ایک دوسرے کے دشمن ۔ حضرت آدم علیہ السلام وحوا علیہ السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرمادیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ سورۃ بقرۃ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے ۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس ۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے ۔ ہاں حکموں کے مخالف میرے رسول کی راہ کے تارک ۔ دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگی میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین وہدایت نہ ہونے کہ وجہ سے ہمیشہ شک شبے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے ۔ بدنصیب ، رحمت الٰہی سے محروم ، خیر سے خالی ، کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں ، اس کے وعدوں کا یقین نہیں ، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے ۔ خبیث روزیاں ہیں ، گندے عمل ہیں ، قبر تنگ و تاریک ہے وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے ستر ہاتھ کی کشادہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو ۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے ۔ اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں ۔ اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی ۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا ۔ جیسے فرمان ہے ( وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97 ) 17- الإسراء:97 ) یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے ۔ یہ کہیں گے میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا پھر مجھے اندھا کیوں کردیا گیا ؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں ۔ پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے توہماری یاد سے اترگیا جیسے فرمان ہے ( فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ 51 ) 7- الاعراف:51 ) آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ۔ پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے ۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اسکے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ۔ اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا ( مسند احمد )
[٨٨] اس مقام پر تثنیہ استعمال ہوا ہے۔ جس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک مطلب ترجمہ میں واضح ہے کہ ایک فریق آدم و حوا تھے اور دوسرا فریق شیطان اور خطاب کے لحاظ سے ان فریقوں میں ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق آدم، دوسرا حوا ہو، جمیعا ً کا معنی سب کے بجائے مل کر، اکٹھے یا ایک ساتھ کیا جائے، اور خطاب آدم و حوا کی اولاد سے ہو۔ دوران کی اولاد میں دشمنی اسی طرح ہوگی۔ کہ ان کی اولاد میں سے ایک فریق اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے گا اور دوسرا شیطان کا تابع فرمان۔ ان دونوں فریقوں میں حق و باطل کی جنگ جاری اور دشمنی قائم رہے گی۔- ] ـ٨٩] یشقیٰ کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ وہ جنت کی راہ سے بہکے گا نہیں اور نہ اس سے محروم ہو کر دوزک کی تکلیفیں اٹھائے گا۔ بلکہ سیدھا جنت میں پہنچ جائے گا جو اس کا اصل وطن تھا اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ بدبختی میں مبتلانہ ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا مقدر اسے ضرور ملے گا اور آخرت میں تو وہ بہرحال خوش نصیب ہوگا۔
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ : اس کی تفسیر سورة بقرہ کی آیت (٣٦) میں دیکھیے، یعنی توبہ قبول ہونے کے باوجود زمین پر رہنے کا فیصلہ قائم رہا، کیونکہ انھیں پیدا ہی زمین کی خلافت کے لیے کیا گیا تھا۔ - ڏ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ ۔۔ : سورة بقرہ (٣٨) میں ” فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ “ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پیروی کی اور یہاں ” اتَّبَعَ “ (افتعال) ہے، اس میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے تکلف اور مبالغہ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پوری طرح پیروی کی تو وہ نہ دنیا میں جنت کے راستے سے بھٹکے گا اور نہ آخرت میں جنت سے محروم رہ کر بدنصیب ہوگا، بلکہ سیدھا چلتا ہوا اپنے گھر جنت میں پہنچ جائے گا۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( ضَمِنَ اللّٰہُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَلاَّ یَضِلَّ فِی الدُّنْیَا وَلاَ یَشْقٰی فِی الْآخِرَۃِ ثُمَّ تَلاَ : (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ) [ مصنف ابن أبي شیبۃ : ١٠؍٤٦٧، ح : ٣٠٥٧٥۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٨١، ح : ٣٤٣٨ و صححہ ووافقہ الذھبی ]” جو شخص قرآن کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے کہ وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدنصیب۔ “ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ” تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو وہ نہ گمرا ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ “ معلوم ہوا ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، اللہ تعالیٰ نے ہدایت خود بھیجنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی رہنمائی منزل پر نہیں پہنچا سکتی، خواہ کوئی عالم ہو یا درویش، انسان ہو یا جن یا کوئی اور اللہ کی کتاب کے مطابق زندگی گزارنا دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب زندگی کا ضامن ہے، فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کرتے تھے۔ “
اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا یعنی اتر جاؤ جنت سے (دونوں) یہ خطاب حضرت آدم و ابلیس دونوں کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ کا مضمون واضح ہے کہ دنیا میں جا کر بھی شیطان کی دشمنی جاری رہے گی اور اگر یہ کہا جائے کہ شیطان کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا اب اس کو اس خطاب میں شریک قرار دینا بعید ہے تو دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ خطاب آدم و حواء (علیہما السلام) دونوں کو ہو۔ اس صورت میں باہمی عداوت سے مراد ان کی اولاد میں باہمی عداوت ہونے کو بیان کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ اولاد میں باہمی عداوت ماں باپ کی زندگی بھی تلخ کردیتی ہے۔
قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ٠ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ ہُدًى ٠ۥۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ١٢٣- هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- شقي - الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ،- . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] - ( ش ق و ) اشقاوۃ - ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔
(١٢٣) اس کے بعد حضرت آدم وحوا اور سانپ وغیرہ سے فرمایا کہ تم سب جنت سے اترو اور اس حال میں جاؤ کہ تم سب ایک دوسرے کے یعنی سانپ انسانوں کا اور انسان سانپ کے دشمن ہوں گے پھر اگر اے انسانوں تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت کا ذریعہ یعنی کتاب اور رسول پہنچے تو تم میں سے جو شخص میرے رسول اور میری کتاب کی اتباع کرے گا تو وہ ان کی اتباع کی وجہ سے نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں سختی میں ہوگا۔
53: یعنی انسان اور شیطان ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے