صبر کا مفہوم اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو ، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لئے رمضان کا صبر کا مہینہ کہا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے ۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا ، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا ۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے آیت ( الصَّلٰوةَ ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۭ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ) 29 ۔ العنکبوت:45 ) ۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے ۔ چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب حضرت حذیفہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول ( اللھم صلی وسلم علیہ ) ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے ۔ ابن جریر میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے ( فارسی زبان میں ) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفر میں اپنے بھائی حضرت قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ آیت ( انا للہ ) الخ پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ان کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں ولا یلقاھا کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں وما یلقھا کی ضمیر ۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے ، ابن جریرنے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ واللہ اعلم ۔ آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اتدھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں ۔ ظن یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں آیت ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا ) 18 ۔ الکہف:53 ) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کرلیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی ظن یقین کے معنی میں ہے بلکہ حضرت مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ ظن کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابو العالیہ بھی یہاں ظن کے معنی یقین کرتے ہیں ۔ حضرت مجاہد ، سدی ربیع بن انس اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے آیت ( اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ ) 69 ۔ الحاقہ:20 ) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے؟ کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا ؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا ۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت ( نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ) 59 ۔ الحشر:19 ) کی تفسیر میں آگے آئے گی ۔
45۔ 1 صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ وتعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے (فتح القدیر) ۔ 45۔ 2 نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو کردیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔
[٦٤] پریشانیوں اور مصائب کا علاج :۔ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے یہاں صبر سے روزہ بھی مراد لیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو خود بھی نماز میں مشغول ہوتے اور اپنے اہل بیت کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے۔- اور صبر کسے کہتے ہیں یہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی سنیے۔- صبر کی تعریف :۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک عورت پر گزر ہوا جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ کہنے لگی۔ جاؤ اپنا کام کرو تمہیں مجھ جیسی مصیبت تو پیش نہیں آئی۔ وہ عورت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتی نہ تھی۔ اسے لوگوں نے بتایا کہ وہ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ چناچہ وہ آپ کے دروازے پر حاضر ہوئی۔ وہاں کوئی دربان موجود نہ تھا۔ وہ اندر جا کر کہنے لگی۔ میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا (میں صبر کرتی ہوں) آپ نے فرمایا : صبر تو اس وقت کرنا چاہیے جب صدمہ شروع ہو۔ (بخاری کتاب الجنائز باب زیارۃ القبور)
