقت آگیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھی۔ وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے ایک حدی گناہ کیا ہے۔ آپ کتاب اللہ کے مطابق مجھے سزا دیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ وہ کہنے لگا : ہاں پڑھی ہے۔ آپ نے فرمایا : تو بس اللہ نے تیرا گناہ اور تیری سزا کو معاف کردیا۔ (بخاری، کتاب المحاربین باب إذا أقربالحد)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اپنے عہد کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر یہ تینوں کام اہتمام سے کرو۔ اس آیت سے باجماعت نماز کی تاکید ظاہر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ ایندھن کا حکم دوں، وہ اکٹھا کیا جائے، پھر نماز کا حکم دوں، اس کے لیے اذان کہی جائے، پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو امامت کروائے، پھر ان آدمیوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے سمیت ان کے گھروں کو جلا دوں۔ “ [ بخاری، الأذان، باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ : ٦٤٤۔ مسلم : ٦٥١۔ عن أبی ہریرۃ (رض) ]- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص اذان سنے اور سن کر (نماز کے لیے مسجد میں) نہ آئے تو اس کی نماز نہیں مگر کسی عذر سے۔ “ - [ ابن ماجہ، المساجد والجماعات، باب التغلیظ فی التخلف : ٧٩٣، عن ابن عباس (رض) ۔ صحیح ابن حبان : ٢٠٦٤۔ مستدرک : ١؍٣٧٣، ح : ٨٩٤، ٨٩٥۔ و صححہ الألبانی ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور نماز قائم کرو تم لوگ نماز کو (یعنی مسلمان ہو کر) اور زکوٰۃ دو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ (علماء بنی اسرائیل کے بعض اقارب مسلمان ہوگئے تھے جب ان سے گفتگو ہوتی تو خفیہ طور پر یہ علماء ان سے کہتے تھے کہ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول برحق ہیں ہم لوگ تو کسی مصلحت سے مسلمان نہیں ہوتے مگر تم اس مذہب اسلام کو نہ چھوڑنا اسی بنا پر حق تعالیٰ نے فرمایا) کیا غضب ہے کہ کہتے ہو اور لوگوں کو نیک کام کرنے کو (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کو) اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی (یعنی تورات کی جس میں جابجا ایسے عالم بےعمل کی مذمتیں مذکور ہیں) تو پھر کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے اور مدد لو (یعنی اگر تم کو حب مال وحب جاہ کی وجہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہوتا ہو تو مدد لو) صبر اور نماز سے (یعنی ایمان لاکر صبر کا التزام بہت دشوار ہے تو سن لے کہ) بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے قلوب میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں وہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں (تو اس وقت اس کا حساب کتاب بھی دینا ہوگا ان دونوں خیالوں سے رغبت بھی پیدا ہوگی اور یہی دو چیزیں ہر عمل کی روح ہیں) - معارف و مسائل - ربط آیات :- بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں اور احسانات یاد دلا کر ایمان اور عمل صالح کی طرف دعوت دی ہے پچھلی تین آیتوں میں ایمان و عقائد سے متعلق ہدایات تھیں اور ان چار آیتوں میں اعمال صالحہ کی تلقین ہے اور ان میں جو اعمال سب سے زیادہ اہم ہیں ان کا ذکر ہے اور حاصل مطلب آیات کا یہ ہے کہ اور اگر تم کو حب مال وجاہ کے غلبہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو صبر سے حب مال گھٹ جائے گی کیونکہ مال اسی وجہ سے مطلوب و محبوب ہے کہ وہ ذریعہ ہے لذات وشہوات کے پورا کرنے کا جب ان لذات وشہوات کی مطلق العنانی چھوڑنے پر ہمت باندھ لو گے تو پھر مال کی فراوانی کی نہ ضرورت رہے گی نہ اس کی محبت ایسی غالب آئے گی کہ اپنے نفع نقصان سے اندھا کردے اور نماز سے حب جاہ کم ہوجائے گی کیونکہ نماز میں ظاہری اور بابنی ہر طرح کی پستی اور عاجزی ہی ہے جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہوجائے گی توحب جاہ ومنصب اور تکبر و غرور گھٹے گا اصل مادہ فساد جس کے سبب ایمان لانا دشوار تھا یہی مال وجاہ کی محبت تھی جب یہ مادہ فساد گھٹ گیا تو ایمان لانا آسان ہوجائے گا،- اب سمجئے کہ صبر میں تو صرف غیر ضروری