[٨٥] جنت میں انسان کی ضروریات کا سامان بھی موجود تھا اور ان کے علاوہ عیش و عشرت کے لئے وافر نعمتیں بھی موجود تھیں اور سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بتلایا یہ گیا تھا کہ اگر تم شیطان کے فریب میں آگئے تو نہ صرف یہ کہ تم سے جنت کی نعمتیں چھین لی جائیں گی بلکہ تمہیں اپنی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرنا پڑے گی اور ان کے لئے مشقت بھی اٹھانا ہوگی۔ مثلا ً دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لئے مکان بنانا ہوگا اور کھانے پینے کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ہوگا اور پہننے کے لئے لباس کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور تمہاری زندگی کا بیشتر حصہ انھیں باتوں کے حصول میں صرف ہوجائے گا۔ جنت کی دوسری نعمتیں تو کم ہی کسی کو میسر آئیں گی۔ لہذا اللہ کے حکم کو دھیان کے ساتھ یاد رکھنا اور شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔
وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْہَا وَلَا تَضْحٰي ١١٩- ظمأ - الظِّمْءُ : ما بين الشّربتین، والظَّمَأُ : العطش الذي يعرض من ذلك . يقال : ظَمِئَ يَظْمَأُ فهو ظَمْآَنُ. قال تعالی: لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، وقال : يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور 39] .- ( ظ م ء ) الظمئ - ۔ دو مرتبہ پانی پینے کے درمیان کا وقفہ اظلماء پیاس جو اس وقفہ میں عارض ہو دراصل یہ ظمئ یظماء فھو ظمآن کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیا سے رہو اور نہ دہوپ کھاؤ ۔ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور 39] کہ پیاسا اسے پانی سمجھ کر اس کیطرف جاتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔- ضحی - الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى- [ طه 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى.- والأُضْحِيَّةُ- جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ»- ( ض ح و ) الضحی ٰ- ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے )- اضحیۃ - کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :98 یہ تشریح ہے اس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا ۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ، یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا ، پانی ، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے ، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کرنے کے لئے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی ۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا علیہما السلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نکل کار انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنا ، یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی ۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور اپنی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے ۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت ۔