یعنی کسی بھی مصیبت کے برداشت کرنے میں ان دو چیزوں کا سہارا لو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اچانک کوئی حادثہ پیش آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے۔ [ أبو داوٗد، التطوع، باب وقت قیام النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من اللیل : ١٣١٩، و حسنہ الألبانی، عن حذیفۃ (رض) ] اہل علم نے فرمایا : ” صبر تین قسم پر ہے، مصیبت پر صبر، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر اور نافرمانی سے بچنے پر صبر۔ “
خشوع کی حقیقت :- اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْن قرآن وسنت میں جہاں خشوع کی ترغیب مذکور ہے اس سے مراد وہ قلبی سکون و انکساری ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کے سامنے اپنی حقارت کے علم سے پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں اطاعت آسان ہوجاتی ہے کبھی اس کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ باادب متواضع اور شکستہ قلب نظر آتا ہے اگر دل میں خوف خدا اور تواضع نہ ہو تو خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی باادب اور متواضع نظر آئے وہ خشوع کا حامل نہیں۔- بلکہ آثار خشوع کا قصداً اظہار کرنا بھی پسندیدہ نہیں حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ سر جھکائے بیٹھا ہے فرمایا سر اٹھا خشوع دل میں ہوتا ہے ،- حضرت ابراہیم نخعی کا ارشاد ہے کہ موٹا پہننے موٹا کھانے اور سر جھکانے کا نام خشوع نہیں خشوع تو یہ ہے کہ تم حق کے معاملہ میں شریف ورذیل کے ساتھ یکساں سلوک کرو اور اللہ نے جو تم پر فرض کیا ہے اسے اداس کرنے میں اللہ تعالیٰ کے لئے قلب کو فارغ کرلو،- حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) جب بات کرتے تو سنا کرتے تھے جب چلتے تو تیز چلتے اور جب مارتے تو زور سے مارتے تھے حالانکہ بلاشبہ وہ خشوع رکھنے والے تھے،- خلاصہ یہ کہ اپنے قصد واختیار سے خاشعین کی سی صورت بنانا شیطان اور نفس کا دھوکہ ہے اور مذموم ہے ہاں اگر بےاختیار یہ کیفیت ظاہر ہوجائے تو معذور ہے (قرطبی) - فائدہ : خشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے قرآن کریم میں یہ بھی بار بار آیا ہے یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں لیکن خشوع کا لفظ اصل کے اعتبار سے آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلل کے لئے بولا جاتا ہے جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو قرآن کریم میں ہے، خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ (آوازیں پست ہوگئیں) اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے قرآن حکیم میں ہے،- فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ (٤: ٢٦) پس ان کی گردنیں اس کے سامنے جھک گئیں،- نماز میں خشوع کی فقہی حیثیت :- نماز میں خشوع کی تاکید قرآن وسنت میں بار بار آئی ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے :- وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (١٤: ٢٠) اور نماز قائم کر مجھے یاد کرنے کے لئے، - اور ظاہر ہے کہ غفلت یاد کرنے کی ضد ہے جو نماز میں اللہ تعالیٰ سے غافل ہے وہ اللہ کو یاد کرنے کا فریضہ ادا نہیں کررہا ؛- ایک اور آیت میں ارشاد ہے :- وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (٢٠٥: ٧) اور تو غافلوں میں سے نہ ہو :- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے نماز تو صرف تمسکن اور تواضع ہی ہے جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جب تمسکن اور تواضع دل میں نہ ہو تو وہ نماز نہیں۔- ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کی نماز اسے بےحیائی اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ اللہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور غافل کی نماز بےحیائی سے اور برائیوں سے نہیں روکتی معلوم ہوا کہ غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والا اللہ سے دور ہی ہوتا جاتا ہے، - امام غزالی نے مذکورہ آیات و روایات اور دوسرے دلائل پیش کرکے فرمایا ہے کہ ان کا یہ تقاضا ہے کہ خشوع نماز کے لئے شرط ہو اور نماز کی صحت اس پر موقوف ہو پھر فرمایا کہ سفیان ثوری حسن بصری اور معاذ بن جبل کا مذہب یہی تھا کہ خشوع کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی بلکہ فاسد ہے لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے خشوع کو شرط صلوٰۃ قرار نہیں دیا بلکہ اسے نماز کی روح قرار دینے کے باوجود صرف اتنا شرط کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قلب کو حاضر کرکے اللہ کے لئے نماز کی نیت کرے باقی نماز میں اگر خشوع حاصل نہ ہو تو اگرچہ اتنی نماز کا ثواب اسے نہیں ملے گا جتنے حصہ میں خشوع نہیں رہا لیکن فقہ کی رو سے وہ تارک صلوٰۃ نہیں کہلائے