[٨٦] شیطان آدم کا بڑا ہوشیار اور مکار دشمن تھا اس نے وسوسہ ہی ایسا دلفریب ڈالا جس نے آدم کے دل کو موہ لیا۔ علاوہ ازیں مدت مدید گزرنے کی وجہ سے سیدنا آدم (علیہ السلام) اپنے پروردگار سے کیا ہوا وعدہ بھول ہی چکے تھے۔ شیطان نے پٹی یہ پڑھائی کہ اگر تم اس درخت کا پھل چکھ لو گے۔ تو اس جنت میں ہمیشہ کے لئے مقیم ہوجاؤ گے اور تمہیں ابدی زندگی حاصل ہوجائے گی اور جنت کی نعمتوں پر تمہارا تصرف و اختیار قائم و دائم رہے گا۔- یہاں یہ بات قابل ذکر کہ اس مقام پر شیطانی وسوسہ کی نسبت صرف سیدنا آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اور ایک دوسرے مقام پر دونوں کی طرف کی ہے۔ اس لئے کہ اس معاملہ میں حوا کی حیثیت صرف بالتبع تھی۔ لیکن بائبل کی روایت یوں ہے کہ شیطان نے پہلے سیدہ حوا کو بہکایا۔ پھر حوا نے سیدنا آدم (علیہ السلام) کو پھل کھانے پر آمادہ کرلیا۔ بائبل کی اس سروایت کو بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا۔ جب کہ یہ روایت قرآن کی اس آیت کے مطابق غلط قرار پاتی ہے۔
فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ ۔۔ : قرآن میں شیطان کے وسوسہ انداز ہونے اور پھسلانے کی نسبت بعض آیات میں صرف آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اور بعض میں آدم و حوا دونوں کی طرف۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو شیطان آدم (علیہ السلام) ہی کے دل میں وسوسہ انداز ہوا ہے، حوا [ کا ذکر ان کے تابع ہونے کی حیثیت سے ہے، لہٰذا عوام میں جو یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ شیطان نے پہلے حوا [ کو پھسلایا اور پھر ان کے ذریعے سے آدم (علیہ السلام) کو قابو کیا، وہ قطعی غلط اور لغو ہے اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔ دونوں آیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٢٠، ٢١) ۔- وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ۔۔ : آدم (علیہ السلام) کا واقعہ نہایت عجیب ہے کہ اتنا عظیم شخص، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، فرشتوں سے اس کو سجدہ کروایا، کمال عقل بخشی، اپنی جنت میں ہر نعمت عطا فرمائی، اسے صاف لفظوں میں شیطان کی دشمنی سے آگاہ کردیا اور دشمن کی بات ماننے پر جنت سے نکلنے کی تنبیہ بھی فرما دی، اتنے عظیم شخص کو اس کے اتنے مہربان پروردگار نے صرف ایک چیز سے منع فرمایا، مگر وہ اپنے رب کی اتنی عنایتوں اور شیطان کی واضح دشمنی کے علم کے باوجود اس کے ورغلانے سے اپنے رب کی حکم عدولی کیسے کر گزرا ؟ جو شخص بھی اس واقعہ میں غور و فکر کرے گا اس کا تعجب بڑھتا ہی جائے گا اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اللہ کی تقدیر کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہٹا سکتا ہے اور یہ کہ دلیل جتنی بھی واضح اور مضبوط ہو اس سے تبھی فائدہ حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو اور اسے مقدر فرمایا ہو۔ (رازی) صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے آدم (علیہ السلام) سے سوال اور ان کے جواب سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس حدیث سے اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ گناہ جب اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے تو ہمارا کیا قصور ہے اور ہمیں ملامت کیوں کی جاتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے توبہ قبول ہونے اور گناہ معاف ہونے کے بعد یہ جواب دیا ہے، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جب ان سے پوچھا : (اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ ) [ الأعراف : ٢٢ ] کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا تو انھوں نے نہ تقدیر کا بہانہ بنایا اور نہ اپنا قصور اللہ تعالیٰ کے ذمے لگایا، بلکہ صاف تسلیم کیا : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٣ ] ” اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔ “ اس کے برعکس ابلیس نے اپنا گناہ ماننے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کے ذمے لگا دیا : (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ ) [ الأعراف : ١٦ ] ” اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ “ گناہ کی معافی کے بغیر تقدیر کا عذر غلط ہے۔ ایک اور جواب جو اس سے بھی قوی ہے، یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آدم (علیہ السلام) سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ نے نافرمانی کیوں کی تھی ؟ بلکہ انھوں نے انھیں اپنی اولاد کو جنت سے نکالنے اور مصیبت میں ڈالنے پر ملامت کی تھی، حالانکہ مصیبت پر ملامت نہیں کی جاتی، خواہ وہ کسی غلطی کی وجہ سے آئی ہو، بلکہ تسلی دی جاتی ہے، مثلاً اگر کسی کی غلطی کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوجائے تو اسے غلطی پر ملامت کے بجائے مصیبت میں تعزیت کی جاتی ہے کہ اللہ کی تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا، اس لیے غم مت کرو۔ چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِحْتَجَّ آدَمُ وَ مُوْسٰی، فَقَالَ مُوْسَی یَا آدَمُ أَنْتَ أَبُوْنَا، أَنْتَ خَیَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّۃِ ، فَقَالَ لَہُ آدَمُ أَنْتَ مُوْسَیٰ ، اصْطَفَاک اللّٰہُ بِکَلَامِہِ ، وَخَطَّ لَکَ بِیَدِہِ ، أَتَلُوْمُنِيْ عَلٰی أَمْرٍ قَدَّرَہُ اللّٰہُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَنِيْ بِأَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ؟ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی، فَحَجَّ آدَمُ مُوْسَی ) ” آدم اور موسیٰ ( علیہ السلام) کی بحث ہوگئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، تم ہمارے باپ ہو، تم نے ہمیں نامراد کردیا اور ہمیں جنت سے نکال دیا۔ “ تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے کہا : ” اے موسیٰ اللہ عز وجل نے تمہیں اپنے کلام کے لیے چنا اور تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے (کتاب) لکھی۔ اے موسیٰ کیا تم مجھے ایک ایسے کام پر ملامت کرتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے مجھ پر طے کردیا تھا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آگئے، تو آدم، موسیٰ پر دلیل میں غالب آگئے۔ “ [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیہما وسلم : ٢٦٥٢ ]
فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ الی قولہ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى، اس آیت میں جو یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کو کسی خاص درخت کے کھانے اور اس کے پاس جانے سے بھی روک دیا تھا اور اس پر مزید یہ تنبیہ بھی فرما دی تھی کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے اس کے مکر و کید سے بچتے رہنا وہ کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے اتنی واضح ہدایتوں کے بعد بھی یہ پیغمبر عالی مقام شیطان کے دھوکہ میں کس طرح آگئے اور یہ کہ یہ تو کھلی نافرمانی اور گناہ ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کے نبی و رسول ہیں ان سے یہ گناہ کیسے سرزد ہوا جبکہ جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) ہر چھوٹے بڑے گناہ سے معصوم ہوتے ہی۔ ان سب سوالات کا جواب سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول صفحہ ١٣٦ پر گزر چکا ہے وہاں دیکھ لیا جائے اور اس آیت میں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسبت صاف لفظوں میں عصی اور پھر غوی فرمایا گیا ہے اس کی وجہ بھی سورة بقرہ میں بیان ہوچکی ہے کہ اگرچہ آدم (علیہ السلام) کا یہ عمل شرع قانون کی رو سے گناہ میں داخل نہیں تھا لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور مقربین خاص میں سے ہیں اس لئے ان کی ادنی لغزش کو بھی بھاری لفظوں سے عصیان کہہ کر تعبیر کیا گیا اور اس پر عتاب کیا گیا اور لفظ غوی دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک معنی زندگی تلخ ہوجانے اور عیش خراب ہوجانے کے ہیں۔ دوسرے معنی گمراہ ہوجانے یا غافل ہوجانے کے۔ ائمہ تفسیر قشیری اور قرطبی وغیرہ نے اس جگہ لفظ غوی کے پہلے معنی ہی کو اختیار کیا ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جو عیش جنت میں حاصل تھا وہ نہ رہا زندگی تلخ ہوگئی۔- انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں ایک اہم ہدایت ان کے ادب و احترام کی حفاظت :- قاضی ابوبکر ابن عربی نے احکام القرآن میں آیت مذکورہ میں جو الفاظ عصی وغیرہ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ہیں اس سلسلہ میں انہوں نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی ہے وہ انہیں کے الفاظ میں یہ ہے۔- لا یجوز لاحدنا الیوم ان یخبر بذلک عن ادم الا اذا ذکرناہ فی اثناء قولہ تعالیٰ عنہ او قول نبیہ، فاما ان یبتدی ذلک من قبل نفسہ فلاس بجائز لنا فی ابائنا الادنین الینا المماثلین لنا فکیف فی ابینا الا قدم الاعظم الاکرم النبی المقدم الذی عذرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و تاب علیہ و غفرلہ (از تفسیر قرطبی و ذکرہ فی البحر المحیط ایضا)- ہم میں سے کسی کے لئے آج یہ جائز نہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی طرف یہ لفظ عصیان منسوب کرے بجز اس کے کہ قرآن کی اس آیت کے یا کسی حدیث نبوی کے ضمن میں آیا ہو وہ بیان کرے لیکن یہ کہ اپنی طرف سے یہ لفظ منسوب کرنا ہمارے اپنے قریبی آباؤ و اجداد کے لئے بھی جائز نہیں، پھر ہمارے سب سے پہلے باپ جو ہر حیثیت میں ہمارے آباء سے مقدم اور اعظم و اکرام میں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر معزز ہیں جن کا عذر اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور معافی کا اعلان کردیا ان کے لئے تو کسی حال میں جائز نہیں۔- اس لئے قشیری ابونصر نے فرمایا کہ اس لفظ کی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو عاصی اور غادی کہنا امور ہیں یا نبوت سے پہلے کے ہیں۔ اس لئے بضمن آیات قرآن و روایت حدیث تو ان کا تذکرہ درست ہے لیکن اپنی طرف سے ان کی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ (قرطبی)
فَوَسْوَسَ اِلَيْہِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى ١٢٠- وسوس - الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ.- ( وس وس ) الوسوسۃ - اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔- شجر - الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه .- ( ش ج ر ) الشجر - ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔
(١٢٠) پھر اس درخت سے کھانے کے بارے میں شیطان نے ان کو بہکایا اور کہنے لگا، اے آدم کیا آپ کو ایسا درخت بتلاؤں کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ یہاں ( آدم وحوا) آباد رہو گے کبھی موت نہ آئے گا اور ایسی بادشاہی ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی ،
(قَالَ یٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ) ” - کہ اس درخت کا پھل کھانے کے بعد آپ ( علیہ السلام) کو دوام حاصل ہوجائے گا اور زندگی کے لیے کبھی فنا کا خدشہ نہیں ہوگا۔ گویا شیطان نے اپنی پہلی سازش کا جال انسان کی اسی کمزوری کو بنیاد بنا کر بنا تھا جس کا ذکر سورة مریم کی آیت ٩٢ کے ضمن میں گزر چکا ہے۔ یہاں اہرام مصر کے حوالے سے درج ذیل الفاظ ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیجیے :- - - یعنی انسان وقت کے طوفانوں کو فتح کرلینا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کی ہستی کو اس دنیا میں دوام اور تسلسل نصیب ہو۔ چناچہ شیطان نے انسانِ اوّل کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر فانی زندگی اور ہمیشہ کی بادشاہی مل جانے کا جھانسہ دے کر اسے ممنوعہ درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کرلیا۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :99 یہاں قرآن صاف تصریح کرتا ہے کہ آدم و حوا میں سے اصل وہ شخص جس کو شیطان نے وسوسے میں ڈالا آدم علیہ السلام تھے نہ کہ حضرت حوا ۔ اگرچہ سورہ اعراف کے بیان کے مطابق مخاطب دونوں ہی تھے اور بہکانے میں دونوں ہی آئے ، لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی کا رخ دراصل حضرت آدم ہی کی طرف تھا ۔ اس کے برعکس بائیبل کا بیان یہ ہے کہ سانپ نے پہلے عورت سے بات کی اور پھر عورت نے اپنے شوہر کو بہکا کر درخت کا پھل اسے کھلایا ( پیدائش ، باب 3 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :100 سورہ اعراف میں شیطان کی گفتگو کی مزید تفصیل ہم کو یہ ملتی ہے : وَقَالَ مَا نَھٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَہِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ ، اور اس نے کہا کہ تمہارے رب نے تم کو اس درخت سے صرف اس لیے روک دیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتے نہ ہو جاؤ ، یا ہمیشہ جیتے نہ رہو ۔ ( آیت 20 ) ۔
51: ساتھ ہی شیطان نے یہ تاویل بھی سجھائی کہ اس درخت کی جو ممانعت کی گئی تھی۔ وہ اس لیے تھی کہ تم میں اس وقت اس درخت کا پھل کھانے کی طاقت نہیں تھی۔ اب ایک عرصہ گذر جانے کے بعد یہ رکاوٹ باقی نہیں رہی