Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ اور وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔ 12۔ 2 طُوَی وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ : غالباً اسی سے یہودیوں نے یہ مسئلہ بنا لیا ہے کہ جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے فرمایا : ( خَالِفُوا الْیَھُوْدَ فَإِنَّھُمْ لَا یُصَلُّوْنَ فِيْ نِعَالِھِمْ وَلَا خِفَافِھِمْ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب الصلاۃ في النعل : ٦٥٢، و صححہ الألباني ] ” یہودیوں کے خلاف عمل کرو، کیونکہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ “ اگر دوسری حدیث نہ ہوتی تو اس حدیث کی رو سے جوتوں سمیت نماز پڑھنا فرض تھا۔ وہ حدیث یہ ہے، عبداللہ عمرو (رض) فرماتے ہیں : ( رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّيْ حَافِیًا وَمُنْتَعِلًا ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب الصلاۃ في النعل : ٦٥٣ ] ” میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ننگے پاؤں اور جوتا پہن کر (دونوں طرح) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ “ - اِنَّكَ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى : ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” طویٰ اس وادی کا نام ہے۔ “ [ طبري بسند حسن ] یہ الفاظ دلیل ہیں کہ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کے جوتے ناپاک تھے، اگر وہ پاک ہوتے تو اس وادی کو پاک بتا کر جوتے اتارنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں : ( بَیْنَمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّيْ بِأَصْحَاَبِہِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَھُمَا عَنْ یَسَارِہِ ، فَلَمَّا رَأَی ذٰلِکَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَھُمْ ، فَلَمَّا قَضَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّیْ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاتَہُ قَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی إِلْقَاءِکُمْ نِعَالَکُمْ ؟ قَالُوْا رَأَیْنَاکَ أَلْقَیْتَ نَعْلَیْکَ فَأَلْقَیْنَا نِعَالَنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَتَانِيْ فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّ فِیْھِمَا قَذَرًا، أَوْ قَالَ أَذًی، وَقَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلْیَنْطُرْ فإِنْ رَأَي فِيْ نَعْلَیْہِ قَذَرًا أَوْ أَذًی فَلْیَمْسَحْہُ وَلْیُصَلِّ فِیْھِمَا ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب الصلاۃ في النعل : ٦٥٠، و صححہ الألباني ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے، دوران نماز آپ نے اپنے جوتے اتارے اور اپنی بائیں طرف رکھ دیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیے۔ جب آپ نے اپنی نماز پوری کی تو فرمایا : ” تمہارے جوتے اتارنے کا باعث کیا ہوا ؟ “ انھوں نے کہا : ” ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے جوتے اتارے تو ہم نے بھی اتار دیے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے پاس جبریل آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ ان میں گندگی لگی ہے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی مسجد کو آئے تو دیکھ لے، پھر اگر اپنے جوتوں میں کوئی گندگی دیکھے تو اسے مل کر صاف کرلے اور انھیں پہن کر نماز پڑھ لے۔ “ - یہ حدیث دلیل ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جوتے اتارنے کے حکم کی وجہ وادی کا پاک ہونا اور جوتوں کا ناپاک ہونا تھا۔ یہ وجہ نہ تھی کہ کسی مقدس جگہ میں جوتے پہن کر جانا منع ہے، کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مسجد پاک ترین جگہ ہے اور اسے پاک رکھنے کا حکم بھی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٢٥) اور سورة حج (٢٦) اور عائشہ (رض) سے روایت ہے : ( أَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّوْرِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَیَّبَ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب اتخاذ المساجد فی الدور : ٤٥٥۔ ترمذی : ٥٩٤۔ ابن ماجہ : ٧٥٨، صحیح ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ انھیں صاف ستھرا رکھا جائے اور خوشبو دار بنایا جائے۔ “ جوتے پاک ہوں تو مسجد میں جاسکتے ہیں تو کسی اور جگہ کیوں نہیں جاسکتے ؟ بعض روایات میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جوتے مردار گدھے کے چمڑے کے تھے، اس لیے انھیں اتارنے کا حکم ہوا، مگر یہ روایات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں۔ اس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے جوتوں میں کیا چیز تھی جو وادی مقدس کے لائق نہ تھی، کیونکہ پاک جوتے جب مسجد نبوی میں پہنے جاسکتے ہیں تو تین مسجدوں سے زیادہ مقدس جگہ کون سی ہوگی ؟- 3 اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ موسیٰ (علیہ السلام) غیب جانتے تھے اور نہ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ورنہ جبریل (علیہ السلام) کو جوتوں میں نجاست کی اطلاع کے لیے دوران نماز آپ کے پاس آنے کی ضرورت نہ تھی اور اگر موسیٰ (علیہ السلام) غیب جانتے ہوتے تو نہ راستہ بھولتے اور نہ آگ کو عام آگ سمجھتے، نہ اللہ تعالیٰ کو وادی مقدس کا بتا کر انھیں جوتے اتارنے کا حکم دینا پڑتا اور نہ یہ کہہ کر تعارف کروانا پڑتا کہ میں تیرا رب تجھ سے مخاطب ہوں اور نہ اس کے بعد جبریل (علیہ السلام) کو بار بار آ کر وحی پہنچانا پڑتی۔ مگر افسوس کہ ولیوں اور نبیوں کو غیب دان کہنے والے ذرہ برابر نہیں سوچتے۔- 3 اوپر کی حدیث سے معلوم ہوا کہ جوتے پاک کرنے کے لیے کپڑے کو پاک کرنے کی طرح دھونا ضروری نہیں، بلکہ صرف مٹی سے مل کر صاف کردینا کافی ہے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث ہر اس بہانے کا جواب ہے جو جوتوں سمیت نماز سے روکنے والے کرتے ہیں، مثلاً یہ کہ یہ سفر کے لیے ہے، یا یہ کسی میدان وغیرہ میں نماز کے لیے ہے مسجد کے لیے نہیں، یا یہ کہ جوتا نیا ہو تو جائز ہے، یا یہ کہ دھویا ہوا ہو تو ٹھیک ہے، یا یہ کہ جوتا پہننا اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے ادب کے خلاف ہے وغیرہ، ان تمام باتوں کا جواب اسی حدیث پر غور کرنے سے مل جاتا ہے۔- 3 جیسا کہ اوپر گزرا جوتوں سمیت نماز پڑھنا فرض نہیں مستحب ہے۔ اس لیے اگر لا علم لوگوں کے فتنے میں پڑنے کا خوف ہو تو جوتوں سمیت نماز پڑھنے سے پہلے انھیں اچھی طرح سمجھانا لازم ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ متنفر ہو کر نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى، اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ، بحر محیط، روح المعانی وغیرہ میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ آواز اس طرح سنی کہ ہر جانب سے یکساں آرہی تھی اس کی کوئی جہت متعین نہیں تھی اور سننا بھی ایک عجیب انداز سے ہوا کہ صرف کانوں سے نہیں بلکہ تمام اعضاء بدن سے سنا گیا جو ایک معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آواز کا حاصل یہ تھا کہ جس چیز کو آپ آگ سمجھ رہے ہیں وہ آگ نہیں اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی ہے اور اس میں فرمایا کہ میں ہی آپ کا رب ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس آواز کے متعلق یہ یقین کس طرح ہوا کہ حق تعالیٰ ہی کی آواز ہے ؟ اس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کے قلب کو اس پر مطمئن کردیا کہ وہ یقین کرلیں کہ یہ آواز حق تعالیٰ ہی کی ہے دوسرے اس آگ کے حیرت انگیز حالات کہ درخت کو جلانے کے بجائے اس کی تازگی اور حسن بڑھا رہی ہے اور آواز بھی عام لوگوں گی آواز کی طرح نہیں کہ ایک سمت سے آئے بلکہ ہر طرف سے یہ آواز یکساں سنی گئ، دوسرے صرف کانوں نے نہیں بلکہ ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء جو سننے کیلئے وضع نہیں ہوئے سب اس کی سماعت میں شریک تھے اس سے بھی سمجھا گیا کہ حق تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز ہے۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ کا کلام لفظی بلا واسطہ سنا :- روح المعانی میں بحوالہ مسند احمد وہب کی روایت ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جب نداء یا موسیٰ کے لفظ سے دی گئی تو انہوں نے لبیک کہہ کر جواب دیا اور عرض کیا کہ میں آواز سن رہا ہوں مگر آواز دینے والے کی جگہ معلوم نہیں، آپ کہاں ہیں تو جواب آیا کہ میں تیرے اوپر، سامنے، پیچھے اور تیرے ساتھ ہوں۔ پھر عرض کیا کہ میں یہ کلام خود آپ کا سن رہا ہوں یا آپ کے بھیجے ہوئے کسی فرشتہ کا ؟ تو جواب آیا کہ میں خود ہی آپ سے کلام کر رہا ہوں۔ اس پر صاحب روح فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کلام لفظی بلا واسطہ فرشتہ کے خود سنا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت میں سے ایک جماعت کا مسلک یہی ہے کہ کلام لفظی بھی قدیم ہونے کے باوجود سنا جاسکتا ہے اس پر جو شبہ حدوث کا کیا جاتا ہے اس کا جواب ان کی طرف سے یہ ہے کہ کلام لفظی اس وقت حادث ہوتا ہے جبکہ وہ مادی زبان سے ادا کیا جائے جس کے لئے جسم، سمت، جہت شرط ہے، نیز سننے کیلئے صرف کان مخصوص ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس طرح سنا کہ نہ آواز کی کوئی جہت و سمت تھی اور نہ سننے کے لئے صرف کان مخصوص تھے سارے اعضاء سن رہے تھے، ظاہر ہے یہ صورت احتمال حدوث سے پاک ہے۔ واللہ اعلم - مقام ادب میں جوتے اتار دینا ادب کا مقتضا ہے :- فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ، جوتے اتارنے کا حکم یا تو اس لئے دیا گیا کہ مقام ادب ہے اور جوتا اتار کر ننگے پاؤں ہوجانا مقتضائے ادب ہے اور یا اس لئے کہ جوتے مردار کی کھال کے بنے ہوئے تھے جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ حضرت علی اور حسن بصری اور ابن جریج سے وجہ اول ہی منقول ہے اور جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتلائی تاکہ آپ کے قدم اس مبارک وادی کی مٹی سے لگ کر اس کی برکت حاصل کریں اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم خشوع اور تواضع کی صورت بنانے کے لئے ہوا جیسا کہ سلف صالحین طواف بیت اللہ کے وقت ایسا ہی کرتے تھے۔- ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشیر بن خصاصیہ کو قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلتے دیکھا تو فرمایا اذا کنت فی مثل ھذا المکان فاخلع نعلیک یعنی جب تم اس جیسے مکان سے گزرو (جس کا احترام مقصود ہے) تو اپنے جوتے اتار لو۔ - جوتے اگر پاک ہوں تو ان میں نماز درست ہوجانے پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے پاک جوتے پہن کر نماز پڑھنا صحیح روایات سے ثابت بھی ہے مگر عام عادت و سنت یہی معلوم ہوتی ہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھی جاتی تھی کہ وہ اقرب الی التواضع ہے۔ (قرطبی)- اِنَّكَ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى، حق تعالیٰ نے زمین کے خاص خاص حصوں کو اپنی حکمت سے خاص امتیاز اور شرف بخشا ہے جیسے بیت اللہ مسجد اقصیٰ ، مسجد نبوی اسی طرح وادی طویٰ بھی انہی مقامات مقدسہ میں ہے جو کوہ طور کے دامن میں ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝ ٠ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝ ١٢ۭ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خلع - الخَلْعُ : خلع الإنسان ثوبه، والفرس جلّه وعذاره، قال تعالی: فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ- [ طه 12] ، قيل : هو علی الظاهر، وأمره بخلع ذلک عن رجله، لکونه من جلد حمار ميّت «2» ، وقال بعض الصوفية : هذا مثل وهو أمر بالإقامة والتمکّن، کقولک لمن رمت أن يتمكّن : انزع ثوبک وخفّك ونحو ذلك، وإذا قيل : خَلَعَ فلان علی فلان، فمعناه : أعطاه ثوبا، واستفید معنی العطاء من هذه اللفظة بأن وصل به علی فلان، لا بمجرّد الخلع .- ( خ ل ع ) الخلع - اس کے معنی اتار دینے کے ہیں اور یہ انسان کا اپنے کپڑے وغیرہ اور گھوڑے کا جھول اور پوری وغیرہ اتارنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ [ طه 12] تو اپنی جوتیاں اتاردو ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں لفظی معنی مراد ہیں اور انہیں جوتا اتارنے کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ مردار گدھے کے چمڑے سے بنا ہوا تھا بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ یہ دراصل تمثیل ہے کہ یہاں اطمینان سے اقامت پذیر ہوجاؤ جیسا ک جب کسی کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہاں جم کر بیٹھ جاؤ تو اس کے لئے انزع ثوبک او خفک وغیرہ محاورات استعمال کئے جاتے ہیں کبھی اس کا صلہ علی ٰ لاکر اس سے بخشش کے معنی بھی لئے جاتے ہیں ۔ جیسے خلع فلان علی فلان فلاں نے اسے خلعت دی یاد رہے کہ علی ٰ ( صلہ ) کی وجہ سے عطا کے معنی مفہوم ہوتے ہیں ور نہ اس کے بغیر یہ معنی صحیح نہیں ہوتے ۔- نعل - النَّعْلُ معروفةٌ. قال تعالی: فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ [ طه 12] وبه شُبِّهَ نَعْلُ الفَرَس، ونَعْلُ السَّيْف، وفَرَسٌ مُنْعَلٌ: في أسفَلِ رُسْغِهِ بَيَاضٌ عَلَى شَعَرِهِ ، ورجل نَاعِلٌ ومُنْعَلٌ ، ويُعَبَّرُ به عن الغَنِيِّ ، كما يُعَبَّرُ بِالحَافِي عَنِ الفَقِيرِ.- ( ن ع ل ) النعل - کے معنی جوتا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ [ طه 12] طوی تو اپنا جوتا ۔۔۔۔۔۔ اتار دو تم یہاں پاک میدان یعنی طوی میں ہو ۔ اور تشبیہ کے طور پر گھوڑے کے سم کی حفاظت کے لئے جو چمڑا یا لوہا لگایا جاتا ہے اسے نعل السیف کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح نیام شمشیر کے بائیں جانب جو لوہا لگایا جاتا ہے اسے نعل السیف کہا جاتا ہے ۔ فرس منعل وہ گھوڑا جس کے رسع کے نیچے کے بالوں پر سفید نشان ہو ۔ اور پاپوش پوش کو ناعل ومنعل کہا جاتا اور کبھی اس سے مالداری آدمی بھی مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ الحافی سے مراد فقیر ہوتا ہے ۔- وادي - قال تعالی: إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] أصل الوَادِي : الموضع الذي يسيل فيه الماء، ومنه سُمِّيَ المَفْرَجُ بين الجبلین وَادِياً ، وجمعه : أَوْدِيَةٌ ، نحو : ناد وأندية، وناج وأنجية، ويستعار الوادِي للطّريقة کالمذهب والأسلوب، فيقال : فلان في وَادٍ غير وَادِيكَ. قال تعالی:- أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ [ الشعراء 225] فإنه يعني أسالیب الکلام من المدح والهجاء، والجدل والغزل «2» ، وغیر ذلک من الأنواع . قال الشاعر : 460-- إذا ما قطعنا وَادِياً من حدیثنا ... إلى غيره زدنا الأحادیث وادیاً- «3» وقال عليه الصلاة والسلام : «لو کان لابن آدم وَادِيَانِ من ذهب لابتغی إليهما ثالثا» «4» ، وقال تعالی: فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] أي : بقَدْرِ مياهها . - ( و د ی ) الوادی - ۔ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو اسی سے دو پہاڑوں کے درمیان کشادہ زمین کو وادی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ اس کی جمع اودیتہ اتی ہے جیسے ناد کی جمع اندیتہ اور ناج کی جمع انجیتہ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها[ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے انداز کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ اور حدیث میں ہے ۔ لوکان لابن ادم وادیان من ذھب لابتغی ثالثا کہ اگر ابن ادم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مند ہوگا ۔ - طوی - طَوَيْتُ الشیءَ طَيّاً ، وذلک كَطَيِّ الدَّرَجِ وعلی ذلک قوله : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ- [ الأنبیاء 104] ، ومنه : طَوَيْتُ الفلاةَ ، ويعبّر بِالطَّيِّ عن مُضِيِّ العمر . يقال : طَوَى اللهُ عُمرَهُ ، قال الشاعر :- 304-- طَوَتْكَ خطوبُ دهرک بعد نشر«1» وقوله تعالی: وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] ، يصحّ أن يكون من الأوّل، وأن يكون من الثاني، والمعنی: مهلكات . وقوله :إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه 12] ، قيل : هو اسم الوادي الذي حصل فيه «2» ، وقیل :- إن ذلک جعل إشارة إلى حالة حصلت له علی طریق الاجتباء، فكأنّه طَوَى عليه مسافةً لو احتاج أن ينالها في الاجتهاد لبعد عليه، وقوله : إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً- [ طه 12] ، قيل : هو اسم أرض، فمنهم من يصرفه، ومنهم من لا يصرفه، وقیل : هو مصدر طَوَيْتُ ، فيصرف ويفتح أوّله ويكسر «3» ، نحو : ثنی وثنی، ومعناه : نادیته مرّتين «4» ، والله أعلم .- ( ط و ی )- طویت الشئی طیا کے معنی ہی کسی چیز کو اس طرح لپیٹ لینا ۔ جیسا کہ کپڑے کو اس کی درز پر لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ [ الأنبیاء 104] جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ لیں گے جسطرح لکھے ہوئے کاغذوں کا طو مار لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اسی سے طویت الفلان ( جنگل کو قطع کرنا ) کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی مسافت کو قطع کیا گویا راستوں کو لپیٹ لیا طوی اللہ عمرہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر ختم کردی گویا اس کی مدت عمر کو لپیٹ دیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 295 ) طوتک خطوب دھرک بعد نشر حوادثات زمانہ نے پھیلا نے کے بعد تمہیں لپیٹ دیا ( یعنی تمہاری عمر ختم کردی اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوں گے ۔ میں مطویات کا لفظ یا تو طویت الشئی کے محاورہ سے ماخوذ ہوگا جس کے معنی لپیٹ دینا کے ہیں اور یا طوی اللہ عمر سے ماخوذ ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز آسمان کو فنا کردیا جائے گا ۔ اور آیت ؛إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ طوی اسی وادی المقدس کا نام ہے جہا حضرت موسٰی پہنچ چکے تھے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ طوی اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہیں اجتباء کے طور پر نوازا گیا تھا اگر وہ اس مرتبہ کو مساعی اور اجتہاد کی راہ سے حاصل کرنا چاہتے تو اس قدر طویل مسافت کو طے نہیں کرسکتے تھے وادی نبوت تک پہنچنے کی تما م مسافتیں ان کے لئے لپیٹ دی گئیں پھر اگر اسے اس وادی کا نام قرار دیا جائے تو اسے غیر منصرف بھی پڑھ سکتے ہیں اور منصرف بھی اور اگر اسے طویت کا مصدر ماناجائے تو منصرف ہی پڑھا جائیگا اور ثنی وثنی کی طرح فا کلمہ ( ط ) پر دونوں حرکتیں جائز ہوں گی اور اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے موسٰی (علیہ السلام) ہ کو دو مرتبہ پکارا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

وادی طویٰ میں موسیٰ کو جوتے اتارنے کا حکم کیوں دیا گیا ؟- قول باری ہے (فاخلع نعلیک اپنی جوتیاں اتار دو ) حسن اور ابن جریج کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جوتے اتار دینے کا حکم اس لئے دیا گیا تاکہ وہ اپنے قذموں کے ذریعے وادی مقدس کی برکت سے براہ راست فیض یاب ہوجائیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس پر بعد کی آیت دلالت کرتی ہے جو یہ ہے (انک بالوادی المقدس طویٰ تو وادی مقدس طویٰ میں ہے) عبارت کی ترتیب اس طرح ہے ” اخلع نعلیک لانک بالوادی المقدس (اپنی جوتیاں اتار دو اس لئے کہ تم وادی مقدس میں ہو) کعب اور عکرمہ کا قول ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جوتیاں ایک مردہ گدھے کے چمڑے کی بنی ہوئی تھیں اس لئے انہیں اتار دینے کا حکم دیا گیا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں جوتوں کے ساتھ نماز پڑھنے اور طواف کرنے کی کراہت پر کوئی دلالت نہیں ہے اس لئے کہ اگر پہلی تاویل اختیار کی جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ وادی مقدس کی برکت سے فیض یاب ہونے کے لئے قدموں کو براہ راست اس سے ملانے کا حکم دیا گیا جس طرح ججز اسود سے برکت حاصل کرنے کی غرض سے اسے ہاتھ لگانے اور بوسہ لینے کا حکم ہے۔ اس صورت میں جو تایں اتارنے کا حکم صرف اسی وادی تک اور اس حالت تک محدود رہے گا۔ اگر دوسری تاویل اختیار کی جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ مردہ گدھے کا چمڑا پہننا ممنوع تھا خواہ وہ کمایا ہوا کیوں نہ ہوتا۔ اگر یہ بات ہے تو یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ایما اھاب دبع فقد طھر جس کچے چمڑے کو کما لیا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔- جوتوں سمیت نماز پڑھانا جائز ہے - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ جوتوں سمیت نماز شروع کی اور پھر نماز کے دوران انہیں اتار دیا یہ دیکھ کر لوگوں نے بھی اپنے اپنے جوتے اتار دیئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتار دیئے۔ “ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے جو اپنے جوتے اتار دیئے تھے اس لئے ہم نے بھی اتار دیئے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔” میں نے اپنے جوتے اس لئے اتار دیئے تھے کہ جبرئیل نے آ کر مجھے بتایا تھا کہ اس میں گندگی لگی ہوئی ہے۔ “ اس روای ت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ نے جوتوں سمیت نماز پڑھنے کو مکروہ نہیں سمجھا بلکہ جوتے اتار دینے والوں کے اس فعل پر انہیں ٹوکا اور ساتھ ہی یہ بتادیا کہ میں نے جوتے جو اتار دیئے تھے تو اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ جبرئیل نے مجھے بتایا تھا کہ اس میں گندگی لگی ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اس پر محمول ہے کہ گندگی کی مقدار قلیل تھی، اگر گندگی کی مقدار زیادہ ہوتی تو آپ نئے سرے سے نماز پڑھتے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ ) ” - یعنی جسے تم آگ سمجھ کر یہاں آئے ہو اس آگ کے پردے میں خود میں ہوں تمہارا رب تمہارا پروردگار

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :7 غالباً اسی واقعہ کی وجہ سے یہودیوں میں یہ شرعی مسئلہ بن گیا کہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا : خالفوا الیھود فانھم لا یصلّون فی فعالہم ولا خفافہم ، یہودیوں کے خلاف عمل کرو ۔ کیونکہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے ( ابو داؤد ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور جوتے ہی پہن کر نماز پڑھنی چاہیے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے ، اس لیے دونوں طرح عمل کرو ۔ ابو داؤد میں عمْرو بن عاص کی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ مسند احمد اور ابو داؤد میں ابو سعید خُدرِی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو جوتے کو پلٹ کر دیکھ لے ۔ اگر کوئی گندگی لگی ہو تو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہی جوتوں کو پہنے ہوئے نماز پڑھ لے ابوہریرہ کی روایت میں حضور کے یہ الفاظ ہیں اگر تم میں سے کسی نے اپنے جوتے سے گندگی کو پامال کیا ہو تو مٹی اس کو پاک کر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اور حضرت ام سَلَمہ کی روایت میں ہے : یطھرہ مابعدہ ، یعنی ایک جگہ گندگی لگی ہوگی تو دوسری جگہ جاتے جاتے خود زمین ہی اس کو پاک کر دے گی ۔ ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام اوزاعی اور اسحاق بن راھَوَیہ وغیرہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ جوتا ہر حال میں زمین کی مٹی سے پاک ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک قول امام احمد اور امام شافعی کا بھی اس کی تائید میں ہے ۔ مگر امام شافعی کا مشہور قول اس کے خلاف ہے ۔ غالباً وہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کو ادب کے خلاف سمجھ کر منع کرتے ہیں ، اگرچہ سمجھا یہی گیا ہے کہ ان کے نزدیک جوتا مٹی پر رگڑنے سے پاک نہیں ہوتا ۔ ( اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسجد نبوی میں چٹائی تک کا فرش نہ تھا ، بلکہ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں ۔ لہٰذا ان احادیث سے استدلال کر کے اگر کوئی شخص آج کی مسجدوں کے فرش پر جوتے لے جانا چاہے تو یہ صحیح نہ ہو گا ۔ البتہ گھاس پر یا کھلے میدان میں جوتے پہنے پہنے نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو میدان میں نماز جنازہ پڑھتے وقت بھی جوتے اتارنے پر اصرار کرتے ہیں ، وہ در اصل احکام سے ناواقف ہیں ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :8 عام خیال یہ ہے کہ طویٰ اس وادی کا نام تھا ۔ مگر بعض مفسرین نے وادی مقدس طُویٰ کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ وہ وادی جو ایک ساعت کے لیے مقدس کر دی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ یقین کیسے آیا کہ یہ آواز اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آرہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دِل کو یہ اطمینان عطا فرمادیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ ہی سے ہم کلام ہیں، اور حالات بھی ایسے پیدا کردئیے گئے کہ انہیں یہ یقین آجائے۔ مثلا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو یہ عجیب منظر نظر آیا کہ وہ آگ ایک درخت کے اُوپر شعلے مار رہی ہے، مگر درخت کا کوئی پتہ جلتا نہیں ہے۔ انہوں نے انتظار کیا کہ شاید کوئی چنگاری اُڑ کر اِن کے پاس آجائے، مگر وہ بھی نہ آئی۔ پھر اِنہوں نے کچھ گھاس پھونس لے کر اُسے آگ کے قریب کیا، تاکہ اُس میں آگ لگ جائے تو وہ آگ پیچھے ہٹ گئی۔ اُس وقت یہ آواز سنائی دی اور آواز کسی ایک جہت سے نہیں، بلکہ چاروں طرف سے آتی محسوس ہو رہی تھی، اور موسیٰ علیہ السلام صرف کان سے نہیں، بلکہ تمام اعضا سے یہ آواز سن رہے تھے 8: کوہِ طور کے دامن میں جو وادی ہے اس کا نام ’’طُویٰ‘‘ ہے، اور یہ اُن مقامات میں سے ہے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے خصوصی تقدّس عطا فرمایا ہے۔ اور جوتے اتارنے کا حکم ایک تو اس وادی کے تقدس کی وجہ سے تھا اور دوسرے یہ موقع جب کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف مل رہا تھا، ادب اور عجز ونیاز کے اظہار کا موقع تھا، اس لئے بھی جوتے اتاردینا مناسب تھا۔