Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مباہلہ اور یہودی مع نصاریٰ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان یہودیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جھوٹا ہے اسے ہلاک کر دے ۔ لیکن ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لئے کہ وہ دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے ۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لئے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اسی طرح جو نصرانی آپ کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لئے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے ( مسند احمد ) سورۃ جمعہ میں بھی اسی طرح کی دعوت انہیں دی گئی ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ هَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِيَاۗءُ لِلّٰهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) 62 ۔ الجمعہ:6 ) آخر تک پڑھئے ان کا دعویٰ تھا کہ آیت ( نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ) 5 ۔ المائدہ:18 ) ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے پیارے ہیں یہ کہا کرتے تھے آیت ( لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ) 2 ۔ البقرۃ:111 ) جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ ہی جائیں گے اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ اس کا فیصلہ اس طرح کرلیں کہ دونوں فریق میدان میں نکل کر اللہ سے دعا کریں کہ اسے جھوٹے کو ہلاک کر لیکن چونکہ اس جماعت کو اپنے جھوٹ کا علم تھا اس لئے تیار نہ ہوئی اور اس کا کذب سب پر کھل گیا اسی طرح جب نجران کے نصرانی حضور کے پاس آئے بحث مباحثہ ہو چکا تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آیت ( تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:61 ) آؤ ہم تم دونوں اپنی اپنی اولادوں بیویوں کو لے کر نکلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے لیکن وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہرگز اس نبی سے مباہلہ نہ کرو فوراً برباد ہو جاؤ گے چنانچہ مباہلہ سے انکار کر دیا جھک کر صلح کر لی اور دب کر جزیہ دینا منظور کر لیا آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے ساتھ امین بنا کر بھیج دیا اسی طرح مشرکین عرب سے بھی کہا گیا آیت ( مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا ) 19 ۔ مریم:75 ) یعنی ہم میں سے جو گمراہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی بڑھا دے اس کی پوری تفسیر اس آیت کے ساتھ بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ایک مرجوع قول یہ بھی ہے کہ تم خود اپنے جانوں کے لئے موت طلب کرو کیونکہ بقول تمہارے آخرت کی بھلائیاں صرف تمہارے لئے ہی ہیں انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن یہ قول کچھ دل کو نہیں لگتا ۔ اس لئے کہ بہت سے اچھے اور نیک آدمی بھی زندگی چاہتے ہیں بلکہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی لمبی عمر ہوئی ہو اور اعمال اچھے ہوں علاوہ ازیں یہی قول یہودی بھی کہہ سکتے تھے تو بات فیصلہ کن نہ ہوتی ٹھیک تفسیر وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ دونوں فریق مل کر جھوٹ کی ہلاکت اور اس کی موت کی دعا کریں اور اس اعلان کے سنتے ہی یہود تو ٹھنڈے پڑ گئے اور تمام لوگوں پر ان کا جھوٹ کھل گیا اور وہ پیشنگوئی بھی سچی ثابت ہوئی کہ یہ لوگ ہرگز موت طلب نہیں کریں گے اس مباہلہ کا نام اصطلاح میں تمنی رکھا گیا کیونکہ ہر فریق باطل پرست کی موت کی آرزو کرتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ تو مشرکین سے بھی زیادہ طویل عمر کے خواہاں ہیں کیونکہ کفار کے لئے دنیا جنت ہے اور ان کی تمنا اور کوشش ہے کہ یہاں زیادہ رہیں خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں منافق کو حیات دنیوی کی حرص کافر سے بھی زیادہ ہوتی ہے یہ یہودی تو ایک ایک ہزار سال کی عمریں چاہتے ہیں حالانکہ اتنی لمبی عمر بھی انہیں ان عذابوں سے نجات نہیں دے سکتی چونکہ کفار کو تو آخرت پر یقین ہی نہیں ہوتا مگر انہیں یقین تو تھا لیکن ان کی اپنی سیاہ کاریاں بھی ان کے سامنے تھے اس لئے موت سے بہت زیادہ ڈتے تھے لیکن ابلیس کے برابر بھی عمر پالی تو کیا ہوا عذاب سے تو نہیں بچ سکتے اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بےخبر نہیں تمام بندوں کے تمام بھلے برے اعمال کو وہ بخوبی جانتا ہے اور ویسا ہی بدلہ دے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٢] آخرت سے متعلق یہود کی تمنا :۔ یہ یہود کی دنیا سے محبت پر ایک نہایت عمدہ پیرایہ میں تعریض ہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو آخرت سے لگاؤ ہوتا ہے وہ دنیا پر اس قدر ریجھے ہوئے نہیں ہوتے اور نہ ہی موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہودیوں کا حال اس کے بالکل برعکس تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دلیل سے یہود کے اس غلط دعویٰ کا رد فرمایا جو وہ کہتے تھے کہ آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے مخصوص ہے

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت سے ملتا جلتا مضمون سورة جمعہ (٦ تا ٨) میں بیان ہوا ہے، یہاں ” وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ “ اور وہاں ” وَلَا يَتَمَنَّوْنَهٗٓ اَبَدًۢا “ ہے۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہاں دعویٰ اللہ کی دوستی کا ہے، جس کی نفی صرف ” لا “ کے ساتھ کی گئی، یہاں دار آخرت کا یہودیوں کے لیے خاص ہونے کا ہے جو اس سے بڑا دعویٰ ہے، کیونکہ اللہ کی دوستی ذریعہ ہے اور جنت کا حصول نتیجہ ہے، اس لیے یہاں نفی صرف ” لن “ کے ساتھ کی گئی، جو تاکید کے لیے ہے۔ (رازی) واللہ اعلم - اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، ایک یہ کہ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ جنت میں تمہارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمنا کرو، کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا وہ تو ضرور موت کی تمنا کرے گا، تاکہ جلد از جلد جنت میں پہنچ جائے۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے یہی معنی کیے ہیں، مگر اس پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں، مسلمانوں کو بھی موت کی تمنا کرنی چاہیے، جب کہ موت کی تمنا تو مسلمان بھی کم ہی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہود نسلی تفاخر میں مبتلا تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کے دعوے دار تھے اور جنت کے واحد ٹھیکے دار بنے ہوئے تھے، جب کہ مسلمانوں کا ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے، وہ اتنے بےخوف ہوتے ہی نہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کریں۔ (سورۂ مؤمنون : ٥٧ تا ٦١) اس کے باوجود مسلمانوں میں شہادت کا شوق اور میدان جنگ میں موت کو موت کی جگہوں سے تلاش کرنا عام تھا، جب کہ یہودی اتنے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود آخرت سے سراسر ناامید تھے۔ [ دیکھیے سورة ممتحنۃ : ١٣ ] اس لیے وہ کبھی مرنا نہیں چاہتے تھے اور بزدلی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہاں بھی فرمایا کہ وہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس آیت میں یہود کے زبانی دعوے اور دل کی چوری کی حقیقت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنے یقین سے پہچانتے تھے کہ آپ کے کہنے پر کبھی موت کی تمنا کرنے پر تیار نہ تھے۔ - دوسری تفسیر ابن عباس (رض) نے فرمائی ہے کہ (فَتَمَنَّوُا الْمَوْت) کا معنی ہے کہ دونوں گروہوں ( یہودیوں اور مسلمانوں) میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی بد دعا کرو تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات کا انکار کردیا۔ “ [ ابن أبی حاتم : ١؍٢٤٧، ح : ٩٣٧، بسند حسن ] یعنی اس آیت میں یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو فریقین میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو، مگر انھوں نے اس سے انکار کردیا۔ سورة جمعہ (٦ تا ٨) میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، ان میں بھی یہود کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے، جیسا کہ سورة آل عمران (٦١) میں نجران کے نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی اور جس طرح نصرانی مباہلہ سے ڈر گئے تھے یہود بھی بددعا سے ڈر گئے اور جھوٹے گروہ کی موت کی تمنا نہ کی۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا، اگر یہودی اس دن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ بات کہی، موت کی تمنا کرتے تو زمین پر جو یہودی بھی تھا مرجاتا۔ [ ابن ابی حاتم : ١؍٢٤٧، ح : ٩٣٨، بسند حسن ]- حافظ ابن کثیر (رض) نے اسی معنی کو صحیح لکھا ہے، حافظ ابن قیم (رض) نے بھی مدارج السالکین میں اس معنی کو ترجیح دی ہے، اور ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ (رض) کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر پر یہ اعتراض آتا ہی نہیں کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں، مسلمان کیوں نہ کریں، نہ اس کے جواب کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، کیونکہ جھوٹے کی موت کی تمنا اور بددعا صرف یہود نے نہیں بلکہ مسلمانوں اور یہود دونوں نے کرنی ہے۔ جس کے لیے مسلمان تو آج بھی اللہ کے فضل سے تیار ہیں، مگر یہود و نصاریٰ آج بھی اس کی جرأت نہیں کرتے اور نہ کبھی کرسکیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (بعض یہودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ آخرت کی نعمتیں خالص ہمارا ہی حق ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس دعوے کو باطل کرنے کے لئے فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ اگر (بقول تمہارے) عالم آخرت محض تمہارے ہی لئے نافع ہے بلا شرکت غیرے تو تم (اس کی تصدیق کے لئے ذرا) موت کی تمنا کرکے دکھلا دو اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو اور (ہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ) یہ لوگ ہرگز کبھی اس (موت) کی تمنا نہ کریں گے بوجہ (خوف سزا) ان اعمال (کفریہ) کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو خوب اطلاع ہے ان ظالموں کے حال کی (جب مقدمہ کی تاریخ آئے گی فرد قرارداد جرم سنا کر سزا کا حکم کردیا جائیگا) - فائدہ : قرآن کی بعض اور آیات سے بھی ان کے اس دعویٰ کا مفہوم نکلتا ہے جیسا کہ وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً (٨٠: ٢) وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى (١١١: ٢) وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤ ُ ا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤ ُ ه (١٨: ٥) وغیرہا،- ان سب دعوؤں کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم دین حق پر ہیں لہذا آخرت میں ہم کو تو ضرور نجات ملے گی ہم میں سے جو تائب یا مرحوم ہیں ان کو تو ابتداء ہی سے جنت میں داخلہ مل جائے گا اور جو گنہگار ہیں وہ چند روزہ عذاب بھگت کر نجات پاجائیں گے اور جو مطیع ہیں وہ بمثل ابناء واحباء محبوب ومقرب ہیں، - بعض عنوانات کے قبح سے قطع نظر یہ دعوے دین حق پر قائم ہونے کی صورت میں فی نفسہ تو درست وصادق ہیں لیکن چونکہ وہ لوگ اپنے دین کے منسوخ ہوجانے کی بنا پر حق پر نہ رہے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے جابجا مختلف عنوانات اور طریقوں سے ان کی تکذیب فرمائی یہاں ایک خاص طریقہ ذکر کیا گیا کہ اگر عام عادت کے مطابق بحث اور دلائل سے فیصلہ نہیں کرتے تو آؤ مافوق العادۃ طریقہ یعنی معجزے کے ذریعے اس میں نہ زیادہ علم وفہم کی ضرورت ہے نہ غائر نظر درکار صرف زبان ہلانے کی ضرورت ہے مگر ہم پیشین گوئی کرتے ہیں کہ تم زبان سے یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہم موت کی تمنا کرتے ہیں، - اس پیشین گوئی کے بعد ہم کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے دعوؤں میں سچے ہو تو یہ کلمہ کہہ دو نہ کہا تو پھر تمہارا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا،- چونکہ ان کو اپنا باطل اور کفر پر ہونا اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین کا حق پر ہونا ان پر خوب واضح و روشن تھا اس لئے یا تو ایسی ہیبت چھائی کہ زبان ہی نہ اٹھی یا وہ ڈر گئے کہ تم نے یہ کلمہ منہ سے نکالا اور موت نے آدبوچا اور پھر سیدھے جہنم رسید ہوئے ورنہ ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو عداوت و دشمنی تھی اس کے پیش نظر تو ان کو یہ سن کر جوش آجانا چاہئے تھا اور یہ کلمات ضرور کہہ دینے چاہئے تھے،- درحقیقت اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یہ واقعہ بہت کافی ہے یہاں دو باتیں اور قابل