Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

135۔ 1 یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔ 135۔ 2 اس کا علم تمہیں اس سے ہوجائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے ؟ چناچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] یعنی اب تم بھی اور ہم بھی بلکہ سارے کا سارا عرب اس انتظام میں ہے کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لہذا انتظار کرو۔ عنقریب سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون سا فریق سیدھی راہ پر گامزن ہے ؟ زمانہ کی گردش کس پر پڑتی ہے اور تباہ کون ہوتا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا ۔۔ : ” كُلٌّ“ کی تنوین اس کے محذوف مضاف الیہ کی جگہ آئی ہے، یعنی ” کُلُّ وَاحِدٍ “ ہر ایک، مطلب یہ ہے کہ اگر پہلی کتابوں میں موجود واضح دلائل تمہارے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں اور تمہیں اپنی مرضی کی نشانی دیکھنے پر اصرار ہے تو تم ایمان لانے کے لیے نشانی کا انتظار کرتے رہو، ہم تمہارے لیے دنیا میں اللہ کی گرفت اور آخرت میں اس کے عذاب کا انتظار کر رہے ہیں۔ جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ سیدھے راستے والے کون ہیں اور وہ کون ہے جس نے ہدایت پالی ہے ؟ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے راہ حق پر ہونے کے یقین کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ اتنے دعوے سے یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا مکمل یقین ہو۔- فَتَرَبَّصُوْا : امر کے ساتھ اگر قرینہ بھی ہو تو وہ دوام کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں قرینہ یہ ہے کہ انتظار اس وقت تک جاری رہنا ہے جب تک وہ چیز وجود میں نہ آئے جس کا انتظار ہے۔ انتظار کا یہ حکم وعید اور خبردار کرنے کے لیے ہے۔ اسے متارکہ کہتے ہیں، یعنی ہم نے تمہیں تمہاری انتظار کی حالت پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ ہمیں تمہارے برے انجام کا یقین ہے۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة سجدہ (٣٠) اور سورة توبہ (٥٢) تاریخ شاہد ہے کہ بہت جلد کفار کو مسلمانوں کا راہ راست پر ہونا معلوم ہوگیا۔ بدر کے دن ان کو جو اسلام نہیں لائے، مثلاً ابوجہل اور کفر و شرک کے دوسرے ہلاک ہونے والے سردار اور ان کو بھی جو مسلمان ہوگئے، مثلاً ابوسفیان اور خالد بن ولید (رض) اور ان سب کو جنھوں نے جزیرۂ عرب، شام، عراق، ایران، مصر اور پھر زمین کے مشرق و مغرب پر اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی بات پوری ہوئی۔ ” جلد ہی جان لو گے “ میں یہ بھی شامل ہے کہ بہت جلد قیامت کے دن تمہیں اس بات کا علم الیقین اور عین الیقین حاصل ہوجائے گا۔ کیونکہ ” کُلُّ آتٍ قَرِیْبٌ“ کہ آنے والی ہر چیز قریب ہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاط السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدٰى، یعنی آج تو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو زبان دی ہوئی ہے ہر ایک اپنے طریقے اور اپنے عمل کے بہتر اور صحیح ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن یہ دعویٰ کچھ کام دینے والا نہیں۔ بہتر اور صحیح طریقہ تو وہی ہوسکتا ہے جو اللہ کے نزدیک مقبول و صحیح ہو، اور اس کا پتہ قیامت کے روز سب کو لگ جائے گا کہ کون غلطی اور گمراہی پر تھا کون صحیح اور سیدھے راستہ پر، اللھم اھدنا لما اختلف فیھا الی الحق باذنک ولاحول ولاقوة الا بک ولا ملجا ولا منجا منک الا الیک۔- الحمد للہ الذی و فقنی لتکمیل سورة طہ ضحی یوم الخمیس، لاربعة عشر خلت من ذی الحجة الحرام 1390 ھ واللہ سبحانہ وتعالی اسال لتکمیل باقی القرآن واللہ المستعان وعلیہ التکلان

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ كُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا۝ ٠ۚ فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اہْتَدٰى۝ ١٣٥ۧ- ربص - التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ- [ البقرة 228] ، قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ، قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] ، وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ [ التوبة 98] .- ( ر ب ص ) التربص - کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں ۔ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُتَرَبِّصِينَ [ الطور 31] ان سے کہو کہ ( بہت اچھا ) تم ( بھی ) انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ [ التوبة 52] اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ( خواہ نخواہ ) ایک نہ ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے حق میں انتظار کرتے ہیں ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - صرط - الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . - سرط - السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من :- سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام :- 231-- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه - «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه .- ( ص ر ط ) الصراط - ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو - ( س ر ط) السراط - کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمادیجیے ہم میں سے اور تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی ہلاکت کا انتظار کر رہا ہے تو تھوڑا سا مزید انتظار کرلو۔- قیامت کے نزول عذاب کے وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ راہ راست پر کون ہیں اور ہم میں سے اور تم میں سے وہ کون ہے جسے دولت ایمان نصیب ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :117 یعنی جب سے یہ دعوت تمہارے شہر میں اٹھی ہے ، نہ صرف اس شہر کا بلکہ گرد و پیش کے علاقے کا بھی ہر شخص انتظار کر رہا ہے کہ اس کا انجام آخر کار کیا ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: یعنی دلیلیں اور حجتیں تو ساری تمام ہوچکیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا تم بھی انتظار کرو، اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہر شخص کے سامنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو کر واضح ہوجائے گا۔