Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَفْقَـــہُوْا قَوْلِيْ۝ ٢٨۠- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ ) ” (- ظاہر ہے لکنت والے شخص کی گفتگو کو سمجھنے میں لوگ دقت محسوس کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :15 بائیبل میں اس کی تشریح بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے خداوند ، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تو نے اپنے بندے سے کلام کیا ۔ بلکہ رک رک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے ( خروج 10:4 ) ۔ مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصہ بیان ہوا ہے ۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے ، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے ۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں ۔ چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ نے اٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی ۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی ، مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی ۔ یہی قصہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے ہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا ۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے ۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اٹھا کر منہ میں لے جا سکے بچہ تو آگ کی جلن محسوس کرتے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے ۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں آسکتی ہے ؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا ) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی ۔ اس لیے انہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں ۔ یہی چیز تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا ( لَا یَکَادُ یُبِیْنُ ۔ الزُخْرف ۔ 52 ) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون کو مددگار کے طور پر مانگا ۔ سورہ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ، وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً ، میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے ، اس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج ۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی یہ کمزوری دور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے ، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کمال فصاحت و طاقتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں ۔ یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے ۔ رسول ہمیشہ شکل ، صورت ، شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر و باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا ۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani