Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی اللہ تعالیٰ یہ جواب دیں گے کہ ہم اسی طرح لوگوں کو اس سے ملتا جاتا ہی مثل صورت میں بدلہ دیا کرتے ہیں۔ تو نے ہماری آیات سن کر ان سنی کردی تھیں اور ہمیں بھول ہی گیا تھا۔ آج ہم بھی تمہیں بھلائے دیتے ہیں اور تو ہماری رحمت سے دور ہی رہے گا۔ یہ سزا تو وہ ہے جو تمہیں تمہارے اعمال کے مطابق اس میدان محشر میں دی جارہی ہے اور جو عذاب تمہیں ابھی مزید دیا جانے والا ہے۔ وہ اس سے سخت تر بھی ہوگا اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ ۔۔ : ” كَذٰلِكَ “ (اسی طرح) سے مراد ” اندھا ہونا “ ہے، جس کا ذکر سوال میں ہے کہ پروردگار تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ جواب ملے گا : (كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا) کہ اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا۔ دونوں آیتوں کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ ایک لمبی بات کو اس طرح مختصر کیا گیا ہے کہ حذف شدہ الفاظ خود بخود سمجھ میں آ رہے ہیں۔ سوال میں اندھے ہونے کا ذکر ہے، جواب میں بھلانے کا ذکر ہے۔ یہ اختصار تین جگہوں پر ہے، پہلا اختصار ” وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ( وَ نَنْسَاہُ ) “” ہم قیامت کے دن اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے (اور اسے بھلا دیں گے) “ دوسرا اور تیسرا اختصار ” قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَهَا (وَ عَمِیْتَ عَنْھَا) وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ (وَ تُحْشَرُ أَعْمٰی) “ ” وہ فرمائے گا، اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا (اور ان سے اندھا بن گیا) اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا (اور اندھا کرکے اٹھایا جائے گا) ۔ “ اسے بلاغت کی اصطلاح میں ” اِحْتِبَاکٌ“ کہتے ہیں۔ (ابن عاشور)- واضح رہے کہ آیات کو بھلانے سے مراد یہاں ان پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا ہے، حفظ کرنے کے بعد بھول جانا مراد نہیں۔ اس کی دلیل اگلی آیت ہے : (وَكَذٰلِكَ نَجْزِيْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْۢ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ) [ طٰہٰ : ١٢٧ ] ” اور اسی طرح ہم اس شخص کو جزا دیتے ہیں جو حد سے گزرے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہ لائے۔ “ ایمان لانے والا شخص جو حفظ کے بعد کسی بیماری یا مصروفیت کی وجہ سے کچھ آیات بھول جائے، وہ اس میں داخل نہیں ہے۔- 3 قرآن یاد کرنے کے بعد بھول جانے پر وعید کی کوئی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ چند ضعیف روایات درج ذیل ہیں : 1 مسند احمد (٥؍٢٨٥، ح : ٢٢٥٢٤) میں سعد بن عبادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَمَا مِنْ رَجُلٍ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَنَسِیَہٗ إِلاَّ لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ یَلْقَاہٗ وَھُوَ أَجْذَمُ ) ” اور کوئی بھی شخص جو قرآن پڑھے پھر اسے بھول جائے، وہ اللہ تعالیٰ سے جس دن ملے گا تو اس حال میں ملے گا کہ کوڑھی ہوگا۔ “ اس کی ایک سند میں عیسیٰ بن فائد مجہول راوی ہے، اس کا شیخ بھی مجہول ہے۔ دوسری سند میں بھی عیسیٰ بن فائد مجہول ہے۔ 2 سنن ابو داؤد (٤٦١) اور ترمذی (٢٩١٦) میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عُرِضَتْ عَلَیَّ أَجُوْرُ أُمَّتِیْ حَتَّی الْقَذَاۃُ یُخْرِجُھَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَعُرِضَتْ عَلَیَّ ذُنُوْبُ أُمَّتِیْ فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُوْرَۃٍ مِنَ الْقُرْآنِ أُوْتِیَھَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِیَھَا ) ” میرے سامنے میری امت کے اجر پیش کیے گئے، یہاں تک کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے نکالے اور میرے سامنے میری امت کے گناہ پیش کیے گئے، تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی آدمی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت عطا کی گئی پھر اس نے اسے بھلا دیا۔ “ شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے فرمایا کہ اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ ابن جریج اور مطلب بن عبداللہ دونوں مدلس ہیں اور اسے ” عن “ کے لفظ سے روایت کرتے ہیں اور بخاری اور ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ضعیف ابی داؤد (٧١) ۔- 3 ضعیف اور موضوع روایات نے امت کو کس قدر نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دیکھا کہ وہ ان روایات ہی کی وجہ سے قرآن حفظ کرنے سے محروم رہے، حالانکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جسے کسی مصروفیت یا بیماری یا غفلت کی وجہ سے قرآن بھول جائے وہ اس شخص سے ہزار گنا بہتر ہے جس نے قرآن پڑھا ہی نہیں، یا یاد ہی نہیں کیا، کیونکہ وہ اس سے تو ہر حال میں قرآن کا علم زیادہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اسے سب سے بڑے گناہ شرک کے قائم مقام قرار دینا یا کوڑھی ہونے کا باعث قرار دینا راویوں کی جہالت اور تدلیس ہی کا کارنامہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝ ٠ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝ ١٢٦- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٦) ارشاد ہوگا ایسا ہی ہے کیوں کہ تیرے پاس ہماری کتاب اور ہمارا رسول آیا تھا اور تو نے نہ ان کا اقرار کیا اور نہ اس پر عمل کیا اسی طرح آج تیرے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور تجھے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :107 قیامت کے روز نئی زندگی کے آغاز سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جو مختلف کیفیات مجرمین پر گزریں گی ان کو قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جدا جدا بیان کیا گیا ہے ۔ ایک کیفیت یہ ہے : لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ، تو اس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا ، اب ہم نے تیرے آگے سے پردہ ہٹا دیا ہے ، آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے ۔ یعنی تجھے خوب نظر آ رہا ہے ۔ ( ق ۔ آیت 22 ) ۔ دوسری کیفیت یہ ہے : اِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ مُھْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُؤسِھِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُھُمْ وَاَفْئِدَتُھُمْ ھَوَ آء ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ، سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل ہیں کہ اڑے جاتے ہیں ( ابراہیم ۔ آیت 43 ) ۔ تیسری کیفیت یہ ہے : وَنُخْرِجُ لَہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَاباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْراً ہ اِقْرأ کِتَابَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً ہ اور قیامت کے روز ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب پائے گا ۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ( بنی اسرائیل ۔ آیات 13 ۔ 14 ) ۔ انہی کیفیات میں سے ایک یہ بھی ہے جو آیت زیر بحث میں بیان ہوئی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ لوگ آخرت کے ہولناک مناظر اور اپنی شامت اعمال کے نتائج کو تو خوب دیکھیں گے ، لیکن بس ان کی بینائی یہی کچھ دیکھنے کے لیے ہو گی ۔ باقی دوسری حیثیتوں سے انکا حال اندھے کا سا ہو گا جسے اپنا راستہ نظر نہ آتا ہو ، جو نہ لاٹھی رکھتا ہو کہ ٹٹول کر چل سکے نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کے چلانے والا ہو ، قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہو ، اور اس کو کچھ نہ سوجھتا ہو کہ کدھر جائے اور اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرے ۔ اسی کیفیت کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے کہ جس طرح تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج تو بھلایا جا رہا ہے یعنی آج کوئی پروا نہ کی جائے گی کہ تو کہاں کہاں ٹھوکریں کھا کر گرتا ہے اور کیسی کیسی محرومیاں برداشت کر رہا ہے ۔ کوئی تیرا ہاتھ نہ پکڑے گا ، کوئی تیری حاجتیں پوری نہ کرے گا ، اور تیری کچھ بھی خبر گیری نہ کی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani