Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔ 14۔ 2 عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہوجائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِکْرِیْ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آجاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ : اللہ تعالیٰ نے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس تعلق سے آگاہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تھا کہ بلاشبہ میں تیرا رب ہوں جو تجھ سے مخاطب ہوں، یعنی تجھے پیدا کرنے والا، تیری پرورش کرنے والا اور تیری ہر ضرورت پوری کرنے والا میں ہی ہوں۔ پھر جوتے اتارنے کے حکم کے بعد وحی کو غور سے سننے کی تاکید فرمائی، کیونکہ چننے سے مقصود ہی وحی کے ذریعے سے رسالت کی ذمہ داریاں سونپنا تھا۔ اب ضمیر متکلم ” اَنَا “ کے بعد اپنا ذاتی نام بتایا، کیونکہ ملاقات میں پہلی چیز یہی ہے کہ ایک دوسرے کا نام معلوم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ میں تو اپنے کلیم کا نام جانتا ہی ہوں، میرا نام اللہ ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے باقی سب نام صفاتی ہیں جن میں اس کے ننانوے نام بھی شامل ہیں اور وہ بیشمار نام بھی جن سے اس نے ابھی تک کسی کو آگاہ نہیں کیا۔ لفظ ” اللہ “ عربی زبان میں اس ذات پاک کا نام ہے۔ جب ” اللہ “ کہہ دیا تو اس میں اس کے تمام نام بھی آگئے اور تمام صفات بھی۔ ” إِنَّ “ کے ساتھ تاکید موسیٰ (علیہ السلام) سے شک کا امکان دور کرنے کے لیے ہے، کیونکہ انوکھی بات سن کر جلدی یقین نہیں آتا۔- لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا :” اِنَّنِيْٓ“ کی پہلی خبر ” اَنَا اللّٰهُ “ تھی، ” لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا “ دوسری خبر ہے۔ یہ سب سے پہلی بات ہے جسے جاننا، اس پر یقین رکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر جن و انس پر واجب ہے۔ اسی بات کی تعلیم کے لیے تمام انبیاء مبعوث فرمائے گئے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٢٥) ” فَاعْبُدْنِيْ “ یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے جن و انس کو پیدا کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ) [ الذاریات : ٥٦ ] ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ “ یعنی جب میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو میری عبادت کر۔ عبادت میں ہر وہ عمل آجاتا ہے جو انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی درجے کی عاجزی اور تعظیم پر دلالت کرتا ہو، اس میں قول، فعل اور دل کا اخلاص سب شامل ہیں۔ - وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ : ” فَاعْبُدْنِيْ “ میں اگرچہ ہر قسم کی بدنی و مالی عبادت کا ذکر آگیا تھا، لیکن چونکہ نماز تمام عبادتوں کی جامع اور سب سے اہم عبادت ہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایمان کی سب سے پہلی شرط اور علامت ہے کہ جس سے مسلمان کی پہچان ہو کر اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے (دیکھیے توبہ : ٥، ١١) اس لیے اس کا خاص طور پر الگ ذکر بھی فرمایا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی میں نماز کا حکم ہے اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ” وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ “ فرمایا گیا۔ “ (موضح)- ” لِذِكْرِيْ :“ کی دو تفسیریں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ پہلی یہ کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، ایک نماز سے فارغ ہو تو اگلی کے انتظار میں مشغول رہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے : ( وَ رَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ )[ بخاری : ٦٨٠٦] اس طرح اس کا سارا وقت ہی نماز میں شمار ہوگا جو اللہ کی یاد کا سب سے اچھا طریقہ ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (٧٨) کی تفسیر۔ ہر وقت یاد رکھنے کا نتیجہ اللہ کی نافرمانی سے اجتناب ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ) [ العنکبوت : ٤٥ ] ” بیشک نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ “ دوسری تفسیر یہ کہ اگر بھول جائے تو یاد آنے پر نماز پڑھ لے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ نَسِيَ صَلَاۃً فَلْیُصَلِّ إِذَا ذَکَرَھَا لاَ کَفَّارَۃَ لَھَا إِلاَّ ذٰلِکَ (وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) [ بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب من نسي صلاۃ فلیصل إذا ذکر۔۔ : ٥٩٧، عن أنس ] ” جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے، اس کا کفارہ اس کے سوا کچھ نہیں۔ “ اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) ” اور نماز میری یاد کے وقت قائم کر۔ “ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ نَسِيَ صَلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْھَا فَکَفَّارَتُھَا اَنْ یُصَلِّیَھَا إِذَا ذَکَرَھَا ) [ مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔ : ٣١٥؍٦٨٤، عن أنس (رض) ]” جو شخص کوئی نماز بھول جائے، یا اس سے سویا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے یاد آئے پڑھ لے۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( ۡ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ ) [ الکہف : ٢٤ ] ” اور اپنے رب کو یاد کر جب تو بھول جائے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ ۙ وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ، اس کلام میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دین کے تمام اصول کی تعلیم دے دی گئی یعنی توحید، رسالت، آخرت، فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى میں رسالت کی طرف اشارہ ہے اور فاعْبُدْنِيْ کے معنی یہ ہیں کہ صرف میری عبادت کریں، میرے سوا کسی کی عبادت نہ کریں یہ مضمون توحید کا ہوگیا آگے اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ میں آخرت کا بیان ہے۔ فَاعْبُدْنِيْ کے حکم میں اگرچہ نماز کا حکم بھی داخل ہے لیکن اس کو جداگانہ اس لئے بیان فرما دیا کہ نماز تمام عبادات میں افضل و اعلیٰ بھی ہے اور حدیث کی تصریح کے مطابق دین کا عمود اور ایمان کا نور ہے اور ترک نماز کافروں کی علامت ہے۔- وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی روح ذکر اللہ ہے اور نماز اول سے آخر تک ذکر ہی ذکر ہے زبان سے بھی دل سے بھی اور دوسرے اعضاء سے بھی اس لئے نماز میں ذکر اللہ سے غفلت نہ ہونی چاہیے اور اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر کوئی شخص نیند میں مغلوب ہوگیا یا کسی کام میں لگ کر بھول گیا اور نماز کا وقت نکل گیا تو جب نیند سے بیدار ہو یا بھول پر تنبہ ہو اور نماز یاد آئے اسی وقت نماز کی قضاء پڑھ لے جیسا کہ بعض روایات حدیث میں آیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّنِيْٓ اَنَا اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ۝ ٠ۙ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ لِذِكْرِيْ۝ ١٤- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بھولی ہوئی نماز جب یاد آئے اسی وقت ادا کی جائے نہ کہ اگلے روز والی نماز کے وقت میں - قول باری ہے (واقیم الصلوۃ للذکری اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر) حسن اور مجاہد کا قول ہے تاکہ نماز کے اندر تو تسبیح و تعظیم کے ذریعے مجھے یاد کرے۔ “ ایک قول کے مطابق ” تاکہ میں تجھے تیری مدد و توصیف کے ساتھ یاد کروں۔ “ زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ صبح کی نماز کے لئے نہیں کھلی یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ آپ نے طلوع شمس کے بعد نماز اد ا کی اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اقم الصلوۃ لذکری) ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من نسی صلاۃ فلیصلھا اذا ذکرھا لاکفارۃ لھا الا ذلک۔ جس شخص کی کوئی نماز نسیان کی وجہ سے رہ جائے تو جب اسے یاد آئے نماز پڑھ لے اس پر اس کے سوا اس نماز کا اور کوئی کفارہ نہیں ہے) پھر اپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (اقم الصلوۃ لذکری) یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (اقم الصلوۃ للذکری) میں اس نماز کی ادائیگی مراد ہے جو کسی کی رہ گئی ہو۔ تاہم اس سے ان دوسرے معانی کی نفی لازم نہیں آتی جن پر دوسرے حضرات نے آیت کی تا دیں کو محمول کیا ہے اس لئے کہ ان معانی کا آپس میں کوئی منافات نہیں ہے گویا یوں ارشاد ہوا۔” نماز قائم کرو جب تمہیں بھولی ہوئی نماز یاد آ جائے تاکہ اس نماز میں تم مجھے تسبیح و تعظیم کے ذریعے یاد کرو تاکہ میں بھی تمہیں مدح و توصیف کے ساتھ …… یاد کروں۔ “ اس طرح تمام معانی آیت کی مراد قرار پائیں گے۔ روایت میں یاد آ جانے پر بھلوی ہوئی نماز کی قضا کے ایجاب کا جو ذکر ہے اس میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ تاہم اس بارے میں سلف میں سے بعض سے ایک شاذ قول بھی مروی ہے جس پر کسی کا عمل نہیں ہے۔ - شاذ قول - اسرائیل نے جابر سے انہوں نے ابوبکر بن موسیٰ سے اور انہوں نے حضرت سعد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب کوئی شخص کسی نماز کو ادا کرنا بھول جائے تو جس وقت اسے یاد ا ٓ جائے نماز ادا کرلے اور اگلے دن اس جیسی نماز پھر دوبارہ ادا کرے۔ “ الجریری نے ابو نفرہ سے اور انہوں نے حضرت سمرہ بن جندب سے روایت کی ہے کہ جب کسی شخص کی کوئی نماز ادا ہونے سے رہ جائے تو وہ اگلے دن اس نماز کو اس کے وقت کے اندر ادا کرے۔ ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : جس وقت تمہیں یاد آ جائے نماز ادا کرلو۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں قول شاذ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو حکم وارد ہوا ہے اس کے بھی خلاف ہیں۔ آپ نے فوت شدہ نماز کو یاد آنے پر پڑھ لینے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں اس نماز کے سوا کسی اور نماز کی ادائیگی کا حکم نہیں دی۔ فوت شدہ نماز کے ذک کے بعد اور اس ارشاد کے بعد کہ (من نسی صلوۃ فلیصلھا اذا اذکرھا) حضور اللہ علیہ وسلم کا آیت (واقیم الصلوۃ للذکری) کی تلاوت کرنا اس امر کا موجب ہے کہ آیت میں یاد آ جانے پر فوت شدہ کی قضا پڑھ لینا مراد ہے اور یہ چیز فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کی مقتضی ہے اس لئے کہ جب ایک شخص کو یاد آ جانے پر فوت شدہ نمازپڑھ لینے حکم دیا گیا ہے اور یہ یاد اسے کسی اور نماز کے وقت کے اندر آئی ہو تو لامحالہ ایسی حالت میں اسے اس وقت کی نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے جو اس امر کا موجب ہے کہ اگر وہ فوت شدہ نماز سے پہلے اس وقت کی نماز کی ادائیگی کرے گا تو یہ نماز فاسد ہوجائے گی اس لئے کہ نہی فساد صلوۃ کی مقتضی ہے حتیٰ کہ اس کے سوا کسی اور صورت کے لئے کوئی دلالت قائم ہوجائے۔- فوت شدہ نمازوں کو ادا کرنے پر فقہاء کا اختلاف رائے - اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے فوت شدہ نمازوں اور وقتی نماز کے درمیان ایک دن اور رات اور اس سے کم وقت کی نمازوں کی صورت میں ترتیب واجب ہے بشرطیکہ وقت کے اندر فوت شدہ نماز اور وقتی نماز دونوں پڑھ لینے کی گنجائش ہو۔ لیکن اگر فوت شدہ نماز میں ایک دن اور ایک رات کی نمازوں سے پڑھ جائیں تو پھر ترتیب واجب نہیں رہتی۔ ان کے نزدیک فوت شدہ نماز کے سلسلے میں نسیان ترتیب کو ساقط کردیتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ترتیب واجب ہے خواہ وہ فوت شدہ نماز کو بھول ہی کیوں نہ چکا ہو۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر فوت شدہ نمازوں کی تعداد زیادہ ہو تو وہ وقتی نماز سے ابتدا کرے گا اور اس نماز کی ادائیگی کے بعد جو نمازیں وہ بھول چکا تھا انہیں پڑھے گا۔ اگر فوت شدہ نمازوں کی تعداد پانچ ہو اور صبح کی نماز سے پہلے یہ نمازیں یاد آ گئی ہوں تو صبح کی نماز ادا کرنے سے پہلے وہ ان نمازوں کی ادائیگی کیر گا خواہ صبح کی نماز کا وقت فوت کیوں نہ ہوجائے۔ اگر اس نے صبح کی نماز ادا کرلی اور پھر اسے چند نمازوں کی یاد آئی تو وہ انہیں ادا کرے گا اور جب ان کی ادائیگی سے فارغ ہوجائے گا تو صبح کی نماز کا اعادہ کرے گا ۔ بشرطیکہ صبح کی نماز کا وقت باقی ہو۔ اگر صبح کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر اس صورت میں اعادہ نہیں کرے گا۔ سفیان ثوری نے بھی وجوب ترتیب کا قول کیا ہے تاہم فوت شدہ نمازوں کی تعداد کی کثرت اور قلت کے درمیان فرق کے متعلق ان سے کوئی قول مروی نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان سے ایک دفعہ اس شخص کے متعلق مسئلہ پوچھا گیا تھا جس نے عصر کی ایک رکعت پڑھ لی پھر اسے یاد آیا کہ اس نے ظہر کی نماز وضو کئے بغیر ادا کرلی تھی۔ سفیان ثوری نے جواب دیا کہ وہ عصر کی ایک رکعت کے ساتھ ایک اور رکعت پڑھ لے گا پھر سلام پھیر کر ظہر کی نماز پڑھے گا اور اس کے بعد عصر کی ۔ - اوزاعی سے اس سلسلے میں دو روایتیں منقول ہیں۔ ایک روایت ترتیب کے اسقاط کو اور دوسری روایت ترتیب کے ایجاب کو بیان کرتی ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر ایک شخص امام کی اقتدار میں نماز پڑھ رہا ہو۔ ایک رکعت کے بعد اسے بھولی ہوئی نماز یاد آ گئی تو امام کے پیچھے اپنی نماز جاری رکھے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد بھولی ہوئی نماز ادا کرے گا اور امام کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کا اعادہ کرے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر ایک شخص نے کئی نمازیں بغیر وضو پڑھ لی ہوں اور نیند کی وجہ سے یہ نمازیں رہ گئی ہوں تو فوت شدہ نمازیں ترتیب کے ساتھ اد اکرے گا۔ اگر اس دوران فرض نماز کا وقت آ جائے تو اسے چھوڑ کر فوت شدہ نمازیں ادا کرتا جائے گا یہاں تک کہ وقتی نماز تک جا پہنچے گا خواہ اس دوران اس نماز کا وقت نکل کیوں نہ جائے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ پسندیدہ بات یہ ہے کہ فوت شدہ نماز کی ادائیگی سے ابتدا کے گا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور وقتی نماز ادا کرلیتا ہے تو اس کی ادائیگی ہوجائے گی۔ ان کے نزدیک فوت شدہ نمازوں کی تعداد خواہ قلیل ہو یا کثیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جو شخص کوئی نماز بھول گیا ہو اور امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے اسے وہ نماز یاد آ گئی ہو تو امام کے پیچھے اپنی نماز جاری رکھے جب فارغ ہوجائے تو اٹھ کر بھولی ہوئی نماز پڑھ لے اور اس کے بعد دوسری نماز کا اعادہ کرلے۔- عباد بن العوام نے ہشام سے، انہوں نے ابن سیرین سے اور انہوں نے کثیر بن افلح سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں۔ ” ہم مدینہ منورہ کی طرف آ رہے تھے جب ہم شہر سے قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا، اہل مدینہ مغرب کی نماز موخر کر کے پڑھتے تھے، اس لئے مجھے امید ہوگئی کہ میں مغرب کی نماز ا ن کے ساتھ پڑھ لوں گا جب میں وہاں پہنچا تو لوگ عشاء کی نماز میں مصروف تھے، میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ مغرب کی نماز پڑھی جا رہی ہے۔ جب امام نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے اٹھ کر پہلے مغرب کی نماز پڑھی اور پھر عشاء کی۔ جب صبح ہوئی تو میں نے لوگوں سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا ۔ سب نے کہا تم نے ٹھیک کیا ہے۔ اس زمانے میں صحابہ کرام کی بڑی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی۔ “ سعید بن المسیب، حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح نے وجوب ترتیب کا قول کیا ہے۔- سلف کے ان تمام حضرات سے ترتیب کے ایجاب کی روایت مقنول ہے جبکہ ا ن کے ہم عصر لوگوں میں سے کسی بھی اس کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے گویا ترتیب کے وجوب پر سلف کا اجماع ہوگیا۔ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کے وجوب پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت جابر سے نقل کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے دن حضرت عمر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور غصے میں کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرنے لگے کہ میں آج عصر کی نماز نہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ گیا (پھر جا کر مجھے موقعہ ملا) یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” خدا کی قسم میں نے بھی آج ابھی تک عصر کی نماز نہیں پڑھی ہے۔ “ یہ کہہ کر آپ سواری سے اترے، وضو فرمایا اور غروب آفتاب کے بعد پہلے عصر کی نماز پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں رہ گئیں۔ یہاں تک کہ رات بھیگ گئی۔ آپ نے پہلے ظہر کی نماز پڑھی، پھر عصر کی، پھر مغرب کی اور پھر عشاء کی۔ یہ روایت دو وجوہ سے ترتیب کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کا ارشاد ہے (صلوا کما رأیتمونی اصلی۔ جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھو) جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان فوت شدہ نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کیا تو یہ امر ترتیب کے ایجاب کا متقاضی بن گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کتاب اللہ میں نماز کی فرضیت مجمل طریقے سے بیان ہوئی ہے اور ترتیب نماز کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے ایسی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل جب بیان کے طور پر وارد ہوا ہے تو اسے وجوب پر محمول کیا جائے گا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوت شدہ نمازیں ترتیب سے پڑھیں تو آپ کا یہ فعل کتاب اللہ میں بیان شدہ مجمل فرض کے لئے بیان بن گیا۔ اس لئے اسے وجوب پر محمول کرنا ضروری قرار پایا۔ ترتیب کے وجوب پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں نمازیں فرض ہیں ان دونوں کو دن اور رات کے ایک وقت نے اکٹھا کردیا ہے اس لئے ان دونوں کی مشابہت عرفات اور مزدلفہ کی دو نمازوں کے ساتھ ہوگئی۔ جب ان دونوں نمازوں میں ترتیب کا اسقاط جائز نہیں تو اس سے یہ ضرو ریہو گیا کہ ایک دن اور رات سے کم مدت کی فوت شدہ نمازوں کا حکم بھی بھی یہی ہوجائے۔- حضرت عمر نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی عرض کیا تھا کہ مجھے عصر کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ گیا ( اس وقت مجھے اسے پڑھنے کا موقعہ ملا) آپ نے حضرت عمر کی یہ بات سن کر انہیں نہیں ٹوکا اور نہ ہی عصر کی نماز کے اعادے کا حکم دیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص غروب شمس کے وقت عصر کی نماز ادا کرے گا اس پر اس کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) میں اللہ ہوں میرے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں لہذا میری فرمانبرداری کرو اور اگر کسی وقت نماز پڑھنا بھول جاؤ تو فورا یاد آتے ہی پڑھ لیا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا) ” - یہ آیت اس لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے کہ اللہ کی انا نیت (انا نیت کبریٰ ) کے اظہار کے لیے جو الفاظ یہاں اس مقام پر استعمال ہوئے ہیں ‘ میرے علم کی حد تک قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوئے۔ علامہ اقبال نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ایک تو ہماری انائے صغیر ( ) ہے اور اس کے مقابلے میں اللہ کی انائے کبیر ( ) ہے۔ اس انائے کبیر ( ) کا اس آیت میں بھرپور انداز میں اظہار ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :9 یہاں نماز کی اصلی غرض پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آدمی خدا سے غافل نہ ہو جائے ، دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر اس کو اس حقیقت سے بے فکر نہ کر دیں کہ میں کسی کا بندہ ہوں ، آزاد خود مختار نہیں ہوں ۔ اس فکر کو تازہ رکھنے اور خدا سے آدمی کا تعلق جوڑے رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے جو ہر روز کئی بار آدمی کو دنیا کے ہنگاموں سے ہٹا کر خدا کی طرف لے جاتی ہے ۔ بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ نماز قائم کر تاکہ میں تجھے یاد کروں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ۔ ، مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔ ضمناً اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص کو بھول لاحق ہو جائے اسے جب بھی یاد آئے نماز ادا کر لینی چاہیے ۔ حدیث میں حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا : من نسی صَلاۃ فلیصَلّھا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذٰلک ، جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کر لے ، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ( بخاری ، مسلم ، احمد ) ۔ اسی معنی میں ایک روایت حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے جسے مسلم ، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے لیا ہے ۔ اور ابوقَتادہ کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا اگر ہم نماز کے وقت سو گئے ہوں تو کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا نیند میں کچھ قصور نہیں ، قصور تو جاگنے کی حالت میں ہے ۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے تو جب بیدار ہو یا جب یاد آئے ، نماز پڑھ لے ( ترمذی ، نسائی ، ابو داؤد ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani