صورتیں مسخ کر دی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ اعراف میں ہے جہاں فرمایا آیت ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ) 7 ۔ الاعراف:163 ) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا ۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی ۔ گڑھے کھود لئے ۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے ۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں ۔ یہاں پھنس گئیں ۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا ۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے جیسے عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ اعراف کی آیت آیت ( واسالھم ) الخ اور آیت ( وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ ) 5 ۔ المائدہ:60 ) پر نظر ڈالو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندربنا دئیے گئے ۔ آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی ۔ یہ بندر جواب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے ( اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے آمین ) خاسین کے معنی ذلیل اور کمینہ ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ حضرت ابن عباس وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے ۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی ۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے ۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی ۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لئے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا ۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو ۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لئے اور دوسرے لئے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے ۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازے اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لئے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں ۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں ۔ واللہ اعلم ۔ فجعلناھا میں ھاکی ضمیر کا مرجع قردہ ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع حیتان ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع عقوبتہ ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا قریہ ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لئے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ میں نکال کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ) 79 ۔ النازعات:25 ) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لئے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ) 13 ۔ الرعد:41 ) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لئے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لئے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعید بن جیر رحمۃ اللہ کی ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لئے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا ، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی ، یعنی آس پاس کی بستیاں ، قرآن فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) اور فرمان ہے آیت ( وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ يَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ ) 22 ۔ الحج:55 ) اور فرمان ہے آیت ( ۭاَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ۭ اَفَـهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:44 ) غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک سبق ہے اور اسی لئے فرمایا آیت ( وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:66 ) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لئے موجب نصیحت ہو ۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکرو فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں ۔ ایک صحیح حدیث امام ابو عبد اللہ بن بطہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث ( لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل ) یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو ۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں واللہ اعلم ۔
65۔ 1 سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔
[٨١] اصحاب سبت کا انجام :۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار نہیں کریں گے بلکہ چھٹی کریں گے اور اس دن آرام اور اللہ کی عبادت کیا کریں گے اور تورات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے گا، وہ واجب القتل ہے۔ لیکن یہود پر اخلاقی انحطاط کا دور آیا تو یہود اس دن کھلے بندوں اپنا کاروبار جاری رکھتے اور تجارت وغیرہ کیا کرتے۔ اس سلسلہ میں سورة اعراف میں ایک مخصوص بستی کا ذکر بھی آیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا۔ لیکن اتفاق کی بات کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتہ کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھرتیں۔ اب ان ماہی گیروں نے یہ حیلہ سازی کی کہ ساحل کے ساتھ کھائیاں کھود لیں۔ اس میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آ جاتیں اور دوسرے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے، ان بستی والوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک تو مجرم گروہ تھا جو اس حیلہ سے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں اس حیلہ سازی سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خود مچھلیاں پکڑتا تو نہیں تھا لیکن پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا اور منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ تم ان لوگوں کو کیوں منع کرتے ہو جو باز آنے والے نہیں اور ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور منع کرنے والے یہ جواب دیتے کہ ہم اس لیے منع کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرسکیں اور دوسرے یہ کہ شاید یہ لوگ باز ہی آجائیں۔ (٧ : ١٦٤) - بندر بننے کی تاویل کرنے والے :۔ پھر جب اس قوم پر عذاب نازل ہوا تو اس عذاب سے صرف منع کرنے والا گروہ بچا لیا گیا۔ خاموش رہنے والے اور مجرم دونوں گروہوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب یہ تھا کہ تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔ اب معجزات کے منکر اور نیچری حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی عادات و خصائل تو بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں (یعنی وہ فی الواقع بندر نہیں بنے تھے) یہ توجیہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ ایک تو قرآن کے ظاہری الفاظ سے یہ گنجائش نہیں نکلتی۔ دوسرے مابعد کی آیت اس توجیہ کی توثیق کے بجائے تردید کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی شکلیں بدستور انسانوں کی ہی رہیں، تو وہ اس وقت کے موجود لوگوں اور پچھلوں کے لیے سامان عبرت کیسے بن سکتے تھے اور پرہیزگار ان سے کیا سبق لے سکتے تھے ؟- حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الواقع بندر بن گئے تھے تاہم ان کے دماغ وہی رہے۔ ان میں فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے تھے مگر کلام نہیں کرسکتے تھے۔ پھر تین دن کے بعد سب مرگئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے دور میں پیش آیا تھا۔ (نیز دیکھئے سورة اعراف آیت نمبر ١٦٤)
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی کا یہ واقعہ بنی اسرائیل میں معروف تھا۔ اس کی تفصیل الاعراف (١٦٣ تا ١٦٦) کے حواشی میں ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور تم جانتے ہی ہو ان لوگوں کا حال جنہوں نے تم میں سے (حد شرع سے) تجاوز کیا تھا دوبارہ (اس حکم کے جو) ہفتہ کے دن کے (متعلق تھا کہ اس روز مچھلی کا شکار نہ کریں) سو ہم نے ان کو (اپنے حکم قہری تکوینی سے مسخ کرنے کے لئے) کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ (چنانچہ وہ بندروں کے قالب میں مسخ ہوگئے) پھر ہم نے اس کو ایک (واقعہ) عبرت (انگیز) بنادیا ان لوگوں کے لئے بھی جو قوم کے معاصر تھے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو مابعد کے زمانے میں آتے رہے اور (نیز اس واقعہ کو) موجب نصیحت (بنایا، خدا سے) ڈرنیوالوں کے لئے، - فائدہ : یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا بنی اسرائیل کے لئے ہفتہ کا دن معظم اور عبادت کے لئے مقرر تھا اور مچھلی کا شکار بھی اس روز ممنوع تھا یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلی کے شوقین تھے اس حکم کو نہ مانا اور شکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسخ صورت کا عذاب نازل ہوا تین دن کے بعد وہ سب مرگئے،- اس واقعہ کو دیکھنے اور سننے والے دو قسم کے لوگ تھے فرمانبردار و نافرمان تو نافرمانوں کے لئے تو یہ واقعہ نافرمانی سے توبہ کرانے والا تھا اس لئے اس کو نکال فرمایا اور فرمانبرداروں کو یہ واقعہ فرمانبرداری پر قائم رکھنے والا تھا اس کو موعظۃ فرمایا،- معارف و مسائل :- دینی معاملات میں کوئی ایسا حیلہ جس سے اصل حکم شرعی باطل ہوجائے حرام ہے،:- اس آیت میں یہودیوں کے جس اعتداء یعنی حدود سے تجاوز کا ذکر کرکے اس کو سبب عذاب بتلایا گیا ہے روایات سے ثابت ہے کہ وہ صاف طور پر حکم شرعی کی خلاف ورزی نہ تھی بلکہ ایسے حیلے تھے جن سے حکم شرعی کا ابطال لازم آتا تھا مثلاً ہفتہ کے دن مچھلی کی دم میں ایک پھندا لگا کر دریا میں چھوڑ دیا اور یہ ڈور زمین پر کسی چیز سے باندھ دی پھر اتوار کے روز اس کو پکڑ کر کھالیا تو یہ ایک ایسا حیلہ ہے جس میں حکم شرعی کا ابطال بلکہ ایک قسم کا استہزاء ہے اس لئے ایسا کرنے والوں کو بڑا سرکش نافرمان قرار دے کر ان پر عذاب آیا،- مگر اس سے ان فقہی حیلوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی جن میں سے بعض خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلائے ہیں مثلاً ایک سیر عمدہ کھجور کے بدلے دو سیر خراب کھجور خریدنا سود میں داخل ہے مگر اس سے بچنے کا ایک حیلہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلایا کہ جنس کو تبادلہ جنس سے نہ کرو قیمت کے ذریعہ خریدو فروخت کرلو مثلا دو سیر خراب کہجوریں دو درہم میں فروخت کردیں پھر ان دو درہموں میں سے ایک سیر عمدہ کھجور خریدلی تو یہاں حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے، ابطلال نہ مقصود ہے نہ واقع ہے اسی طرح بعض دوسرے مسائل میں بھی فقہا نے حرام سے بچنے کی بعض ایسی ہی تدبیریں بتلائی ہیں ان کو یہودیوں کے حیلوں کی طرح کہنا اور سمجھنا غلط ہے،- واقعہ مسخ صورت یہود :- تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہود نے اول اول تو اس طرح کے حیلے کرکے مچھلیاں پکڑیں پھر ہوتے ہوتے عام طور پر شکار کھیلنے لگے تو ان میں دو جماعتیں ہوگئیں ایک جماعت علماء وصلحا کی تھی جنہوں نے ان کو ایسا کرنے سے روکا یہ باز نہ آئے تو ان سے برادرانہ تعلقات قطع کرکے بالکل الگ ہوگئے اور بستی کے دو حصے کرلئے ایک یہ نافرمان لوگ رہ گئے دوسرے میں علماء وصلحاء رہے ایک روز ان کو یہ محسوس ہوا کہ جس حصہ میں یہ نافرمان لوگ رہتے تھے ادھر بالکل سناٹا ہے تو وہاں جاکر دیکھا تو سب کے سب بندروں کی صورت میں مسخ ہوگئے تھے اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ان کے جوان بندر بنا دئیے گئے تھے اور بوڑھے خنزیر کی شکل میں منتقل کردئیے گئے تھے اور مسخ شدہ بندر اپنے رشتہ دار اور تعلق والے انسانوں کو پہچانتے تھے ان کے قریب آکر روتے تھے،- ممسوخ قوم کی نسل نہیں چلتی :- اس معاملہ میں صحیح بات وہ ہے جو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بروایت عبداللہ بن مسعود صحیح مسلم میں منقول ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے زمانے کے بندروں اور خنزیروں کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی مسخ شدہ یہودی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں مسخ صورت کا عذاب نازل کرتے ہیں تو ان کی نسل نہیں چلتی (بلکہ چند روز میں ہلاک ہو کر ختم ہوجاتے ہیں) اور پھر فرمایا کہ بندر اور خنزیر دنیا میں پہلے سے بھی موجود تھے (اور آج بھی ہیں مگر مسخ شدہ بندروں اور خنزیروں سے ان کا کوئی جوڑ نہیں) - اس موقع پر بعض مفسرین نے صحیح بخاری کے حوالے سے بندروں میں زنا کی سزا میں سنگساری کرنے کا ایک واقعہ نقل کیا ہے مگر یہ واقعہ نہ بخاری کے صحیح نسخوں میں موجود ہے نہ روایۃ صحیح ہے قرطبی نے اس جگہ اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے،
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕيْنَ ٦٥ ۚ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - سبت - أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير :- قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله :- إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً- [ النبأ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] .- ( س ب ت ) السبت - کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑتے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے - قرد - القِرْدُ جمعه قِرَدَةٌ. قال تعالی: كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، وقال : وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، قيل : جعل صورهم المشاهدة کصور القردة . وقیل : بل جعل أخلاقهم كأخلاقها وإن لم تکن صورتهم کصورتها . والقُرَادُ جمعه : قِرْدَانٌ ، والصّوف القَرِدُ : المتداخل بعضه في بعض، ومنه قيل : سحاب قَرِدٌ ، أي : متلبّد، وأَقْرَدَ ، أي : لصق بالأرض لصوق القراد، وقَرَدَ : سکن سکونه، وقَرَّدْتُ البعیر : أزلت قراده، نحو : قذّيت ومرّضت، ويستعار ذلک للمداراة المتوصّل بها إلى خدیعة، فيقال : فلان يُقَرِّدُ فلانا، وسمّي حلمة الثّدي قرادا کما تسمّى حلمة تشبيها بها في الهيئة .- ( ق ر د ) القردۃ بندر اس کی جمع قرود وقردۃ ہے اور آیات کریمہ : ۔ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ ۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور جن کو ان میں سے بندر ۔۔۔۔ بنا دیا ۔ کو بعض نے ظاہر ی معنی پر حمل کیا ہے یعنی انہیں سچ مچ بندر بنا دیا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ انکے اخلاق واطور بندروں ایسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ سچ مچ بندر بنا دیئے گئے تھے ۔ القراد چیچڑی ۔ جمع قردان ۔ صرف قرد الجھی ہوئی اون ( جو کاتی نہ جاسکے ) اسی سے تہ بر تہ چھائے ہوئے بادل کو سحاب قردۃُ کہا جاتا ہے ۔ اقر د چیچڑی کی طرح زمین کے ساتھ چمٹ جانا قرد چیچڑی کی طرح ساکن ہوجانا اور قر دت الابل کے معنی اونٹ سے چیچڑ دور کرنے کے ہیں مخذ جیسے قذبت ومرضت کا محاورہ ہے اور استعار کے طور پر قرد کے معنی چاپلوسی کے ذریعہ کیس کو دھوکا دینا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فلاں مدارات سے اسے فریب دے رہا ہے اور پستان کے سر سے کو قراد کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی شکلی بھی چیچڑی جیسی ہوتی ہے ۔- خسأ - خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] .- ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔
(٦٥) اور تمہیں اچھی طرح پتہ ہے اور تم نے ان لوگوں کا انجام بھی سنا ہے جنہوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں عہد و پیمان کے بعد بھی ہفتہ کے دن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، ہم نے ان لوگوں کو ذلیل و خوار بندر بنادیا تاکہ یہ بندر بنادینا پچھلے گناہوں کی سزا ہو۔
(وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ ) - تمہیں خوب معلوم ہے کہ تم میں سے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سبت کے قانون کو توڑا تھا اور حد سے تجاوز کیا تھا۔ یہود کی شریعت میں ہفتہ کا روز عبادت کے لیے معینّ کردیا گیا تھا اور اس روز دنیاوی کام کاج کی اجازت نہیں تھی۔ آج بھی جو مذہبی یہودی ( ) ہیں وہ اس کی پابندی بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ لیکن ایک زمانے میں ان کے ایک خاص قبیلے نے ایک شرعی حیلہ ایجاد کر کے اس قانون کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة الاعراف میں آئے گی۔- (فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ ) “ - ان کی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔ تین دن کے بعد یہ سب مرگئے۔
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :82 سَبْت ، یعنی ہفتے کا دن ۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصُوص رکھیں ۔ اس روز کسی قسم کا دُنیوی کام ، حتّٰی کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں ، نہ اپنے خادموں سے لیں ۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حُرمت کو توڑے ، وہ واجب القتل ہے ( ملاحظہ ہو خُروج ، باب ۳۱ ، آیت ۱۷-۱۲ ) ۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دَور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بے حرمتی کرنے لگے حتّٰی کہ ان کے شہروں میں کُھلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :83 اس واقعے کی تفصیل آگے سُورہ اعراف رکوع ۲۱ میں آتی ہے ۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے ۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کر دی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہو گئی تھیں ۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور اندازِ بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا ۔ میرے نزدیک قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہ اسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہو گئے ہوں گے ۔
50 : سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کرکے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کرکے انہیں بندر بنادیا گیا۔ (اس واقعہ کی تفصیل : اعراف، ٧: ١٦٣ تا ١٦٦)۔ میں آنے والی ہے۔