دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے ۔ حضرت ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت٭٭ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے جیسے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ) 11 ۔ ہود:88 ) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی ۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے ۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے ۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا ۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے ۔ ابو وائل فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت اسامہ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان سے کچھ نہیں کہتے آپ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لئے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ حضرت آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا ( مسند احمد ) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت ( هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) 39 ۔ الزمر:9 ) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو ۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا ایک تو آیت ( اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:44 ) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟ دوسری آیت آیت ( لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ Ą كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ Ǽ ) 61 ۔ الصف:2-3 ) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ۔ تیسری آیت حضرت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ) 11 ۔ ہود:88 ) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا ، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو ۔ ( تفسیر مردویہ ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے ۔ حضرت ابراہیم نخعی نے بھی حضرت ابن عباس والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا ۔
[٦٣] بعض یہودی علماء اپنے عزیزوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ کہتے تھے کہ اسی دین (اسلام) پر قائم رہو کیونکہ یہ دین برحق ہے۔ مگر بعض دنیوی مفادات کی بنا پر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔
یعنی لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود بھول جاتے ہو کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ (ابن ابی حاتم عن ابن عباس : ١؍١٢٢، ح : ٤٧٤، ٤٧٥) قتادہ (رض) نے فرمایا : ” بنی اسرائیل لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کا حکم دیتے اور خود عمل نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں عار دلائی۔ “ (عبد الرزاق) - اب مسلمانوں کا حال بھی بنی اسرائیل جیسا ہوگیا، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو شخص خود عمل نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے، کیونکہ یہود کو اس بات پر عار دلائی ہے کہ وہ عمل نہیں کرتے، اس پر نہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص دعوت دے کر خود عمل نہ کرے اسے دوسروں سے زیادہ سزا ملے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا، اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی انتڑیاں آگ میں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی، وہ ان کے گرد ایسے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ آگ والے اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں تیرا کیا معاملہ ہے ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا، میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ کام نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ “ [ بخاری، بدء الخلق،- باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ٣٢٦٧، عن أسامۃ (رض) ]
بےعمل واعظ کی مذمت :- اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ اس آیت میں خطاب اگرچہ علمائے یہود سے ہے ان کو ملامت کی جارہی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو یہ تلقین کرتے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے رہو اور دین اسلام پر قائم رہو (جو علامت ہے اس بات کی کہ علمائے یہود دین اسلام کو یقینی طور پر حق سمجھتے تھے) مگر خود نفسانی خواہشات سے اتنے مغلوب تھے کہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے لیکن معنی کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کی مذمت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائی کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے ایسے شٰخص کے بارے میں احادیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئی ہیں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شب معراج میرا گذر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچوں سے کترے جارہے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں جبرئیل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے دنیادار واعظ ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے (ابن کثیر) - ابن عساکر نے ذکر کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنتی بعض دوخیوں کی آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے ؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے اہل دوزخ کہیں گے ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے (ابن کثیر) - کیا فاسق وعظ و نصیحت نہیں کرسکتا ؟:- لیکن مذکورہ بیان سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بےعمل یا فاسق کے لئے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہ کرے کیونکہ کوئی اچھا عمل الگ نیکی ہے اور اس اچھے عمل کی تبلیغ دوسری مستقل نیکی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑدی جائے، جیسے ایک شخص اگر نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ لازم نہیں کہ وہ روزہ بھی ترک کردے بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو نماز پڑھنے کے لئے بھی نہ کہے اسی طرح کسی ناجائز فعل کا ارتکاب الگ گناہ ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اس ناجائز فعل سے نہ روکنا دوسرا گناہ ہے اور ایک گناہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا گناہ بھی ضرور کیا جائے (روح المعانی) - چنانچہ امام مالک نے حضرت سعید بن جبیر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر ہر شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑدے کہ میں خود گنہگار ہوں جب گناہوں سے خود پاک ہوجاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تبلیغ کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے گا کیونکہ ایسا کون ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو ؟ حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ بیٹھیں (قرطبی) بلکہ حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی تو فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تاکہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے،- خلاصہ یہ ہے کہ آیت، اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بےعمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ واعظ کو بےعمل نہیں ہونا چاہئے اور دونوں میں فرق واضح ہے مگر یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ بےعمل ہونا نہ تو واعظ کیلئے جائز ہے نہ غیر واعظ کیلئے پھر واعظ کی تخصیص کیوں ؟ جواب یہ ہے کہ ناجائز تو دونوں کے لئے ہے مگر واعظ کا جرم غیر واعظ کے جرم کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور زیادہ قابل ملامت ہے کیونکہ واعظ جرم کو جرم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر کرتا ہے اس کے پاس یہ عذر نہیں ہوتا کہ مجھے اس کا جرم ہونا معلوم نہ تھا برخلاف غیر واعظ کے اور ان پڑھ جاہل کے کہ اس کو خواہ علم حاصل نہ کرنے کا الگ گناہ ہو لیکن ارتکاب گناہ میں اس کے پاس کسی درجہ میں عذر موجود ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا اس کے علاوہ عالم اور واعظ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو یہ دین کے ساتھ ایک قسم کا استہزاء ہے چناچہ حضرت انس سے روایت ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے جتنا ان پڑھ لوگوں کو معاف کرے گا اتنا علماء کو معاف نہیں کریگا،- دو نفسیاتی بیماریاں اور ان کا علاج :- حب مال اور حب جاہ یہ دونوں قلب کی ایسی بیماریاں ہیں جن کے باعث انسان کی دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی تاریخ میں اب تک جتنی انسانیت سوز لڑائیاں لڑی گئیں اور جو فساد برپا ہوئے ان میں سے اکثر وبیشتر کو انہی دو بیماریوں نے جنم دیا تھا،- حب مال کے نتائج یہ نکلتے ہیں :- (١) کنجوسی اور بخل پیدا ہوتا ہے جس کا ایک قومی نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی دوسرا نقصان خود اس کی ذات کو پہنچتا ہے کہ معاشرہ میں کوئی ایسے شخص کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا،- (٢) خود غرضی پیدا ہوتی ہے جو مال کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے اسے اشیاء میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی رشوت ستانی، مکروفریب اور دغا بازی کے نت نئے حیلے سجھاتی ہے وہ اپنی تجوری پہلے سے زیادہ بھرنے کے لئے دوسروں کا خون نچوڑ لینا چاہتا ہے بالآخر سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے جنم لیتے ہیں، - (٣) ایسے شخص کو کتنا ہی مال مل جائے لیکن مزید کمانے کی دھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ تفریح اور آرام کے وقت بھی یہی بےچینی اسے کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح اپنے سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کروں بالآخر جو مال اس کے آرام و راحت کا ذریعہ بنتا وہ اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے ؛- (٤) حق بات خواہ کتنی ہی روشن ہو کر سامنے آجائے مگر وہ ایسی کسی بات کو ماننے کی ہمت نہیں کرتا جو اس کی ہوس مال سے متصادم ہو یہ تمام چیزیں بالآخر پورے معاشرہ کا امن وچین برباد کر ڈالتی ہیں :- غور کیا جائے تو قریب قریب یہی حال حب جاہ کا نظر آئے گا کہ اس کے نتیجہ میں تکبر خود غرضی حقوق کی پامالی ہوس اقتدار اور اس کے لئے خوں ریز لڑائیاں اور اسی طرح کی بیشمار انسانیت سوز خرابیاں جنم لیتی ہیں جو بالآخر دنیا کو دوزخ بنا کر چھوڑتی ہیں ان دونوں بیماریوں کا علاج قرآن کریم نے یہ تجویز فرمایا، وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (اور مدد لو صبر اور نماز سے) یعنی صبر اختیار کرو یعنی اپنی لذات وشہوات پر قابوحاصل کرلو اس سے حب مال گھٹ جائے گی کیونکہ مال کی اندھا دھند پیروی چھوڑنے پر ہمت باندھ لو گے تو شروع میں اگرچہ شاق گذرے گا لیکن رفتہ رفتہ یہ خواہشات اعتدال پر آجائیں گی اور اعتدال تمہاری عادت بن جائے گا تو پھر مال کی فراوانی کی ضرورت نہ رہے گی نہ اس کی محبت ایسی آئے گی کہ اپنے نفع نقصان سے اندھا کردے،- اور نماز سے حب جاہ کم ہوجائے گی کیونکہ نماز میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی عاجزی اور پستی ہے جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہوجائے گی تو ہر وقت اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا تصور رہنے لگے گا جس سے تکبر و غرور اور حب جاہ گھٹ جائے گی
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ٠ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٤٤- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - برَّ- البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر :- أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل .- والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته .- ( ب رر)- البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔.- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٤٤) اب اللہ تعالیٰ جل شانہ سرداروں کی حالت کو بیان کرتے ہیں کہ تم کمتر اور ذلیل لوگوں کو تو، توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلائے بیٹھے ہو، خود اتباع نہیں کرتے اور ان کو خود کتاب پڑھ کر سناتے ہو، کیا تمہارے پاس سمجھ اور عقل نہیں
آیت ٤٤ (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ) - ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ‘ جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ‘ لیکن ان کے اپنے کردار کو اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی درحقیقت علماء یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چناچہ ان سے کہا گیا کہ ” کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ “- (وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط) ” - تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔ یعنی تورات پڑھتے ہو ‘ تم صاحب تورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا ‘ جنہیں ہم علماء سوء کہتے ہیں ‘ یہی حال ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : - خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں - ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق - قرآن حکیم کے ترجمے میں ‘ اس کے مفہوم میں ‘ اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔- (اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) ”