قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ۔۔ : دوسری جگہ فرمایا : (وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ ) [ الشعراء : ١٣ ] ” اور میرا سینہ تنگ ہوتا ہے اور میری زبان چلتی نہیں۔ “ یعنی اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے سے میرے دل میں جو تنگی محسوس ہوتی ہے وہ دور فرما دے اور اس منصب عظیم کا بوجھ اٹھانے کے لیے جس ہمت، پامردی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے وہ میرے دل میں پیدا فرما دے اور میرا تبلیغ رسالت کا کام میرے لیے آسان فرما دے۔
خلا صہ تفسیر - (جب موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ مجھ کو پیغمبر بنا کر فرعون کی فہمائش کے لئے بھیجا جا رہا ہے تو اس وقت اس منصب عظیم کے مشکلات کی آسانی کے لئے درخواست کی اور) عرض کیا کہ اے میرے رب میرا حوصلہ (اور زیادہ) فراخ کر دیجئے (کہ تبلیغ میں انقباض یا تکذیب و مخالفت میں ضیق نہ ہو) اور میرا (یہ) کام (تبلیغ کا) آسان فرما دیجئے (کہ اسباب تبلیغ کے مجتمع اور موانع تبلیغ کے مرتفع ہوجاویں) اور میری زبان پر سے بستگی (لکنت کی) ہٹا دیجئے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں، اور میرے واسطے میرے کنبے میں سے ایک معاون مقرر کر دیجئے یعنی ہارون کو جو میرئے بھائی ہیں ان کے ذریعہ سے میری قوت کو مستحکم کر دیجئے اور ان کو میرے (اس تبلیغ کے) کام میں شریک کر دیجئے (یعنی ان کو بھی نبی بنا کر مامور بالتبلیغ کیجئے کہ ہم دونوں تبلیغ کریں اور میرے قلب کو قوت پہنچے) تاکہ ہم دونوں (مل کر تبلیغ و دعوت کے وقت) آپ کی خوب کثرت سے پاکی (شرک و نقائص سے) بیان کریں اور آپ (کے اوصاف و کمال) کا خوب کثرت سے ذکر کریں (کیونکہ اگر دو شخص مبلغ ہوں گے تو ہر شخص کا بیان دوسرے کی تائید سے وافر اور متکاثر ہوگا) بیشک آپ ہم کو (اور ہمارے حال کو) خوب دیکھ رہے ہیں (اس حالت سے ہماری احتیاج اس امر کی کہ ایک دوسرے کے معاون ہوں آپ کو معلوم ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری (ہر) درخواست (جو کہ رب اشرح لی الخ میں مذکور ہے) منظور کی گئی اے موسیٰ ۔- معارف و مسائل - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب کلام الہٰی کا شرف حاصل ہوا اور منصب نبوت و رسالت عطا ہوا تو اپنی ذات اور اپنی طاقت پر بھروسہ چھوڑ کر خود حق تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ ہوگئے کہ اس منصب عظیم کی ذمہ داریاں اسی کی مدد سے پوری ہوسکتی ہیں اور ان پر جو مصائب اور شدائد آنا لازمی ہیں ان کی برداشت کا حوصلہ بھی حق تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا ہوسکتا ہے اس لئے اس وقت پانچ دعائیں مانگیں، پہلی اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ، یعنی میرا سینہ کھول دے اس میں ایسی وسعت عطا فرما دے جو علوم نبوت کا متحمل ہوسکے اور دعوت ایمان لوگوں تک پہنچانے میں جو ان کی طرف سے سخت سست سننا پڑتا ہے اس کو برداشت کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ ٢٥ۙ- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- شرح - أصل الشَّرْحِ : بسط اللّحم ونحوه، يقال : شَرَحْتُ اللّحم، وشَرَّحْتُهُ ، ومنه : شَرْحُ الصّدر أي : بسطه بنور إلهي وسكينة من جهة اللہ وروح منه . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - [ طه 25] ، وقال : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1] ، أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] ، وشرح المشکل من الکلام : بسطه وإظهار ما يخفی من معانيه .- ( ش ر ح )- شرحت اللحم وشرحتہ کے اصل معنی گوشت ( وغیرہ کے لمبے لمبے ٹکڑے کاٹ کر ) پھیلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے شرح صدر ہے یعنی نور الہی اور سکون و اطمینان کی وجہ سے سینے میں وسعت پیدا ہوجاتا ۔ قران میں ہے : ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي[ طه 25] کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ۔ أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ [ الزمر 22] بھلا جس کا سینہ خدا نے کھول دیا ہو ۔ شرح المشکل من الکلام کے معنی مشکل کلام کی تشریح کرنے اور اس کے مخفی معنی کو ظاہر کر نیکے ہیں ۔ - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔
(٢٥۔ ٢٨) نبوت ملنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے اللہ میرا حوصلہ بڑھائیے تاکہ میں اس سے تبلیغ میں نہ ڈروں اور فرعون کی طرف تبلیغ رسالت کا جو میرا کام ہے اس کو آسان فرما دیجیے اور میری زبان سے لکنت ہٹا دیجیے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
آیت ٢٥ (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ) ” - یہ بہت اہم دعا ہے اور یہ ہر اس شخص کو یاد ہونی چاہیے جو دین کی دعوت کا مشن لے کر نکلا ہو۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تو نے جو عظیم الشان مشن میرے حوالے کیا ہے اس کے لیے اپنی خصوصی مدد میرے شامل حال کر دے اور اس کام کے لیے میرے سینے کو کھول دے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :14 یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے ۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے ۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی ، اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر ، وہ ثبات ، وہ تحمل ، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکار ہے ۔