124۔ 1 اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق واضطراب، بےچینی اور بےکلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔ 124۔ 2 اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔
[٩٠] معیشۃ ضنکا کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر ہمیشہ تنگ دستی غالب رہے گی۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ انھیں قناعت اور قلبی سکون کبھی میسر نہ آئے گا۔ اور اگر مالدار ہوں گے تو ہمیشہ ننانوے کے چکر میں پڑے رہیں گے۔ نہ رات کو سکون نصیب ہوگا اور نہ دن کو اور اگر تنگ دست ہیں تو اپنی تکلیفوں اور مصیبتوں پر واویلا کرتے رہیں گے اور جزع فزع میں ہی ان کی زندگی میں ہی ان کی زندگی بسر ہوجائے گی اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کافر کے پاس خواہ کتنا ہی مال و دولت ہو خیر اس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ یہی مال و دولت چند روزہ عیش کے بعد اس کے لئے وبال جان بن جائے گا اور بعض مفسرین نے اس سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے۔ یعنی قیامت سے پہلے ہی ان پر تنگی کا ایسا دور آئے گا کہ قبر کی زمین بھی ان پر تنگ کردی جائے گی اور یہ تفسیر بعض صحابہ سے مروی ہے۔ بہرحال اس لفظ کے تحت یہ سب صورتیں داخل ہوسکتی ہیں۔
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ : ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی نصیحت ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] ” بیشک ہم، ہم نے ہی یہ ذکر یعنی نصیحت نازل کی ہے اور بیشک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔ “- فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا : ” مَعِيْشَةً “ زندگی، وہ چیزیں جن پر زندگی گزرتی ہے، مثلاً کھانا پینا اور دوسری ضروریات۔ (قاموس) ” ضَنْكًا “ ” ضَنُکَ یَضْنُکُ ضَنْکًا وَضُنَاکًا وَ ضَنَاکَۃً “ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، اس لیے ” مَعِيْشَةً “ کی صفت ہونے کے باوجود لفظ میں تبدیلی نہیں ہوئی، یہ واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے ایک ہی رہتا ہے، یعنی وہ تنگی والی زندگی گزارے گا۔ اس کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے، اس لیے وہ سب سے راجح ہے۔ صحیح ابن حبان میں ہے کہ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ عزو جل کے اس قول ” فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا “ کے متعلق روایت کیا، آپ نے فرمایا : ( عَذَابُ الْقَبْرِ ) ”(مراد) عذاب قبر ہے۔ “ ” اَلتَّفْسِیْرُ الصَّحِیْحُ الْمَسْبُوْرُ “ میں اسے الاحسان (٣١١٩) ، مستدرک حاکم (١؍٣٨١، ح : ١٤٠٥) اور کئی کتابوں سے نقل کیا گیا ہے اور مختلف ائمہ سے اس کا حسن، جید یا صحیح ہونا بھی نقل کیا گیا ہے۔- امام طبری نے ابن عباس (رض) سے حسن سند کے ساتھ اس کی تفسیر ” الشقاء “ فرمائی ہے۔ ” الشقاء “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة طہ (٢) ” مَعِيْشَةً ضَنْكًا “ کے الفاظ میں دنیا اور قبر دونوں کی تنگ زندگی شامل ہے۔ اللہ کی نصیحت سے منہ موڑنے والا شخص اللہ پر توکل اور اس کے عطا کردہ پر قناعت سے محرومی کی وجہ سے ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال و جاہ کی ہوس میں مبتلا رہتا ہے۔ مال کی دو وادیاں ملنے پر تیسری کی تلاش میں چل نکلتا ہے۔ باؤلے کتے کی پیاس کی طرح اس کی حرص ختم نہیں ہوتی۔ اربوں کھربوں کا مالک ہونے کے باوجود فقیر ہوتا ہے، حرص اور بخل کی کمینگی کی وجہ سے اسے کسی کی دلی محبت حاصل نہیں رہتی۔ اموال و اولاد اس کے لیے راحت بننے کے بجائے اللہ کی طرف سے عذاب بن جاتے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٥٥، ٨٥) پھر وہ وقت آجاتا ہے کہ اسے گولیوں کے بغیر نیند نہیں آتی اور ہر آسائش حاصل ہوتے ہوئے بھی اسے اس رنج و الم سے بھری ہوئی زندگی سے چھٹکارے کی کوئی صورت خود کشی کے سوا نظر نہیں آتی۔ یقین نہ ہو تو جاپان، سویڈن، ناروے وغیرہ میں خود کشی کا تناسب دیکھ لیں۔ - وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰی : دنیا میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے کان اور آنکھیں بند کرلینے اور حق کو تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں قیامت کے دن اسے اندھا، گونگا اور بہرا کرکے اٹھایا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہے۔ دیکھیے سورة معارج (٤) اس کے مختلف اوقات میں لوگوں کے احوال مختلف ہوں گے۔ قبر سے اٹھتے وقت وہ اندھا ہوگا، پھر جہنم کی ہولناکی اور اہل ایمان کی عزت دکھانے کے لیے بینا کردیا جائے گا۔ دیکھیے سورة طور (١٤، ١٥) اور سورة مریم (٣٨) ۔
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ ، یہاں ذکر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک بھی جیسا کہ دوسری آیات میں ذکراً رسولاً آیا ہے دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا رسول سے اعراض کرے یعنی قرآن کی تلاوت اور اس کے احکام پر عمل سے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے اعراض کرے اس کا انجام یہ ہے کہ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى یعنی اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں اس کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔ پہلا عذاب دنیا ہی میں اس کو مل جائے گا اور دوسرا یعنی اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا۔- کافر اور بدکار کی زندگی دنیا میں تلخ اور تنگ ہونے کی حقیقت :- یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کے لئے مخصوص نہیں، مؤمنین صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا کی زندگی میں اٹھانے پڑتے ہیں۔ صحیح بخاری اور تمام کتب حدیث میں روایت سعد وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیاء پر سخت ہوتی ہیں ان کے بعد جو جس درجہ کا صالح اور ولی ہے اسی کی مناسبت سے اس کو یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عموماً کفار و فجار کو خوشحال اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے تو پھر یہ ارشاد قرآنی کہ ان کی معیشت تنگ ہوگی آخرت کے لئے تو ہوسکتا ہے دنیا میں خلاف مشاہدہ معلوم ہوتا ہے۔- اس کا صاف بےغبار جواب تو یہ ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے کہ قبر میں ان کی معیشت تنگ کردی جاوے گی۔ خود قبر جو ان کا مسکن ہوگا وہ ان کو ایسا دبائے گا کہ ان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیسا کہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسند بزار میں بسند جید حضرت ابوہریرہ سے یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس آیت کے لفظ مَعِيْشَةً ضَنْكًا کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مراد قبر کا عالم ہے۔ (مظہری)- اور حضرت سعید بن جبیر نے تنگی معیشت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ان سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جاوے گا اور حرص دنیا بڑھا دی جاوے گی (مظہری) جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت جمع ہوجائے کبھی قلبی سکون اس کو نصیب نہیں ہوگا ہمیشہ مال بڑھانے کی فکر اور اس میں نقصان کا خطرہ اس کو بےچین رکھے گا۔ اور یہ بات عام اہل تمول میں مشاہد و معروف ہے جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس سامان راحت تو بہت جمع ہوجاتا ہے مگر جس کا نام راحت ہے وہ نصیب نہیں ہوتی کیونکہ وہ قلب کے سکون و اطمینان کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى ١٢٤- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- ضنك - قال تعالی: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] . أي : ضيّقا، وقد ضَنُكَ عيشُهُ ، وامرأة ضِنَاكٌ: مُكْتَنِزَةٌ ، والضُّنَاكُ : الزُّكَامُ ، والمَضْنُوكُ : المزکوم .- ( ض ن ک )- الضنک کے معنی کسی مقام یا معشیت کی تنگی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ان کی معشیت تنگ ہوجائے گی ۔ کہا جاتا ہے ضنک عیشتہ ۔ ا س کی معشیت تنگ ہوگئی ،۔ امرءۃ ضناک گھٹیلے جسم والی عورت ۔ نیز ضناک کے معنی زکام بھی آجاتے ہیں ۔ اس سے زکام زدہ آدمی کو مضنوک کہا جاتا ہے ۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے
(١٢٤) اور جو شخص میری توحید سے یا میری کتاب اور میرے رسول سے منہ پھیرے گا تو اس کو قبر میں یا دوزخ میں سخت ترین عذاب ہوگا اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
آیت ١٢٤ (وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا) ” - ایسا شخص دنیوی زندگی میں اطمینان اور راحت سے محروم کردیا جائے گا۔ پیاس کے مریض کی طرح (کہ وہ جتنا چاہے پانی پی لے اس کی پیاس ختم نہیں ہوتی) ایسے شخص کی ہوس کبھی ختم نہ ہوگی۔ کروڑوں حاصل کر کے بھی مزید کروڑوں کی خواہش اس کا چین اور اطمینان غارت کیے رکھے گی۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :105 دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہو گی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہو گا ۔ کروڑ پتی بھی ہو گا تو بے چین رہے گا ۔ ہفت اقلیم کا فرمانروا بھی ہو گا تو بےکلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا ۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گرد و پیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :106 اس جگہ آدم علیہ السلام کا قصہ ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ قصہ جس طریقے سے یہاں ، اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے سے میں یہ سمجھا ہوں ( واللہ اعلم بالصواب ) کہ زمین کی اصل خلافت وہی تھی جو آدم علیہ السلام کو ابتداءً جنت میں دی گئی تھی ۔ وہ جنت ممکن ہے کہ آسمانوں میں ہو اور ممکن ہے کہ اسی زمین پر بنائی گئی ہو ۔ بہرحال وہاں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اس شان سے رکھا گیا تھا کہ اس کے کھانے پینے اور لباس و مکان کا سارا انتظام سرکار کے ذمہ تھا اور خدمت گار ( فرشتے ) اس کے حکم کے تابع تھے ۔ اس کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قطعاً کوئی فکر نہ کرنی پڑتی تھی ، تاکہ وہ خلافت کے بزرگ تر اور بلند تر وظائف ادا کرنے کے لیے مستعد ہو سکے ۔ مگر اس عہدے پر مستقل تقرر ہونے سے پہلے امتحان لینا ضروری سمجھا گیا تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کا حال کھل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ اس کی کمزوریاں کیا ہیں اور خوبیاں کیا ۔ چنانچہ امتحان لیا گیا اور جو بات کھلی وہ یہ تھی کہ یہ امیدوار تحریص و اطماع کے اثر میں آ کر پھسل جاتا ہے ، اطاعت کے عزم پر مضبوطی سے قائم نہیں رہتا ، اور اس کے علم پر نسیان غالب آ جاتا ہے ۔ اس امتحان کے بعد آدم اور ان کی اولاد کو مستقل خلافت پر مامور کرنے کے بجائے آزمائش کے دور میں امیدواروں کے لیے معیشت کا سرکاری انتظام ختم کر دیا گیا ۔ اب اپنی معاش کا انتظام انہیں خود کرنا ہے ۔ البتہ زمین اور اس کی مخلوقات پر ان کے اختیارات برقرار ہیں ۔ آزمائش اس بات کی ہے کہ اختیار رکھنے کے باوجود یہ اطاعت کرتے ہیں یا نہیں ، اور اگر بھول لاحق ہوتی ہے ، یا تحریص و اطماع کے اثر میں آکر پھسلتے ہیں ، تو تنبیہ ، تذکیر اور تعلیم کا اثر قبول کر کے سنبھلتے بھی ہیں یا نہیں ؟ اور ان کا آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے ، طاعت کا یا معصیت کا ؟ اس آزمائشی خلافت کے دوران میں ہر ایک کے طرز عمل کا ریکارڈ محفوظ رہے گا ۔ اور یوم الحساب میں جو لوگ کامیاب نکلیں گے انہی کو پھر مستقل خلافت ، اس دائمی زندگی اور لازوال سلطنت کے ساتھ جس کا لالچ دے کر شیطان نے حکم کی خلاف ورزی کرائی تھی ، عطا کی جائے گی ۔ اس وقت یہ پوری زمین جنت بنا دی جائے گی اور اس کے وارث خدا کے وہ صالح بندے ہوں گے جنہوں نے آزمائشی خلافت میں طاعت پر قائم رہ کر ، یا بھول لاحق ہونے کے بعد بالآخر طاعت کی طرف پلٹ کر اپنی اہلیت ثابت کر دی ہو گی ۔ جنت کی اس زندگی کو جو لوگ محض کھانے پینے اور اینڈنے کی زندگی سمجھتے ہیں ان کا خیال صحیح نہیں ہے ۔ وہاں پیہم ترقی ہوگی بغیر اس کے کہ اس کے لیے کسی تنزل کا خطرہ ہو ۔ اور وہاں خلافت الہٰی کے عظیم الشان کام انسان انجام دے گا بغیر اس کے کہ اسے پھر کسی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے ۔ مگر ان ترقیات اور ان خدمات کا تصور کرنا ہمارے لیے اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک بچے کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بڑا ہو کر جب وہ شادی کرے گا تو ازدواجی زندگی کی کیفیات کیا ہوں گی اسی لیے قرآن میں جنت کی زندگی کے صرف انہی لذائذ کا ذکر کیا گیا ہے جن کا ہم اس دنیا کی لذتوں پر قیاس کر کے کچھ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ آدم و حوا کا قصہ جس طرح بائیبل میں بیان ہوا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا ۔ اور خداوند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا ۔ اور باغ کے بیچ میں حیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا ۔ اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا ۔ کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ۔ اور خداوند خدا اس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر اسے آدم کے پاس لایا ، ۔ اور آدم اور اس کی بیوی دونوں ننگے تھے اور شرماتے نہ تھے ۔ اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا ، چالاک تھا ، اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا ؟ سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ رکو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے ۔ چنانچہ عورت نے اس کا پھل لے کر کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلایا ۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے لنگیاں بنائیں ۔ اور انہوں نے خداوند خدا کی آواز ، جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا ، سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا ۔ پھر خدا نے آدم کو پکارا کہ تو کہاں ہے ۔ اس نے کہا کہ میں تیری آواز سن کر ڈرا اور چھپ گیا کیونکہ میں ننگا تھا ۔ خدا نے کہا ارے ، تجھ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ تو ننگا ہے ۔ ضرور تو نے اس درخت کا پھل کھایا ہو گا جس سے میں نے منع کیا تھا ۔ آدم نے کہا کہ مجھے حوا نے اس کا پھل کھلایا ، اور حوا نے کہا مجھے سانپ نے بہکایا تھا ۔ اس پر خدا نے سانپ سے کہا اس لیے کہ تو نے یہ کیا تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا ۔ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا ۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا ۔ اور عورت کو یہ سزا دی کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا ، تو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا ۔ اور آدم کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور میرے حکم کے خلاف کیا اس لیے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی ، مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا .......... تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا ۔ پھر خداوند نے آدم اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر ان کو پہنائے ۔ اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا ۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے ۔ اس لیے خداوند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کر دیا ( پیدائش ، باب 2 ۔ آیات 7 ۔ 25 ۔ باب 3 ۔ آیات 1 ۔ 23 ) ۔ بائیبل کے اس بیان اور قرآن کے بیان کو ذرا وہ لوگ بالمقابل رکھ کر دیکھیں جو یہ کہتے ہوئے نہیں شرماتے کہ قرآن میں یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے گئے ہیں ۔
54: جب قبر سے اٹھا کر حشر کی طرف لائے جائیں گے، اس وقت تو یہ لوگ اندھے ہوں گے، لیکن بعد میں انہیں بینائی دے دی جائے گی، جیسا کہ سورۃ کہف : 53 سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ کو دیکھیں گے۔