گا اور نہ اس پر تعزیر وغیرہ کے وہ احکام مرتب ہوں گے جو تارک صلوٰۃ پر لگتے ہیں، - امام غزالی نے اس کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ فقہاء باطنی احوال اور قلبی کیفیات پر حکم نہیں لگاتے بلکہ وہ تو صرف اعضائے ظاہرہ کے اعمال پر ظاہری احکام بیان کرتے ہیں یہ بات یہ فلاں عمل کا ثواب آخرت میں ملے گا یا نہیں یہ فقہ کی حدود سے خارج ہے تو چونکہ باطنی کیفیات پر حکم لگانا ان کی بحث سے خارج ہے اور خشوع ایک باطنی کیفیت ہے اس لئے انہوں نے خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہیں دیا بلکہ خشوع کے ادنی مرتبہ کو شرط کہا اور وہ یہ کہ کم ازکم تکبیر تحریمہ کے وقت محض اللہ کی عبادت و تعظیم کی نیت کرلے،- خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہ دینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی دوسری آیات میں تشریع احکام کا یہ واضح اصول بتادیا گیا ہے کہ انسانوں پر کوئی ایسی چیز فرض نہیں کی جاتی جو ان کی طاقت و امکان سے باہر ہو، اور پوری نماز میں خشوع برقرار رکھنے سے ماسوا چند خاص افراد کے اکثر لوگ عاجز ہوتے ہیں اس لئے تکلیف مالایطاق سے بچنے کے لئے پوری نماز کے بجائے صرف ابتداء صلوٰۃ میں خشوع کو شرط قرار دے دیا گیا ،- نماز خشوع کے بغیر بھی بالکل بےفائدہ نہیں :- امام غزالی آخر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خشوع کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود ہمیں اللہ سے یہی امید ہے کہ غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والا بھی بالکلیہ تارک صلوٰۃ کے درجہ میں نہیں کیونکہ بہرحال اس نے ادائے فرض کا اقدام تو کیا ہے اور تھوڑی سی دیر کے لئے قلب کو اللہ کے لئے فارغ بھی کیا کہ کم از کم نیت کے وقت تو صرف اللہ ہی کا دھیان تھا ایسی نماز کا کم سے کم فائدہ یہ ضرور ہے کہ اس کا نام نافرمانوں اور بےنمازوں کی فہرست سے نکل گیا،- مگر دوسری حیثیت سے یہ خوف بھی ہے کہ کہیں غافل کی حالت تارک سے بھی زیادہ بری نہ ہو، کیونکہ جو غلام آقا کی خدمت میں حاضر ہو کر آقا سے بےتوجہی برتتا اور تحقیر آمیز لہجہ میں کلام کرتا ہے اس کی حالت اس غلام سے زیادہ شدید ہے جو خدمت میں حاضر ہی نہیں ہوتا،- خلاصہ کلام یہ کہ معاملہ بیم ورجاء کا ہے عذاب کا خوف بھی ہے اور بخشش کی امید بھی اس لئے غفلت وتساہل کو چھوڑنے کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش کرتے رہنا چاہئے وما توفیقنا الا باللہ۔
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ٠ ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ ٤٥ ۙ- استِعَانَةُ :- طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45]- الا ستعانہ - مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
قول باری ہے : واستعینوا بالصبروا الصلوۃ اور صبر اور نماز کے ذریعے مدد کرو) اس میں صبر کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ فرائض کی ادائیگی اور اس کے معاصی سے اجتناب پر فرض نماز کو بروئے کار لانے کے ساتھ متعلق ہے۔ سعید نے قتادہ سے روایت بیان کی ہے کہ صبر اور نماز دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نماز کی ادائیگی، گناہوں سے اجتناب اور فرائض کی بجا آوری میں بڑی ممد و معاون ہیں جس طرح یہ قول باری ہے :- (بےشک نماز بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے) یہاں بھی احتمال ہے کہ آیت میں مذکورہ صبر اور صلوۃ سے مستحب صبر و صلوۃ ، مثلاً نفلی روزے اور نفلی نماز مراد ہو، مفروض صبر و صلوۃ مراد نہ ہوں تاہم زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ ان کی مفروض صورتیں مراد ہیں اس لئے کہ امر کے صیغے کا ظاہر ایجاب کے لئے ہوتا ہے اور دلالت کے بغیر اسے کسی اور معنی کی طرف موڑا نہیں جاسکتا۔- قول باری ہے : وانھا لکبیرۃ (اور بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے) اس میں ضمیر مئونث مذکورہ دو باتوں میں سے ایک کی طرف راجع ہے حالانکہ پہلے ان دونوں باتوں کا ذکر ہوچکا ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : واللہ و رسولہ احق ان یرضوا (حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حق دار تھے کہ یہ لوگ انہیں راضی کرتے) نیز ارشاد ہے : واذا راوجارۃ اولھوان انفقضوا الیھا (جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ )- شاعرکا شعر ہے۔- فمن یک امسی بالمدینۃ رحلہ فانی وقیار بھا لغریب - جس شخص کا کجا وہ مدینہ میں ٹک گیا ہے ، یعنی وہ اس شہر میں رہائش پذیر ہوگیا ہے تو وہ وہاں رہائش پذیر ہوگیا لیکن جہاں تک میرا اور قیار کا تعلق ہے تو ہم اس شہر میں اجنبی اور مسافر ہیں۔ )
(٤٥) اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور گناہوں کے ترک پر صبر سے اور گناہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے زیادہ نمازوں سے مدد لو، اور نماز بہت بھاری ہے مگر تواضع کرنے والوں پر، جو اس بات کو جانتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” اتامرون الناس بالبر “۔ (الخ)- واحدی (رح) اور ثعلبی (رح) نے کلبی (رح) ، ابوصالح (رح) کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ (رض) ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے یہ آیت کریمہ مدینہ منورہ کے یہود کے متعلق نازل ہوئی کیوں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ننھیال، اپنے رشتہ داروں اور ان مسلمانوں سے جن کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا کہتے تھے کہ جس دین پر تم ہو اسی پر ثابت رہو اور یہ شخص یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بات کا تمہیں حکم دے وہ حق اور درست ہے اور لوگوں کو ایمان لانے کا کہتے تھے اور خود نہیں لاتے تھے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٤٥ (وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط) “ - یہاں پر صبر کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ علماء سوء کیوں وجود میں آتے ہیں ؟ جب وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں تو حب مال ان کے دل میں گھر کرلیتی ہے اور وہ دنیا کے کتے بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دین کو بدنام کرنے والے ہوتے ہیں۔ بظاہر دینی مراسم کے پابند نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پردے میں دنیاداری کا معاملہ ہوتا ہے۔ چناچہ انہیں صبر کی تاکید کی جا رہی ہے۔ سورة المائدۃ میں یہود کے علماء و مشائخ پر بایں الفاظ تنقید کی گئی ہے : (لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط) (المائدۃ : ٦٣) ” کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے علماء اور صوفیاء جھوٹ بولنے سے اور حرام کھانے سے ؟ “ اگر کوئی عالم یا پیر اپنے ارادت مندوں کو ان چیزوں سے روکے گا تو پھر اس کو نذرانے تو نہیں ملیں گے ‘ اس کی خدمتیں تو نہیں ہوں گی۔ چناچہ اگر تو دنیا میں صبر اختیار کرنا ہے ‘ تب تو آپ حق بات کہہ سکتے ہیں ‘ اور اگر دنیوی خواہشات ( ) مقدم ہیں تو پھر آپ کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا ( ) کرنا پڑے گا۔ - صبر کے ساتھ جس دوسری شے کی تاکید کی گئی وہ نماز ہے۔ علماء یہود وضوح حق کے باوجود جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب مال اور حب جاہ تھی۔ یہاں دونوں کا علاج بتادیا گیا کہ حب مال کا مداوا صبر سے ہوگا ‘ جبکہ نماز سے عبودیت و تذلل پیدا ہوگا اور حب جاہ کا خاتمہ ہوگا۔ّ َ - (وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ ) ” - عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اِنَّہَا کی ضمیر صرف صلوٰۃ کے لیے ہے۔ یعنی نماز بہت بھاری اور مشکل کام ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ یہ درحقیقت اس پورے طرز عمل کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے شدائد اور ابتلاء ات کا مقابلہ صبر اور نماز کی مدد سے کیا جائے۔ مطلوب طرز عمل یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے متعلقات میں کم سے کم پر قانع ہوجاؤ اور حق کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں آجاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کو اپنے معمولات حیات کا محور بناؤ ‘ جو کہ عماد الدّین ہے۔ فرمایا کہ یہ روش یقیناً بہت بھاری ہے ‘ اور نماز بھی بہت بھاری ہے۔ - (اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ) ” “ - ان خشوع رکھنے والوں پر ‘ ان ڈرنے والوں پر یہ روش بھاری نہیں ہے جن کے دل اللہ کے آگے جھک گئے ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :60 یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دُشواری محسُوس ہوتی ہے تو اس دُشواری کا علاج صبر اور نماز ہے ، ان دوچیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی ۔ صَبْر کے لُغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی ، عَزْم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ اِنضباط ہے ، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے ۔ ارشاد الہٰی کا مدّ عا یہ ہے کہ اس اخلاقی صفت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو ۔