احسان فراموش یہود یہاں بنی اسرائیل کی بےصبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلوی جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے ۔ قوم کے معنی میں اختلاف ہے ابن مسعود کی قرأت میں ثوم ہے ، مجاہد نے فوم کی تفسیر ثوم کے ساتھ کی ہے ۔ یعنی لہسن ، حضرت ابن عباس سے بھی یہ تفسیر مروی ہے اگلی لغت کی کتابوں میں فوموالنا کے معنی اختبروا یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے عاثور شرعا فور شراثافی اثاثی مفافیر مغاثیر وغیرہ جن میں ف سے ت اور ث بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں واللہ اعلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں حضرت ابن عباس سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیجہ کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا ۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں حضرت قتادہ اور حضرت عطا فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت مصرا ہی ہے اور تمام قرأت وں میں یہی لکھا ہوا ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ ۔ ابی بن کعب اور ابن مسعود سے مصر کی قراءت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا قواریرا قواریرا میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لئے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا واللہ اعلم ۔ پاداش عمل مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی ۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا آباؤ کے معنی لوٹنے اور رجوع کیا کے ہیں باء کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار ، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیا اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا ؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں کو بلاوجہ قتل کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لئے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نبی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا ( ابو داؤد طیالسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا ۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے واللہ اعلم ۔
61۔ 1 یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ انکا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔ 61۔ 2 کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری ؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفس عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ 61۔ 3 یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہوسکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں ؟ 61۔ 4 یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْ (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
[٧٨] بنی اسرائیل کا من وسلویٰ پر قناعت نہ کرنا :۔ یہ بھی اسی جنگل کا واقعہ ہے جہاں ایک طویل مدت کے لئے بنی اسرائیل کو محصور کیا گیا تھا۔ انہیں من وسلویٰ جیسی نعمتیں بلا مشقت مل رہی تھیں۔ مگر وہ ان چیزوں کو کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے تو زمینی پیداوار کا مطالبہ کردیا۔ موسیٰ نے انہیں سمجھایا کہ جو چیز تمہیں یہاں سے بلامشقت مل رہی ہے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جو تم مانگ رہے ہو اور وہ مشقت کے بعد ہی تمہیں حاصل ہوگی۔ لیکن جب ان لوگوں نے اپنے مطالبہ پر اصرار کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے بالآخر ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی چاہتے ہو تو فلاں شہر میں چلے جاؤ، وہاں تمہیں یہ چیزیں میسر آجائیں گی۔ - موسیٰ (علیہ السلام) کا صرف یہی مطلب نہ تھا کہ من وسلویٰ جو تمہیں بلا مشقت مل رہا ہے وہ بامشقت گندم اور ساگ وغیرہ سے بہتر ہے، بلکہ یہ بھی تھا کہ جنگل کی آزادانہ فضا تم سے بزدلی دور کرنے، شجاعت پیدا کرنے اور جہاد کے لیے مستعد ہونے اور فارغ رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لحاظ سے شہر کی مصروف اور آرام پرستانہ زندگی سے بہرحال بہتر ہے اور تم اپنے لیے ایک بہتر چیز کے بجائے ایک گھٹیا بات کا مطالبہ کر رہے ہو۔ - [٧٩] ذلت اور مسکنت کا مفہوم :۔ ذلت اور بدحالی کے علاوہ اللہ کا غضب یہ ہوا کہ ان کی ٹریننگ اور تربیت کی مدت کو پھیلا کر چالیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ ورنہ اگر اللہ اور اس کے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کی مرضی پر چلتے تو ممکن تھا کہ چالیس سال گزرنے سے پہلے ہی شام کا ملک فتح کرنے کے قابل ہوجاتے۔ مگر ان لوگوں کی عادت ہی یہ بن گئی تھی کہ جو بات اپنی مرضی کے خلاف دیکھتے تو فوراً نافرمانیوں پر اتر آتے تھے حتیٰ کہ بعض انبیاء تک کو قتل کرتے رہے اور اللہ کے غضب، ذلت اور مسکنت کی دوسری صورت یہ ہے کہ یہودی قوم کئی بار دوسری قوموں سے پٹ چکی ہے۔ مالدار ہونے کے باوجود آج بھی سخت افرادی قلت سے دو چار ہے اور ایک چھوٹے سے خطہ میں ان کی حکومت قائم ہوئی بھی ہے تو وہ دوسری قوموں کے سہارے پر اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اخلاقی انحطاط اس قدر ہے کہ آج بھی بےحیائی، فحاشی، سودخوری اور حرام خوری اس قوم کا طرہ امتیاز ہے۔
من اور سلویٰ کو ایک کھانا اس لیے قرار دیا کہ روزانہ یہی کھانے کو ملتا تھا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ پرندوں کا گوشت اور صحرا کی فطری خود رو چیزیں اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت اور صحت کے لیے بہترین غذا تھیں، پھر انھیں آزادی اور فراغت حاصل تھی، جس میں وہ علم حاصل کرسکتے تھے اور جہاد کی تیاری کر کے عزت و اقتدار حاصل کرسکتے تھے، مگر انھوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی اور ان چیزوں کا تقاضا کرنے لگے جن کے وہ زمانۂ غلامی میں عادی تھے اور جو آزاد فضا میں ملنے والے من وسلویٰ کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں۔ پھر اس کے لیے کھیتی باڑی میں مشغول ہونا پڑتا تھا، جو ہمیشہ فاتح قومیں مفتوح قوموں سے کرواتی ہیں اور جس میں مکمل مشغولیت کا نتیجہ ذلت و مسکنت ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا : (وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ) [ البقرۃ : ١٩٥ ] ” اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو۔ “ اس آیت کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ ابو امامہ باہلی (رض) نے ہل اور کھیتی باڑی کا کوئی اوزار دیکھا تو فرمایا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ نے فرمایا : ( لاَ یَدْخُلُ ہٰذَا بَیْتَ قَوْمٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الذُّلَّ ) ” یہ چیزیں کسی گھر میں داخل نہیں ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اس میں ذلت داخل کردیتا ہے۔ “ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھیتی باڑی حرام ہے، بلکہ مراد اس کام میں کھو جانا اور جہاد ترک کرنا ہے، اس لیے امام بخاری (رض) نے اس حدیث پر باب باندھا ہے : ” بَابُ مَا یُحْذَرُ مِنْ عَوَاقِبِ الْاِشْتِغَال بآلَۃِ الزَّرْعِ أَوْ مُجَاوَزَۃِ الْحَدِّ الَّذِیْ أُمِرَ بِہِ “ یعنی کھیتی باڑی کے اوزاروں میں زیادہ مشغول ہونے کے نتیجے میں یا اس حد سے تجاوز میں، جس کا حکم دیا گیا ہے، جو خطرات ہیں ان کا باب۔ “ [ بخاری، المزارعۃ، قبل ح : ٢٣٢١ ] - بنی اسرائیل پر بھی ان کے اس مطالبے کے نتیجے میں ذلت و مسکنت مسلط کردی گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١١٢) - (مِصْرًا) میں تنوین تہویل یعنی خوف ناکی کے اظہار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری غضب “ کیا گیا ہے۔ - یہاں ” مِصْرًا “ نکرہ اور منصرف ہے، کیونکہ مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں الف موجود ہے، اس لیے اس سے مراد کوئی ایک شہر ہے۔ ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر کی ہے، بعض نے فرعون والا مصر مراد لیا ہے۔ (ابن کثیر)- ( بِغَضَبٍ ) اس میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری غضب “ کیا گیا ہے۔ - (وَفُوْمِهَا) اکثر مفسرین نے اس سے مراد گندم لی ہے، بعض نے لہسن مراد لیا ہے۔- بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوئی نبی قتل نہیں ہوا، کیونکہ یہ اس وعدے کے خلاف ہے جو سورة ابراہیم (١٣، ١٤) میں مذکور ہے۔ یہ لوگ قتل کا معنی ارادۂ قتل یا سخت تکلیف دینا لیتے ہیں، مگر قرآن مجید میں کئی جگہ صریحاً لفظ ” قتل “ آیا ہے، مثلاً : (قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِيَاۗءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ ) [ البقرۃ : ٩٢ ] ” کہہ دے پھر اس سے پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے۔ “ رہا وعدۂ الٰہی تو وہ عام مومنوں سے بھی ہے، دیکھیے سورة نور (٥٥) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی مومن قتل نہیں ہوا، یقیناً کئی مومن قتل ہوئے اور کئی انبیاء بھی، خود ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بیماری میں جس میں فوت ہوئے فرماتے تھے : ( یَا عَاءِشَۃُ مَا أَزَالُ أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِیْ أَکَلْتُ بِخَیْبَرَ فَہٰذَا أَوَانُ وَجَدْتُّ انْقِطَاعَ أَبْہَرِیْ مِنْ ذٰلِکَ السُّمِّ )” میں ہمیشہ اس کھانے کی تکلیف محسوس کرتا رہا اور یہ وقت ہے کہ میں نے اس زہر سے اپنی دل کی رگ کا کٹ جانا محسوس کیا ہے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب مرض النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - ووفاتہ : ٤٤٢٨ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا وَ إِمَامُ ضَلاَلَۃٍ وَ مُمَثِّلٌ مِنَ الْمُمَثِّلِیْنَ )” قیامت کے دن سب سے سخت عذاب والا وہ آدمی ہے جسے کسی نبی نے قتل کیا یا اس نے کسی نبی کو قتل کیا اور گمراہی کا امام اور مصوروں میں سے کوئی مصور۔ “ [ مسند أحمد : ١؍٤٠٧، ح : ٣٨٦٨۔ عن عبداللہ بن مسعود (رض) ، صححہ أحمد شاکر و حسنہ الشیخ مقبل الوادعی ] اگر کوئی نبی قتل ہو ہی نہیں سکتا تو اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا ؟ خود بائبل میں زکریا (علیہ السلام) کا قتل ( تواریخ، باب : ٢٤، فقرہ : ٢١) اور یحییٰ (علیہ السلام) کا قتل (مرقس، باب : ٦، آیت : ١٧۔ ٢٩) مذکور ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب تم لوگوں نے (یوں) کہا کہ اے موسیٰ (روز کے روز) ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر بھی کبھی نہ رہیں گے (یعنی من وسلویٰ پر) آپ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لئے ایسی چیزیں پیدا کریں جو زمین میں اگا کرتی ہیں ساگ (ہوا) ککڑی (ہوئی) گیھوں (ہوا) مسور (ہوئی) پیاز (ہوئی) آپ نے فرمایا کیا تم عوض میں لینا چاہتے ہو، ادنی درجہ کی چیزوں کو ایسی چیز کے مقابلہ میں جو اعلیٰ درجہ کی ہے (اچھا اگر نہیں مانتے تو) کسی شہر میں (جاکر) اترو (وہاں) البتہ تم کو وہ چیزیں ملیں گی جن کی تم درخواست کرتے ہو اور (ایسی ایسی گستاخیوں سے ایک زمانہ میں جاکر نقش کی طرح) جم گئی ان پر ذلت (کہ دوسروں کی نگاہ میں قدر نہ رہی) اور پستی (کہ خود ان کی طبائع میں اولو العزمی نہ رہی) اور مستحق ہوگئے غضب الہی کے (اور) یہ (ذلت وغضب) اس وجہ سے (ہوا) کہ وہ لوگ منکر ہوجاتے تھے احکام الہیہ کے اور قتل کردیا کرتے تھے پیغمبروں کو (کہ وہ قتل خود ان کے نزدیک بھی) ناحق (ہوتا تھا) اور (نیز) یہ (ذلت وغضب) اس وجہ سے (ہوا) کہ ان لوگوں نے اطاعت نہ کی اور دائرہ (اطاعت) سے نکل نکل جاتے تھے،- فائدہ : یہ قصہ بھی وادی تیہ کا ہے من وسلویٰ سے اکتا کر ان ترکاریوں اور غلوی کی درخواست کی اس میدان کے داخل حدود میں کوئی شہر آباد تھا وہاں جاکر رہنے کا حکم ہوا کہ بؤ و جو تو کھاؤ کماؤ ،- اور منجملہ ذلت ومسکنت کے یہ بھی ہے کہ یہودیوں سے سلطنت قرب قیامت تک کیلئے چھین لی گئی البتہ بالکل قیامت کے قریب محض لٹیروں کا سا بےضابطہ تھوڑا زور شور دجال یہودی کا کل چالیس دن کے لیے ہوجائے گا اور اس کو کوئی عاقل سلطنت نہیں کہہ سکتا اور ان کو یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت جتلادی گئی تھی کہ اگر بےحکمی کرو گے تو ہمیشہ دوسری قوموں سے محکوم رہو گے جیسا کہ سورة اعراف کی آیت وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ، (١٦٧: ٧) میں مذکور ہے (موجودہ اسرائیل حکومت کی حیثیت بھی امریکہ اور برطانیہ کے غلام سے زیادہ کچھ نہیں) - اور بہت سے پیغمبر مختلف اوقات میں یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے جس کو وہ لوگ بھی دل میں سمجھتے تھے کہ ہمارا یہ فعل ناحق ہے لیکن عناد اور ضد نے اندھا بنا رکھا تھا،- معارف و مسائل :- یہودیوں پر ابدی ذلت کا مطلب اور اسرائیل کی موجودہ حکومت سے شبہ اور اس کا جواب :- آیات مذکورہ میں یہود کی سزا دنیا میں دائمی ذلت ومسکنت اور دنیا وآخرت میں غضب الہی کو بیان کیا گیا ہے، ان کی دائمی ذلت ومسکنت کا مفہوم جو ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے منقول ہے اس کا خلاصہ ابن کثیر کے الفاظ میں یہ ہے کہ لا یزالون مستذلین من وجدہم استذلہم وضرب علیم الصغار یعنی وہ کہتے ہی مالدار بھی ہوجائیں ہمیشہ تمام اقوام میں ذلیل و حقیر ہی سمجھے جائیں گے جس کے ہاتھ لگیں گے ان کو ذلیل کرے گا اور ان پر غلامی کی علامتیں لگادے گا،- امام تفسیر ضحاک ابن مزاحم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ان کی ذلت ومسکنت کا یہ مفہوم نقل کیا ہے کہ ہم اہل القبالات یعنی لا جزیۃ مطلب یہ ہے کہ یہودی ہمیشہ دوسروں کی غلامی میں رہیں گے ان کو ٹیکس وغیرہ ادا کرتے رہیں گے خود ان کو کوئی قوت و اقتدار حاصل نہ ہوگا،- اس مضمون کی ایک آیت سورة آل عمران میں ایک زیادتی کے ساتھ اس طرح آئی ہے،- ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (١١٢: ٣) جمادی گئی ان پر بےقدری جہاں کہیں جائیں گے مگر ہاں ایک تو ایسے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور ایک ایسے ذریعہ سے جو آدمیوں کی طرف سے ہو۔ - اللہ تعالیٰ کے ذریعہ کا مطلب تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے قانون میں امن دے دیاہو جیسے نابالغ بچے، عورتیں یا ایسے عبادت گذار جو مسلمانوں سے لڑتے نہیں پھرتے وہ محفوظ ومامون رہیں گے اور آدمیوں کے ذریعہ سے مراد صلح ہے جس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مسلمانوں سے معاہدہ صلح کا یا جزیہ دے کر ان کے ملک میں رہنے کا ہوجائے مگر الفاظ قرآنی میں مِنَ النَّاس فرمایا ہے مِنَ المسلمین نہیں اس لئے یہ صورت بھی متحمل ہے کہ دوسرے غیر مسلموں سے معاہدہ صلح کا کرکے ان کی پشت پناہی میں آجائیں تو مامون رہ سکتے ہیں پھر یہ استثنا حبل من اللہ اور حبل من الناس کا اگر بقول کشاف استثناء متصل قرار دیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہود ہمیشہ ہر جگہ ذلیل و خوار رہیں گے بجز ان دو صورتوں کے کہ یا تو اللہ کے عہد کے ذریعہ ان کے بچے، عورتیں وغیرہ اس ذلت و خواری سے نکل جائیں یا معاہدہ صلح کے ذریعہ یہ اپنے آپ کو ذلت و خواری سے بچالیں، - اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے معاہدہ صلح کے ذریعہ ذلت و خواری سے نکلنے کی صورت مسلمانوں سے معاہدہ صلح کرکے بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ دوسری قوموں سے معاہدہ صلح کا کرکے ان کے سہارے ذلت و خواری سے محفوظ رہیں یہ سب تقریر استثنا متصل کی تقدیر پر ہے اور بہت سے حضرات مفسرین نے اس کو استثناء منقطع قرار دیا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ اپنی ذلت اور اپنی قومی حیثیت سے تو ذلیل و خوار ہی رہیں گے گو قانون الہی کی وسعت میں آکر ان کے بعض افراد اس سے محفوظ ہوجائیں گے، یا دوسرے لوگوں کا سہارا لے ذلت و خواری پر پردہ ڈال دیں،- اس طرح سورة بقرہ کی آیت کی وضاحت سورة آل عمران کی آیت سے پوری ہوگئی اور اسی سے وہ تمام شبہات بھی دور ہوگئے جو آجکل فلسطین میں یہودیوں کی حکومت قائم ہونے کی بنا پر بہت سے مسلمانوں کو پیش آتے ہیں کہ قرآن کے قطعی ارشادات سے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیوں کی حکومت کبھی قائم نہ ہوگی اور واقعہ یہ پایا جاتا ہے کہ فلسطین میں ان کی حکومت قائم ہوگئی جواب واضح ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی موجودہ حکومت کی حقیقت سے جو لوگ باخبر ہیں وہ خوب جانتے ہیں کی یہ حکومت درحقیقت اسرائیل کی نہیں ہے بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی ایک چھاؤ نی سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں، یہ اپنی ذاتی طاقت سے ایک مہینہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے یورپین طاقتوں نے اسلامی بلاک کو کمزور کرنے کے لئے ان کے بیچ میں اسرائیل کا نام دے کر ایک چھاؤ نی بنائی ہوئی ہے اور اسرائیلی ان کو نظروں میں بھی ان کے فرماں بردار غلام سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے صرف قرآن کریم کے ارشاد بحبل من الناس کے سہارے ان کا اپنا وجود قائم ہے وہ بھی ذلت کے ساتھ اس لئے موجودہ اسرائیلی حکومت سے قرآن کریم کے کسی ارشاد پر ادنی شبہ بھی نہیں ہوسکتا،- اس کے علاوہ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں میں سب سے پہلے یہود ہیں ان کی شریعت ان کی تہذیب سب سے پہلی ہے اگر پوری دنیا میں فلسطین کے ایک چھوٹے سے قصبہ پر ان کا تسلط کسی طرح ہو بھی گیا تو پوری دنیا کے نقشہ میں یہ حصہ ایک نقطہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے اس کے بالمقابل نصاریٰ کی سلطنتیں اور مسلمانوں کے دور تنزل کے باوجود ان کی سلطنتیں، بت پرستوں کی سلطنتیں لامذہبوں کی حکومتیں جو جگہ جگہ مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہیں ان کے مقابلے میں فلسطین اور وہ بھی آدھا اور اس پر بھی امریکہ، برطانیہ کے زیر سایہ کوئی تسلط یہودیوں کا ہوجائے تو کیا اس سے پوری قوم یہود پر خدا تعالیٰ کی طرف سے لگائی ہوئی دائمی ذلت کا کوئی جواب بن سکتا ہے ؟
وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰي طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِہَا وَقِثَّـاۗىِٕہَا وَفُوْمِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ٠ ۭ قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِىْ ھُوَاَدْنٰى بِالَّذِىْ ھُوَخَيْرٌ ٠ ۭ اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ٠ ۭ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ٠ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ ٦١ ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
(٦١) اور تم نے پھر کہا کہ صرف اس ایک قسم کے کھانے یعنی ترنجبین اور بٹیر پر ہم نہیں رہ سکتے، اللہ تعالیٰ سے زمین کی پیداوار مانگنے لگے تاکہ ساگ، لہسن، پیاز ککڑی، وغیرہ پیدا ہو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا لہسن اور پیاز جیسی ادنی چیز کو ” من وسلوی “ کے مقابلے میں جو افضل اور اعلی ہے تبدیل کرتے ہو یعنی ادنی درجے کی چیز کو مانگتے ہو اور اعلی درجے کی چیز کو چھوڑتے ہو، جس شہر سے آئے ہو وہاں چلے جاؤ یا اور کسی شہر میں، وہاں جو تم لوگوں نے درخواست کی ہے وہی ملے گا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد ان پر جزیہ کی ذلت اتاری گئی، اور وہ فقر و افلاس کی مصیبت میں پڑگئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت وذلت اور مسکنت کی سزا کے مستحق ہوگئے کیوں کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار اور انبیاء کرام کو ناجائز قتل کرتے تھے اور یوم السبت کے بارے میں حق سے تجاوز کرتے اور انبیاء کرام کے قتل کرنے اور گناہوں کو حلال سمجھنے کی وجہ سے یہ غضب ان پر نازل ہوا۔
آیت ٦١ (وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ ) “ - من وسلویٰ کھا کھا کر اب ہم اکتا گئے ہیں۔ - (فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ ) (یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ ) “ - یعنی زمین کی پیداوار میں سے ‘ نباتات ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔- (مِنْم بَقْلِہَا) (وَقِثَّآءِھَا) “ - یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔- (وَفُوْمِہَا) - فُوم کا ایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ” ثُوم “ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ‘ سرائیکی اور سندھی میں ” تھوم “ کہتے ہیں اور یہ فوم اور ثوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ‘ اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث ان کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہوگئے ‘ جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔- (وَعَدَسِہَا) (وَبَصَلِہَا ط) “ - اب جو سالن کے چٹخارے ان چیزوں سے بنتے ہیں ان کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ” مَنّ وسلویٰ “ کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے ‘ لہٰذا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔- (قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ ط) ” “ - مَن وسلویٰ نباتات ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں ؟- (اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ط) ” “ - لفظ ” اِہْبِطُوْا “ پر آیت ٣٨ کے ذیل میں بات ہوچکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہوجاؤ ( ) اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد ( ) ہوجاؤ اور کاشت کاری کرو ‘ یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔ - (وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق) “ (وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط) “ - وہ اللہ کے غضب میں گھرگئے۔- بنی اسرائیل وہ امت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا : (وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (البقرۃ) اسی امت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔ سورة المائدۃ میں فرمایا گیا :- (وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط ) (آیت ٦٦)- ” اگر یہ (اہل کتاب) تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے۔ “- یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ‘ اپنے نظریات ‘ اپنے خیالات ‘ اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدمّ کیا ‘ اور اپنے تمرد ‘ اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالاتر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ‘ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ ( ) ہوتی ہے ‘ اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی ( ) کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اس مسلمان امت کے ذمہّ تھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہوگئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے ؟ آج اس مقام پر موجودہ امت مسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دنیا کے سارے معاملات - 7 اور - 15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ‘ لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی - 7 ‘ - 9 یا - 15 میں شامل ہے۔ گویا ع ” کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی “ ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ‘ ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ‘ ہماری صلح اور جنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘ لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے ؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ‘ ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کردیا ‘ اتنی مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کردی ‘ لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ‘ اپنے اپنے کاروبار میں ‘ اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلطّ کردی گئی ‘ لیکن اس میں آج کی امت مسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے ّ َ - خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں - (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ) (وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط) “ ّ - ہمارے ہاں بھی مجددین امت کو ‘ قتل بھی کیا گیا اور ان میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام (رض) اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ امام احمد بن حنبل (رح) کے ساتھ کیا کچھ ہوا امام ابوحنیفہ (رح) نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ امام دار الہجرت امام مالک (رح) کے کندھے کھینچ دیے گئے اور منہ کالا کر کے انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (رح) ‘ کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی (رح) اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ ان کے ہاں نبی تھے ‘ ہمارے ہاں مجددین ہیں ‘ علماء حق ہیں۔ انہوں نے جو کچھ انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا۔ ّ (ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ) ” “ - ان کو یہ سزا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے (نعوذ باللہ ) ‘ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ” خیر امت “ قراردیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بےلاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ‘ ہر امت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ” سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل “ کے نام سے موجود ہے ‘ اس کا مطالعہ کیجیے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :76 وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے ۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں ۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے ۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی پر جھگڑا نہ ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :77 یہ مطلب نہیں ہے کہ مَنّ و سلویٰ چھوڑ کر ، جو بے مشقّت مِل رہا ہے ، وہ چیزیں مانگ رہے ہو ، جن کےلیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جارہی ہے ، اس کے مقابلےمیں کیا تم کو کام و دہن کی لذّت اتنی مرغوب ہے کہ اس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرُومی کچھ مدّت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے؟ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گنتی ، باب ۱۱ ، آیت ۹-٤ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :78 آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں ۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی ، اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے ، پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکمِ الہٰی کی کچھ پروا نہ کی ۔ تیسرے یہ کہ ارشاد الہٰی کے مطلب و مفہُوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈالا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :79 “بنی اسرائیل نے اپنے اس جُرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں: ( ۱ ) حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں ( یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل ) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنے ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی ۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی ۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغبر کو جیل بھیج دیا ( ۲- تواریخ ، باب ۱۷- آیت ۱۰-۷ ) ( ۲ ) حضرت الیاس ( ایلیاہ ) علیہ السّلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور ازسرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پُھونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑگیا ، حتّٰی کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی ۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاس ؑ نے مانگی ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ”بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں ، سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔ “ ( ۱- سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱۰-۱ ) ( ۳ ) ایک اور نبی حضرت میکا یاہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جُرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا ۔ ( ۱- سلاطین- باب ۲۲-آیت۲۷-۲٦ ) ( ٤ ) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بُت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریاہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی ، تو شاہ یہُوداہ یوآس کے حکم سے انہیں عین ہیکلِ سلیمانی میں ”مَقْدِس“ اور ”قربان گاہ“ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا ( ۲- تواریخ ، باب ۲٤-آیت ۲۱ ) ( ۵ ) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا ، تو ”یرمیاہ“ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اُٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جاؤ ، ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہوگا ۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی ، پیٹے گئے ، قید کیے گئے ، رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں ، بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ۔ ( یرمیاہ ، باب۱۵ ، آیت ۱۰- باب ۱۸ ، آیت ۲۳-۲۰- باب ۲۰ ، آیت ۱۸-۱- باب ۳٦ تا باب ٤۰ ) ( ٦ ) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے برے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جاؤ اور باہر جا کر نبوت کرو ( عاموس ، باب ۷- آیت ۱۳-۱۰ ) ( ۷ ) حضرت یحیٰی ( یُوحنا ) علیہ السّلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں ، تو پہلے وہ قید کیے گئے ، پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا ۔ ( مرقس ، باب ٦ ، آیت ۲۹-۱۷ ) ( ۸ ) آخر میں حضرت عیسیٰ ؑ پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردارانِ قوم کا غصّہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں ان کے گناہوں اور ان کی ریاکاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے ۔ اس قصُور پر ان کے خلاف جھُوٹا مقدمہ تیار کیا گیا ، رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رُومی حاکم پیلاطس نے یہُود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسُوع اور برابّا ڈاکو ، دونوں میں سے کس کو رہا کروں ، تو ان کے پُورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسُوع کو پھانسی پر لٹکا ۔ ( متٰی ، باب ۲۷- آیت ۲٦-۲۰ ) یہ ہے اس قوم کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فُسّاق و فُجّار کو سرداری و سربراہ کاری کے لیے اور اپنے صُلَحا و اَبْرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو ، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اَور کیا کرتا ۔
47 : یہ وہی واقعہ ہے جو اوپر حاشیہ نمبر 45 میں بیان کیا گیا ہے۔