Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ۔۔ : سورة شعراء کی آیت (١٣) : (وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں وہ روانی نہ تھی جسے وہ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ فرعون کو بھی ان پر طعن کے لیے یہی کمزوری ملی کہ کہا : (وَلَا یَکَادُ یُبِیْنُ ) [ الزخرف : ٥٢ ] ” اور یہ (موسیٰ ) قریب نہیں کہ بات واضح کرے۔ “ اگرچہ فرعون کی بات کا کچھ اعتبار نہیں، کیونکہ جھوٹا الزام لگا دینا اس سے کچھ بعید نہ تھا۔ الغرض اس کے لیے انھوں نے دو دعائیں کیں، ایک تو یہ کہ اے میرے رب میری زبان کی کچھ گرہ کھول دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ لیں۔ کچھ گرہ کا مفہوم ” عُقْدَةً “ کی تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے۔ زبان سے مکمل گرہ دور کرنے کی دعا کے بجائے انھوں نے یہ کہہ کر اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے لیے نبوت کی درخواست کردی کہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں اور میرے اہل خانہ میں سے میرا بوجھ بٹانے والے ہوں گے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے زیادہ بہتر دعا نہیں کی۔ بعض تفاسیر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن میں انگارا منہ میں ڈالنے کا ذکر ہے، مگر وہ اسرائیلی روایات میں سے ہے، جن سے کسی بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ - وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا ۔۔ : یعنی مددگار جو اس عظیم بوجھ کو اٹھانے میں میرا شریک ہو۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ایسے بڑے پیغمبروں کو (ساری) خلق کی طرف بہت (یعنی مکمل) خیال نہیں ہوتا، ایک پیش کار چاہیے کہ خلق کو سہج میں سمجھائے، ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش کار ابوبکر صدیق (رض) تھے، ابتدا میں ابوبکر (رض) کی تبلیغ ہی سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، جن کا شمار کبار صحابہ میں ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری دعا، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ ، یعنی کھول دے میری زبان کی بندش تاکہ لوگ میرا کلام سمجھنے لگیں۔ اس بندش کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دودھ پینے کے زمانے میں تو اپنی والدہ ہی کے پاس رہے اور دریا پار فرعون سے ان کو دودھ پلانے کا وظیفہ اور صلہ ملتا رہا۔ جب دودھ چھڑایا گیا تو فرعون اور اس کی بیوی آسیہ نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا اس لئے والدہ سے واپس لے کر اپنے یہاں پالنے لگے۔ اسی عرصہ میں ایک روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی اور اس کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا اور بعض روایات میں ہے کہ ایک چھڑی ہاتھ میں تھی جس سے کھیل رہے تھے وہ فرعون کے سر پر ماری، فرعون کو غصہ آیا اور اس کے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ بیوی آسیہ نے کہا کہ شاہا، آپ بچے کی بات پر خیال کرتے ہیں جس کو کسی چیز کی عقل نہیں اور اگر آپ چاہیں تو تجزیہ کرلیں کہ اس کو کسی بھلے برے کا امتیاز نہیں۔ فرعون کو تجربہ کرانے کے لئے ایک طشت میں آگ کے انگارے اور دوسرے میں جواہرات لا کر موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دیئے خیال تھا کہ بچہ ہے یہ بچوں کی عادت کے مطابق آگ کے انگارے کو روشن خوبصورت سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا جواہرات کی رونق بچوں کی نظر میں ایسی نہیں ہوتی کہ اس طرف توجہ دیں، اس سے فرعون کو تجربہ ہوجائے گا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ بچپن کی نادانی سے کیا۔ مگر یہاں تو کوئی عام بچہ نہیں تھا، خدا تعالیٰ کا ہونے والا رسول تھا جن کی فطرت اول پیدائش سے ہی غیر معمولی ہوتی ہے موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی بجائے جواہرات پر ہاتھ ڈالنا چاہا مگر جبرئیل امین نے ان کا ہاتھ آگ کے طشت میں ڈال دیا اور انہوں نے آگ کا انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا، جس سے زبان جل گئی اور فرعون کو یقین آگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں ایک قسم کی تکلیف پیدا ہوگئی اسی کو قرآن میں عقدہ کہا گیا ہے اور اسی کو کھولنے کی دعا حضرت موسیٰ نے مانگی۔ (مظہری و قرطبی)- پہلی دو دعائیں تو عام تھیں سب کاموں میں اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنے کے لئے، تیسری دعا میں اپنی ایک محسوس کمزوری کے ازالہ کی درخواست کی گئی کہ رسالت و دعوت کیلئے زبان کی طلاقت اور فصاحت بھی ایک ضروری چیز ہے۔ آگے ایک آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ سب دعائیں قبول کرلی گئیں جس کا ظاہر یہ ہے کہ زبان کی یہ لکنت بھی ختم ہوگئی ہوگی مگر خود موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون کو اپنے ساتھ رسالت میں شریک کرنے کی جو دعا کی ہے اس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا، یعنی ہارون (علیہ السلام) نے زبان کے اعتبار سے بہ نسبت میرے زیادہ فصیح ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اثر لکنت کا کچھ باقی تھا۔ نیز فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو عیوب لگائے ان میں یہ بھی کہا کہ وّلَا يَكَادُ يُبِيْنُ ، یعنی یہ اپنی بات کو صاف بیان نہیں کرسکتے۔ بعض حضرات نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود اپنی دعا میں اتنی ہی بات مانگی تھی کہ زبان کی بندش اتنی کھل جائے کہ لوگ میری بات سمجھ لیا کریں، اتنی لکنت دور کردی گئی کچھ معمولی اثر بھی رہا تو وہ اس دعا کی قبولیت کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِيْ۝ ٢٧ۙ- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - عقد - العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ- [ المائدة 1] ، والعُقْدَةُ : اسم لما يعقد من نکاح أو يمين أو غيرهما، قال : وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وعُقِدَ لسانه : احتبس، وبلسانه عقدة، أي : في کلامه حبسة، قال : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] ، النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق 4] ، جمع عقدة، وهي ما تعقده الساحرة، وأصله من العزیمة، ولذلک يقال لها : عزیمة كما يقال لها : عُقْدَة، ومنه قيل للساحر : مُعْقِدٌ ، وله عقدة ملك «2» ، وقیل : ناقة عاقدة وعاقد : عقدت بذنبها للقاحها، وتیس وکلب أَعْقَدُ : ملتوي الذّنب، وتَعَاقَدَتِ الکلاب : تعاظلت «3» .- ( ع ق د ) العقد - کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو العقد ۃ نکاح عہدو پیمان وغیرہ جو پختہ کیا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔۔۔ عقد لسانہ اس کی زبان پر گرہ لگ گئی فی لسانہ عقدۃ اس کی زبان میں لکنت ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ النَّفَّاثاتِ فِي الْعُقَدِ [ الفلق 4] اور گرہوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کی برائی سے میں عقدۃ عقدۃ کی جمع ہے یعنی وہ گر ہیں جو جادو گر عورتیں لگاتی ہیں دراصل اس کے معنی عزیمۃ کے ہیں اس لئے اس پر عقدۃ اور عزیمۃ دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور جادو گر کو معقدۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ لہ عقدۃ ملک اس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے ۔ ناقۃ عاتدۃ وعاقد وہ اونٹنی جس کی دم گرہ دار ہوجائے اور یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ نر سے جفتی کی خواہشمند ہے ۔ تیس وکلب اعقد نرسانڈ یا کتا جس کی دم لپٹی ہوئی ۔ تعاقدت لکلاب کتوں کا آپس میں جفتی کرنا ۔- لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: بچپن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک انگارا زبان پر رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں تھوڑی سی لکنت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی لکنت کو یہاں ’’ گرہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے