فرماں برداروں کے لئے بشارت اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت ۔ آیت ( اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ) 10 ۔ یونس:62 ) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں آیت ( اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:30 ) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں ، حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا ۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا ۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے ۔ یہود کون ہیں؟ لفظ یہود ہوداۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مودۃ اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے تہود سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے آیت ( انا ھدنا الیک ) حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا حضرت یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو نبی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے آیت ( مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ) 3 ۔ آل عمران:52 ) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لئے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ نصاریٰ نصران کی جمع ہے جیسے نشوان کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لئے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی ۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے اسی بنا پر ابو حنیفہ اور اسحق کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی ۔ حضرت حسن اور حضرت حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے ۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے ۔ ابو الزناد فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں ۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے آیت ( لا الہ الا اللہ ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے مشرکین اسی بنا پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو لا الہ اللہ صابی کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر ، ۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ابو سعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنی ۔ واللہ اعلم ۔
62۔ 1 یھود ھوادۃ (بمعنی محبت) سے یا تھود (بمعنی توبہ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے 62۔ 2 نصاری۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کا مادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ ) 061:14 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ 62۔ 3 صابئین۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت و عیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ 62۔ 4 بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بےلاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جاسکتا۔
[٨٠] اہل کتاب کے مزعومہ عقائد :۔ یہود و نصاریٰ دونوں کہا کرتے تھے کہ آیت (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ 18) 5 ۔ المآئدہ :18) ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ یہود یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اور نصاریٰ اس لیے کہ وہ اللہ کے بیٹے (مسیح ابن مریم) کی امت ہیں جو ان کے عقیدہ کے مطابق امت کے گناہوں کے کفارہ میں سولی پر چڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس مزعومہ عقیدہ پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فرمایا : کہ کوئی شخص خواہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا صابی (اپنا دین بدلنے والا ہو) جو بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور جواب دہی کے ڈر سے صالح عمل کرے گا۔ نجات صرف اسی کی ہوگی۔ نسبی رشتے اور تعلقات اس دن کسی کام نہ آسکیں گے۔
اس آیت سے پہلی آیات اور اس کے بعد والی آیات میں بنی اسرائیل پر انعامات اور ان کے مقابلے میں ان کے اعمال بد کا تذکرہ ہے۔ یہ آیت درمیان میں ایک خاص مناسبت کی بنا پر آئی ہے، وہ یہ کہ جب بات ان پر ذلت و مسکنت مسلط ہونے اور اللہ کے غضب کا نشانہ بننے تک پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت کے مطابق ان کے لیے اپنی رحمت کا تذکرہ ضروری سمجھا کہ بنی اسرائیل کا ہر فرد اس ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کا نشانہ نہیں، پہلے بھی اللہ تعالیٰ بیحد مہربان تھا اور توبہ کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایمان اور عمل صالح سے متصف ہوگا، خواہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہو، جیسے آپ سے پہلے اپنے اپنے انبیاء پر ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ ہوں، یا آپ کے زمانے میں یہود و نصاریٰ میں سے ایمان لانے والے ہوں، مثلاً عبداللہ بن سلام، صہیب اور سلمان (رض) ، سب کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ یہود و نصاریٰ کو مزید مانوس کرنے کے لیے مسلمانوں اور صابئین کا بھی ساتھ ذکر کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کسی خاص نسل کے ساتھ مخصوص نہیں، شرط صرف ایمان اور عمل صالح ہے۔ [ التحریر والتنویر ]- بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب بھی اگر عیسائی، یہودی اور صابی اپنے اپنے مذہب پر رہ کر عمل صالح کریں، تو مسلمانوں کی طرح ان کی بھی نجات ہوجائے گی، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ تورات و انجیل میں بنی اسرائیل کو صاف الفاظ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم موجود ہے۔ حوالہ جات کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور سورة صف (٦) کے حواشی۔ اب اگر ان میں سے کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتا تو اس کا تورات و انجیل پر بھی ایمان نہیں، وہ کیسے نجات پاسکتا ہے ؟ (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ ) [ آل عمران : ٨٥ ] ” اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ “ اس آیت میں یہی بات بیان ہوئی ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لاَ یَسْمَعُ بِیْ أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ یَہُوْدِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہٖ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ ) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ ۔۔ : ١٥٣ ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میرے بارے میں سن لے، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے مگر وہ آگ میں داخل ہوگا۔ “- (وَالصّٰبِـــِٕيْنَ ) یہ ” صَابِئٌ“ کی جمع ہے، اس کا مادہ ص، ب، ء ہے، جو شخص ایک دین سے دوسرے دین کی طرف نکل جائے، گویا یہ ” صَبَأَ نَابُ الْبَعِیْرِ “ سے ہے، جس کا معنی ہے اونٹ کی کچلی نکل آئی۔ ایک قراءت میں ” صابین “ ہے، وہ اسی ” صابئین “ میں سے ہمزہ کی تخفیف سے ہے اور بعض نے کہا بلکہ وہ ” صَبَا یَصْبُوْ “ سے ہے، جس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی وہ ایک دین سے دوسرے دین کی طرف مائل ہوگیا۔ ( راغب) - اسی لیے جو شخص مسلمان ہوتا کفار قریش اسے صابی کہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے، یہود و نصاریٰ کی طرح یہ لوگ بھی آسمانی دین پر تھے، اس لیے اس آیت میں ان کے ساتھ ان کا ذکر ہوا، بعد میں ان کے اندر بگاڑ پیدا ہوگیا اور وہ ستاروں کی پرستش کرنے لگے۔ یہ لوگ اپنے مذہب کو حد درجہ چھپاتے تھے، شیعہ اسماعیلیہ نے مذہب کو چھپانا انہی سے لیا ہے۔ ان کے اہل کتاب ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ [ تفصیل کے لیے دیکھیے : جصاص، الفہرست لابن ندیم، الملل والنحل ]
خلاصہ تفسیر :- اس مقام پر یہودیوں کی شرارت کا حال معلوم کرکے سامعین کو یا خود یہود کو یہ خیال گذر سکتا ہے کہ ان حالات میں اگر عذر پیش کرکے ایمان لانا بھی چاہئیں تو غالبا وہ اللہ کے نزدیک قبول نہ ہو اس خیال کو دفع کرنے کے لئے اس آیت میں ایک قانون اور ضابطہ ذکر فرمایا کہ یہ تحقیقی بات ہے کہ مسلمان یہودی اور نصارٰی اور فرقہ صابئین (ان سب میں) جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ تعالیٰ (کی ذات وصفات) پر اور قیامت پر اور کارگزاری اچھی کرے (موافق قانون شریعت کے) ایسوں کے لئے ان کا حق الخدمت بھی ہے ان کے پروردگار کے پاس (پہنچ کر) اور (وہاں جاکر) کسی طرح کا اندیشہ بھی نہیں ان پر اور نہ وہ مغموم ہوں گے،- فائدہ : قانون کا حاصل ظاہر ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی تخصیص نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں اختیار کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے ہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور ظاہر ہے کہ نزول قرآن کے بعد پوری اطاعت محمدی یعنی مسلمان ہونے میں منحصر ہے مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہوجائے گا مستحق نجات اخروی ہوگا اس میں اس خیال کا جواب ہوگیا یعنی ان شرارتوں کے بعد بھی اگر مسلمان ہوجائیں تو ہم سب معاف کردیں گے،- اور صابئین ایک فرقہ تھا جس کے معتقدات اور طرز عمل کے بارے میں چونکہ کسی کو پورا پتہ نہ چلا اس لئے مختلف اقوال ہیں واللہ اعلم،- اور اس قانون میں بظاہر تو مسلمان کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تو مسلمان ہیں ہی لیکن اس سے کلام پاک میں ایک خاص بلاغت اور مضمون میں ایک خاص وقعت پیدا ہوگئی اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص بھی اطاعت کرے گا مورد عنایت ہوگا اب ظاہر ہے کہ موافق تو اطاعت کر ہی رہا ہے سنانا تو اصل میں مخالف کو ہے لیکن اس میں نکتہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو جو موافقین پر عنایت ہے سو اس کی علت ان سے کوئی ذاتی خصوصیت نہیں بلکہ ان کی صفت موافقت پر مدار ہے ہماری عنایت کا سو اگر مخالف بھی اختیار کرلے تو وہ بھی اس موافق کے برابر ہوجائے گا اس لئے مخالف کے ساتھ موافق کو بھی ذکر کردیا گیا،
رکوع نمبر 8- اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ٠ ۚ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٦٢- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نرمی کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- صبا - الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر :- صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] .- ( ص ب و ) الصبی - نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٦٢) ان یہودیوں میں سے جو لوگ اسلام لائے ہوئے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو حضرات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام پر ایمان لائے ہیں، ان کو جنت میں ان کے رب کی جانب سے ثواب ملے گا اور ہمیشہ کے لیے انہیں کسی قسم کا خوف اور کوئی غم نہیں ہوگا، ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ آئندہ پیش آنے والے عذاب سے ان کو کوئی خوف اور سابقہ اعمال پر انہوں کوئی غم نہ ہوگا اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ جس وقت موت کو ذبح کیا جائے گا اور جب دوزخ کو بھرا جائے گا ان کو کوئی خوف اور غم نہ ہوگا اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام پر ایمان نہیں لائے کہ جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو چھوڑ کر یہودی بن گئے اور جو لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین کو چھوڑ کر یہودی بن گئے اور جو عیسائی ہوئے اور اسی طرح جو صابی ہوگئے یہ بھی نصاری کی ایک جماعت ہے جو اپنے سروں کے درمیان حلقہ کراتے ہیں اور ” زبور “ پڑھتے ہیں اور فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اس کے بعد اس بات کے دعویدار بنتے ہیں ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں لیکن جو شخص ان میں سے ایمان لایا اور سب اعمال کیے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے درمیان ہیں تو اس کا بدلہ ضائع نہیں ہوگا۔- شان نزول : (آیت) ” ان الذین امنوا والذین ھادوا “ (الخ) ۔- ابن ابی حاتم (رح) اور عوفی (رح) نے اپنی سند میں ابن ابی نحیح (رح) کے حوالہ سے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے، حضرت سلمان فارسی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ان حضرات کے دین کے حوالہ پوچھا جن کے دین پر میں خود تھا، چناچہ میں نے آپ سے ان کی نماز اور عبادت کا ذکر کیا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اور واحدی (رح) نے عبداللہ بن کثیر کے ذریعہ سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت سلمان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دوستوں کا ذکر کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سب جہنم میں ہیں۔ حضرت سلمان (رض) فرماتے ہیں کہ یہ فرمان سنتے ہی زمین میرے لیے تاریک ہوگئی، تب یہ آیت کریمہ ” ان الذین امنوا “۔ نازل ہوئی، فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے میرے اوپر سے ایک پہاڑ ہٹ گیا اور ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت سلمان فارسی (رض) کے ساتھیوں کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
اب وہ آیت آرہی ہے کہ جس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔- (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) “ - اور اس سے مراد ہے جو ایمان لائےٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر۔- (وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی) “ (وَالصّٰبِءِیْنَ ) - صابی وہ لوگ تھے جو عراق کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔ لیکن ان کے ہاں بھی بہت کچھ بگڑ گیا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل بگاڑکا شکار ہوگئی تھی اسی طرح وہ بھی بگڑ گئے تھے اور ان کے ہاں زیادہ تر ستارہ پرستی رواج پاگئی تھی۔ - (مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) ” - (وَعَمِلَ صَالِحاً ) - (فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج) “ (وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ان لوگوں کو نہ تو کوئی خوف دامن گیر ہوگا اور نہ ہی وہ کسی حزن سے دوچار ہوں گے۔ ظاہر الفاظ کے اعتبار سے دیکھیں تو یہاں ایمان بالرسالت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرتا ہے تو اس کا پہلا اصولی جواب تو یہ ہے کہ بعض احادیث میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں : (مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) تو کیا اس کے یہ معانی ہیں کہ صرف لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ کسی عمل کی ضرورت نہیں ؟ بلکہ کسی حدیث کا مفہوم اخذ کرنے کے لیے پورے قرآن کو اور پورے ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی ایک جگہ سے کوئی نتیجہ نکال لینا صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ چھٹے رکوع کے آغاز میں یہ اصولی بات بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع چھٹے رکوع سے شروع ہونے والے سارے مضامین سے ضرب کھا رہا ہے ‘ جس میں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان لانے کی پرزور دعوت بایں الفاظ موجود ہے :- (وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖص)- ” اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے نہ بن جاؤ۔ “- اب فصاحت اور بلاغت کا یہ تقاضا ہے کہ ایک بات بار بار نہ دہرائی جائے۔ البتہ یہ بات ہر جگہ مقدر ( ) سمجھی جائے گی۔ اس لیے کہ ساری گفتگو اسی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اب یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ میں ” فِیْ اَیَّامِھِمْ “ یا ” فِیْ اَزْمِنَتِھِمْ “ (اپنے اپنے دور میں) کے الفاظ محذوف مانے جائیں گے۔ گویا : ّ - (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً [ فِیْ اَ یَّامِھِمْ ] فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ )- یعنی نجات اخروی کے لیے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ جب تک حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہیں آئے تھے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے جو بھی یہودی موجود تھے ‘ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے ان کی نجات ہوجائے گی۔ لیکن جنہوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے آنے کے بعد ان ( علیہ السلام) کو نہیں مانا تو اب وہ کافر قرار پائے۔ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک تمام رسولوں پر ایمان نجات اخروی کے لیے کافی تھا ‘ لیکنٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے والے کافر قرار پائیں گے۔- آیت زیر مطالعہ میں اصل زور اس بات پر ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ کسی گروہ میں شامل ہونے سے نجات پا جاؤ گے ‘ نجات کسی گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ‘ بلکہ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل صالح ہے۔ اپنے دور کے رسول پر ایمان لانا تو لازم ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل صالح نہیں ہے تو نجات نہیں ہوگی۔ قرآن مجید کے ایک مقام پر آیا ہے : (وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج) (الاعراف : ٣٤) ” اور ہر امت کے لیے ایک خاص معینّ مدت ہے “۔ ہر امت اس معینہّ مدت ہی کی مکلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے ان پر تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ بعثت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل ایسے موحدین مکہ مکرمہ میں موجود تھے جو کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ کہتے تھے کہ اے اللہ ہم صرف تیری بندگی کرنا چاہتے ہیں ‘ لیکن جانتے نہیں کہ کیسے کریں۔ حضرت عمر (رض) کے بہنوئی اور فاطمہ (رض) بنت خطاب کے شوہر حضرت سعید بن زید (رض) (جو عشرہ مبشرہّ میں سے ہیں) کے والد زید کا یہی معاملہ تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے چلے گئے کہ : ” اے اللہ میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر نہیں جانتا کہ کیسے کروں۔ “ - سورۃ الفاتحہ کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان توحید تک پہنچ جاتا ہے ‘ آخرت کو پہچان لیتا ہے ‘ لیکن آگے وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے۔ احکام شریعت کی تفصیل کے لیے وہ ” ربّ العَالَمِین “ اور ” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ “ کے حضور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہے کہ : (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) اسی صراط ‘ مستقیم کی دعا کا جواب یہ قرآن حکیم ہے ‘ اور اس میں سورة البقرۃ ہی سے احکام شریعت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کہ یہ کرو ‘ یہ نہ کرو ‘ یہ فرض ہے ‘ یہ تم پر لازم کیا گیا ہے اور یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :80 سلسلہء عبارت کو پیشِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصُود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو ۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی ۔ یہاں تو یہُودیوں کے اس زعمِ باطل کی تردید مقصُود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے ۔ وہ اس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دُوسرے انسانوں سے نہیں ہے ، لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو ، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے ، اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے ، وہ ایمان اور عمل صالح کا ہے ۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہوگا وہ اپنے رب سے اپنا اجر پائے گا ۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہوگا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسڑوں پر ۔
48: بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے،(آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہوسکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کردے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی ضروری ہے ؛ چنانچہ پیچھے آیت ٤٠۔ ٤١ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ٥: ٦٥ تا ٦٨، ٧: ١٥٥ تا ١٥٧۔