122۔ 1 اس سے بعض لوگ استدال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس معصیت کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا وعظ و نصیحت، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کردیا، جو پہلے انھیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔
ثُمَّ اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ : ” جَبَی یَجْبِیْ “ (ض) کا معنی کھینچ کر لانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ ) [ القصص : ٥٧ ] ” اور کیا ہم نے انھیں ایک باامن حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔ “ ” اِجْتَبَی “ (افتعال) کا معنی کسی چیز کو اپنے لیے لے لینا، چن لینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آدم (علیہ السلام) کو اپنے لیے کھینچ لینے اور چن لینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں توبہ کا خیال ڈالا، انھیں توبہ کی توفیق دی اور توبہ کے کلمات کی تعلیم دی، جیسا کہ فرمایا : (فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ) [ البقرۃ : ٣٧ ] ” پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اس نے اس کی توبہ قبول فرما لی۔ “ قرآن کے مطابق وہ کلمات یہ تھے : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٣ ] ” اجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ “ میں لفظ ” رَبُّهٗ “ اس چننے کے سبب کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ - فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدٰى : یعنی اس کی توبہ قبول فرمائی اور ہدایت دی، یعنی صراط مستقیم پر گامزن کردیا اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائی۔ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں ” اِجْتَبَا “ اور ” ہدایت “ کے الفاظ اکٹھے آئیں وہاں نبوت عطا کرنا مراد ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاجْتَبَيْنٰهُمْ وَهَدَيْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ ) [ الأنعام : ٨٧ ] اور فرمایا : (اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ) [ النحل : ١٢١ ] اور تیسری آیت یہ ہے۔ - 3 آدم (علیہ السلام) کا گناہ توبہ و استغفار کی وجہ سے ان کے لیے پہلے سے بھی زیادہ بلند مقام کا ذریعہ بن گیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے انبیاء سے غلطی کا صادر ہونا ناممکن کیوں نہیں بنادیا اور وہ ہے رسول کا غلطی سرزد ہونے کے بعد توبہ و استغفار میں اپنی امت کے لیے اسوہ اور نمونہ بننا۔ کیونکہ غلطی کے بعد والی ندامت، آہ وزاری، آئندہ نہ کرنے کا عزم اور پچھلی غلطی پر دن رات استغفار اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اگر انسان سے غلطی نہ ہو، جس کے بعد وہ توبہ و استغفار کرے، تو اللہ تعالیٰ بنی آدم کی صف لپیٹ کر گناہ کرنے والی کوئی اور قوم لے آئے، جو گناہ کرے، پھر استغفار کرے اور اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔ [ مسلم، التوبۃ، باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبۃ : ٢٧٤٩، عن أبي ہریرہ (رض) ] پھر اس مہربان رب کی رحمت اور لطف و کرم کی کیا حد ہے جو توبہ کے بعد پہلے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٧٠) اللہ تعالیٰ ہم گناہ گاروں کو بھی ایسی ہی توبہ کرنے والوں میں شامل فرما لے۔ (آمین)- 3 درخت میں سے کھانے کے بعد یہاں توبہ قبول کرنے کا ذکر پہلے ہے اور زمین پر اترنے کا حکم بعد میں، حالانکہ اصل ترتیب یہ تھی کہ درخت میں سے کھاتے ہی انھیں جنت سے نکال دیا گیا، مگر یہاں آدم (علیہ السلام) کی توبہ کا قبول ہونا اور نبوت عطا ہونا پہلے اس لیے ذکر فرمایا کہ سننے والوں کو آدم (علیہ السلام) کا انجام معلوم ہوجائے کہ وہ کس قدر اچھا ہوا۔
ثُمَّ اجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَيْہِ وَہَدٰى ١٢٢- اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔
(١٢٢) اور پھر جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے معذرت کی تو ان کے پروردگار نے انھیں اور زیادہ مقبول بنا لیا اور ان کی معذرت کو قبول فرما لیا اور معذرت پر ہمیشہ قائم رکھا۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :103 یعنی شیطان کی طرح راندۂ درگاہ نہ کر دیا ، طاعت کی کوشش میں نا کام ہو کر جہاں وہ گر گئے تھے وہیں انہیں پڑا نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ اٹھا کر پھر اپنے پاس بلا لیا اور اپنی خدمت کے لیے چن لیا ۔ ایک سلوک وہ ہے جو بالارادہ بغاوت کرنے والے اور اکڑ اور ہیکڑی دکھانے والے نوکر کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ اس کا مستحق شیطان تھا اور ہر وہ بندہ ہے جو ڈٹ کر اپنے رب کی نافرمانی کرے اور خم ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے ۔ دوسرا سلوک وہ ہے جو اس وفادار بندے کے ساتھ کیا جاتا ہے جو محض بھول اور فقدان عزم کی وجہ سے قصور کر گزرا ہو ، اور پھر ہوش آتے ہی اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائے ۔ یہ سلوک حضرت آدم و حوا سے کیا گیا ، کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ پکار اٹھے تھے کہ : رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنُ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ، اے ہمارے پروردگار ، ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ، اور اگر تو ہم سے در گزر نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم بر باد ہو جائیں گے ۔ ( اعراف ۔ آیت ۔ 23 ) ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :104 یعنی صرف معاف ہی نہ کیا ، بلکہ آئندہ کے لیے راہ راست بھی بتائی اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی سکھایا ۔