بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا آیت ( وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰي عِلْمٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) 44 ۔ الدخان:32 ) یعنی انہیں ان کے زمانے کے ( اور لوگوں پر ) ہم نے علم میں فضیلت دی ۔ اور فرمایا آیت ( وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:20 ) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا ۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لئے کہ امت محمدیہ ان سے یقینا افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:110 ) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لئے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا ۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر انشاء اللہ آیت ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:110 ) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لئے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے ۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، دعا ( صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ ) ۔
47۔ 1 یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے۔ ھداھا اللہ تعالیٰ یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔
[٦٦] یعنی ایک وہ وقت تھا جب تمام اقوام پر بنی اسرائیل کے علم و فضیلت کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن اللہ کی اس نعمت کا ان پر الٹا اثر ہوا، بجائے اس کے کہ وہ شکر ادا کرتے اور اس کے حضور سرنگوں ہوتے اور تقویٰ اختیار کرتے وہ ازراہ تکبر یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں۔ لہذا اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ لہذا ہمیں عذاب نہیں ہوگا اور یہ بات ان کے عقیدہ میں راسخ ہوگئی تھی۔
اوپر آیت ٤٠ میں اختصار کے ساتھ بنی اسرائیل کو اپنے احسانات یاد دلائے تھے، اب تفصیل کے ساتھ ان کا بیان شروع کرنے کے لیے دوبارہ خطاب کیا ہے اور وعظ کا یہ انداز نہایت بلیغ اور مؤثر ہوتا ہے۔ ( المنار) نیز ان کو توجہ دلائی ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور دوسری بےہودگیوں سے باز آجاؤ۔ - جہانوں پر فضیلت بخشی، اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے زمانوں کے لوگ ہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے پر یہ فضیلت (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ ) [ آل عمران : ١١٠ ] فرما کر اس امت کو عطا کردی گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ )” سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے، پھر وہ جو ان سے ملیں گے۔ “ [ بخاری، الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور إذا أشہد : ٢٦٥٢، عن عبداللہ بن مسعود (رض) ]
خلاصہ تفسیر - اے اولاد یعقوب (علیہ السلام) کہ تم لوگ میری اس نعمت کو یاد کرو (تاکہ شکر اور اطاعت کی تحریک ہو) جو میں نے تم کو انعام میں دی تھی اور اس (بات) کو (یاد کرو) کہ میں نے تم کو (خاص خاص برتاؤ میں) تمام دنیا جہان والوں پر فوقیت دی تھی (اور ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تم کو ایک بڑے حصہ مخلوق پر فوقیت دی تھی مثلاً اس زمانہ کے لوگوں پر) ۔- فائدہ : اس آیت میں خطاب چونکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کو ہے اور عموما ایسا ہوتا ہے کہ باپ دادا پر جو احسان و اکرام کیا جائے اس سے اس کی اولاد بھی فائدہ حاصل کرتی ہے جس کا عام طور پر مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اس لئے ان کو بھی اس آیت میں مخاطب سمجھا جاسکتا ہے، - اور ڈرو تم ایسے دن سے کہ (جس میں) نہ تو کوئی شخص کسی شخص کی طرف سے کچھ مطالبہ ادا کرسکتا ہے اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہوسکتی ہے (جبکہ خود اس شخص میں ایمان نہ ہو جس کی سفارش کرتا ہے) اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی معاوضہ لیا جاسکتا ہے اور نہ ان لوگوں کی طرفداری چل سکے گی، - فائدہ : آیت میں جس یوم کا ذکر ہے اس سے قیامت کا دن مراد ہے مطالبہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی کے ذمہ نماز روزہ کا مطالبہ ہو اور دوسرا کہہ دے کہ میرا نماز روزہ لے کر اس کا حساب بیباق کردیا جائے اور معاوضہ یہ کہ کچھ مال وغیرہ داخل کرکے بچا لادے سو دونوں باتیں نہ ہوں گی اور بدون ایمان کے سفارش قبول نہ ہونے کو جو فرمایا ہے تو اور آیتوں سے معلوم ہوا کہ اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایسوں کی خود سفارش ہی نہ ہوگی جو قبول کی گنجائش ہو اور طرفداری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی زوردار حمایت کرکے زبردستی نکال لادے،- غرض یہ کہ دنیا میں مدد کرنے کے جتنے طریقے ہوتے ہیں بدون ایمان کے کوئی طریقہ بھی نہ ہوگا،
رکوع نمبر 6- يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىْٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٤٧- اِسْرَاۗءِيْلَ- ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .- (إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال .- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ بلکہ پندرہویں رکوع کی پہلی دو آیات بھی شامل کر لیجیے ‘ یہ دس رکوعوں سے دو آیات زائد ہیں کہ جن میں خطاب کل کا کل بنی اسرائیل سے ہے۔ البتہ ان میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ جس میں انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی پرزور دعوت دی گئی ہے ‘ جبکہ بقیہ نو رکوع اس فرد قرارداد جرم پر مشتمل ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ یہ احسان و اکرام کیا ‘ تم پر یہ فضل کیا ‘ تم پر یہ کرم کیا ‘ تمہیں یہ حیثیت دی ‘ تمہیں یہ مقام دیا اور تم نے اس اس طور سے اپنے اس مشن کی خلاف ورزی کی جو تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور اپنے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر دنیا پرستی کی روش اختیار کی۔ ان نو رکوعوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تو ایک بہت بڑا حصہّ اس کے خدوخال ( ) سمیت آگیا ہے ‘ لیکن اصل میں یہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک پیشگی تنبیہہ ہے کہ کوئی مسلمان امت جب بگڑتی ہے تو اس میں یہ اور یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔ چناچہ اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث بھی موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : - (لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلَ بالنَّعْلِ ) (٧)- ” میری امت پر بھی وہ سب حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ‘ بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ “ - ایک دوسری حدیث میں جو حضرت ابوسعید خدری (رض) سے مروی ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل ہوا ہے :- (لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ ) قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ : (فَمَنْ ؟ ) (٨)- ” تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ‘ بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے “۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود و نصاریٰ کی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو اور کس کی ؟ “- ترمذی کی مذکورہ بالا حدیث میں تو یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ : (حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَّنْ اَتٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَصْنَعُ ذٰلِکَ ) یعنی اگر ان میں کوئی بدبخت ایسا اٹھا ہوگا جس نے اپنی ماں سے علی الاعلان زنا کیا تھا تو تم میں سے بھی کوئی شقی ایسا ضرور اٹھے گا جو یہ حرکت کرے گا۔ اس اعتبار سے ان رکوعوں کو پڑھتے ہوئے یہ نہ سمجھئے کہ یہ محض اگلوں کی داستان ہے ‘ بلکہ : ّ َ - ” خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں “- کے مصداق یہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے اور ہمیں ہر مرحلے پر سوچنا ہوگا ‘ دروں بینی کرنی ہوگی کہ کہیں اسی گمراہی میں ہم بھی تو مبتلا نہیں ؟- دوسرا اہم نکتہ پہلے سے ہی یہ سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کی آیات ٤٧۔ ٤٨ جن سے اس چھٹے رکوع کا آغاز ہو رہا ہے ‘ یہ دو آیتیں بعینہٖ پندرہویں رکوع کے آغاز میں پھر آئیں گی۔ ان میں سے پہلی آیت میں تو شوشے بھر کا فرق بھی نہیں ہے ‘ جبکہ دوسری آیت میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلی ہے ‘ مضمون وہی ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ گویا دو بریکٹ ہیں اور نو (٩) رکوعوں کے مضامین ان دو بریکٹوں کے درمیان ہیں۔ اور سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع جو ان بریکٹوں سے باہر ہے ‘ اس کے مضامین بریکٹوں کے اندر کے سارے مضامین سے ضرب کھا رہے ہیں۔ یہ حساب کا بہت ہی عام فہم سا قاعدہ ہے کہ بریکٹ کے باہر لکھی ہوئی رقم ‘ جس کے بعد جمع یا تفریق وغیرہ کی کوئی علامت نہ ہو ‘ وہ بریکٹ کے اندر موجود تمام اقدار ( ) کے ساتھ ضرب کھائے گی۔ تو گویا اس پورے معاملے میں ہر ہر قدم پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت موجود ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اس حصے میں بعض آیات ایسی آگئی ہیں جن سے کچھ لوگوں کو مغالطہ پیدا ہوا یا جن سے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر فتنہ پیدا کیا کہ نجات اخروی کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان ضروری نہیں ہے۔ اس فتنے نے ایک بار اکبر کے زمانے میں ” دینِ الٰہی “ کی شکل میں جنم لیا تھا کہ آخرت میں نجات کے لیے صرف خدا کو مان لینا ‘ آخرت کو مان لینا اور نیک اعمال کرنا کافی ہے ‘ کسی رسول پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ فتنہ صوفیاء میں بھی بہت بڑے پیمانے پر پھیلا اور ” مسجد مندر ہکڑو نور “ کے فلسفے کی تشہیر کی گئی۔ یعنی مسجد میں اور مندر میں ایک ہی نور ہے ‘ سب مذاہب اصل میں ایک ہی ہیں ‘ سارا فرق شریعتوں کا اور عبادات کی ظاہری شکل کا ہے۔ اور وہ رسولوں سے متعلق ہے۔ چناچہ رسولوں کو بیچ میں سے نکال دیجیے تو یہ ” دینِ الٰہی “ (اللہ کا دین) رہ جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جو ہندوستان میں اس وقت اٹھا جب سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا اقتدار چوٹی ( ) پر تھا۔ یہ فتنہ جس مسلمان حکمران کا اٹھایا ہوا تھا وہ ” اکبر اعظم “ اور ” مغل اعظم “ کہلاتا تھا۔ اس کے پیش کردہ ” دین “ کا فلسفہ یہ تھا کہ دین محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور ختم ہوگیا (نعوذ باللہ) ‘ وہ ایک ہزار سال کے لیے تھا ‘ اب دوسرا ہزار سال (الف ثانی) ہے اور اس کے لیے نیا دین ہے۔ اسے ” دین اکبری “ بھی کہا گیا اور ” دینِ الٰہی “ بھی۔ سورة البقرۃ کے اس حصے میں ایک آیت آئے گی جس سے کچھ لوگوں نے اس ” دینِ الٰہی “ کے لیے استدلال کیا تھا۔- ہندوستان میں بیسویں صدی میں یہ فتنہ پھر اٹھا جب گاندھی جی نے ” متحدہ وطنی قومیت “ کا نظریہ پیش کیا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا نابغہ ( ) انسان ابوالکلام آزاد بھی اس فتنے کا شکارہو گیا۔ گاندھی جی اپنی پراتھنا میں کچھ قرآن کی تلاوت بھی کرواتے ‘ کچھ گیتا بھی پڑھواتے ‘ کچھ اپنشدوں سے ‘ کچھ بائبل سے اور کچھ گروگرنتھ سے بھی استفادہ کیا جاتا۔ متحدہ وطنی قومیت کا تصور یہ تھا کہ ایک وطن کے رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں ‘ لہٰذا ان سب کو ایک ہونا چاہیے ‘ مذہب تو انفرادی معاملہ ہے ‘ کوئی مسجد میں چلا جائے ‘ کوئی مندر میں چلا جائے ‘ کوئی گُردوارے میں چلا جائے ‘ کوئی کلیسا ‘ سنیگاگ یا چرچ میں چلا جائے تو اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے ؟ اس طرح کے نظریات اور تصورات کا توڑ یہی ہے کہ یوں سمجھ لیجیے کہ پانچویں رکوع کی سات آیات بریکٹ کے باہر ہیں اور یہ بریکٹوں کے اندر کے مضمون سے مسلسل ضرب کھا رہی ہیں۔ چناچہ ان بریکٹوں کے درمیان جتنا بھی مضمون آ رہا ہے وہ ان کے تابع ہوگا۔ گویا جہاں تک محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا معاملہ ہے وہ ہر مرحلے پر مقدر ( ) سمجھا جائے گا۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔- آیت ٤٧ (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ) - اس کی وضاحت گزشتہ رکوع میں ہوچکی ہے ‘ لیکن یہاں آگے جو الفاظ آ رہے ہیں بہت زوردار ہیں :- (وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) “- عربی نحو کا یہ قاعدہ ہے کہ کہیں ظرف کا تذکرہ ہوتا ہے (یعنی جس میں کوئی شے ہے) لیکن اس سے مراد مظروف ہوتا ہے (یعنی ظرف کے اندر جو شے ہے) ۔ یہاں بھی ظرف کی جمع لائی گئی ہے لیکن اس سے مظروف کی جمع مراد ہے۔ ” تمام جہانوں پر فضیلت “ سے مراد ” جہان والوں پر فضیلت “ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں تمام اقوام عالم پر فضیلت عطا کی۔ عالم انسانیت کے اندر جتنے بھی مختلف گروہ ‘ نسلیں اور طبقات ہیں ان میں فضیلت عطاکی۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :62 یہ اس دَور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی ، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علم حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام و رہنما بنا دیا گیا تھا ، تاکہ وہ بندگیِ ربّ کے راستے پر سب قوموں کو بُلائے اور چلائے ۔