Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

صور کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے حضرت اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنالیا ہے پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں؟ فرمایا کہو ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣؁ ) 3-آل عمران:173 ) ۔ اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی ۔ ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے ۔ ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دن بھی کہاں کے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے ۔ غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی ۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اس سوال پر کہ تم کتنا عرصہ زمین پر گزار آئے؟ ان کا جواب ہے ایک دن بلکہ اس سے بھی کم ۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہوجائے گی، حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] صور کے معنی قرنامد، نرسنگھا اور بوق ہے اور یہ چیزیں دور نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رائج تھیں۔ ضروری نہیں کہ صور کی بھی یہی شکل و صورت ہو بلکہ قرآن ایسے لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس سے انسانی ذہن اس اصل چیز سے قریب تر کسی چیز سے متعارف ہو۔ بعد میں اس غرض کے لئے فوج میں بگل استعمال ہوتا ہے جس سے لشکر کو اکٹھا یا منشتشر کیا جاتا ہے۔ ہوائی حملہ کے خطرہ کے دوران سائرن بھی اسی سے ملتی جلتی چیز ہے۔ روزہ کو بند کرنے اور کھولنے کے وقت بھی سائرن کا استعمال ہوتا ہے۔ بس اسی سے ملتی جلتی یا اس سے بھی ترقی یافتہ شکل نفخہ صور کی ہوگی۔- ] ـ٧٢] اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جب دہشت کے مارے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں تو ان پر نیلگوں سفیدی غالب آجاتی ہے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے سارا بدن ہی نیلگون ہوجائے گا۔ یعنی دہشت کے مارے خون تو خشک ہوجائے گا اور جسم پر نیلاہٹ غالب آنے لگے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۙيَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۔۔ : یہ پچھلی آیات میں مذکور ” يَوْمَ الْقِيٰمَةِ “ سے بدل ہے جو قیامت کے دن کی وضاحت کر رہا ہے۔ ” الصُّوْرِ “ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة انعام (٧٣) اور کہف (٩٩) ۔ ” زُرْقًا “ ” أَزْرَقُ “ کی جمع ہے، جس کا معنی نیلے رنگ والا ہے۔ یہاں اس کے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں، ایک نیلے جسم اور نیلے چہروں والے، مراد سیاہ رنگ والے، کیونکہ جلی ہوئی جلد نیلگوں کالی ہوجاتی ہے۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٠٦) ۔ دوسرا معنی ” اندھے “ ہے، کیونکہ بہت نیلی آنکھ اندھے آدمی کی ہوتی ہے، یعنی قیامت کے دن اندھے اٹھائے جائیں گے، اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١٢٤، ١٢٥) ۔ طبری نے صرف یہی معنی بیان فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ، حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ایک گاؤں والے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ صور کیا چیز ہے تو آپ نے فرمایا کہ ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی، مراد یہ ہے کہ سینگ کی طرح کی کوئی چیز ہے جس میں فرشتہ کی پھونک مارنے کا پوری دنیا پر یہ اثر ہوگا کہ سب مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجاویں گے حقیقت اس صور کی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِيْنَ يَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝ ١٠٢ۚۖ- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- زرق - الزُّرْقَةُ : بعض الألوان بين البیاض والسواد، يقال : زَرَقَتْ عينه زُرْقَةً وزَرَقَاناً ، و

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢۔ ١٠٣) جب دوسری مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مشرکین کو میدان قیامت میں اس حالت میں جمع کریں گے کہ کرنجے ہوں گے چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے اور ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے کہ تم لوگ قبروں میں صرف دس روز رہے ہو گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ زُرْقًا ) ” - انتہائی خوف کی کیفیت میں انسان کی آنکھوں میں نیلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ چناچہ اس دن خوف اور دہشت سے مجرموں کی آنکھیں نیلی پڑچکی ہوں گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :78 صَور ، یعنی نر سنگھا ، قرناء ، یا بوق ۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہے ، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہ ان محدود معنوں میں لے لیں ، اور ان محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں ۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے ملتی جلتی ہو ۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جائے گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی ۔ ایک دفع وہ پھونکی جائے گی اور سب پر موت طاری ہو جائے گی ۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حاشیہ 106 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :79 اصل میں لفظ زُرقاً استعمال ہوا ہے جو اَزْرَق کی جمع ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ خود اَزْرق ( سفیدی مائل نیلگوں ) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جائے گا اور ان کی حالت ایسی ہو جائے گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے ۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ارزق العین ( کرنجی آنکھوں والے ) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدت ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے ۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani