اِنَّهٗ طَغٰى : ” طُغْیَانٌ“ کا اصل معنی حد سے بڑھ جانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ) [ الحاقۃ : ١١ ] ” بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا، تمہیں کشتی میں سوار کیا۔ “ فرعون کی طغیانی اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ذکر فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار تھا۔ (نازعات : ٢٤) وہ بلاشرکت غیرے معبود (الٰہ) ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ (قصص : ٣٨) اس نے بنی اسرائیل کو یہ باتیں نہ ماننے کی وجہ سے غلامی اور بدترین عذاب کا نشانہ بنا رکھا تھا، ان کے بیٹے نہایت بےرحمی سے قتل کرتا، عورتوں کو زندہ رکھ کر اپنی اور اپنی قوم کی زیادتیوں کا نشانہ بناتا اور مردوں سے بےگارلیتا تھا۔ (قصص : ٤) جسے چاہتا انکار پر جیل میں ڈال دیتا تھا۔ (شعراء : ٢٩)
اِذْہَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰى ٤٣ۚۖ- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