13۔ 1 یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔
[١٠] موسیٰ (علیہ السلام) کا اتفاقا طوی وادی میں پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت میں آگ بھڑک رہی ہے۔ پاس نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد۔ آگ جوں جوں بھڑکتی ہے درخت مزید سرسبز ہوجاتا ہے۔ اس عجیب نظارہ کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اس میں ایک آواز آئی کہ اے موسیٰ میں تمہارا پروردگار تم سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔ تم اس وقت طویٰ کے مقدس میدان میں پہنچ چکے ہو۔ لہذا اپنے جوتے اتار لو۔ اس آواز کی کیفیت یہ تھی کہ یہ معلوم ہی نہ ہوسکتا تھا کہ کس سمت سے آواز آرہی ہے۔ دائیں سے آرہی ہے یا بائیں سے آگے سے یا پیچھے سے، اوپر سے یا نیچے سے۔ لہذا موسیٰ (علیہ السلام) پس آواز کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش بن گئے۔ اس آواز نے پہلے جملہ میں اپنا تعارف کرایا۔ دوسرے جملے میں یہ بتلایا کہ تم جو راہ بھول چکے تھے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے اس وقت تم طویٰ کے صاف ستھرے میدان میں کھڑے ہو اور یہاں پہنچنے کے لئے ہی تم راہ بھولے تھے۔ تیسرے جملہ میں یہ ہدایت دی کہ اپنے جوتے اتار لو۔ ممکن ہے کہ آپ کے جوتوں کو راستہ میں کچھ گندگی اور آلائش لگ گئی ہو۔ ورنہ جوتے اگر نئے یا صاف ستھرے ہوں تو جوتوں سمیت مسجد تک جانا تو درکنار نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم ادب کا تقاضا یہی ہے کہ کسی مقدس مقام میں داخل ہوتے وقت اتار لئے جائیں۔
ۭوَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى : نبوت کے حصول میں کسی کی جد و جہد یا محنت کا کچھ دخل نہیں، یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ دیکھیے سورة حج (٧٥) قادیانی دجال نے اسے مجاہدہ و کسب سے حاصل ہوسکنے کا دعویٰ کیا، چناچہ اس کی زندگی ہی میں اس کے پیروکاروں میں سے تیرہ آدمیوں نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ دیکھیے قادیانیت از ابوالحسن علی ندوی۔
قرآن سننے کا ادب :- فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى، حضرت وہب بن منبہ سے منقول ہے کہ قرآن سننے کے ادب میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضاء کو فضول حرکت سے روکے کہ کسی دوسرے شغل میں کوئی عضو بھی نہ لگے اور نظر نیچی رکھے اور کلام سمجھنے کی طرف دھیان لگائے اور جو شخص اس ادب کے ساتھ کوئی کلام سنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے سمجھنے کی بھی توفیق دے دیتے ہیں۔ (قرطبی)
وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى ١٣- اختیارُ :- طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول .- الاختیار - ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے
(١٣) اور میں نے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجنے کے لیے تمہارا انتخاب کیا ہے لہذا جو تمہیں حکم دیا جائے اس پر عمل کرو،
آیت ١٣ (وَاَنَا اخْتَرْتُکَ ) ” - میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رسول کے طور پر پسند کرلیا ہے اور ایک بڑے مشن کے لیے آپ ( علیہ السلام) کا انتخاب کرلیا ہے۔