خواہشات اور شہوات کا ترک کرنا ہے اور نماز میں بہت سے افعال کا واقع کرنا بھی ہے اور بہت سی جائز خواہشات کو بھی وقتی طور پر ترک کرنا ہے مثلا کھانا، پینا، کلام کرنا، چلنا پھرنا، اور دوسری انسانی ضرورت جو شرعا جائز ومباح ہیں ان کو بھی نماز کے وقت ترک کرنا ہے اور بھی اوقات کی پابندی کے ساتھ دن رات میں پانچ مرتبہ اس لئے نماز نام ہے کچھ افعال معینہ کا اور معین اوقات میں تمام ناجائز و جائز چیزوں سے صبر کرنے کا،- غیر ضروری خواہشات کے ترک کرنے پر انسان ہمت باندھ لے تو چند روز کے بعد طبعی تقاضا بھی ختم ہوجاتا ہے کوئی دشواری نہیں رہتی لیکن نماز کے اوقات کی پابندی اور اس کی تمام شرائط کی پابندی اور ضروری خواہشات سے بھی ان اوقات میں پرہیز کرنا یہ انسانی طبیعت پر بہت بھاری اور دشوار ہے اس لئے یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ایمان کو آسان بنانے کا جو نسخہ تجویز کیا گیا کہ صبر اور نماز سے کام لو اس نسخہ کا استعمال خود ایک دشوار چیز ہے خصوصا نماز کی پابندیوں کا تو اس دشواری کا کیا علاج ہوگا ؟ اس کے لئے ارشاد فرمایا بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے قلوب میں خشوع ہو ان پر کچھ دشوار نہیں اس میں نماز کے آسان کرنے کی ترکیب بتلادی گئی، - حاصل یہ ہے کہ نماز میں دشواری کی وجہ اور سبب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کا قلب خوگر ہے میدان خیال میں آزاد پھرنے کا اور سب اعضائے انسانی قلب کے تابع ہیں اس لئے قلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اس کے سب اعضاء بھی آزاد ہیں اور نماز سراسر اس آزادی کے خلاف ہے کہ نہ ہنسو نہ بولو نہ کھاؤ نہ پیو نہ چلو وغیرہ وغیرہ اس لئے قلب ان تقیدات سے تنگ ہوتا ہے اور اس کے تابع اعضائے انسانی بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، - خلاصہ یہ ہے کہ سبب اس دشواری اور گرانی کا قلب کی حرکت فکریہ ہے تو اس کا علاج سکون سے ہونا چاہئے اس لئے خشوع کو نماز کے آسان ہونے کا ذریعہ بتایا گیا کیونکہ خشوع کے معنی ہی سکون قلب کے ہیں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سکون قلب یعنی خشوع کس طرح حاصل ہو تو یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے قلب افکار و خیالات کو براہ راست نکالنا چاہے تو اس میں کامیابی قریب بمحال ہے بلکہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ نفس انسانی چونکہ ایک وقت میں دو طرف متوجہ نہیں ہوسکتا اس لئے اگر اس کو کسی ایک خیال میں محو ومستغرق کردیا جائے تو دوسرے خیالات اور افکار خود بخود دل سے نکل جائیں اس لئے تلقین خشوع کے بعد وہ خیال بتلاتے ہیں جس میں مستغرق ہوجانے سے دوسرے خیالات دفع ہوں اور ان کے دفع ہونے سے حرکت فکریہ قلب کی منقطع ہو کر سکون حاصل ہو اور سکون سے نماز میں آسانی ہو کر اس پر مداومت اور پابندی نصیب ہو اور اس پابندی سے کبر و غرور اور حب جاہ کم ہو تاکہ ایمان کے راستہ میں جو حائل ہے وہ دور ہو کر ایمان کامل ہوجائے سبحان اللہ کیا مرتب علاج اور مطب ہے،- اب اس خیال مذکور کی تلقین و تعیین اس طرح فرمائی وہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے تو اس وقت اس خدمت کا خوب انعام ملے گا اور اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں تو اس وقت اس کا حساب و کتاب بھی دینا ہوگا ان دونوں خیالوں سے رغبت و رہبت یعنی امید اور خوف پیدا ہوں گے اول تو ہر خیال محمود میں مستغرق ہوجانا قلب کو نیک کام پر جما دیتا ہے خصوصاً امید وبیم کا خیال اس کو تو خاص طور پر دخل ہے نیک کام میں مستعد کردینے کے لئے، - وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ صلوٰۃ کے لفظی معنیٰ دعا کے ہیں اصطلاح شرع میں وہ خاص عبادت ہے جس کو نماز کہا جاتا ہے قرآن کریم میں عموماً نماز کی جتنی مرتبہ تاکید کی گئی لفظ اقامت کے ساتھ آئی ہے مطلق نماز پڑھنے کا ذکر صرف ایک دو جگہ آیا ہے اس لئے اقامت صلوٰۃ کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے اقامت کے لفظی معنی سیدھا کرنے اور ثابت رکھنے کے ہیں اور عادۃ جو عمود یا دیوار یا درخت وغیرہ سیدھا کھڑا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے گرجانے کا خطرہ کم ہوتا ہے اس لئے اقامت کے معنی دائم اور قائم کرنے کے بھی آتے ہیں، - قرآن وسنت کی اصطلاح میں اقامت صلوۃ کے معنی نماز کو اس کے وقت میں پابندی کے ساتھ اس کے پورے آداب و شرائط کی رعایت کرکے ادا کرنا ہیں مطلق نماز پڑھ لینے کا نام اقامت صلوۃ نہیں ہے نماز کے جتنے فضائل اور آثار و برکات قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ سب اقامت صلوٰۃ کے ساتھ مقید ہیں مثلا قرآن کریم میں ہے :- اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ (٤٥: ٢٩) یعنی نماز انسان کو ہر بےحیائی اور ہر برے کام سے روک دیتی ہے،- نماز کا یہ اثر اسی وقت ظاہر ہوگا جب کہ نماز کی اقامت اس معنی سے کرے جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں اس لئے بہت سے نمازیوں کو برائیوں اور بےحیائیوں میں مبتلا دیکھ کر اس آیت پر کوئی شبہ نہ کرنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہے مگر اس کو قائم نہیں کیا،- اٰتُوا الزَّكٰوةَ لفظ زکوٰۃ کے معنی لغت میں دو آتے ہیں پاک کرنا اور بڑہنا اصطلاح شریعت میں مال کے اس حصہ کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق کسی مال میں سے نکالا جائے اور اس کے مطابق صرف کیا جائے،- اگرچہ یہاں خطاب موجودہ بنی اسرائیل کو ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نماز اور زکوٰۃ اسلام سے پہلے بنی اسرائیل پر فرض تھی مگر سورة ٔمائدہ میں وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا وَقَال اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوة (١٢: ٥) سے ثابت ہے کہ نماز اور زکوٰۃ بنی اسرائیل پر فرض تھی اگرچہ اس کی کیفیت اور ہیئت وغیرہ میں فرق ہو،- وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں اور اس معنی کے اعتبار سے یہ لفظ سجدہ پر بھی بولا جاسکتا ہے کیونکہ وہ بھی جھکنے کا انتہائی درجہ ہے مگر اصطلاح شرع میں اس خاص جھکنے کو رکوع کہتے ہیں جو نماز میں معروف و مشہور ہے،- آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ یہاں ایک بات یہ قابل غور ہے کہ نماز کے تمام ارکان میں سے اس جگہ رکوع کی تخصیص کیوں کی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں نماز کا ایک جز بول کر کل نماز مراد لی گئی ہے جیسے قرآن مجید میں ایک جگہ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ فرما کر پوری نماز فجر مراد ہے اور بعض روایات حدیث میں سجدہ کا لفظ بول کر پوری رکعت یا نماز مراد لی گئی ہے اس لئے مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ نماز کے بہت سے ارکان میں سے رکوع کی تخصیص میں کیا حکمت ہے ؟- جواب یہ ہے کہ یہود کی نماز میں سجدہ وغیرہ تو تھا مگر رکوع نہیں تھا رکوع اسلامی نماز کی خصوصیات میں سے ہے اس لئے راکعین کے لفظ سے امت محمدیہ کے نمازی مراد ہوں گے جن کی نماز میں رکوع بھی ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم بھی امت محمدیہ کے نمازیوں کے ساتھ نماز ادا کرو یعنی اول ایمان قبول کرو پھر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو،- باجماعت نماز کے احکام :- نماز کا حکم اور اس کا فرض ہونا تو لفظ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ سے معلوم ہوچکا تھا اس جگہ مَعَ الرّٰكِعِيْن کے لفظ سے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے،- یہ حکم کس درجہ کا ہے ؟ اس میں علماء فقہا کا اختلاف ہے ایک جماعت صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین اور فقہائے امت کی جماعت کو واجب قرار دیتی ہے اور اس کے چھوڑنے کو سخت گناہ اور بعض صحابہ کرام (رض) اجمعین تو اس نماز ہی کو جائز قرار نہیں دیتے جو بلا عذر شرعی کے بدون جماعت پڑھی جائے یہ آیت ظاہری الفاظ کے اعتبار سے ان حضرات کی حجت ہے جو وجوب جماعت کے قائل ہیں اس کے علاوہ چند روایات حدیث سے بھی جماعت کا واجب ہونا سمجھا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہ : لاصلوٰۃ لجار المسجد الا فی المسجد (رواہ ابوداؤد) یعنی مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز صرف مسجد ہی میں جائز ہے،- اور مسجد کی نماز سے ظاہر ہے کہ جماعت کی نماز مراد ہے تو الفاظ حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے جائز نہیں، - مسجد کے سوا کسی اور جگہ جماعت :- اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے مسجد تک پہنچا دے اور لیجایا کرے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو میں نماز گھر میں پڑھ لیا کروں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اول تو ان کو اجازت دے دی مگر جب وہ جانے لگے تو سوال کیا کہ کیا اذان کی آواز تمہارے گھر تک پہونچتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اذان کی آواز تو میں سنتا ہوں آپ نے فرمایا پھر تو آپ کو مسجد میں آنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پھر میں آپ کے لئے کوئی گنجائش اور رخصت نہیں پاتا (اخرجہ ابوداؤد) - اور حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛- من سمع النداء فلم یجب فلا صلوٰۃ لہ الا من عذر (صححہ القرطبی) یعنی جو شخص اذان کی آواز سنتا ہے اور جماعت مسجد میں نہیں آتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کو کوئی عذر شرعی ہو،- ان احادیث کی بنا پر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری وغیرہ حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص مسجد سے اتنا قریب رہتا ہے کہ اذان کی آواز وہاں تک پہونچتی ہے تو اگر وہ بلاعذر کے جماعت میں حاضر نہ ہوا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی (آواز سننے سے مراد یہ ہے کہ متوسط آواز والے آدمی کی آواز وہاں پہنچ سکے، آلہ مکبر الصوت یا غیر معمولی بلند آواز کا اس میں اعتبار نہیں) - یہ سب روایات ان حضرات کی دلیل ہیں جو جماعت کو واجب قرار دیتے ہیں مگر جمہور امت علماء وفقہاء صحابہ وتابعین کے نزدیک جماعت سنت مؤ کدہ ہے مگر سنن مؤ کدہ میں سنت فجر کی طرح سب سے زیادہ مؤ کد اور قریب بوجوب ہے ان سب حضرات نے قرآن کریم کے امر وارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْن کو دوسری آیات اور روایات کی بنا پر تاکید کے لئے قرار دیا ہے،- اور جن احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے ہوتی ہی نہیں اس کا یہ مطلب قرار دیتے ہیں کہ یہ نماز کامل اور مقبول نہیں اس معاملے میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان بہت واضح اور کافی ہے جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے،- فقیہہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) اللہ تعالیٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہئے کی ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کچھ ہدایت کے طریقے بتلائے ہیں اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی سنن ھدٰی میں سے ہے اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تو تم اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجاؤ گے (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم پر نیکی اس کے نامہ اعمال میں درج فرماتے ہیں اور اس کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں اور ہم نے اپنے مجمع کو ایسا پایا ہے کہ منافق بین النفاق کے سوا کوئی آدمی جماعت سے الگ نماز نہ پڑہتا تھا یہاں تک کہ بعض حضرات کو عذر اور بیماری میں بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں لایا جاتا اور صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا - اس بیان میں جس طرح باجماعت نماز کی پوری تاکید اور اہمیت و ضرورت کا ذکر ہے اسی کے ساتھ اس کا یہ درجہ بھی بیان فرما دیا کہ وہ سنن ہدی میں سے ہے جس کو فقہاء سنت مؤ کدہ کہتے ہیں چناچہ اگر کوئی شخص عذر شرعی مثلاً مرض وغیرہ کے بغیر تنہا نماز پڑھ لے اور جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر سنت مؤ کدہ کے ترک کی وجہ سے مستحق عتاب ہوگا اور اگر ترک جماعت کی عادت بنالے تو سخت گنہگار ہے خصوصاً اگر ایسی صورت ہوجائے کہ مسجد ویران رہے اور لوگ گھروں میں نماز پڑھیں تو یہ سب شرعاً مستحق سزا ہیں اور قاضی عیاض نے فرمایا کہ ایسے لوگ اگر سمجھانے سے باز نہ آئیں تو ان سے قتال کیا جائے (قرطبی ٢٩٨ ج ١)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۝ ٤٣- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعا دی نشوونما دی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- ركع - الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع - ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : واقیمو الصلوۃ واتوا الزکوۃ وارکعوا مع الرکعین۔ (اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) آیت میں مذکورہ صلوۃ و زکوۃ یا تو مہود و معلوم صلوۃ و زکوۃ کی طرف راجع ہیں جنہیں اللہ نے بیان کردیا ہے۔ یا یہ اس مجمل صلوۃ اور مجمل زکوۃ کو شامل ہیں جو بیان پر موقوف تھیں۔ البتہ ہمیں اب یہ معلوم ہے کہ ان سے وہ فرض نمازیں اور وہ مفروض زکوۃ مراد ہیں جن کا ہم سے خطاب کیا گیا ہے، یا تو خطاب کے درود کے وقت یہ باتیں مخاطبین کو معلوم تھیں یا یہ کہ مذکورہ باتیں مجمل تھیں اور اس کے بعد ان سے مراد کا بیان وارد ہوگیا اور اس طرح یہ معلوم بن گئیں۔- قول باری : وارکعوا معن الرکعین نماز میں رکوع کی فرضیت کے اثبات کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ ایک قول کے مطابق رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ اہل کتاب کے نمازوں میں رکوع کا وجود نہیں تھا اس لئے آیت کے ذریعے نماز کے اندر رکوع کے وجود پر نص کردیا گیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ قول باری : وارکعوا خود نماز سے عبارت ہو جس طرح آیت : فاقو وا ما تیسر من القرآن اور آیت (وقرآن الفجور ان قرآن الفجر کا ن مشھوداً میں قرأت کے لفظ سے نماز کی تعبیر کی گئی ہے۔ آیت کا مفہوم ہے۔ ” فجر کی نماز “ اس طرح زیر بحث آیت وارکعوا مع الراکین دو فائدوں پر مشتمل ہوجائے گی۔ ایک فائدہ تو ایجاب رکوع کا ہے اس لئے کہ رکوع کے لفظ سے نماز کی تعبیر صرف اس لئے کی گئی ہے کہ رکوع نماز کے فرائض میں شامل ہے اور دوسرا فائدہ نمازیوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ قول باری : واقیمیا الصلوۃ میں نماز کا ذکر گزر چکا تھا اس لئے یہ درست نہیں کہ اس پر رکوع کا عطف کر کے بعینیہ نماز مراد لی جائے۔- اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات ممکن ہے کہ جس نماز کا شروع میں ذکر ہوا ہے اس سے اجمال مراد ہو، معہود و معلوم نماز مراد نہ ہو۔ ایسی صورت میں : وارکعوا مع الراکعین کے ذریعے اس نماز کا حوالہ دیا گیا ہے جس کا بیان اس کے رکوع نیز تمام فرائض کے ساتھ ہوا ہے، نیز اہل کتاب کی نماز چونکہ رکوع کے بغیر تھی اور لفظ میں یہ احتمال تھا کہ اس کا مرجع مذکورہ نماز ہے اس لئے یہ بیان کردیا کہ وہ نماز مراد نہیں جس کے اہل کتاب پابند تھے، بلکہ وہ نماز مرا د ہے جس میں رکوع ہے،

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣) ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ اب ان پر بعض احکام شریعت کی فرضیت کو بیان کرتے ہیں کہ پانچ نمازوں کو پورا کرو اور اپنے اموال کی زکوٰۃ دو اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں باجماعت پڑھو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ) (وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ) ” - یعنی باجماعت نماز ادا کیا کرو۔- اوّل تو یہود نے رکوع کو اپنے ہاں سے خارج کردیا تھا ‘ ثانیاً باجماعت نماز ان کے ہاں ختم ہوگئی تھی۔ چناچہ انہیں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ گویا صراحت کی جا رہی ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف ایمان لانا ہی نجات کے لیے کافی نہیں ‘ بلکہ تمام اصول میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی پیروی ضروری ہے۔ نماز بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر پڑھو جس میں رکوع بھی ہو اور جو باجماعت ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :59 نماز اور زکوٰۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں ۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی ۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے ۔ نماز باجماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا ۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی ، اور زکوٰۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سود کھانے لگے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا۔