42۔ 1 اس میں اللہ سے دعا کے لئے بڑا سبق ہے کہ انھیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے
[٢٨] اللہ کے ذکر کا فائدہ :۔ پہلے صرف سیدنا موسیٰ کو یہی بات کہی تھی کہ فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ اس نے سر اٹھا ہے۔ اب جب سیدنا ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا کرکے ان کا مددگار بنادیا گیا تو ان دونوں سے وہی بات کہی گئی اور اب ان دونوں کو تاکید کی کہ میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا کیونکہ اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جو اللہ والوں کی کامیابی کا ذریعہ اور دشمن کے مقابلہ میں بہترین ہتھیار ہے۔ اس سے اللہ کی طرف لو لگائے رکھنے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس راہ میں جو مصائب پیش آئیں ان کو صبر و استقلال سے برداشت کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔
اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ : یہ ہے وہ مقصد جس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش فرعون کے گھر میں اور پھر مدین میں کی گئی، چونکہ اس وقت وہاں ہارون (علیہ السلام) موجود نہیں تھے، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو مصر پہنچ کر انھیں ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔ ” بِاٰيٰتِيْ “ یعنی تم فرعون کے پاس خالی ہاتھ نہیں جاؤ گے بلکہ میری نشانیاں عصا اور ید بیضا تمہارے پاس ہوں گی، اس لیے بلاجھجک جاؤ اور میرا پیغام پہنچاؤ۔- وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ : ” وَلَا تَنِيَا “ ” وَنٰی یَنِيْ وَنْیًا “ بروزن ” وَعَدَ یَعِدُ “ سستی کرنا، کوتاہی کرنا، تھک کر رہ جانا۔ یعنی میری یاد میں کمی نہ کرنا، اس سے تمہارا عزم قوی اور قدم ثابت رہے گا، کیونکہ جب تم مجھے یاد کرو گے تو میرے بیشمار عظیم احسانات تمہارے سامنے رہیں گے، جس سے ادائے رسالت میں کوئی ضعف نہیں آئے گا۔ (طبری) اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دشمن کے مقابلے کے وقت اپنے ذکر کثیر کا حکم دیا (دیکھیے انفال : ٤٥) اور ہر حال میں ذکر کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور انھیں ” اُوُلُوْا الْبَابِ “ قرار دیا۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٩٠) ۔
اِذْہَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ ٤٢ۚ- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔
(٤٢۔ ٤٣) تم اور ہارون (علیہ السلام) دونوں میری نشانیاں یعنی یدبیضاء اور عصا لے کر جاؤ اور میری عبادت میں سستی مت کرنا یا یہ کہ فرعون کی طرف تبلیغ رسالت میں کسی قسم کی کوئی غفلت نہ کرنا، لہذا تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بہت تکبر اور کفر اختیار کرلیا ہے۔
19: یہاں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ ایک داعی حق کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنا چاہئے اور ہر مشکل میں اسی سے مدد مانگنی چاہئے۔