[٦٥] یعنی جو لوگ مرنے کے بعد اپنے پروردگار سے ملنے اور اس کے حضور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں۔ ان کے لیے نماز کی ادائیگی کبھی مشکل نہیں ہوا کرتی بلکہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے یا نماز میں تاخیر ہوجائے تو ان کی طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور جب تک وہ نماز ادا نہ کرلیں انہیں چین نہیں آتا اور جو لوگ روز آخرت پر پورا یقین نہیں رکھتے، ان کے لیے نماز ایک مصیبت اور مفت کی بیگار ہوتی ہے۔
نماز کی پابندی ویسے تو ایک نہایت مشکل ذمہ داری ہے، مگر جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت کا یقین ہے ان پر یہ بھاری نہیں ہے۔ یہاں ظن سے مراد یقین ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ) [ البقرۃ : ٤ ] ” اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں۔ “ [ أضواء البیان ]
الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ ٤٦ ۧ- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔
(٤٦۔ ٤٧) اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میرے ان انعامات کو یاد رکھو جو میں نے تم پر کیے ہیں اور میں نے تمہیں کتاب، رسول اور اسلام کے ذریعے تمہارے زمانے کے جہان پر تمہیں فضیلت دی ہے۔
آیت ٤٦ ( الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ ) میں نے شروع میں (وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ) کے ذیل میں توجہّ دلائی تھی کہ یہ ایمان بالآخرت ہی ہے جو انسان کو عمل کے میدان میں سیدھا رکھتا ہے۔ - (وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) انہیں اس کے روبروحاضر ہونا ہے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :61 یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ، اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے ، جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا ۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سرِ اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے ، اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں ، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے ۔