ذکر ہیں، - اول تو یہ کہ یہ استدلال ان یہودیوں کے ساتھ تھا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانے میں موجود تھے اور جنہوں نے آپ کو نبی پہچاننے کے بعد عناد و عداوت کی بناء پر آپ کا انکار کیا ہر زمانے کے یہود سے یہ خطاب نہیں،- دوسرے یہ شبہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ تمنا کرنا دل اور زبان دونوں سے ہوتا ہے ممکن ہے انہوں نے دل سے تمنا کی ہو اول تو یہ اس لئے صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان، وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اس کی صاف تردید کر رہا ہے دوسرے اگر وہ دل سے تمنا کرتے تو زبان سے ضرور اس کا اظہار کرتے، کیونکہ اس میں تو ان کی جیت تھی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کا اچھا موقعہ تھا،- اور یہ شبہ بھی نہ کرنا چاہئے کہ انہوں نے تمنا کی ہو مگر اس کی شہرت نہ ہوئی ہو یہ اس لئے صحیح نہیں کہ اسلام کے ہمدرد ومعاونین کی تعداد کے مقابلہ میں معاندین و مخالفین کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی اگر ایسی بات ہوئی ہوتی تو وہ خود اس کو خوب خوب اچھالتے کہ لو دیکھو تم نے جو معیار حق و صداقت مقرر کیا تھا اس پر بھی ہم پورے اترے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٩٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كان - كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً- [ الأحزاب 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا - [ مریم 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله :- كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- ( ک و ن ) کان ۔- فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے - ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - تَّمَنِّي :- تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] - والأُمْنِيَّةُ- : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ- [ الحج 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ- [ النساء 119] .- ۔ التمنی - کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ - الامنیۃ - کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں - امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینْ مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے : قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ عند اللہ خالصۃ من دون الناس قسموا الموت ان کنتم صدقین (ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو) روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر یہود موت کی تمنا کرتے تو سب مرجاتے اور جہنم کے اندر اپنے اپنے ٹھکانے دیکھ لیتے اور اگر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباہلہ کرنے والے اپنے گھروں سے نکل آتے تو واپس جا کر نہ تو وہ اپنے اہل و عیال کو پاتے اور نہ ہی کوئی مال ملتا۔ “ حضرت ابن عباس نے فرمایا :” اگر یہ لوگ موت کی تمنا کرتے تو انہیں موت کا اچھو لگ جاتا اور وہ مرجاتے۔ “- موت کی تمنا کی تفسیر میں دو اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ انہیں چیلنج دیا گیا کہ دونوں گروہوں (مسلمان اور یہودی) میں سے جو گروہ جھوٹا ہو اس کے خلاف وہ موت کی دعا کریں۔ ابوالعالیہ ، قتادہ اور ربیع بن انس کا قول ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ : جنت میں صرف وہی لوگ داخل ہو سکیں گے جو یہودی یا نصاریٰ ہوں گے۔ “ نیز : کہا کہ ” ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے احبا ہیں۔ “ تو ان سے کہا گیا کہ :” پھر متو کی تمنا کرو۔ “ اس لئے کہ جو لوگ مذکورہ بالا صفات سے موصوف ہوں ان کے لئے دنیا میں زندہ رہنے سے موت بہتر ہے۔ اس طرح درج بالا آیت دو معنوں کو متضمن ہے۔ ایک تو ان کے کذب کا اظہار اور انہیں اس کذب بیانی پر ڈانٹ اور دوم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلات۔ وہ اس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے انہیں یہ چیلنج اس طرح دیا تھا جس طرح آپ نے نصاریٰ کو مباہلہ کا چیلنج دیا تھا اگر انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور پانی کذب بیانی کا علم نہ ہوتا تو یہ یہود متو کی تمنا کرنے میں تیزی دکھاتے اور نصاریٰ مباہلہ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے، خاص طور پر جب کہ آپ نے دونوں گروہوں کو بتادیا تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان پر موت اور عذاب کا نزول ہوجائے گا۔ اگر یہ لوگ موت کی تمنا کرتے اور مبالہ کے لئے نکل پڑتے اور پھر ان پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کے مطابق عذاب نازل نہ ہوتا تو اس سے آپ کی تکذیب ہوجاتی اور آپ کی قائم کردہ حجت ختم ہوجاتی۔ لیکن انہوں نے آپ کی طرف سے مذکورہ چیلنج اور وعید کے باوجود موت کی تمنا کرنے اور مباہلہ کے لئے آنے سے گریز کیا، حالانکہ یہ کام ان کے لئے بڑا آسان تا، تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت کا علم تھا اور یہ علم انہیں اپنی آسمانی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مذکورہ بیانات و صفات سے حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے : ولن یتمتوہ ابداً بما قدمت ایدیھم (یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لئے کہ اپنے ہاتھوں سے جو کچھ کما کر انہوں نے وہاں بھیجا ہے اس کا اقتضا یہی ہے ) اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر ایک اور دلالت موجود ہے۔ وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے الفاظ میں انہیں خبر دی کہ وہ موت کی تمنا نہیں کریں گے، حالانکہ وہ بڑی آسانی سے موت کی تمنا نہ اپنی زبانوں پر لاسکتے تھے۔- یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے یہ فرماتے : میری نبوت کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے اعضاء و جوارح کے صحیح و سالم ہونے کے باوجود اپنے سر کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے سر کو ہاتھ لگا دے تو اپنا بطلان تسلیم کرلوں گا۔ “ اور پھر کوئی شخص اپنے سر کو ہاتھ نہ لگا سکے گا جبکہ تمام کے تمام مخاطبین کے دلوں میں آپ سے عداوت کی آگ بھڑک رہی تھی، اور سب کے سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور ان کے اعضاء و جوارح بھی صحیح سالم تھے۔ - اس لئے یہ بات دو وجوہ سے واضح ہوجاتی ہے کہ آیت میں مذکورہ چیلنج اللہ کی جانب سے ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوئی عاقل شخص بھی اپنے دشمنوں کو اس قسم کا چیلنج نہیں دے سکتے۔- جبکہ اسے معلوم ہو کہ دشمنوں کی طرف سے اس چیلنج کا جواب ممکن ہے۔ دوسری وجہ یہے کہ یہ اخبار بالغیب ہے، کیونکہ ان لوگوں میں سے کسی نے بھی موت کی تمنا نہیں کی اور آپ کی دی ہوئی خبر حقیقت کے اعتبار سے بھی درست ثابت ہوئی۔ یہ بات اس قول باری کی طرح ہے جس میں ان لوگوں کو قرآن کی ایک سورت جیسی سورت پیش کرنے کا چیلنج دیا گیا اور پھر بتادیا گیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ چناچہ ارشاد ہوا : فان لم تفعلوا ولن تفعلوا (اگر تم نے ایسا نہیں کیا اور ایسا کر بھی نہیں سکو گے)- یہاں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ان لوگوں نے موت کی اس لئے تمنا نہیں کی کہ اگر وہ تمنا کرتے تو ان کی یہ تمنا پوشیدہ ہوتی اور لوگوں کے علم میں ان کی یہ بات نہ آتی اور پھر یہ کہنا بھی ممکن ہوتا کہ :” تم نے اپنے دلوں سے موت کی تمنا نہیں کی۔ “- اس کا جواب یہ ہے کہ درج بالا بات دو وجوہ سے باطل ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک تمنا کے لئے ایک معروف صیغہ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ مثلاً کوئی شخص کہے :” کا شکر اللہ مجھے بخش دیتا کا شکر زید آ جاتا “ یا اسی قسم کے دوسرے فقرات، یہ عربی کلام کی ایک قسم ہے۔ اگر قائل یہ صیغہ استعمال کرتا تو سننے والوں کو علم ہوجاتا کہ وہ کسی چیز کی تمنا کر رہا ہے ۔ ایسے موقعے پر اس کے ضمیر اور اعتقاد کی طرف کوئی دھیان نہ دیا جاتا۔ جس طرح خبر دینے، خبر معلمو کرنے اور کسی کو پکارنے نیز دیگر امور کے لئے عربوں کے کلام میں مخصوص صیغے اور اس کی مخصوص اقسام ہیں۔ موت کی تمنا کے سلسلے میں دیئے گئے چیلنج کا رخ اس عبارت کی طرف تھا جو عربوں کی لعنت میں تمنا کے اظہار کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ - دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک محال امر ہے کہ ایک طرف تو ان لوگوں کی جانب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں ان کی ہٹ دھرمی اور آپ کی نبوت کی صحت کا علم رکھنے کے باوجود کھلی دشمنی کے پیش نظر انہیں چیلنج کیا جائے اور دوسری طرف ان سے کہا جائے کہ وہ اپنے دلوں میں موت کی تمنا کریں، حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پوشیدہ طور پر ، یعنی دل میں متو کی تمنا کرنے کے چیلنج کا جواب ہر شخص دے سکتا ہے اور کوئی بھی اس سے عاجز نہیں ہوتا ایسا چیلنج نہ تو کسی بات کی صحت پر دلالت کرسکتا ہے اور نہ اس کے فساد پر ایسی صورت میں جس شخص کو چیلنج کیا جائے یہ کہہ سکتا ہے کہ : میں نے اپنے دل میں موت کی تمنا کرلی۔ “ اور اس کے مدمقابل کے لئے اس کی کذب بیانی پر دلیل قائم کرنا بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ بنا بریں اگر مذکورہ چیلنج کا رخ دل کے ساتھ تمنا کرنے کی طرف موڑ دیا جاتا اور زبان کی عبارت کے ساتھ تمنا کرنے کی طرف نہ موڑا جاتا تو یہ لوگ کہتے کہ :” ہم نے اپنے دلوں کے اندر موت کی تمنا کرلی ہے۔ “ اور اس کے نتیجے میں یہ لوگ مذکورہ چیلنج سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مساوی قرار پاتے اور اس کے نتیجے میں ان کی کذب بیانی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر مذکورہ چیلنج کی دلالت سا قطہ ہوجاتی، لیکن چونکہ ان لوگوں نے موت کی تمنا نہیں کی اور اگر کرتے تو یہ بات ان سے اسی طرح آج منقول ہوتی جس طرح اگر وہ قرآن کا معارضہ کرتے تو ان کا یہ معارضہ آج ہم تک منقول ہوجاتا، اس لئے یہ معلوم ہوا کہ لفظ اور عبارت کے ذریعے موت کی تمنا کرنے کا انہیں چیلنج کیا گیا تھا، دل اور اعتقاد سے ایسا کرنے کا چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٤) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے اگر جنت ان حضرات کے علاوہ ہے جو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں تمہارے لیے ہی خاص ہے تو پھر تم موت کی خواہش کرو، اگر اپنے اس دعوے میں سچے ہو (تاکہ جنت میں جلدی داخل ہوجاؤ)- شان نزول : (آیت) ” قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ “۔ (الخ)- اس آیت ابن جریر (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہودی یہ دعوی کیا کرتے تھے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت شریف نازل فرمائی یعنی اگر جنت صرف تمہارے ہی لیے ہے تو ذرا موت کی تمنا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ) - یعنی تمہارے لیے جنت مخصوص ( ) ہوچکی ہے اور تم مرتے ہی جنت میں پہنچا دیے جاؤگے۔ - (فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔ - اگر تمہیں جنت میں داخل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے پھر تو دنیا میں رہنا تم پر گراں ہونا چاہیے۔ یہاں تو بہت سی کلفتیں ہیں ‘ یہاں تو انسان کو بڑی مشقتّ اور شدید کو فت اٹھانی پڑجاتی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرا مقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ ( ) نہیں ‘ ذمہّ داری ( ) معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے ‘ جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ ) (١٠) دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ) (القیٰمۃ) بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے۔ ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتا خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر تو یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کھینچا گیا ہے : (کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ ) (١١) دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو۔ پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے ‘ جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویۂ نگاہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے ‘ لہٰذا ایک معینّ مدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں اس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :98 یہ ایک تعریض اور نہایت لطیف تعریض ہے ان کی دنیا پرستی پر ۔ جن لوگوں کو واقعی دارِ آخرت سے کوئی لگاؤ ہوتا ہے ، وہ دنیا پر مَرے نہیں جاتے اور نہ موت سے ڈرتے ہیں ۔ مگر یہُودیوں کا حال اس کے برعکس تھا اور ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani