Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ لوگوں نے پوچھا کہ قیامت کے دن یہ پہاڑ باقی رہیں گے یا نہیں؟ ان کا سوال نقل کرکے جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہٹ جائیں گے ، چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور آخر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔ زمین صاف چٹیل ہموار میدان کی صورت میں ہوجائے کی ۔ قاع کے معنی ہموار صاف میدان ہے ۔ صفصفا اسی کی تاکید ہے اور صفصف کے معنی بغیر روئیدگی کی زمین کے بھی ہیں لیکن پہلے معنی زیادہ اچھے ہیں اور دوسرے مرادی اور لازمی ہیں ۔ نہ اس میں کوئی وادی رہے گی نہ ٹیلہ نہ اونچان رہے گی نہ نچائی ۔ ان دہشت ناک امور کے ساتھ ہی ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آوازپر ساری مخلوق لگ جائے گی ، دوڑتی ہوئی حسب فرمان ایک طرف چلی جارہی ہو گی نہ ادھر ادھر ہوگی نہ ٹیڑھی بانکی چلے گی کاش کہ یہی روش دنیا میں رکھتے اور اللہ کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہتے ۔ لیکن آج کی یہ روش بالکل بےسود ہے ۔ اس دن تو خوب دیکھتے سنتے بن جائیں گے اور آواز کے ساتھ فرماں برداری کریں گے ۔ اندھیری جگہ حشر ہو گا آسمان لپیٹ لیا جائے گا ستارے جھڑپڑیں گے سورج چاند مٹ جائے گا آواز دینے والے کی آوازپر سب چل کھڑے ہوں گے ۔ اس ایک میدان میں ساری مخلوق جمع ہو گی مگر اس غضب کا سناٹا ہو گا کہ آداب الٰہی کی وجہ سے ایک آواز نہ اٹھے گی ۔ بالکل سکون وسکوت ہوگا صرف پیروں کی چاپ ہو گی اور کانا پھوسی ۔ چل کر جا رہے ہوں گے تو پیروں کی چاپ تو لامحالہ ہونی ہی ہے اور باجازت الٰہی کبھی کبھی کسی کسی حال میں بولیں گے بھی ۔ لیکن چلنا بھی باادب اور بولنا بھی باادب ۔ جیسے ارشاد ہے ، ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ ١٠٥؁ ) 11-ھود:105 ) ۔ یعنی جس دن وہ میرے سامنے حاضر ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ بغیرمیری اجازت کے زبان کھول لے ۔ بعض نیک ہوں گے اور بعض بد ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٤] یعنی نفخہ صور اول سے اگر انسان اور دوسری جاندار چیزیں مر بھی جائیں گی تو پہاڑوں جیسی سخت چیز پر اس نفخہ کا کیا اثر ہوگا ؟ یہ سوال دراصل ایسے جاہلوں کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے۔ جنہوں نے اللہ کی اس پیدا کردہ کائنات اور اس کے نظام میں کبھی غور ہی نہیں کیا، آج کے انسان کے لئے یہ ایک بالکل مہمل سوال ہے۔ اگر سیاروں کی گردش اور ان کی کشش ثقل میں معمولی سی بھی گڑ بڑ ہوجائے تو پہاڑوں کا کیا ذکر ہے۔ سارے ستارے ایک دوسرے سے ٹکڑا کر پاش پاش ہوسکتے ہیں۔ قیامت کو یہی کیفیت ہوگی اور اس وقت پہاڑوں کی دھول اڑ رہی ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ ۔۔ : قرطبی نے فرمایا کہ قرآن مجید میں جہاں بھی کسی سوال کا ذکر آیا ہے اس کے لیے جواب میں ” قُلْ “ کا لفظ آیا ہے۔ صرف اس مقام پر فاء کے ساتھ ” فَقُلْ “ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے تمام مقامات پر ان سوالات کا جواب ہے جو ہوچکے تھے، یہاں فاء اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ ہونے والے سوال کا جواب دیا کہ ” فَإِنْ سَأَلُوْکَ فَقُلْ ۔۔ “ یعنی اگر وہ تجھ سے پوچھیں تو کہہ دینا۔۔ یعنی فاء دلیل ہے کہ اس سے پہلے شرط محذوف ہے۔- فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا ۔۔ : صور پھونکنے کے ساتھ قیامت قائم ہونے اور تمام لوگوں کے جمع کرنے کے ذکر پر منکرین قیامت کی طرف سے سوال آنے والا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب پہلے ہی دے دیا کہ ان کے خیال میں اتنے بلند و بالا اور محکم پہاڑوں کو ان کی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکتا، اس لیے وہ پوچھیں گے کہ ان پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ پوچھیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ ” يَنْسِفُهَا “ کی تاکید ” نَسْفًا “ کے ساتھ فرمائی، تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ” یَنْسِفُ “ اپنے اصل معنی میں نہیں ہے بلکہ مجاز ہے۔ یعنی فی الحقیقت اللہ تعالیٰ انھیں ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔ پہاڑوں پر گزرنے والی حالتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نبا (٢٠) کی تفسیر۔ ” قَاعًا “ میدان۔ ” صَفْصَفًا “ ہموار۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُہَا رَبِّيْ نَسْفًا۝ ١٠٥ۙ- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- نسف - نَسَفَتِ الرِّيحُ الشَّيْءَ : اقتلعتْه وأزالَتْهُ. يقال نَسَفْتَهُ وانْتَسَفْتَهُ. قال تعالی: يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً- [ طه 105] ونَسَفَ البعیرُ الأرضَ بمُقَدَّمِ رِجْلِهِ : إذا رَمَى بترابه . يقال : ناقة نَسُوفٌ. قال تعالی: ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه 97] أي : نطرحه فيه طَرْحَ النُّسَافَة، وهي ما تثور من غبارِ الأَرْض . وتسمّى الرُّغْوة نُسَافَةً تشبيهاً بذلک، وإناء نَسْفَانٌ: امْتَلأ فعَلَاهُ نُسَافَةٌ ، وانْتُسِفَ لَوْنُهُ. أي : تغيَّر عمّا کان عليه نسافُه، كما يقال : اغبرَّ وجهُه . والنَّسْفَة :- حجارة يُنْسَفُ بها الوسخُ عن القدم، و کلام نَسِيفٌ. أي : متغيِّر ضَئِيلٌ.- ( ن س ف )- نسفت الریح الشئی کے معنی ہوا کے کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے ہیں ۔ اور نسفتہ وانتسقتہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَنْسِفُها رَبِّي نَسْفاً [ طه 105] خدا ان کو اڑا کر بکھیر دے گا ۔ کے معنی اونٹ کا اپنے اگلے پاؤں کے ساتھ مٹی کو پھینکنا کے ہے اور گھاس کو جڑ سے اکھاڑ کر چرنے والی اونٹنی کو ناقۃ نسوف کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفاً [ طه 97] پھر اس کی راخ کو اڑا کر دریامیں بکھر دیں گے ۔ یعنی ہم نسافۃ کی طرح اسے پھینک دیں گے اور نسا فۃ کے معنی اڑتی ہوئی غبار کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر جھاگ کو بھی نسافہ کہتے ہیں اور اناء نسفان بھرے ہوئے برتن کو کہتے ہیں جس پر جھاگ غالب ہو ۔ انتسف لونہ غبار آلود ہونے کی وجہ سے کسی شخص کی رنگت کا متغیر ہوجانا جیسا کہ اغبر وجھہ کا محاورہ ہے ۔ النسفۃ سنگ پائے خار کلام نسیف سخن پنہاں جو متغیر اور بود اہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٥) قبیلہ بنو ثقیف کے لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہاڑوں کے متعلق دریافت کیا تھا کہ قیامت کے دن کی کیا حالت ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے جواب میں کہہ دیجیے کہ میرا پروردگار ان کو اکھاڑ کر ریزہ ریزہ کرکے اڑا دے گا۔- شان نزول : ( آیت) ” ویسئلونک عن الجبال “۔ (الخ)- ابن مندر (رح) نے ابن جریح (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا پروردگار پہاڑوں کی قیامت کے دن کیا حالت کرے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں (الخ)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ ) ” - واقعات قیامت کے سلسلے میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بتاتے ہیں کہ روز محشر روئے زمین ایک صاف اور ہموار میدان کا نقشہ پیش کرے گی تو یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنے بڑے بڑے پہاڑی سلسلوں کا کیا بنے گا ؟ وہ کہاں چلے جائیں گے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :82 یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سنائی جا رہی ہوگی اس وقت کسی نے مذاق اڑانے کے لیے یہ سوال اٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے چلے جا رہے ہوں گے ۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی ۔ مکہ جس مقام پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں ۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی ۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرے ، اور ان کو دھول کی طرح اڑا کر ساری زمین ایک ایسی ہموار میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی ، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا ، اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بل اور کوئی معمولی سی سلوٹ تک نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani