21۔ 1 یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ (علیہ السلام) کے نام سے مشہور ہے
[١٦] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں عصا کو زمین پر جو پھینکا تو وہ اسی وقت سانپ بن گیا اور سانپ بنتے ہی دوڑنے بھی لگا۔ جب وہ آپ کی طرف آیا تو آپ خود بھی اس سے خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں گزند نہ پہنچائے۔ یہ صورت حال دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ اب اسے جرأت کرکے پکڑ لو تو تمہارے ہاتھ لگاتے ہی پھر یہ اپنی پہلی حالت پر آجائے گا یعنی تمہارا وہی پہلا عصا بن جائے گا۔- عصائے موسیٰ کے سانپ کے نام اور اوصاف :۔ لاٹھی کے اس طرح سانپ بن جانے کے لئے قرآن نے مختلف مقامات پر تین الفاظ استعمال کئے ہیں (١) اس مقام پر حیۃ کا لفظ ہے جو ہر قسم کے سانپ کے لئے بولا جاسکتا ہے۔ (٢) جان یعنی سفید پتلا اور لمبا سا سانپ، سانپ کی سٹک (٢٧: ١٠) اور (٣) بہت بڑا سانپ۔ اژدھا (٧: ١٠٧) یعنی لاٹھی جب پھینکی جاتی تو پہلے وہ پتلا سا سانپ بنتی تھی۔ پھر لحظہ بہ لحظہ اس کے جسم میں اضافہ اور تربیت بھی ہونے لگتی تھی۔ تاآنکہ وہ بہت بڑا سانپ بن جاتی تھی۔
قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَف ْ ٠۪ سَنُعِيْدُہَا سِيْرَتَہَا الْاُوْلٰى ٢١- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- سِّيرَةُ- : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا .- السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔
(٢١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں ہم ابھی اس کو پہلی حالت پر لاٹھی بنادیں گے۔
آیت ٢١ (قَالَ خُذْہَا وَلَا تَخَفْوقفۃ) ” - سورۃ النمل (آیت ١٠) اور سورة القصص (آیت ٣١) میں اس واقعہ کے حوالے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خوفزدہ ہوجانے کا ذکر بھی آیا ہے : (فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ ط) ” جب انہوں نے دیکھا کہ وہ (لاٹھی) حرکت کر رہی ہے جیسے کہ وہ ایک سانپ ہو ‘ تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا “۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ آپ ڈریں نہیں بلکہ واپس آئیں اور اس کو پکڑ لیں۔ بہر حال یہاں پر وہ تفصیل بیان نہیں ہوئی ۔