Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] خفی لا لغوی مفہوم :۔ اخفہا۔ خفی کا معروف معنی چھپنا اور پوشیدہ ہونا ہے اور اخفی کا معنی چھپانا۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا۔ میں اسے چھپائے ہوئے ہوں پھر یہ لفظ لغت زدی الاضداد سے بھی ہے۔ جس کا معنی ہے ظاہر کردینا، کہتے ہیں خفی المظر القارۃ، یعنی بارش نے چوہے کو بل سے نکال کر ظاہر کردیا یا بےنقاب گویا ہم نے دوسرے معنی کو اس لئے ترجیح دی ہے کہ اس سے مطلب زیادہ واضح ہوتا ہے۔- گویا جو آواز اس میدان میں آرہی تھی وہ اللہ کی طرف سے وحی ہو رہی تھی اور قرآن کی صراحت کے مطابق اللہ کا بندے سے ہم کلام ہونا بھی وحی ہی کی تین قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ آپ گئے تو تھے آگ لینے کو اور اللہ کی مہربانی یہ ہوئی کہ آپ کو پیغمبری عطا ہوگئی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو خود بھی پہلے علم نہ تھا کہ آپ کو نبوت عطا ہونے والی ہے اور اس وحی میں آپ کو سب سے پہلے دین کی نہایت اہم اور بنیادی باتیں بتلائی گئیں۔- اسلام کی بنیادی تعلیمات :۔ پہلی یہ کہ اللہ ہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی۔ دوسری یہ کہ اس کائنات کی تخلیق و تملیک میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ تیسری یہ کہ اس باتوں کے نتیجہ میں عبادت کا وہ اکیلا ہی مستحق ہے اور نماز اللہ سے تعلق قائم رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہذا اللہ کو یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرنا ضروری ہے۔ اس سے کبھی غفلت نہ کرنا چاہئے اور اگر بھول جائے تو جب یاد آئے نماز ادا کرنا ضروری ہے اور چوتھی یہ ہے کہ قیامت یقینا آنے والی ہے اور جلد ہی آنے والی ہے۔ تاہم اس کا معین وقت بتلانا خلاف مصلحت ہے اور قیامت قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے۔ یہ وہ اصول دین ہیں جو سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان تک تمام انبیاء و رسل کو وحی کئے جاتے رہے اور ان میں کبھی تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ : توحید، عبادت اور نماز کی تاکید کے بعد ایمان کے ایک اور بنیادی رکن قیامت کے یقینی ہونے کا ذکر فرمایا، تاکہ ہر شخص کو اس کی سعی و کوشش کی جزا دی جائے۔ اس صورت میں ” لِتُجْزٰى“ ” اٰتِيَةٌ“ کے متعلق ہوگا۔ قیامت کا یقین ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرتی ہے، ورنہ باز پرس اور اللہ کے سامنے پیش ہونے کا یقین نہ ہو تو جائز و ناجائز کی تمیز کون کرتا ہے ؟- اَكَادُ اُخْفِيْهَا لِتُجْزٰى ۔۔ : یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ جس کام کے متعلق ” کَادَ یَکَادُ “ استعمال ہو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ واقع ہونے کے قریب ہے مگر واقع نہیں ہوا، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت (٢٠) : (يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ) (بجلی قریب ہے کہ ان کی نگاہوں کو اچک لے) میں ہے۔ مفسرین نے اس کے بہت سے جواب دیے ہیں، مگر مجھے ابن جزی (رض) کے جواب پر اطمینان ہوتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقت کو پوشیدہ رکھا ہے اور کسی کو نہیں بتایا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ قیامت کے واقع ہونے کو بھی چھپا کر رکھتا اور کسی کو اس کی خبر نہ دیتا، مگر یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے اسے پوشیدہ نہیں رکھا، بلکہ اس کے واقع ہونے کی بات سب کو بتادی ہے، تاکہ لوگ بالکل غافل نہ رہیں۔ اس صورت میں ” کَادَ “ اور ” أُخْفِیْ “ دونوں اپنے اصل معنی پر رہتے ہیں کہ قریب تھا کہ قیامت کا واقع ہونا چھپالیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ “ (التسہیل)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَكَادُ اُخْفِيْهَا، یعنی قیامت کے معاملہ کو میں تمام مخلوقات سے مخفی رکھنا چاہتا ہوں یہاں تک کہ انبیاء اور فرشتوں سے بھی اور اکاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر لوگوں کو قیامت و آخرت کی فکر دلا کر ایمان و علم صالح پر ابھارنا مقصود نہ ہوتا تو اتنی بات بھی ظاہر نہ کی جاتی کہ قیامت آنے والی ہے جیسا کہ اوپر آیت میں آیا ہے اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ، مقصود اس سے اخفائے قیامت میں مبالغہ کرنا ہے۔- لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي (تاکہ جزاء دیا جائے ہر نفس اپنے عمل کی) اس جملہ کا تعلق اگر لفظ اتیة سے ہے تو معنی ظاہر ہیں کہ قیامت کے آنے کی حکمت و مصلحت یہ ہے کہ دنیا تو دار الجزاء نہیں یہاں نیک و بد عمل کی جزاء کسی کو نہیں ملتی، اور اگر کبھی دنیا میں کچھ جزاء مل بھی جاتی ہے تو وہ عمل کی پوری جزاء نہیں ہوتی ایک نمونہ سا ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت آئے جہاں ہر نیک و بد عمل کی جزاء و سزا پوری دی جائے۔- اور اگر جملہ کا تعلق اَكَادُ اُخْفِيْهَا سے قرار دیا جائے تو یہ بھی ممکن ہے اور معنے یہ ہوں گے کہ قیامت اور موت کے وقت اور تاریخ کو مخفی رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے عمل اور سعی میں لگے رہیں اپنی شخصی قیامت یعنی موت اور پورے عالم کی قیامت یعنی حشر کے دن کو دور سمجھ کر غافل نہ ہو بیٹھیں۔ (روح)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِيَۃٌ اَكَادُ اُخْفِيْہَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍؚبِمَا تَسْعٰي۝ ١٥- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر .- يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور دوسرا یہ کہ قیامت آنیوالی ہے میں اس کے وقت کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں یا یہ کہ میں نے اس کا علم خاص اپنی ذات کے لیے مخفی رکھا ہے تو کسی اور سے اس کا اظہار کیوں کروں کہ وہ کب آئے گی تاکہ ہر ایک نیک وبد کو، جو کچھ کسی نے نیک و بداعمال کیے ہیں ان کو ان کا بدلہ مل جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :10 توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیہم السلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے ، آخرت ہے ۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ ساعت منتظرہ اس لیے آئے گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدعا پورا ہوسکے ۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت اس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے ۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہو وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں آتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani