بلاوجہ تجسس موجب عتاب ہے صحیح بخاری شریف میں ادارءتم کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں ۔ حضرت مجاہد وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے مسیب بن رافع کہتے ہیں کہ جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا پھر یہ آیت تلاوت کی آیت ( وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:72 ) یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ وہ ٹکڑا کونسا تھا ؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہیں ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں ۔ اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا ۔ اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے ایک تو آیت ( ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:56 ) میں اور دوسرا اس قصے میں ، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہو جانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے ابو زرین عقیلی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو؟ کہاں ہاں فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے؟ کہا ہاں فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ) 36 ۔ یس:33 ) یعنی ان منکرین کے لئے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے؟ اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور حضرت امام مالک کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے اس لئے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا تو آپ نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے ۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا ؟ وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں چنانچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے اور امام مالک کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامہ کے لیکن جمہور اس کے مخلاف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے ۔
72۔ 1 یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔
فَادّٰرَءْتُمْ اصل میں ” فَتَدَرَأْتُمْ “ تھا، باب تفاعل کی تاء کو دال میں بدل کر دال میں ادغام کردیا ادغام کرنے سے شروع والا حرف مدغم ساکن ہوا تو ساکن کو پڑھنے کے لیے شروع میں ہمزہ لائے، پھر شروع میں فاء آنے سے ہمزہ تلفظ سے ساقط ہوگیا، لکھنے میں موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے دوسرے کو قتل کردیا اور جو لوگ قاتل کو جانتے تھے انھوں نے اس پر پردہ ڈال دیا۔ اب وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے اور جھگڑا شروع ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ذبح شدہ گائے کا کوئی حصہ مقتول پر مارنے کا حکم دیا، جس سے اس نے زندہ ہو کر قاتل کی نشان دہی کردی۔ اتنی بات ان آیات سے صاف ظاہر ہے۔ تفاسیر میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مال دار شخص کو اس کے بھتیجے نے قتل کردیا، تاکہ اس کا وارث بن جائے، پھر رات کو لاش اٹھا کر دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دی اور صبح کے وقت ان پر قتل کا دعویٰ کردیا۔ اس پر دونوں طرف سے ہتھیار نکل آئے، لڑائی ہونے ہی والی تھی کہ بعض لوگوں نے کہا، اللہ کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھ لو۔ بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں یہ حکم دیا۔ حافظ ابن کثیر (رض) یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کی تفصیلات اسرائیلیات سے لی گئی ہیں، ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ - بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ قصہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے قتل سے شروع ہوتا ہے، اس لیے اس کا مقام پہلے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم پہلے ذکر فرمایا، تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد مناظر سامنے آسکیں، مثلاً گائے ذبح کرنے سے پہلوتہی، بار بار سوال کرنا، ناحق قتل کرنا، پھر اسے چھپانے کی کوشش کرنا۔ اگر آیات کی ابتدا قتل نفس سے ہوتی تو یہ ایک ہی واقعہ معلوم ہوتا اور بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد پہلو نمایاں نہ ہوتے۔ (زمخشری) مگر ابوحیان نے فرمایا، ظاہر بات یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب بھی اس طرح ہے جس طرح آیات کی ترتیب ہے، چناچہ حقیقت یہی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، انھیں اس کا راز معلوم نہ تھا، پھر ان میں قتل کا واقعہ ہوگیا، تو ان کے لیے گائے ذبح کرنے کی (ایک اور) حکمت بھی ظاہر کردی گئی۔ ہمیں کوئی مجبوری نہیں کہ ہم بعد والے واقعہ کو پہلے اور پہلے کو بعد والا قرار دیں۔ رہی تاریخ میں مذکور کہانیاں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ [ البحر المحیط ] ابو حیان کی بات واقعتا وزن رکھتی ہے۔ اس سے گائے ذبح کرنے کے حکم کی اہمیت و حکمت زیادہ واضح ہوتی ہے، جو کہ گاؤ پرستی کی جڑ پر کلہاڑا مارنا ہے۔ - كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى) اس سے صاف ظاہر ہے کہ گائے کا ٹکڑا مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا۔ فرمایا : ” اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے “ یعنی یہ واقعہ قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی بھی ایک دلیل اور نشانی ہے، کیونکہ جو ایک مردہ کو زندہ کرسکتا ہے وہ تمام مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قادر ہے، فرمایا : (مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ ) [ لقمان : ٢٨ ] ” نہیں ہے تمہارا پیدا کرنا اور نہ تمہارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔ “ - اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ مقامات پر دنیا میں مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے : 1 (ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ) [ البقرۃ : ٥٦ ] 2 اس مقتول کا قصہ جو یہاں ذکر ہوا ہے۔ 3 ان لوگوں کا قصہ جو موت سے ڈر کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تھے۔ [ البقرۃ : ٢٤٣ ] 4 اس شخص کا قصہ جو ایک برباد شہر سے گزرا۔ [ البقرۃ : ٢٥٩ ] 5 ابراہیم (علیہ السلام) اور چار پرندوں کا قصہ۔ [ البقرۃ : ٢٦٠ ] اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعے زمین کو زندہ کرنے سے جسموں کو دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔ [ یٰسٓ : ٣٣ ]
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب تم لوگوں (میں سے کسی) نے ایک آدمی کا خون کردیا پھر (اپنی برات کے لئے ایک دوسرے پر ڈالنے لگے اور اللہ تعالیٰ کو اس امر کا ظاہر کرنا منظور تھا جس کو تم (میں کے مجرم ومشتبہ لوگ) مخفی رکھنا چاہتے تھے، اس لئے (ذبح بقرہ کے بعد) ہم نے حکم دیا کہ اس (مقتول کی لاش) کو اس (بقرہ) کے کوئی سے ٹکڑے سے چھوا دو (چنانچہ چھوانے سے وہ زندہ ہوگیا) آگے اللہ تعالیٰ بمقابلہ منکرین قیامت کے اس قصہ سے استدلال اور اپنے نظیر کے طور پر فرماتے ہیں کہ اسی طرح حق تعالیٰ (قیامت میں) مردوں کو زندہ کردیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نظائر (قدرت) تم کو دکھلاتے ہیں اس توقع پر کہ تم عقل سے کام کرو (اور ایک نظیر سے دوسری نظیر کے انکار سے باز آؤ) - فائدہ : جب اس مردہ کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا تو وہ زندہ ہوگیا اس نے قاتل کا نام بتایا اور پھر فوراً ہی مرگیا،- اس جگہ صرف مقتول کا بیان اس لئے کافی سمجھا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ مقتول سچ بولے گا ورنہ صرف مقتول کے بیان سے بغیر شرعی شہادت کے کسی پر قتل کا ثبوت کافی نہیں ہوتا،- یہاں یہ شبہ کرنا بھی درست نہیں کہ حق تعالیٰ کو تو مردہ زندہ کرنے کی ویسی ہی قدرت تھی یا مقتول کو زندہ کئے بغیر قاتل کا نام بتایا جاسکتا تھا پھر اس سامان کی کیا ضرورت تھی تو بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا کوئی فعل ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے تو ہوتا نہیں بلکہ مصلحت اور حکمت کے لئے ہوتا ہے اور ہر واقعہ کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی کے احاطہ علمی میں آسکتی ہے نہ ہم اس کے مکلف ہیں کہ ہر واقعہ کی مصلحت معلوم کریں اور نہ یہ ضروری ہے کہ ہر واقعہ کی حکمت ہماری سمجھ میں آجائے اس لئے اس کے پیچھے پڑ کر اپنی عمر عزیز ضائع کرنے کے بجائے بہتر طریقہ تسلیم و سکوت کا ہے،
رکوع نمبر 9- وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْہَا ٠ ۭ وَاللہُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ٧٢ ۚ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- درأ - الدَّرْءُ : المیل إلى أحد الجانبین، يقال : قوّمت دَرْأَهُ ، ودَرَأْتُ عنه : دفعت عن جانبه، وفلان ذو تَدَرُّؤٍ ، أي : قويّ علی دفع أعدائه، ودَارَأْتُهُ : دافعته . قال تعالی: وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد 22] ، وقال : وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور 8] ، وفي الحدیث :«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات»- ( د ر ء )- الدواء ( ف ) کے معنی ونیزہ وغیرہ کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا میں نے اس سے دفع کیا قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد 22] اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور 8] اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے ۔«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» شرعی حدود کو شہبات سے دفع کرو - ادارأتم - ( ادّارأتم) ، أصله تدارأتم من الدرء وهو الدفع، اجتمعت التاء مع الدال وهما قریبتا المخرج فسهل الإدغام بينهما ولکن بقلب التاء دالا . فلمّا بدأ الفعل بالساکن بسبب الإدغام أضيفت همزة الوصل فقیل ادّارأتم وزنه أتفاعلتم المنقلب من تفاعلتم، ويجوز أن يكون افّاعلتم .- ( مخرج) ، اسم فاعل من أخرج الرباعيّ ، فهو علی وزن مضارعه بإبدال حرف المضارعة ميما مضمومة وکسر ما قبل آخره .- اصل میں تدارء تم تھا تدارء ( تفاعل) مصدر جس کے معنی لڑائی میں ایک دوسرے پر سے ہٹانا۔ متفق نہ ہونا۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنا ای تدافع۔ تدارء تم کی تاء کو دال میں بدل کر دال مابعد میں مدغم کردیا۔ پھر ابتداء بالسکون کی دشواری کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصل لائے۔ ادارؤتم ہوگیا۔ معنی یہ ہے کہ : تم ایک دوسرے پر ( اس قتل کا) الزام لگانے لگے۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، وقال : وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] ، وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] ، وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ [ آل عمران 71] ، وقوله : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] فَكِتْمَانُ الفضل : هو کفران النّعمة، ولذلک قال بعده : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] ، وقوله : وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] قال ابن عباس : إنّ المشرکين إذا رأوا أهل القیامة لا يدخل الجنّة إلّا من لم يكن مشرکا قالوا : وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] فتشهد عليهم جوارحهم، فحینئذ يودّون أن لم يکتموا اللہ حدیثا «2» . وقال الحسن : في الآخرة مواقف في بعضها يکتمون، وفي بعضها لا يکتمون، وعن بعضهم : لا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] هو أن تنطق جو ارحهم .- ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے ۔ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ [ البقرة 146] مگر ایک فریق ان میں سچی بات جان بوجھ کر چھپا رہا ہے ۔ وَلا تَكْتُمُوا الشَّهادَةَ [ البقرة 283] اور ( دیکھنا ) شہادت کو مت چھپانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ ما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النساء 37] جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو ( مال ) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کے رکھیں ۔ میں کتمان فضل سے کفران نعمت مراد ہے اسی بنا پر اس کے بعد فرمایا : وَأَعْتَدْنا لِلْكافِرِينَ عَذاباً مُهِيناً [ النساء 37] اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثاً [ النساء 42] اور خدا سے کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے کی تفسیر میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے روز مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہو رہے ہیں جو مشرک نہیں تھے ۔ تو چھٹ سے پکارا اٹھیں گے وَاللَّهِ رَبِّنا ما كُنَّا مُشْرِكِينَ [ الأنعام 23] خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے ۔ مگر اس کے بعد ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپائے ہوتی حسن بصری فرماتے ہیں کہ آخرت میں متدد واقف ہوں گے بعض موقعوں پر وہ اپنی حالت کو چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ اور بعض میں نہیں چھپائیں گے بعض نے کہا ہے کہ کوئی چھپا نہ سکنے سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دینگے ۔
(٧٢) اب اللہ تعالیٰ مقتول کا قصہ بیان فرماتے ہیں کہ جب تم لوگوں نے ” عامیل “ نامی آدمی کو قتل کیا پھر اس کے قتل کے حوالے سے تم میں اختلاف پڑگیا اور اس کے قتل سے متعلق جس چیز کو تم خفیہ رکھ رہے تھے اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کرنے والے تھے۔ چناچہ ہم نے حکم دیا کہ اس قتل شدہ شخص کے جسم کے ساتھ گائے کا کوئی عضو لگاؤ، وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا اور حکم یہ تھا کہ اس کی پونچھ یا زبان کا عضو لگاؤ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ” عامیل “ کو زندہ کیا اسی طرح مرنے کے بعد وہ مردہ لوگوں کو زندہ کرے گا اور تمہیں وہ زندہ کرنا دکھا رہا ہے تاکہ تم مرنے کے بعد اٹھنے پر ایمان لاؤ۔
آیت ٧٢ (وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْ تُمْ فِیْہَا ط) - چنانچہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ قاتل کون ہے۔- (وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ) - اللہ تعالیٰ فیصلہ کرچکا تھا کہ جو کچھ تم چھپا رہے ہو اسے نکال کر رہے گا اور واضح کردے گا۔