Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ښيَّتَخَافَتُوْنَ بَيْنَهُمْ ۔۔ : اسمائے عدد میں قاعدہ ہے کہ تین سے دس تک کی گنتی میں اگر کوئی چیز مذکر ہو تو عدد مؤنث آئے گا اور اگر کوئی چیز مؤنث ہو تو عدد مذکر ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍ ۙ حُسُوْمًا ) [ الحاقۃ : ٧ ] ” اس نے اس (آندھی) کو ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلائے رکھا۔ “ اس لیے یہاں ” عَشْراً “ کا معنی دس راتیں ہوگا۔ ” تَخَافُتْ “ (تفاعل) کا معنی خوف وغیرہ کی وجہ سے آہستہ آواز سے بات کرنا ہے۔ ان کی یہ حالت قیامت کی ہولناکی کی وجہ سے ہوگی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قوله تعالی:- زُرْقاً يَتَخافَتُونَ [ طه 102] ، أي : عمیا عيونهم لا نور لها . والزُّرَقُ طائر، وقیل : زَرَقَ الطائرُ يَزْرِقُ «4» ، وزَرَقَهُ بِالْمِزْرَاقِ : رماه به «5» .- ( ز ر ق ) الزرقہ - ( نیلاہٹ ) ایک رنگ جو سپیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے زرقت عینہ زرقۃ و زرقانا اس کی آنکھ نیلی ہوگئی اور آیت کریمہ : زُرْقاً يَتَخافَتُونَ [ طه 102] نیلی آنکھوں والے جو آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کریں گے ۔ میں زرقا کے معنی اندھے جن کی آنکھوں میں نور نہ ہو ۔ الزرق ایک پرند کا نام ہے ( سفید شاہین ) محاورہ ہے ۔ زرق الطائر پرند کا بیٹ کرنا اور زرقہ بالمزراق کے معنی ہیں اسے چھوٹے نیزہ سے مارا - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :80 دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ موت کے بعد سے اس وقت تک تم کو مشکل ہی سے دس دن گزرے ہوں گے ۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے روز لوگ اپنی دنیوی زندگی کے متعلق بھی یہ اندازہ لگائیں گے کہ وہ بہت تھوڑی تھی ، اور موت سے لے کر قیامت تک جو وقت گزرا ہوگا اس کے متعلق بھی ان کے اندازے کچھ ایسے ہی ہوں گے ۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ ہ قَالُوْا لَبِثْنا یَوْ ماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَا دِّیْنَ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے سال رہے ہو؟ وہ جواب دیں گے ایک دن یا دن کا ایک حصہ رہے ہوں گے ، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے ( المونون آیات 112 ۔ 113 ) ۔ دوسری جگہ فرمایا جاتا ہے وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْ فَکُوْنَ ہ وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَابِ اللہِ اِلٰی یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ اور جس روز قیامت قائم ہو جائے گی تو مجرم لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ( موت کی حالت میں ) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں پڑے رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ دنیا میں بھی دھوکے کھاتے رہتے تھے ۔ اور جن لوگوں کو علم اور ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ کتاب اللہ کی رو سے تو تم یوم البعث تک پڑے رہے ہو اور یہ وہی یوم البعث ہے ، مگر تم جانتے نہ تھے ( الروم ۔ آیات 55 ۔ 56 ) ۔ ان مختلف تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی اور برزخ کی زندگی ، دونوں ہی کو وہ بہت قلیل سمجھیں گے ۔ دنیا کی زندگی کے متعلق وہ اس لیے یہ باتیں کریں گے کہ اپنی امیدوں کے بالکل خلاف جب انہیں آخرت کی ابدی زندگی میں آنکھیں کھولنی پڑیں گی ، اور جب وہ دیکھیں گے کہ یہاں کے لیے وہ کچھ بھی تیاری کر کے نہیں آئے ہیں ، تو انتہا درجہ کی حسرت کے ساتھ وہ اپنی دنیوی زندگی کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے اور کف افسوس ملیں گے کہ چار دن کے لطف و مسرت اور فائدہ و لذت کی خاطر ہم نے ہمیشہ کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ۔ موت کے بعد سے قیامت تک کا وقت انہیں اس لیے تھوڑا نظر آئے گا کہ زندگی بعد موت کو وہ دنیا میں غیر ممکن سمجھتے تھے اور قرآن کے بتائے ہوئے عالم آخرت کا جغرافیہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ ان کے ذہن میں اترا ہی نہ تھا ۔ یہ تصورات لیے ہوئے دنیا میں احساس و شعور کی آخری ساعت انہوں نے ختم کی تھی ۔ اب جو اچانک وہ آنکھیں ملتے ہوئے دوسری زندگی میں بیدار ہوں گے اور دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو ایک بگل یا نرسنگھے کی آواز پر مارچ کرتے پائیں گے تو وہ شدید گھبراہٹ کے ساتھ اندازہ لگائیں گے کہ فلاں ہسپتال میں بیہوش ہونے یا فلاں جہاز میں ڈوبنے یا فلاں مقام پر حادثہ سے دوچار ہونے کے بعد سے اس وقت تک آخر کتنا وقت لگا ہو گا ۔ ان کی کھوپڑی میں اس وقت یہ بات سمائے گی ہی نہیں کہ دنیا میں وہ جاں بحق ہو چکے تھے اور اب یہ وہی دوسری زندگی ہے جسے پیہم بالکل لغو بات کہہ کر ٹھٹھوں میں اڑا دیا کرتے تھے ۔ اس لیے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے گا کہ شاید میں چند گھنٹے یا چند دن بے ہوش پڑا رہا ہوں ، اور اب شاید ایسے وقت مجھے ہوش آیا ہے یا ایسی جگہ اتفاق سے پہنچ گیا ہوں جہاں کسی بڑے حادثہ کی وجہ سے لوگ ایک طرف کو بھاگے جا رہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ آج کل کے مرنے والے صاحب لوگ صور کی آواز کو کچھ دیر تک ہوائی حملے کا سائرن ہی سمجھتے رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

44: قیامت کا دن ان کے لیے اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ دنیا کی ساری زندگی کو ایسا سمجھیں گے جیسے وہ دس دن کی بات ہو۔