Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قاتل کون؟ اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا ۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے ، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا ۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا ، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اعوذ باللہ ( مسائل شرعیہ کے موقع پر ) مذاق جاہلوں کا کام ہے اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہئے؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا حضرت ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے حضرت ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی ، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی ۔ احترام والدین پر انعام الٰہی اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی ۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں حضرت میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر حضرت موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لئے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کر لے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق ، تکذیب ہم نہیں کر سکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتا دیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات موسیٰ علیہ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مرگیا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] گائے کو ذبح کرنے کے حکم پر بنی اسرائیل کی کٹ حجتیاں :۔ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص مارا گیا جسے اس کے بھتیجوں نے جنگل میں موقعہ پا کر قتل کیا اور رات کے اندھیرے میں کسی دوسرے شخص کے مکان کے سامنے پھینک دیا۔ اس کے قاتل کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ اس قوم کو حکم دو کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ پھر اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر ماریں تو مقتول خود بول کر اپنے قاتل کا نام اور پتہ بتادے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو اللہ کا حکم سنایا تو وہ کہنے لگے کیا ہم سے دل لگی کرتا ہے ؟ - گائے کو ذبح کرنے کا حکم دراصل بنی اسرائیل کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف تھا۔ گؤ سالہ پرستی کے جراثیم اور گائے بیل سے محبت اور اسے دیوتا سمجھنے کا عقیدہ تاہنوز ان میں موجود تھا۔ لہذا ایک تکلیف تو انہیں یہ ہوئی کہ جس چیز کو قابل پرستش سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ دوسرے انہیں یہ یقین نہیں تھا کہ اس طرح گائے کے گوشت کا ٹکڑا مارنے سے مردہ لاش جی اٹھے گی اور بول کر قاتل کا پتہ بتادے گی۔ لہذا موسیٰ (علیہ السلام) سے یوں کہہ دیا کہ ہم سے دل لگی کرتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں تو تمہیں اللہ کا حکم بتارہا ہوں، دل لگی نہیں کر رہا۔ کیونکہ ایسی دل لگی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ - اگر بنی اسرائیل ایک فرمانبردار قوم ہوتے اور کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو حکم کی تعمیل ہوجاتی، مگر کٹ حجتی اور ٹال مٹول، حتیٰ کہ نافرمانی ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ کہنے لگے اچھا ہمیں اپنے پروردگار سے پوچھ کر بتاؤ وہ گائے کیسی ہونی چاہیے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا۔ وہ گائے جوان ہونی چاہیے، بوڑھی یا کم عمر نہ ہو۔ پھر دوسری مرتبہ یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر ہمیں بتاؤ کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ وہ گہرے زرد رنگ کی ہونی چاہیے، جو دیکھنے والے کے دل کو خوش کر دے۔ اب بھی حکم بجا لانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی تو تیسری مرتبہ یہ سوال کردیا کہ ایسی صفات کی گائیں تو ہمارے ہاں بہت سی ہیں ہمیں پوچھ کر بتایا جائے کہ اس کی مزید صفات کیا ہوں ؟ تاکہ ہمیں کسی متعین گائے کا علم ہوجائے جس کی قربانی اللہ تعالیٰ کو منظور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آیا کہ وہ گائے ایسی ہونی چاہیے جس سے ابھی تک کھیتی باڑی کا کام لینا شروع ہی نہ کیا گیا ہو یعنی نہ وہ ہل کے آگے جوتی گئی ہو اور نہ کنویں کے آگے۔ تندرست ہو اور صحیح وسالم ہو۔ یہ نہ ہو کہ کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے کام نہ لیا جا رہا ہو اور اس میں کوئی داغ بھی نہ ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مصر میں غلامی کے زمانے میں غالب قوم کے اثر سے بنی اسرائیل میں گائے کی تقدیس کا عقیدہ سرایت کر گیا تھا، اس کا ظہور اس وقت بھی ہوا جب موسیٰ (علیہ السلام) تورات لینے کے لیے طور پر گئے، تو انھوں نے بچھڑا بنا کر اس کی پرستش شروع کردی۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کوئی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، اس پر انھوں نے مذاق سمجھا کہ بھلا گائے بھی ذبح کی جاسکتی ہے۔ کہنے لگے، کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتوں کی پرستش پر صاف کہا کہ یقیناً تم اور تمہارے آباء و اجداد کھلی گمراہی میں تھے، تو اس پر انھیں اعتبار نہ آیا کہ کوئی شخص بت پرستی کو بھی گمراہی کہہ سکتا ہے، کہنے لگے : (قَالُوْٓا اَجِئْـتَنَا بالْحَــقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٥٥ ] ” کیا تو ہمارے پاس حق لایا ہے، یا تو کھیلنے والوں سے ہے۔ “ الغرض موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا : ” میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ جاہلوں سے ہوجاؤں۔ “ معلوم ہوا مذاق اور ٹھٹھا جاہلوں کا کام ہے، البتہ مزاح اور خوش طبعی الگ چیز ہے، اس میں کوئی بات حقیقت کے خلاف نہیں ہوتی، نہ اس میں کسی کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہے، بلکہ جس سے خوش طبعی کی جائے وہ خود بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مزاح فرما لیتے تھے۔ - بَقَرَةً ) اس کی تنوین سے ظاہر ہے کہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کردیتے تو کافی تھا، مگر وہ تو گائے ذبح کرنے پر آمادہ ہی نہ تھے، ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم سے سرتابی بھی نہیں کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے پے در پے سوال کیے، جن کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کسی طرح جان چھوٹ جائے، مگر وہ جتنے سوال کرتے گئے پھنستے گئے، آخر اس شوخ زرد رنگ کی گائے پر بات آپہنچی جو عبادت کے لیے مثالی سمجھی جاتی تھی۔ آج کل بعض مسلمان گائے کی تو نہیں، البتہ مخصوص قسم کے گھوڑے کی حد سے بڑھ کر تعظیم کرتے ہیں۔ - عکرمہ نے فرمایا کہ وہ ” ان شاء اللہ “ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے۔ (طبری : ١؍٣٩٠، بسند حسن ) معلوم ہوا کہ انھیں گاؤ پرستی کی نجاست سے نجات بھی اللہ تعالیٰ کے پاک نام کی برکت سے حاصل ہوئی۔ - بَقَرَةً ) میں تاء وحدت کی ہے، بقر جنس ہے، جیسے تمر اور نمل جنس ہے اور ” تَمْرَۃٌ“ اور ” نَمْلَۃٌ“ سے مراد ایک کھجور اور ایک چیونٹی ہے، اس کا تذکیر و تانیث سے تعلق نہیں، وہ گائے بھی ہوسکتی ہے اور بیل بھی، جیسا کہ ہل چلانا اور پانی کھینچنا بیل کی صفات ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انھیں بیل ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصر میں کھیتی باڑی کا کام بیل کے ساتھ ساتھ گائے سے بھی لیا جاتا ہو۔ - اس واقعہ سے بےجا سوالات کی قباحت بھی ظاہر ہے، عمل پر آمادہ انسان زیادہ سوالات کرتا ہی نہیں، فرمایا : (لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْيَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) [ المائدۃ : ١٠١ ] ” ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ حق تعالیٰ تم کو حکم دیتے ہیں کہ (اگر اس لاش کے قاتل کا پتہ لگانا چاہتے ہو تو) تم ایک بیل ذبح کرو وہ کہنے لگے کہ آیا آپ ہم کو مسخرہ بناتے ہیں (کہاں قاتل کی تحقیق کہاں جانور کا ذبح کرنا) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نعوذ باللہ جو میں ایسی جہالت والوں کا سا کام کروں (کہ احکام خداوندی میں تمسخر کرنے لگوں) - فائدہ : یہ قصہ اس طرح ہوا کہ بنی اسرائیل میں ایک خون ہوگیا تھا جس کی وجہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں یہ لکھی ہے کہ کسی شخص نے مقتول کی کسی لڑکی سے شادی کی درخواست کی تھی مگر اس نے انکار کردیا اور اس شخص نے اس کو قتل کردیا قاتل لاپتہ تھا اس کا پتہ نہ لگتا تھا۔- اور معالم نے کلبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس وقت تک توریت میں اس کے متعلق کوئی شرعی قانون بھی نازل نہیں ہوا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ نزول تورات سے قبل کا ہے غرض بنی اسرائیل نے موسیٰ ٰعلیہ السلام سے عرض کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ قاتل کا پتہ چلے آپ نے بحکم خداوندی ایک بیل ذبح کرنے کا حکم فرمایا انہوں نے حسب عادت اور اپنی جبلت کے مطابق اس میں حجتیں نکالنا شروع کیں آیات آئندہ میں اسی کی تفصیل ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً۝ ٠ ۭ قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا۝ ٠ ۭ قَالَ اَعُوْذُ بِاللہِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِيْنَ۝ ٦٧- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - ذبح - أصل الذَّبْح : شقّ حلق الحیوانات . والذِّبْح : المذبوح، قال تعالی: وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] ، وذَبَحْتُ الفارة - شققتها، تشبيها بذبح الحیوان، وکذلك : ذبح الدّنّ «3» ، وقوله : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ- [ البقرة 49] ، علی التّكثير، أي : يذبح بعضهم إثر بعض . وسعد الذّابح اسم نجم، وتسمّى الأخادید من السّيل مذابح .- ( ذ ب ح ) الذبح - ( ف ) اصل میں اس کے معنی حیوانات کے حلق کو قطع کرنے کے ہیں اور ذبح بمعنی مذبوح آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً [ البقرة 67] کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو ۔ ذبحت الفارۃ ۔ میں نے نافہ مشک کو کو چیرا ۔ یہ حیوان کے ذبح کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح ذبح الدن کا محاورہ ہے جس کے معنی مٹکے میں شگاف کرنے کسے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ [ البقرة 49] تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے ۔ میں صیغہ تفعیل برائے تکثیر ہے یعنی وہ کثرت کے ساتھ یکے بعد دیگرے تمہارے لڑکوں کو ذبح کررہے تھے ۔ سعد الدابح ( برج جدی کے ایک ) ستارے کا نام ہے اور سیلاب کے گڑھوں کو مذابح کہا جاتا ہے ۔ - بقر - البَقَر واحدته بَقَرَة . قال اللہ تعالی: إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة 70] ويقال في جمعه :- بَاقِر - ( ب ق ر ) البقر - ۔ ( اسم جنس ) کے معنی ( بیل یا ) گائے کے ہیں اس کا واحد بقرۃ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ - إِنَّ الْبَقَرَ تَشابَهَ عَلَيْنا [ البقرة 70] کیونکہ بہت سے بیل ہمیں ایک دوسرے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- هزؤ - والاسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] - ( ھ ز ء ) الھزء - - الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تفسیر آیت 67 تا 73:- قول باری ہے : انا اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ، قالوا اتتخذنا ھزواً (اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو) تا قول باری : واذ قتلتم نفساً فادار اتم فیھا واللہ مخرج ما کنتم تکتمون، فقلنا اضربوہ ببعضھا (اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگائو تا آخر آیت۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان آیات اور ان میں مذکورہ قصہ مقتول اور ذبح بقرہ کے اندر کئی قسم کے احکام اور اعلیٰ معانی پر دلائل موجود ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قول باری : واذا قتلم نفساً اگرچہ تلاوت کے اندر موخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ گائے کے متعلق بیان کردہ تمام امور پر مقدم ہے کیونکہ گائے ذبح کرنے کا حکم صرف اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کا سبب ایک آدمی کا قتل تھا۔ اس سلسلے میں دو اور وجوہ بھی بیان کی گئی ہیں۔ پلہی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ قتل کا ذکر اگرچہ تلاوت کے اندر مئوخر ہے۔ لیکن نزول کے اندر مقدم ہے اور دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آیت کے نزول کی ترتیب تلاوت کی ترتیب کے مطابق ہے ۔ تاہم یہ معنی کے اعتبار سے مقدم ہے۔ اس لئے کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ایک شخص کہے ” مجھے یاد ہے کہ میں نے زید کو ایک ہزار درہم دیئے تھے جب اس نے میرا مکان بنایا تھا۔ “ حالانکہ مکان کی تعمیر ایک ہزار درہم دینے پر مقدم تھی۔ گائے کا ذکر نزول کے اندر مقدم ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے : فقلنا اشربوہ ببعضھا۔ یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ گائے کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا تھا اس بنا پر درج بالا فقرے کے اندر اس کا ذکر ضمیر کی صورت میں کیا گیا۔ اس کی نظیر حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں طوفان اور اس کے اختتام کے ذکر کے بعد یہ قول باری ہے : قلنا احمل فیھا من کل زوجین اثنین واھلک الا من سبق علیہ القول ون امن۔ وما امن معہ الا قلیل (ہم نے کہا ” ہر قسم کے جانوروں کا ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی … سوائے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلی ک جای چکی ہے … اس میں سوار کرلو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ “ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے) یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ یہ گفتگو ان کی ہلاکت سے پہلے ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کلام میں تقدیم و تاخیر حرف وائو کے ذریعے معطوف صورت میں ہو تو یہ بات لفظ کی ترتیب پر معنی کی ترتیب کی موجب نہیں بنتی۔- قول باری : ان اللہ یا مرکم ان تدبحوا بقرۃ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ذبح بقرہ کا حکم کسی مجہول اور غیر معروف گائے کے ذبح کا جواز لے کر وارد ہوا تھا اور مامور کو اختیار تھا کہ وہ ایسی ادنیٰ سے ادنیٰ گائے ذبح کر دے جس پر بقرہ کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہو۔- عموم کا اثبات کرنے والوں اور عموم کی نفی کرنے والوں کے درمیان درج بالا قول باری کے معنی کے متعلق اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ ہر فریق نے اس کے ذریعے اپنے مسلک کے حق میں استدلال کیا ہے۔ جو لوگ عموم کے قائل ہیں انہوں نے مذکورہ قو ل باری سے مطلق صورت میں اس کے درود کی جہت سے استدلال کیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک قول باری میں مذکورہ امر ایسا امر تھا جو ان تمام احاد میں سے جنہیں لفظ کا عموم شامل تھا ہر واحد کے اندر لازم تھا ، یعنی اگر وہ کسی بھی گائے کو ذبح کردیتے تو کام چل جاتا، لیکن جب انہوں نے اللہ کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار مراجعت کر کے انہیں تنگ کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر مذکورہ تکلیف، یعنی حکم کے اندر شدت پیدا کردی اور اللہ کے رسول سے بار بار مراجعت پر ان الفاظ میں ان کی مذمت کی : فذبحوھا وما کادوا یفعلون (پھر انہوں نے اسے ذبح کیا اور نہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے) جس بصری نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر یہ لوگ ہلکی سے ہلکی گائے لا کر ذبح کردیتے تو ان کا کام چل جاتا، لیکن انہوں نے تشدد کی اور اس کے جواب میں اللہ نے بھی ان پر تشدید کردی۔ “ اسی کسی قسم کی روایت حضرت ابن عباس، عبیدہ، ابو العالیہ اور مجاہد سے بھی مروی ہے۔ - جو لوگ عموم کے قول کو تسلیم نہیں کرتے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ شروع میں اللہ کے رسول سے مراجعت کرنے کی وجہ سے اللہ نے انہیں ڈانٹ پلائی۔ اگر ان پر شروع ہی میں مذکورہ امر کی تنقید لازم ہوجاتی جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ عموم لفظ کا اقتضاء یہی تھا تو پھر مراجعت کی ابتدا ہی میں ان پر نکیر کا درود ہوجاتا، لکین اس استدلال میں کوئی جان نہیں ہے۔ کیونکہ لفظ کے اندر اس نکیر کا ظہور ان پر دو طریقوں سے ہوا تھا۔ اول تو یہ کہ ان پر مذکورہ آزمائش کے اندر شدت پیدا کردی گئی تھی اور بھی نکیر کی ایک صورت ہے جس طرح یہ اشراد باری ہے : فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبات احلت لھم (غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں) اور دوم یہ قول باری : وما کا دوا یفعلون ۔ جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ ابتدا ہی سے امر الٰہی کے تارک بن گئے تھے جب کہ مذکورہ امر بجا لانے کے اندر تیزی دکھانا ان پر لازم تھا۔- زیر بحث آیت چند معانی پر مشتمل ہے : اول یہ کہ ان صورتوں میں عموم لفظ کا اعتبار واجب ہے جہاں اس کا استعمال ممکن ہو۔ دوم یہ کہ امر فی الفور عملدرآمد پر مبنی ہوتا ہے، یعنی مامور پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اسے بروئے کار لانے میں امکانی حد تک تیزی دکھائے اور مسارعت کا مظاہرہ کرے الایہ کہ تاخیر کے جواز پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ سوم یہ کہ کسی مجہول الصفت چیز کے بارے میں امر کا درود جائز ہے جبکہ اس کے ساتھ مامور کو یہ اختیار دیا گیا ہو کہ وہ اسم کے تحت واقع ہونے والی کسی بھی صورت کو بروئے کار لے آئے۔- چہارم یہ کہ امر کا وجوب ہوتا ہے اور اسے کسی دلالت کے قیام کے بغیر ندب، یعنی استحباب کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے مذکورہ لوگوں کو مذمت صرف اس بنا پر لاحق ہوئی تھی کہ انہوں نے اس مطلق امر کو ترک کردیا تھا جس میں کسی وعید کا ذکر نہیں تھا۔- پنجم یہ کہ ایک فعل پر تمکن کے بعد اس کے وقوع سے پہلے اس کا نسخ جائز ہے۔ سا لئے کہ مذکورہ گائے کی صفات میں ہر دفعہ اضافے سے اس کے ماقبل کا حکم منسوخ ہوگیا تھا اس لئے کہ قول باری : ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرۃ اس بات کا مقتضی تھا کہ وہ کوئی سی بھی گائے جس طرح چاہیں ذبح کریں اور انہیں ایسا کرنے کی قدرت بھی حاصل تھی، لیکن جب انہوں نے کہا : ادع لناربک یبین لنا ماھی (اچھا اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : انھا بقرۃ لا فارض ولا بکر ۔ عوان بین ذلک فافعلوا ما تومرون (وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ اوسط عمر کی ہو، لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو) اس طرح وہ تخیر منسوخ ہوگئی جسے پہلے امر الٰہی نے مذکورہ صفت کے ساتھ موصوف گائے یا کسی اور گائے کو ذبح کرنے کے سلسلے میں واجب کردیا تھا اور ان سے کہا گیا کہ تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو۔ “ اس سے یہ بات واضح کردی گئی کہ ان پر یہ لازم تھا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر مذکورہ صفت والی گائے ذبح کردیتے خواہ اس کا رنگ کچھ بھی ہوتا اور خواہ ذلول یعنی کام کرنے والی ہوتی یا کام نہ کرنے والی ہوتی لیکن جب انہوں نے کہا : ادع لنا ربک یبین لنا مالونھا (اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ ) تو اس سے وہ تخییر منسوخ ہوگئی جو انہیں حسب منشا کسی بھی رنگ کی گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں حاصل تھی اور اس کی دوسری صفت کے بارے میں تخییر باقی رہی، لیکن جب انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مراجعت کی تو یہ تخییر بھی منسوخ ہوگئی اور انہیں اسی صفت والی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا جس کا ذکر اللہ نے کیا تھا اور آزمائش سختی نیز بجا آوری کی صورت کے اندر شدت پیدا کرنے کے بعد اسی صفت پر ذبح کی فرضیت آ کر ٹھہر گئی۔- نسخ کے متعلق ہم نے اوپر جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ نص کے حکم کے استقرار کے بعد نص میں اضافہ اس کے نسخ کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ قوم کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مراجعت کے بعد وارد ہونے والے وہ تمام اوامر جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس نص کے اندر اضافہ تھے جس کے حکم کو استقرار حاصل ہوچکا تھا اور ان اضافوں نے مذکورہ نص کا نسخ واجب کردیا تھا۔- بعض لوگ زیر بحث واقعہ سے فرض کا وقت آنے سے پہلے اس کے نسخ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بات واضح تھی کہ ابتدا میں ان لوگوں پر غیر معین گائے کا ذبح فرض تھا لیکن فعل کا وقت آنے سے پہلے ہی ان سے یہ حکم منسوخ کردیا گیا ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ہر فرض ایسا تھا کہ اس کے فعل کا وقت امر کے ورود کے ساتھ ہی فعل کے امکان کے اول احوال میں تھا اور فرض ان پر مستقر اور ثابت ہوگیا تھا اور پھر فعل سے قبل ہی منسوخ ہوگیا تھا۔ اس لئے اس میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ فعل کے وقت کی آمد سے پہلے نسخ جائز ہے۔ یہ بات ہم نے اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔- ششم یہ کہ قول باری : لا قارض ولا بکرعوان بین ذلک اجتہاد کے جواز تیز احکام کے اندر غالب ظن کے استعمال پر دلالت کرتا ہے کیونکہ طریق اجتہاد سے ہی مذکورہ گائے کے بوڑھی اور بچھیا وہنے کے درمیان والی کیفیت معلوم کی جاسکتی تھی۔- ہفتم یہ کہ اگرچہ ظاہر کا استعمال ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی جائز رکھی جائے کہ باطن میں اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، چناچہ ارشاد باری ہے : مسلمۃ لاشیۃ فیھا ، صحیح سالم (اور بےداغ ہو) یعنی عیوب سے صحیح سالم اور بری ہو۔ یہ ایسی بات ہے جسے ہم حقیقت کی راہ سے معلوم نہیں کرسکتے، بلکہ ہمیں اس کا علم از راہ ظاہر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس امر کا جواز بھی ہوت ا ہے کہ اس میں کوئی باطنی عیب ہو۔- ہشتم یہ کہ اللہ کے رسول سے ان کی آخری دفعہ مراجعت کے سلسلے میں قول باری ہے : وانا ان شآء اللہ ممھتدون ( (اللہ نے چاہا تو اس کا پتہ پالیں گے) جب انہوں نے خبر کو اللہ کی مشیت کے ساتھ مقرون کردیا تو اسکے بعد انہیں اللہ کے رسول سے مزید مراجعت نہ کرنے اور ماموربہ کو وجود میں لانے کی توفیق نصیب ہوگئی۔ ایک روایت کے مطابق اگر یہ لوگ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں کبھی بھی مذکورہ گائے کا پتہ نہ چلتا اور ان کے درمیان جھگڑا ہمیشہ چلتا رہتا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : وما کادوا یفعلون (اور وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی خبر اس لئے دی کہ ہم جب مستقبل میں کئے جانے والے کسی معاملے کی خبر دیں تو اس استثناء کا ضرور ذکر کریں جو اللہ کی مشیت کی صورت میں ہے، تاکہ اس کے ذریعے ہم مذکورہ معاملے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔- اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مقام کے علاوہ ایک دوسرے مقام پر بھی اس استثناء کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے : ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الا ان یشآء اللہ (اور آپ کسی چیز کی نسبت یہ نہ کہا کیجیے کہ میں اسے کل کروں گا سوائے اس کے کہ اللہ بھی چاہے) اس میں اللہ سے استعانت، اس کی ذات کی طرف معاملہ کی تفویض اور اس کی قدرت نیز اس کی مشیت کے نفاذ کا اعتراف ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ وہی ہر معاملے کا مالک اور اسے چلانے والا ہے۔ نہم یہ کہ قول باری : اتتخذنا ھزواً ، قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین (کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں) کی دلالت اس امر پر ہے کہ استہزاء اور مذاق کرنے والا جہل کی علامت کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام نے اپنی ذات سے استہزاء کی نفی کر کے جاہلوں سے اپنے ہونے کی نفی کردی تھی۔ یہ قول باری اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں استہزاء کبیرہ گناہ ہے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو استہزاء کا گناہ جہل نہ گردانا جاتا۔ محمد بن مسعر نے ذکر کیا ہے کہ وہ عبید اللہ بن المحسن العنبری انفاضی کے پاس اونی جبہ پہنے ہوئے گئے۔ عبید اللہ کی طبیعت میں مذاق کا عنصر غالب تھا۔ انہوں نے ابن مسعر سے ازراہ مذاق پوچھا۔” تمہارا یہ جبہ بکری کی اون کا ہے یا مینڈھے کی اون کا۔ “ ابن مسعر نے ان سے کہا :” اللہ تمہیں زندگی دے جہالت کی بات نہ کرو۔ “ ابن مسعر کہتے ہیں کہ ” میں نے ان کے مذاق کو جہالت سمجھ کر ان کے سامنے آیت اتتخذنا ھزواً تلاوت کی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا : اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین اور پھر گفتگو کا رخ بدل دیا۔ - زیر بحث آیت میں اس امر پر بھی دلالت موجود ہے کہ حضر ت موسیٰ (علیہ السلام) السلام ایسے لوگوں کو قتل کردینے کے پابند نہیں بنائے گئے تیھ جن سے کفر ظاہر ہوتا ہے، بلکہ وہ صرف الفاظ کے ذریعے جواب دینے پر مامور تھے، اس لئے کہ اللہ کے نبی سے یہ کہنا کہ ” کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ “ کفر تھا۔ یہ اسی طرح تھا جیسے انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام سے قرآن کے الفاظ میں کہا تھا : اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ (ہمارے لئے بھی اسی طرح کا ایک الہ بنادو جس طرح ان لوگوں کے الہ ہیں) زیر بحث آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل کے مذکورہ لوگوں کا یہ کفر ان سے ان کی بیویوں کی تفریق کا موجب نہیں بنا تھا، اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام نے انہیں اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوجانے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی ان کا نکاح باقی رہنے کے متعلق کچھ فرمایا تھا۔- قول باری : واللہ مخرج ماکنتم تکتمون۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اپنے دل میں جو خیر و شر چھپائے رکھتا ہے اللہ اسے کبھی نہ کبھی ظاہر کردیتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر کوئی بندہ ستر پردوں کے پیھچے رہ کر بھی اللہ کی فرمانبرداری کرے تو بھی اللہ تعالیٰ اس کی یہ بات لوگوں کی زبانوں پر ظاہر کردیتا ہے اور معصیت کی بھی یہی کیفیت ہے۔ “ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام کو وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ وہ بیشک مجھ سے اپنے اعمال چھپاتے رہیں، لیکن میں تو ان کے اعمال ظاہر کر کے ہی رہوں گا۔ “- درج بالا قول باری عام ہے، لیکن اس سے خاص مراد ہے اس لئے کہ مذکورہ تمام لوگوں کو اصل قاتل کا علم نہیں تھا اور اسی لئے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ درج بالا قول باری تمام لوگوں کے بارے میں عام ہو کیونکہ یہ ایک مستقل بالذات کلام ہے اور مذکورہ لوگوں، تیز دیگر لوگوں کے بارے میں ہے۔- زیر بحث واقعہ کے اندر مذکورہ بالا احکام کے علاوہ مقتول کی میراث سے حرمان کا حکم بھی موجود ہے۔ ابو ایوب نے ابن سیرین سے اور انہوں نے عبیدہ السلمانی سے روایت بیان کی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کا کوئی رشتہ دار جس کا یہ تنہا وارث تھا، اس نے اس شخص کو قتل کر ڈالا تاکہ اس کا وارث بن جائے اور پھ راس کی لاش کو کسی کے دروازے پر ڈال دیا۔ اس کے بعد ابو ایوب نے گائے کے واقعہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس واقعے کے بعد کسی قاتل کو وارث قرار نہیں دیا گیا۔ قاتل کے وارث ہونے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی حضرت ابن عباس اور سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ قاتل کو کوئی میراث نہیں ملے گی خواہ اس نے قتل کا ارتکاب عمداً کیا ہو یا خطا نیز یہ کہ وہ مقتول کی دیت سے بھی اس کا وارث نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے دوسرے تمام اموال سے۔ امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، امام ابو یوسف امام محمد اور زفر کا بھی یہی قول ہے، البتہ ہمارے اصحاب نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر قاتل بچہ یا دیوانہ نہ ہو، تو وہ وارث ہوجائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ خطاً قتل کا ارتکاب کرنے والا وارث ہوجائے گا لیکن قتل عمد کا مرتکب وارث نہیں بنے گا۔ ابن شبرمہ کے قول کے مطابق قتل خطا کا مرتکب وارث قرار نہیں پائے گا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ قتل عمد کا مرتکب مقتول کی دیت سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے مال میں سے اسے کچھ ملے گا۔ البتہ قتل خطا کی صورت میں وہ مقتول کے مال میں سے تو وارث ہوجائے گا، لیکن اس کی دیت میں وارث نہیں ہوگا۔ حسن بصری سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، نیز مجاہد اور زہری اور اوزاعی بھی اسی قول کے قائل ہیں۔ المزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر باغی عادل کو یا عادل باغی کو قتل کر دے تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے کیونکہ وہ دونوں قاتل شمار ہوں گے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء اس بارے میں اختلاف رائے نہیں رکھتے کہ قتل عمد کا مرتکب مقتول کا وارث نہیں بن سکے گا جب کہ عاقل بالغ ہو اور ناحق ارتکاب قتل کیا وہ، البتہ قتل خطا کے بارے میں حضرات فقہاء کی رائیں مختلف ہیں جن کا ذکر ہم نے سطور بالا میں کردیا ہے۔- عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن محمد بن غبسہ بن القیط الضبی نے، ان سے علی بن حجر نے ، ان سے اسماعیل بن عیاش نے ابن جریج، المثنیٰ اور یحییٰ سعید سے اور ان سب نے عمر و بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قاتل کے لئے میراث میں کچھ نہیں۔ “ اسی طرح عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے، ان سے سلیمان بن دائود نے، ان سے اجعفر بن غیاث نے المحجاج سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے دادا سے، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قاتل کے لئے کچھ نہیں ہے۔ “ لیث نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے حمید بن عبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قاتل وارث نہیں ہوتا۔ “ یزید بن ہارو ن نے روایت بیان کی کہ انہیں محمد بن راشد نے مکحول سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : قتل عمد کا مرتکب اپنے بھائی سے اور نہ ہی اپنے کسی رشتہ دار کے مال کا وارث ہوگا اور اس قاتل کے بعد جو رشتہ دار سب سے زیادہ قریب ہوگا وہ مذکورہ شخص کا وارث قرار پائے گا۔ “ حصن بن میسر نے روایت بیان کی، ان سے عبدالرحمٰن بن حرملہ نے عدی الجذائی سے، انہوں نے کہا کہ : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ : اللہ کے رسول، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مسئلے میں کیا فرمائیں گے کہ اگر میری دو بیویاں ہوں اور وہ دونوں آپس میں دست و گریبان ہوجائیں اور پھر ایک کی جان چلی جائے۔ “ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : اسے یعنی زندہ رہ جانے والی کو باندھ کر رکھیو اور اسے وارث نہ بنائو۔ “- درج بالا روایتوں سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قاتل مقتول کے تمام مال میں سے وراثت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں قتل عم اور قتل خطا کے مرتکب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ میں عموم ہے۔ پھر فقہاء نے ان روایات پر عمل بھی کیا ہے اور انہیں قبولیت کا درجہ دیا ہے، اس بنا پر ا نروایات کی حیثیت تواتر جیسی ہوجائے گی۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔ “ یا ” عقد نکاح میں ایک عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ “ یا :” عقد نکاح میں ایک عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ “ یا ” اگر بائع اور مشتری کا اختلا فہو جائے تو بائع کا قول معتبر ہوگا یا طرفین ایک دوسرے سے اپنا اپنا مال واپس لے لیں گے۔ “ غرض اسی طرح کی دیگر روایات جو سند کے اعتبار سے معتبر افراد سے مروی ہیں، یعنی اخبار آحاد ہیں لیکن فقہاء کی طرف سے انہیں قبول کرلینے اور ان پر عمل ہونے کی وجہ سے یہ حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ اسی بنا پر آیت المواریث “ کی ان احادیث کے ساتھ تخصیص جائز ہوگی۔- اس سلسلے میں قتل عمد اور قتل خطا کا ارتکاب کرنے والوں کے درمیان حکم کے اندر یکسانیت پر وہ روایتیں دلالت کرتی ہیں جو حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہیں اور ا ن کے متعلق ان حضرات کے ہمسر صحابہ کرام کا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر صحابہ کرام کا کوئی ایسا قول جو اپنے شیوع اور استفاضہ کے اعتبار سے زیر بحث قول کی طرح ہو تو اس پر تابعین کے قول کے ذریعے اعتراض کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک نے جب اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ قاتل مقتول کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا، تو پھر مقتول کے تمام اموال کے سلسلے میں یہی حکم ہونا کئی وجوہ کی بنا پر واجب ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مقتول کی دیت مقتول ہی کا مال ہوتا ہے اور اس کی میراث قرار پاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے تمام دیون اسی سے ادا کئے جاتے ہیں اور اس کی وصیت بھی اس سے پوری کی جاتی ہے اور اس کے ورثاء اللہ کے مقرر کردہ حصوں کی نسبت سے اس کے وارث قرار پاتے ہیں۔ جس طرح یہ ورثاء اس مقتول کے دیگر اموال سے مقررہ حصے حاصل کرتے ہیں۔ سا لئے جب سب کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ قاتل مقتول کی دیت میں کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا تو حرمان کا یہ اصول اس کے دیگر تمام اموال میں بھی جاری ہونا ضروری ہے۔ جس طرح مقتول کی دیت سے وارث ہونے والا شخص اس کے دیگر تمام اموال میں بھی وارث ہوتا ہے اس بنا پر وراثت کے استحقاق کے اندر اس کے تمام اموال کا حکم اس کی دیت کے حکم کی طرح ہے۔ اسی طرح حرمان کے اندر بھی اس کے تمام اموال کا حکم اس کی دیت کے حکم کی طرح ہونا چاہیے۔ کیونکہ مقتول کا سارا مال بشمول دیت اس کے ورثاء کے حصوں کی نسبت سے ان کا حق بن جاتا ہے۔ نیز میراث سے مقتول کے دین کی ادائیگی کی جاتی ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ منقول اثر کے بمقضا قاتل مقتول کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس کے دیگر تمام اموال کا حکم بھی یہی ہو، اس لئے کہ منقول اثر نے اپنے درود کے اندر ان میں سے کسی چیز کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ قتل خطا کا مرتکب دیت کے سوا مقتول کے دیگر اموال میں اس بنا پر وارث ہوگا کہ اس پر تہمت نہیں ہوگی کہ اس نے وارث بننے کے لئے اسے قتل کردیا تھا، حالانکہ یہی علت مقتول کی دیت کے اندر بھی موجود ہے کیونکہ دیت کی نسبت سے قاتل مذکورہ بالا تہمت سے اور بھی بعید ہوگا اس لئے امام مالک کی بیان کردہ علت کے بموجب قاتل کو مقتول کی دیت کے اندر بھی وارث ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کی ایک اور جہت بھی ہے وہ یہ کہ فقہاء کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے اندر قاتل، مقتول کے دیگر تمام اموال میں اسی طرح وارث نہیں ہوگا جس طرح اس کی دیت میں وارث نہیں قرار پائے گا۔ اس لئے قتل خطا کے قاتل کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے، کیونکہ قتل خطا اور قتل عمد دونوں کے قاتل مقتول کی دیت کے اندر وراثت سے محروم رہنے میں یکساں ہیں، نیز جب قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے اندر قاتل کو اس بنا پر مقتول کی میراث سے محروم رکھا جاتا ہے کہ اس پر میراث سمیٹنے کی غرض سے قتل کے ارتکاب کی تہمت لگ جاتی ہے یہی بات قتل خطا کے اندر بھی موجود ہوت ی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ قاتل نے کسی اور کو نشانہ بنانے کا اظہار کر کے خود مقتول کو نشانہ بنانے کا قصد کیا ہو کہ قصاص کی زد میں آنے سے بچ جائے اور دوسری طرف میراث سے بھی محروم قرار نہ پائے۔ اس بناپر جب خطا کے اندر بھی تہمت کا پہلو موجود ہے، تو ضرور ی ہے کہ اسے بھی قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے معنوں میں شمار کیا جائے، نیز قاتل کو مقتول کے بعض اموال میں وارث قرار دینا اور بعض میں وارث قرار نہ دینا اصول سے خارج بات ہے۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے کہ جو شخص ترکہ کے بعض حصوں میں وارث ہو وہ پورے ترکہ میں وارث ہوگا اور جو اس کے بعض حصوں میں وراثت سے محروم ہو وہ پورے ترکہ میں وراثت سے محروم ہوگا۔- ہماریاصحاب نے بچے اور دیوانے کے بارے میں کہا ہے کہ قتل کی بنا پر یہ دونوں مقتول کی میراث کے اندر محروم قرار نہیں دیئے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں مکلف، یعنی اہل تکلیف میں سے نہیں ہیں۔ میراث سے محرومی اصولاً تو سزا کے طور پر ہوتی ہے اور قتل خطا کا مرتکب اگرچہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا لیکن اسے بھی قتل کے فعل کی سنگینی ظاہر کرنے کے لئے وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ بات عین ممکن ہوتی ہے کہ اس نے تیر چلا کر یا ضرب لگا کر مقتول کو ہی قتل کرنے کا قصد کیا ہو اور ظاہر یہ کیا ہو کہ اس نے مقتول کے سوا کسی اور کا قصد کیا تھا۔ اس لئے قتل کے اس فعل کو اس قاتل کے فعل قتل جیسا قرار دے دیا گیا جس کے متعلق یہ علم ہو کہ اس نے قصداً مقتول کو قتل کیا تھا۔ جہاں تک بچے اور دیوانے کا تعلق ہے تو وہ قصاص کے مستحق نہیں ہوتے خواہ انہوں نے جس صورت کے تحت بھی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” تین آدمیوں سے قلم مرفوع ہے، یعنی انہیں سزا نہیں دی جائے گی۔ نائم یعنی سوئے ہوئے شخص سے جب تک وہ بیدار نہ ہوجائے، دیوانے سے جب تک اسے دیوانگی سے افاقہ نہ ہوجائے اور بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کا ظاہر ہر اعتبار سے ایسے لوگوں کے فعل قتل کے حکم کے سرے سے سقوط کا مقتضی ہے اور اگر دلالت قائم نہ ہوتی تو دیت کا وجوب بھی نہ ہوتا۔ - اگر یہاں کوئی یہ کہے کہ اگر نائم کسی بچے پر لاٹ کر گرے اور اس کی جان لے لے، تو وہ میراث سے محروم ہوجاتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا شخص بھی قتل خطا کے مرتکب جیسا ہوتا ہے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ اس نے سونے والی حالت ظاہر کی ہو، لیکن حقیقت میں سویا ہوا نہ ہو۔- امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اگر عادل آدمی باغی کو قتل کر دے تو وہ وراثت سے محروم ہوجائے گا ہمیں اس قول کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ ایسی صورت میں عادل آدمی باغی کو ناحق قتل نہیں کرتا، بلکہ حق کے تحت اس کی جان لیتا ہے۔ باغی تو پہلے ہی سے قتل ہونے کا مستحق تھا اس لئے اس کے قاتل کو میراث سے محروم کردینا جائز نہیں ہوگا۔ ہمیں اس امر میں کوئی اختلاف نظر نہیں آیا کہ اگر ایک شخص کے لئے کسی سے قصاص لینا واجب ہو اور وہ اسے قصاص میں قتل کر دے تو قاتل میراث سے محروم نہیں ہوتا۔ نیز اگر عادل شخص کا باغی کو قتل کردینا اسے میراث سے محروم کردینے کا سبب ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اگر مذکورہ مقتول محارب ہونے کی بنا پر سزا کے طور پر مستحق قتل ہوتا تو اس کی میراث مسلمانوں کو نہ ملتی۔ اس لئے کہ امام وقت مسلمانوں کی جماعت کے قائم مقام ہوتا ہے اور اسی حیثیت میں وہ محارب کے قتل کا حکم جاری کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ گویا مسلمانوں کی جماعت نے ہی اسی محارب کو قتل کیا تھا، لیکن جب مسلمانوں کی جماعت ہی مذکورہ مقتول یعنی محارب کی میراث کی مستحق ہوتی ہے اگرچہ امام وقت اسے قتل کرنے میں مسلمانوں کے قائم مقام ہوتا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جو شخص حق کے تحت کسی کو قتل کرتا ہے وہ مقتول کی میراث سے محروم قرار نہیں پاتا۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک کنواں کھودے یا راستے پر کوئی بڑا سا پتھر رکھ دے اور پھر کوئی شخص کنوئیں میں گر کر یا پتھر سے ٹکرا کر ہلاک ہوجائے تو مذکورہ شخص مقتول کی میراث سے محروم نہیں ہوگا کیونکہ وہ حقیقت میں قاتل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ اس قتل کا فاعل نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے سبب کا باعث بنتا ہے جو مقتول سے متصل ہو۔ اس کی دلیل یہ امر ہے کہ قتل کی تین صورتیں ہوتی ہیں، عمد، خطا اور شبہ عمار اور کنواں کھودنے والا نیز پتھر رکھنے الا ان تینوں صورتوں کے دائرے سے خارج ہوتا ہے۔- اگر یہاں یہ کہا جائے کہ کنواں کھودنا اور پتھر رکھنا قتل کا سبب ہوتا ہے جس طرح تیز چلانے والا اور زخمی کردینے والا دونوں اس بنا پر قاتل شمار ہوت یہیں کہ وہ قتل کے سبب کا باعث ہوتے ہیں۔- اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ نیز پھینکنا تیر انداز کا فعل ہوتا ہے اور اس کی انتہا قتل پر ہوتی ہے۔ اسی طرح زخمی کرنا اس کے فاعل کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے وہ قاتل شمار ہوتا ہے کیونکہ اس کا یہ فعل مقتول کے متصل ہوتا ہ جب کہ کنوئیں میں لڑھک کر گر جانا یا پتھر سے ٹھوکر کھانا کنواں کھودنے والے کا فعل نہیں ہوتا اس لئے انہیں قاتل شمار کرنا جائز نہیں ہوتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧۔ ٧١) اب گائے کے ذبح کرنے کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گائیوں میں سے کوئی بھی گائے ذبح کر دو تو ان کی قوم نے کہا، اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آپ ہم سے مذاق کررہے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا میں ایمان والوں کے ساتھ مذاق کروں گا ؟ اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں، جب ان کی قوم پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی ظاہر ہوئی تو کہنے لگے کہ ہمارے اپنے پروردگار سے یہ بات پتہ کرو اور بتاؤ کہ وہ گائے چھوٹی ہے یابڑی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ گائے نہ بڑی ہے اور نہ چھوٹی بلکہ ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ اب دوبارہ تفتیش نہ کرو، پھر کہنے لگے کہ اپنے پروردگار سے ہمیں اس کے رنگ کے متعلق بھی پوچھ کر بتائیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ وہ سخت گوشت اور سخت سینگوں والی کالے رنگ کی ہے اس کی رنگت بالکل صاف ہے کہ دیکھنے والے کو اچھی معلوم ہوتی ہے، پھر کہنے لگے کہ اپنے رب سے یہ بھی پوچھ کر بتاؤ کہ وہ کھیتی باڑی کے کام کی ہے یا نہیں کیوں کہ اس کی تحقیق مشکل ہوگئی ہے انشاء اللہ اس کا صحیح وصف معلوم ہوجائے گا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ گائے نہ زمین جو تنے اور نہ زمین کی سیرابی کے کام کے لیے استعمال میں آئی ہو، ہر عیب سے پاک ہو نہ اس کے رنگ میں دھبے ہوں اور نہ سفیدی، کہنے لگے اب پورے طور پر اس کا صحیح نقشہ ہمارے سامنے آگیا ہے، چناچہ انہوں نے اس کو تلاش کرنا شروع کردیا اور اس کی کھال میں سونا بھر کر اس کی قیمت ادا کی۔ مگر اول میں اس کو ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اس کی قیمت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے متذبذب کے شکار تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

ان آیات کے مطالعے سے قبل ان کا پس منظر جان لیجیے۔ بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک شخص قتل ہوگیا تھا اور قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے سے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردہ شخص کے جسم پر مارو تو وہ جی اٹھے گا اور بتادے گا کہ میرا قاتل کون ہے۔- بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہمیں معجزات کا عمل دخل بہت زیادہ ملتا ہے۔ یہ بھی انہی معجزات میں سے ایک معجزہ تھا۔ گائے کو ذبح کرانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے قلوب و اذہان میں گائے کا جو تقدس راسخ ہوچکا تھا اس پر تلوار چلائی جائے۔ اور پھر انہیں یہ بھی دکھا دیا گیا کہ ایک مردہ آدمی زندہ بھی ہوسکتا ہے ‘ اس طرح بعث بعد الموت کا ایک نقشہ انہیں اس دنیا میں دکھا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم ملا تو ان کے دلوں میں جو بچھڑے کی محبت اور گائے کی تقدیس جڑ پکڑ چکی تھی اس کے باعث انہوں نے اس حکم سے کسی طرح سے بچ نکلنے کے لیے میں میخ نکالنی شروع کی اور طرح طرح کے سوال کرنے لگے کہ وہ کیسی گائے ہو ؟ اس کا کیا رنگ ہو ؟ کس طرح کی ہو ؟ کس عمر کی ہو ؟ بالآخر جب ہر طرف سے ان کا گھیراؤ ہوگیا اور سب چیزیں ان کے سامنے واضح کردی گئیں تب انہوں نے چار و ناچار بادل نخواستہ اس حکم پر عمل کیا۔ اب ہم ان آیات کا ایک رواں ترجمہ کرلیتے ہیں۔- (وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً ط) (قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ط) کیا آپ ( علیہ السلام) یہ بات ہنسی مذاق میں کہہ رہے ہیں ؟- (قَالَ اَعُوْذُ باللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ ) - ہنسی مذاق اور تمسخر و استہزا تو جاہلوں کا کام ہے اور اللہ کے نبی سے یہ بعید ہے کہ وہ دین کے معاملات کے اندر ان چیزوں کو شامل کرلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

51: جیساکہ نیچے آیت 72 میں آرہا ہے، یہ حکم ایک مقتول کا قاتل دریافت کرنے کے ئے دیا گیا تھا اس لئے بنی اسرائیل نے کو مذاق سمجھا کہ گائے ذبح کرنے سے قاتل کیسے معلوم ہوگا؟