معجزات کی نوعیت ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دوسرا معجزہ دیا جاتا ہے حکم ہوتا ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر پھر اسے نکال لو تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا روشن بن کر نکلے گا ۔ یہ نہیں کہ برص کی سفیدی ہو یا کوئی بیماری اور عیب ہو ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چراغ کی طرح روشن نکلا جس سے آپ کا یہ یقین کہ آپ اللہ تعالیٰ سے کلام کر رہے ہیں اور بڑھ گیا ۔ یہ دونوں معجزے یہیں اسی لئے ملے تھے کہ آپ اللہ کی ان زبردست نشانیوں کو دیکھ کر یقین کرلیں ۔ فرعون کے سامنے کلمہ حق ۔ پھر حکم ہوا کہ فرعون نے ہماری بغاوت پر کمر کس لی ہے ، اس کے پاس جا کر اسے سمجھاؤ ۔ وہب رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قریب ہونے کا حکم دیا یہاں تک کہ آپ اس درخت کے تنے سے لگ کر کھڑے ہو گئے ، دل ٹھہر گیا ، خوف و خطرہ دور ہو گیا ۔ دونوں ہاتھ اپنی لکڑی پر ٹکا کر سرجھکا کر گردن خم کر کے با ادب ارشاد الٰہی سننے لگے تو فرمایا گیا کہ ملک مصر کے بادشاہ فرعون کی طرف ہمارا پیغام لے کر جاؤ ، یہیں سے تم بھاگ کر آئے ہو ۔ اس سے کہو کہ وہ ہماری عبادت کرے ، کسی کو شریک نہ بنائے ، بنو اسرائیل کے ساتھ سلوک و احسان کرے ، انہیں تکلیف اور ایذاء نہ دے ۔ فرعون بڑا باغی ہو گیا ہے ، دنیا کا مفتون بن کر آخرت کو فراموش کر بیٹھا ہے اور اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا ہے تو میری رسالت لے کر اس کے پاس جا ۔ میرے کان اور میری آنکھیں تیرے ساتھ ہیں ، میں تجھے دیکھتا بھالتا اور تیری باتیں سنتا سناتا رہوں گا ۔ میری مدد تیرے پاس ہو گی میں نے اپنی طرف سے تجھے حجتیں عطا فرما دی ہیں اور تجھے قوی اور مضبوط کر دیا ہے تو اکیلا ہی میرا پورا لشکر ہے ۔ اپنے ایک ضعیف بندے کی طرف تجھے بھیج رہا ہوں جو میری نعمتیں پاکر پھول گیا ہے اور میری پکڑ کو بھول گیا ہے دنیا میں پھنس گیا اور غرور تکبر میں دھنس گیا ہے ۔ میری ربوبیت سے بیزار ، میری الوہیت سے برسر پیکار ہے ۔ مجھ سے آنکھیں پھیر لی ہیں ، دیدے بدل لئے ہیں ۔ میری پکڑ سے غافل ہو گیا ہے ۔ میرے عذابوں سے بےخوف ہو گیا ہے ۔ مجھے اپنی عزت کی قسم اگر میں اسے ڈھیل دینا نہ چاہتا تو آسمان اس پر ٹوٹ پڑتے زمین اسے نگل جاتی دریا اسے ڈبو دیتے لیکن چونکہ وہ میرے مقابلے کا نہیں ہر وقت میرے بس میں ہے میں اسے ڈھیل دیے ہوئے ہوں اور اس سے بےپرواہی برت رہا ہوں ۔ میں ہوں بھی ساری مخلوق سے بےپرواہ ۔ حق تو یہ ہے کہ بےپروائی صرف میری ہی صفت ہے ۔ تو میری رسالت ادا کر ، اسے میری عبادت کی ہدایت کر ، اسے توحید و اخلاص کی دعوت دے ، میری نعمتیں یاد دلا ، میرے عذابوں سے دھمکا ، میرے غضب سے ہوشیار کر دے ۔ جب میں غصہ کر بیٹھتا ہوں تو امن نہیں ملتا ۔ اسے نرمی سے سمجھا تاکہ نہ ماننے کا عذر ٹوٹ جائے ۔ میری بخشش کی میرے کرم و رحم کی اسے خبر دے کہہ دے کہ اب بھی اگر میری طرف جھکے گا تو میں تمام بد اعمالیوں سے قطع نظر کرلوں گا ۔ میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔ خبردار اس کا دنیوی ٹھاٹھ دیکھ کر رعب میں نہ آ جانا اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے اس کی زبان چل نہیں سکتی اس کے ہاتھ اٹھ نہیں سکتے اس کی آنکھ پھڑک نہیں سکتی اس کا سانس چل نہیں سکتا جب تک میری اجازت نہ ہو ۔ اسے یہ سمجھا کہ میری مان لے تو میں بھی مغفرت سے پیش آؤں گا ۔ چار سو سال اسے سرکشی کرتے ، میرے بندوں پر ظلم ڈھاتے ، میری عبادت سے لوگوں کو روکتے گزر چکے ہیں ۔ تاہم نہ میں نے اس پر بارش بند کی نہ پیداوار روکی نہ بیمار ڈالا نہ بوڑھا کیا نہ مغلوب کیا ۔ اگر چاہتا ظلم کے ساتھ ہی پکڑ لیتا لیکن میرا حلم بہت بڑھا ہوا ہے ۔ تو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اس سے پوری طرح جہاد کر اور میری مدد پر بھروسہ رکھ میں اگر چاہوں تو اپنے لشکروں کو بھیج کر اس کا بھیجا نکال دوں ۔ لیکن اس بےبنیاد بندے کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میری جماعت کا ایک بھی روئے زمین کی طاقتوں پر غالب آ سکتا ہے ۔ مدد میرے اختیار میں ہے ۔ دنیوی جاہ و جلال کی تو پرواہ نہ کرنا بلکہ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی نہیں ۔ میں اگر چاہوں تو تمہیں اتنا دے دوں کہ فرعون کی دولت اس کے پاسنگ میں بھی نہ آ سکے لیکن میں اپنے بندوں کو عموماً غریب ہی رکھتا ہوں تاکہ ان کی آخرت سنوری رہے یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ میرے نزدیک قابل اکرام نہیں بلکہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ دونوں جہان کی نعمتیں آنے والے جہان میں جمع مل جائیں ۔ میرے نزدیک بندے کا کوئی عمل اتنا وقعت والا نہیں جتنا زہد اور دنیا سے دوری ۔ میں اپنے خاص بندوں کو سکینت اور خشوع خضوع کا لباس پہنا دیتا ہوں ان کے چہرے سجدوں کی چمک سے روشن ہو جاتے ہیں ۔ یہی سچے اولیا اللہ ہوتے ہیں ۔ ان کے سامنے ہر ایک کو با ادب رہنا چاہئے ۔ اپنی زبان اور دل کو ان کا تابع رکھنا چاہئے ۔ سن لے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والا گویا مجھے لڑائی کا اعلان دیتا ہے ۔ تو کیا مجھ سے لڑنے کا ارادہ رکھنے والا کبھی سرسبز ہو سکتا ہے؟ میں نے قہر کی نظر سے اسے دیکھا اور وہ تہس نہس ہوا ۔ میرے دشمن مجھ پر غالب نہیں آ سکتے ، میرے مخالف میرا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے ۔ میں اپنے دوستوں کی خود مدد کرتا ہوں ، انہیں دشمنوں کا شکار نہیں ہونے دیتا ۔ دنیا و آخرت میں انہیں سرخرو رکھتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا بچپن کا زمانہ فرعون کے گھر میں بلکہ اس کی گود میں گزارا تھا جوانی تک ملک مصر میں اسی کی بادشاہت میں ٹھہرے رہے تھے پھر ایک قبطی بے ارادہ آپ کے ہاتھ سے مر گیا تھا جس سے آپ یہاں سے بھاگ نکلے تھے تب سے لے کر آج تک مصر کی صورت نہیں دیکھی تھی ۔ فرعون ایک سخت دل بد خلق اکھڑ مزاج آوارہ انسان تھا غرور اور تکبر اتنا بڑھ گیا تھا کہ کہتا تھا کہ میں اللہ کو جانتا ہی نہیں اپنی رعایا سے کہتا تھا کہ تمہارا اللہ میں ہی ہوں ملک و مال میں دولت و متاع میں لاؤ لشکر اور کفر میں کوئی روئے زمین پر اس کے مقابلے کا نہ تھا ۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسے ہدایت کرنے کا حکم ہوا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام میں آسانی پیدا کر دے اگر تو خود میرا مددگار نہ بنا تو یہ سخت بار میرے کمزور کندھے نہیں اٹھا سکتے ۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ چونکہ آپ کے بچپن کے زمانے میں آپ کے سامنے کھجور اور انگارے رکھے گئے تھے آپ نے انگارہ لے کر منہ میں رکھ لیا تھا اس لئے زبان میں لکنت ہو گئی تھی تو دعا کی کہ میرے زبان کی گرہ کھل جائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس ادب کو دیکھئے کہ قدر حاجت سوال کرتے ہیں یہ نہیں عرض کرتے کہ میری زبان بالکل صاف ہو جائے بلکہ دعا یہ کرتے ہیں کہ گرہ کھل جائے تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں ۔ انبیاء علیہم السلام اللہ سے صرف حاجت روائی کے مطابق ہی عرض کرتے ہیں آگے نہیں بڑھتے ۔ چنانچہ آپ کی زبان میں پھر بھی کچھ کسر رہ گئی تھی جیسے کہ فرعون نے کہا تھا کہ کیا میں بہتر ہوں یا یہ؟ جو فرد مایہ ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک گرہ کھلنے کی دعا کی تھی جو پوری ہوئی اگر پوری کی دعا ہوتی تو وہ بھی پوری ہوتی ۔ آپ نے صرف اسی قدر دعا کی تھی کہ آپ کی زبان ایسی کر دی جائے کہ لوگ آپ کی بات سمجھ لیا کریں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ الزام قتل رکھ کر قتل نہ کر دیں اس کی دعا کی جو قبول ہوئی ۔ زبان میں اٹکاؤ تھا اس کی بابت دعا کی کہ اتنی صاف ہو جائے کہ لوگ بات سمجھ لیں یہ دعا بھی پوری ہوئی ۔ دعا کی کہ ہارون کو بھی نبی بنا دیا جائے یہ بھی پوری ہوئی ۔ حضرت محمد بن کعب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ان کے ایک رشتے دار آئے اور کہنے لگے یہ تو بڑی کمی ہے کہ تم بولنے میں غلط بول جاتے ہو ۔ آپ نے فرمایا بھتیجے کیا میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کہا ہاں سمجھ میں تو آ جاتی ہے کہا بس یہی کافی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ سے یہی اور اتنی ہی دعا کی تھی ۔ پھر اور دعا کی کہ میری خارجی اور ظاہری امداد کے لئے میرا وزیر بنا دے اور ہو بھی وہ میرے کنبے میں سے ۔ یعنی میرے بھائی ہارون کو نبوت عطا فرما ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اسی وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہی نبوت عطافرمائی گئی ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عمرے کے لئے جاتے ہوئے کسی اعرابی کے ہاں مقیم تھیں کہ سنا ایک شخص پوچھتا ہے کہ دنیا میں کسی بھائی نے اپنے بھائی کو سب سے زیادہ نفع پہنچایا ہے اس سوال پر سب خاموش ہوگئے اور کہہ دیا کہ ہمیں اس کا علم نہیں ۔ اس نے کہا اللہ کی قسم مجھے اس کا علم ہے ۔ صدیقہ فرماتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا دیکھو یہ شخص کتنی بےجا جسارت کرتا ہے بغیر انشاء اللہ کی قسم کھا رہا ہے ۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ اس نے جواب دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کہ اپنے بھائی کو اپنی دعا سے نبوت دلوائی ۔ میں بھی یہ سن کر دنگ رہ گئی اور دل میں کہنے لگی بات تو سچ کہی فی الواقع اس سے زیادہ کوئی بھائی اپنے بھائی کو نفع نہیں پہنچا سکتا ۔ اللہ نے سچ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے پاس بڑے آبرو دار تھے ۔ اس دعا کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ میری کمر مضبوط ہو جائے ۔ تاکہ ہم تیری تسبیح اچھی طرح بیان کریں ۔ ہر وقت تیری پاکیزگی بیان کرتے رہیں اور تیری یاد بکثرت کریں ۔ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں بندہ اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والا اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ بیٹھتے اٹھتے اور لیٹتے ذکر اللہ میں مشغول رہے ۔ تو ہمیں دیکھتا ہے یہ تیرا رحم و کرم ہے کہ تو نے ہمیں برگزیدہ کیا ، ہمیں نبوت عطا فرمائی اور ہمیں اپنے دشمن فرعون کی طرف اپنا نبی بنا کر اس کی ہدایات کے لئے مبعوث فرمایا ۔ تیرا شکر ہے اور تیرے ہی لئے تمام تعریفیں سزا وار ہیں ۔ تیری ان نعمتوں پر ہم تیرے شکر گزار ہیں ۔
22۔ 1 بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہوجاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا ( فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕه) 28 ۔ القصص :32) پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے
[١٧] دوسرا معجزہ یہ دیا گیا کہ آپ اپنی بغل میں اپنا دایاں ہاتھ رکھتے پھر نکالتے تو وہ اس قدر چمکتا ہوا نکلتا تھا کہ اس سے نگاہیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ اس سے نہ تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو کچھ تکلیف ہوتی تھی اور نہ ہی یہ کسی بیماری کی علامت تھی اور یہ اس وقت تک چمکتا رہتا تھا جب تک آپ دوبارہ اس اپنی بغل میں نہ لے جاتے تھے۔
وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ ۔۔ : دوسری جگہ اس کی تفصیل آئی ہے کہ حکم ہوا کہ اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے پہلو کے ساتھ لگاؤ گے تو وہ چمکتا ہوا سفید نکلے گا، مگر وہ سفیدی برص وغیرہ جیسا عیب نہیں ہوگی، بلکہ ایک معجزہ ہوگی۔ ” کسی عیب کے بغیر “ کی تصریح اس لیے فرمائی کہ برص کو بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ ، جناح، دراصل جانور کے بازو کو کہا جاتا ہے اس جگہ اپنے بازو کے یعنی بغل میں ہاتھ لگا لینے کا حکم ہوا ہے تاکہ یہ دوسرا معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کیا جاوے کہ جب بغل کے نیچے ہاتھ ڈال کر نکالیں تو آفتاب کی طرح چمکنے لگے حضرت ابن عباس سے تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ کی یہی تفسیر منقول ہے۔ (مظہری)
وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاۗءَ مِنْ غَيْرِ سُوْۗءٍ اٰيَۃً اُخْرٰى ٢٢ۙ- ضم - الضَّمُّ : الجمعُ بين الشّيئين فصاعدا . قال تعالی: وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، والإِضْمَامَةُ : جماعةُ من النّاس أو من الکتب أو الرّيحان أو نحو ذلک «1» ، وأسد ضَمْضَمٌ وضُمَاضِمٌ: يَضُمُّ الشّيءَ إلى نفسه .- وقیل : بل هو المجتمع الخلق، وفرس سبّاقُ الأَضَامِيمِ : إذا سبق جماعة من الأفراس دفعة واحدة .- ( ض م م ) الضم - ( ن) کے معنی دو زیادہ دو سے زیادہ دو چیزوں کو باہم ملا دینا کے ہیں قرآن میں ہے :۔ وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ [ طه 22 اور تم اپنے بازو کو اپنے بغل سے لگا لو ۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور بازو کو سمٹائے رکھو ۔ الاضمامتہ لوگوں کی جماعت کتابوں کا بنڈل گھاس وغیرہ کا گٹھا ۔ اسد ضمضم وضماضم اس شیر کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو اپنی ذات کے لئے اکٹھا کرنے والا ہو ۔ بعض نے اس کے معنی قوی اور مضبوط بھی کئے ہیں ۔ فرس سباق الاضامیم وہ گھوڑا جو بیک وقت گھوڑوں کی ایک جماعت سے سبقت لے جانے ولا ہو ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - جنح - الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین :- ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ،- ( ج ن ح )- الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - بيض - البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] .- والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی:- وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ- [ الصافات 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر :- کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن .- قال الشاعر :- بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض - ( ب ی ض ) البیاض - سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔
(٢٢) اور نیز تم دایاں ہاتھ اپنی بائیں بغل میں دے کر پھر نکالو، وہ بغیر کسی برص بیماریی کے روشن ہو کر چمکتا ہوا نکلے گا یہ عصا کے ساتھ دوسری نشانی ہوگی۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :13 یعنی روشن ایسا ہوگا جیسے سورج ہو ، مگر تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہ ہو گی ۔ بائیبل میں ید بیضاء کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جو وہاں سے نکل کر ہمارے ہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پا گئی ۔ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا ، پھر جب دوبارہ اسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت پر آگیا ۔ یہی تعبیر اس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا ۔ اس لیے اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا بھی ہوتا ہے اور کافور بھی ہو جاتا ہے ۔ لیکن اول تو ذوق سلیم اس سے اِبا کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے ۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو ید بیضاء صرف اس کی ذات کے لیے معجزہ ہو سکتا تھا ، اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رعب طاری ہو تا ۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہو جاتی تھی جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتیں ۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں ۔
9: یعنی جب ہاتھ کو بغل سے نکالو گے تو سفیدی سے چمک رہا ہوگا، اور یہ سفید برص وغیرہ کی کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہوگی