77۔ 1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔
[٩١] بالفاظ دیگر ان یہود علماء کا یہ خیال تھا کہ بس مسلمانوں کے بتانے سے ہی اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن اس حقیقت کا پتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کی معرفت اتنی کمزور ہے کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کھلی اور چھپی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے اور ان باتوں کو بھی جو یہ اب اپنے ساتھی یہودیوں سے کر رہے ہیں۔
3 بنی اسرائیل کے عناد اور سرکشی کو بیان کرنے کے بعد اب ان کے مختلف طبقوں کا بیان ہو رہا ہے، اس آیت میں عوام کی حالت بیان کی گئی ہے۔ (رازی) اُمیّ وہ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اور ” امانی “ ” اُمْنِیَّۃٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی آرزؤوں یا من گھڑت روایات کے ہیں، یعنی یہود میں ایک طبقہ جو عوام کا ہے اور ان پڑھ ہے، انھیں ” الکتاب “ یعنی تورات کا تو کچھ علم نہیں، مگر وہ اپنے سینوں میں بعض بےبنیاد قسم کی آرزوئیں پالے ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے بزرگوں کی وجہ سے اللہ انھیں ضرور بخش دے گا، یا یہ کہ جنت میں یہود کے سوا کوئی نہیں جائے گا وغیرہ، مختلف قسم کی خرافات کا عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی غلط آرزوئیں ہیں یا من گھڑت قصے ہیں جو انھوں نے سن رکھے ہیں۔ (ترجمان)- ” اُمْنِیَّۃٌ“ کا ایک معنی تلاوت بھی آتا ہے، فرمایا : ( اِلَّآ اِذَا تَـمَنّىٰٓ اَلْقَى الشَّيْطٰنُ فِيْٓ اُمْنِيَّتِهٖ ۚ ) [ الحج : ٥٢ ] اس کا ایک ترجمہ تلاوت بھی کیا گیا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ خالی تلاوت کرسکتے ہیں مگر انھیں اس کے مطلب کی کچھ خبر نہیں، جیسا کہ آج کل اکثر مسلمان، خواہ حافظ قرآن ہوں، محض تلاوت کرسکتے ہیں، مگر مفہوم سے بالکل بےبہرہ ہیں۔ ایسا پڑھنا نہ پڑھنے ہی کے برابر ہے، اس لیے ان کے اُمّی ہونے کے خلاف نہیں۔
خلاصہ تفسیر :- کیا ان کو اس کا علم نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کو سب خبر ہے ان چیزوں کی بھی جن کو وہ مخفی رکھتے ہیں اور ان کی بھی جن کا وہ اظہار کرتے ہیں (تو اگر منافقین نے مؤمنین سے اپنا کفر چھپایا تو کیا اور ان ملامت گروں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت وغیرہ کے مضامین چھپائے تو کیا، اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں مضامین سے مسلمانوں کو جابجا مطلع فرما دیا ہے) - اس آیت میں تو یہودیوں کے خواندہ لوگوں کا ذکر تھا آگے ان کے ناخواندہ لوگوں کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں کہ، - اور ان (یہودیوں) میں بہت سے ناخواندہ (بھی) ہیں جو کتابی علم نہیں رکھتے لیکن (بلاسند) دل خوش کن باتیں (بہت یاد ہیں) اور وہ لوگ کچھ اور نہیں (ویسے ہی بےبنیاد) خیالات پکا لیتے ہیں ( اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ تو ان کے علماء کی تعلیم ناقص اور مخلوط ہے اور پھر اوپر سے ان میں فہم کی کمی ہے ایسی صورت میں بجز بےبنیاد خیالات کے حقائق واقعیہ کی تحقیق کہاں نصیب ہوسکتی ہے بقول شخصے " کریلا اور نیم چڑھا " اس میں مٹھاس کہاں - اور چونکہ ان کی اس توہم پرستی میں ان کے علماء کی خیانت بڑا سبب ہے اس لئے جرم میں بھی وہ اپنے عوام سے زیادہ ہوئے اسی کا بیان اب یہاں کرتے ہیں، ) - جب عوام مذکورین قابل زجر وتوبیخ ہیں اور ان کا جہل کا اصلی سبب ان کے علماء ہی ہیں) تو بڑی خرابی ان کی ہوگی جو لکھتے ہیں (بدل سدل کر) کتاب (تورات) کو اپنے ہاتھوں سے (اور) پھر (عوام سے) کہہ دیتے ہیں کہ یہ (حکم) خدا کی طرف سے (یوں ہی آیا ہے اور غرض (صرف) یہ ہوتی ہے کہ اس ذریعہ سے کچھ نقد قدرے قلیل وصول کرلیں سو بڑی خرابی (پیش) آوے گی ان کی اس (تحریف کتاب) کی بدولت (بھی) جس کو ان کے ہاتھوں نے لکھا تھا اور بڑی خرابی ہوگی ان کو اس (نقد) کی بدولت بھی جس کو وہ وصول کرلیا کرتے تھے،- فائدہ : عوام کی رضا جوئی کے لئے غلط سلط مسئلے دینے سے ان کو کچھ نقد وغیرہ بھی وصول ہوجاتا تھا اور ان کی نظر میں وقعت اور وقار بھی رہتا تھا اسی غرض سے تورات میں لفظی اور معنوی پھیر پھار بھی کرتے رہتے تھے اس آیت میں اسی پر وعید سنائی گئی ،
اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ٧٧- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - سرر - الْإِسْرَارُ : خلاف الإعلان، قال تعالی: سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] ، وقال تعالی:- وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4] ، وقال تعالی: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ- [ الملک 13] ، ويستعمل في الأعيان والمعاني، والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] ، وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ- [يونس 54] ، أي : کتموها وقیل : معناه أظهروها بدلالة قوله تعالی: يا لَيْتَنا نُرَدُّ وَلا نُكَذِّبَ بِآياتِ رَبِّنا [ الأنعام 27] ، ولیس کذلک، لأنّ النّدامة التي کتموها ليست بإشارة إلى ما أظهروه من قوله : يا لَيْتَنا نُرَدُّ وَلا نُكَذِّبَ بِآياتِ رَبِّنا [ الأنعام 27] ، وأَسْرَرْتُ إلى فلان حدیثا : أفضیت إليه في خفية، قال تعالی: وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُ [ التحریم 3] ، وقوله : تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ [ الممتحنة 1] ، أي : يطلعونهم علی ما يسرّون من مودّتهم، وقد فسّر بأنّ معناه : يظهرون وهذا صحیح، فإنّ الإسرار إلى الغیر يقتضي إظهار ذلک لمن يفضی إليه بالسّرّ ، وإن کان يقتضي إخفاء ه عن غيره، فإذا قولهم أسررت إلى فلان يقتضي من وجه الإظهار، ومن وجه الإخفاء، وعلی هذا قوله : وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] . وكنّي عن النکاح بالسّرّ من حيث إنه يخفی، واستعیر للخالص، فقیل : هو من سرّ قومه ومنه : سِرُّ الوادي وسِرَارَتُهُ ، وسُرَّةُ البطن : ما يبقی بعد القطع، وذلک لاستتارها بعکن البطن، والسُّرُّ والسُّرَرُ يقال لما يقطع منها . وأَسِرَّةُ الرّاحة، وأَسَارِيرُ الجبهة، لغضونها، والسَّرَارُ ، الیوم الذي يستتر فيه القمر آخر الشهر . والسُّرُورُ : ما ينكتم من الفرح، قال - تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] ، وقال : تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة 69] ، وقوله تعالیٰ في أهل الجنة : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 9] ، وقوله في أهل النار :- إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 13] ، تنبيه علی أنّ سُرُورَ الآخرة يضادّ سرور الدّنيا، والسَّرِيرُ : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن»- ( س ر ر ) الاسرار کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سِرًّا وَعَلانِيَةً [إبراهيم 31] اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا : ۔ وَيَعْلَمُ ما تُسِرُّونَ وَما تُعْلِنُونَ [ التغابن 4]( کہ ) جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں خدا کو ( سب ) معلوم ہے ۔ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ [ الملک 13] اور تم ( لوگ ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر ۔ اور اس کا استعمال اعیال ومعانی دونوں میں ہوتا ہے السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ نیز فرمایا ۔ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة 78] کہ خدا ان کے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے ۔ سارۃ ( مفاعلہ ) کے معنی ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا اور تسار القوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے معنی ظاہر کرنا بھی کئے ہیں کیونکہ دوسری آیت میں ہے : يا لَيْتَنا نُرَدُّ وَلا نُكَذِّبَ بِآياتِ رَبِّنا [ الأنعام 27] اور کہیں گے اے کاش ہم پھر ( دنیا میں ) لوٹا دیے جائیں تاکہ اپنے پروردگار کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں ۔ لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں ۔ کیونکہ آیت مذکور میں جس ندامت کے چھپانے کا ذکر ہے اس سے وہ ندامت مراد نہیں ہے جس کے اظہار کی طرف آیت یا لیتنا میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسررت الیٰ فلان حدیثا کسی سے پوشیدہ طور پر راز کی بات کہنا ۔ چناچہ قرآن میں ۔ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُ [ التحریم 3] ( اور یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ اور آیت : تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ [ الممتحنة 1] اور تم ان کی طرف پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم انہیں اپنی پوشیدہ دوستی سے آگاہ کرتے ہو ۔ اس بنا پر بعض نے یہاں تسرون کے معنی تظھرون کئے ہیں اور یہی معنی صحیح معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اسرار الی الغیر ( کسی سے بھید کی بات کہنا ) جس طرح دوسروں سے اخفا کو مقتضی ہے اسی طرح اس شخص کے سامنے اظہار کو متلزم ہے جس سے وہ بھید کہا جاتا ہے لہذا اسررت الیٰ فلان ( یعنی دوسرے سے راز کی بات کہنا ) میں من وجہ اخفا اور من وجہ اظہار کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیت : وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ( ظاہر ) اور پوشیدہ ہر طرح سمجھاتا رہا ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر السر کے معنی نکاح ( جماع ) کے بھی آتے ہیں کیونکہ وہ بھی چھپ کر کیا جاتا پے اور ستر خالص چیز کو کہتے ہی جیسے کہا جاتا ہے ۔ هو من سرّ قومه : وہ اپنی قوم میں سب سے بہتر ہے اور اسی سے سِرُّ الوادي وسِرَارَتُهُ ہے جس کے معنی وادی کے بہتر حصہ کے ہیں ۔ سرۃ البطن ناف کا وہ حصہ جو قطع کرنے کے بعد باقی رہ جاتا ہے اور یہ چونکہ بطن میں مخفی رہتا ہے اسلئے اسے سرۃ البطن کہتے ہیں اور وہ چیز جو ناف سے قطع کی جاتی ہے اسے سر و سرر کہا جاتا ہے ہتھیلی کی لکیروں کو اسرۃ الراحۃ کہتے ہیں اسی طرح پیشانی کے خطوط کو اساریر الجبھۃ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح مہینہ کی آخری تاریخ جس میں چاند ظاہر ہوتا اسے سرار کہاجاتا ہے ۔ السرور قلبی فرحت کو کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11]( تو خدا ) ان کو تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا ۔ تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة 69] کہ دیکھنے والے ( دل ) کو خوش کردیتا ہو ۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق فرمایا : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 9] اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے ۔ اور اہل نار کے متعلق فرمایا :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 13] یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا ۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ آخرت کی خوشی دنیا کی خوشی کے برعکس ہوگی ۔ السریر ( تخت ) وہ جس پر کہ ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی کے بنا دئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہا جاتا ہے تو یہ سریر ( تخت ) کے ساتھ صوری مشابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پا کر جوار الہی میں خوش و خرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن : کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے ۔- علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔
(٧٨۔ ٧٧) اور ان یہودیوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو نہ تو رات کو اچھی طرح پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں، وہ بےاصل باتیں بناتے ہیں اور اپنے سرداروں کے سمجھانے پر خیالات کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔
آیت ٧٧ (اَوَلاَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ) “ - تم چاہے یہ باتیں مسلمانوں کو بتاؤ یا نہ بتاؤ ‘ اللہ کی طرف سے تو تمہارا محاسبہ ہو کر رہنا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