50۔ 1 سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنادینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورة شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔
[٦٩] بنی اسرائیل پر بیتے ہوئے تاریخی واقعات چونکہ بہت مشہور اور زبان زد خاص و عام تھے۔ لہذا یہاں ان کا اجمالی ذکر ہی آیا ہے۔ البتہ بعض دوسرے مقامات پر ان کی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ انہیں میں سے ایک واقعہ بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی غرقابی کا بھی ہے۔- بنی اسرائیل کی گؤ سالہ پرستی :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل جب جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا تاکہ اس نئی آزاد شدہ قوم (بنی اسرائیل) کو عملی ہدایات و احکام عطا کئے جائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد اس قوم نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ مصر میں گؤ سالہ پرستی کا عام رواج تھا۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل انحطاط کا شکار ہوگئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں (فرعونیوں) کے غلام بن گئے۔ انہیں کی بود و باش اپنانے میں عافیت سمجھی اور منجملہ دوسری رذیلہ امراض کے گؤ سالہ پرستی کو بھی اپنا لیا۔ فرعون سے نجات پا جانے کے بعد تاحال گؤ سالہ پرستی کے جراثیم ان سے ختم نہیں ہوئے تھے۔
اس واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (٩٠) اور سورة شعراء (٥٢ تا ٦٧)
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب کہ شق کردیا ہم نے تمہارے ( رستہ دینے کی) وجہ سے دریائے شور کو پھر ہم نے (ڈوبنے سے) بچا لیا تم کو اور غرق کردیا متعلقین فرعون کو (مع فرعون کے) اور تم (اس کا) معائنہ کر رہے تھے،- فائدہ : یہ قصہ اس وقت ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہو کر پیغمبر ہوگئے اور مدتوں فرعون کو سمجھاتے رہے جب وہ کسی طرح نہ مانا تو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو خفیہ طور پر لے کر یہاں سے چلے جاؤ، راستہ میں دریا حائل ہوا اور اسی وقت پیچھے سے فرعون بھی مع لشکر آپہنچا حق تعالیٰ کے حکم سے دریا شق ہوگیا اور بنی اسرائیل کو گذرنے کا راستہ مل گیا یہ تو پار ہوگئے فرعون کے پہنچنے تک دریا اسی طرح رہا وہ بھی تعاقب کی غرض سے اس میں گھس گیا اس وقت سب طرف سے دریا سمٹ کر اپنی سابق حالت پر ہوگیا اور فرعون اور اس کے ساتھی سب وہاں ہی غرق ہو کر ختم ہوگئے،
وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ٥٠- فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
(٥٠) اور جس وقت ہم نے دریا کو پھاڑ کر تمہیں غرق ہونے سے بچایا اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا اور اس منظر کو تم تین دن بعد تک دیکھتے رہے۔
آیت ٥٠ (وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ ) - یہ ایک مختلف فیہ بات ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نمائے سینا آنے کے لیے کس سمندر یا دریا کو عبور کیا تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ دریائے نیل کو عبور کر کے گئے تھے ‘ لیکن یہ بات اس اعتبار سے غلط ہے کہ دریائے نیل تو مصر کے اندر بہتا ہے ‘ وہ کبھی بھی مصر کی حد نہیں بنا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو عبور کیا تھا۔ بحیرۂ قلزم ( ) اوپر جا کر دو کھاڑیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے ‘ مشرق کی طرف خلیج عقبہ اور مغرب کی طرف خلیج سویز ہے اور ان کے درمیان جزیرہ نمائے سینا ( ) ہے۔ یہ اسی طرح کی تکون ہے جیسے جزیرہ نمائے ہند ( ) ہے۔ خلیج سویز اور بحیرۂ روم کے درمیان کئی بڑی بڑی جھیلیں تھیں ‘ جن کو باہم جوڑ جوڑ کر ‘ درمیان میں حائل خشکی کو کاٹ کر نہر سویز بنائی گئی ہے ‘ جو اب ایک مسلسل رابطہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو عبور کیا تھا۔ مجھے خود بھی اسی رائے سے اتفاق ہے۔ اس لیے کہ کوہ طور اس جزیرہ نمائے سینا کی نوک ( ) پر واقع ہے ‘ جہاں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو چالیس دن رات کے لیے بلایا گیا اور پھر انہیں تورات دی گئی۔ بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو اس طرح عبور کیا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے عصا کی ایک ضرب سے سمندر پھٹ گیا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : (فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ) (الشُّعراء) ” پس سمندر پھٹ گیا اور ہوگیا ہر حصہ جیسے بڑا پہاڑ “۔ سمندر کا پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا اور بنی اسرائیل اس کے درمیان میں سے نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے جب فرعون اپنا لشکر لے کر آیا تو اس نے سوچا کہ ہم بھی ایسے ہی نکل جائیں گے ‘ لیکن وہ غرق ہوگئے۔ اس لیے کہ دونوں طرف کا پانی آپس میں مل گیا۔ یہ ایک معجزانہ کیفیت تھی اور یہ بات فطرت ( ) کے قوانین کے مطابق نہیں تھی۔- (فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ) ” “ - تمہاری نگاہوں کے سامنے فرعون کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا۔ بنی اسرائیل خلیج سویز سے گزر چکے تھے اور دوسری جانب کھڑے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ادھر سے فرعون اور اس کا لاؤ لشکر سمندر میں داخل ہوا تو پانی دونوں طرف سے آکر مل گیا اور یہ سب غرق ہوگئے۔
41 : اس کا واقعہ بھی مذکورہ بالا دو سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