44۔ 1 یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔
[٢٩] دعوت کے لئے قوم کا لہجہ ضروری ہے :۔ کسی کے راہ راست پر آنے اور اسے قبول کرنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دعوت کو پوری سمجھ کر حق بات قبول کرلے اور دوسری یہ کہ اپنے برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہوجائے۔ یہ دونوں باتیں بتلا دیں اور انھیں تاکید کردی کہ فرعون سے جو بات کہیں نرمی کے لہجہ میں کہیں۔ کیونکہ سختی سے بات کرنے سے بسا اوقات الٹا اثر ہوتا ہے۔ مخاطب اصل بات سمجھنے کی بجائے طرز تخاطب اور لہجہ کی بنا پر ضد اور مخالفت پر اتر آتا ہے۔ گویا تبلیغ اور دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لئے یہ ایک نہایت اہم سبق ہے۔
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دیتے وقت نرم بات کہیں، جس میں ترغیب ہو، اسے غصہ دلانے والی نہ ہو۔ ہر داعی کو یہی اسلوب اختیار کرنا لازم ہے، کیونکہ دعوت الی اللہ سے مقصود مخاطب کی ہدایت اور اصلاح ہوتی ہے نہ کہ اپنی برتری ثابت کرنا، یا سخت کلامی سے دل کا غصہ نکالنا۔ دیکھیے سورة نحل (١٢٥) اور آل عمران (١٥٩) اللہ تعالیٰ نے وہ نرم بات بھی خود ہی سکھا دی، جیسا کہ آگے آیت (٤٧) میں آ رہا ہے اور دیکھیے سورة نازعات (١٨، ١٩) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَا عَاءِشَۃُ إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِيْ عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِيْ عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لاَ یُعْطِيْ عَلٰی مَا سِوَاہٗ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب فضل الرفق : ٢٥٩٣، عن عائشۃ ] ” اے عائشہ بیشک اللہ تعالیٰ بہت نرمی والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو نہ سختی پر عطا کرتا ہے اور نہ اس (نرمی) کے سوا کسی اور چیز پر عطا کرتا ہے۔ “ اور یہ بھی فرمایا : ( إِنَّ الرِّفْقَ لَایَکُوْنُ فِيْ شَيْءٍ إِلَّا زَانَہُ وَلاَ یُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَہٗ ) [ مسلم، أیضًا : ٢٥٩٤ ] ” نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس سے بھی نکال لی جائے اسے عیب دار بنا دیتی ہے۔ “ ہاں اگر کہیں نرمی بالکل ہی بےاثر ٹھہرے اور کوئی شخص ہٹ دھرمی اور تکبر سے کسی طرح باز نہ آئے تو اس سے حق بات سختی کے ساتھ کہنے کی بھی اجازت ہے، کیونکہ وہاں ” حکمت “ کا تقاضا یہی ہے، جیسا کہ سورة عنکبوت (٤٦) میں ہے اور زیر تفسیر آیات میں آیت (٤٨) میں موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے۔- لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى : ” لَعَلَّ “ کا لفظ ترجی (امید کرنے) کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں امید کا ذکر آئے تو وہ بات یقینی ہوتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ فرعون نصیحت یا ڈرنے سے محروم رہے گا، پھر ” لَعَلَّ “ کا لفظ کیوں فرمایا ؟ اس کی دو توجیہیں ہیں اور دونوں درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ” لَعَلَّ “ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کی نسبت سے ہے کہ تم اس سے نرم بات اس امید کے ساتھ کہو کہ وہ نصیحت حاصل کرے گا، یا ڈر جائے گا۔ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تو علم نہیں تھا کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ اسی طرح مخاطب کتنا بھی سرکش ہو، داعی کو ہمیشہ امید کا چراغ دل میں روشن رکھنا لازم ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ ” لَعَلَّ “ کا لفظ ” امید ہے “ کے علاوہ ” کَیْ “ یعنی ” تاکہ “ کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے سورة بقرہ (٢١) میں فرمایا : (لَعَلَّکُم تَتَّقُوْنَ ) ” تاکہ تم بچ جاؤ۔ “ ” يَتَذَكَّرُ “ نصیحت حاصل کرکے ایمان لے آئے یا کم از کم ڈر کر ظلم سے باز آجائے، کیونکہ ایک سرکش آدمی سے یہی امید کی جاسکتی ہے۔
فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّہٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى ٤٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- لين - اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع .- ( ل ی ن ) اللین - کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔
(٤٤) اس کو نرمی کے ساتھ کلمہ ”۔ لا الہ الا اللہ “۔ کی تبلیغ کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کر کے یا ڈر کر اسلام لے آئے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :18 آدمی کے راہ راست پر آنے کی دو ہی شکلیں ہیں ۔ یا تو وہ تفہیم و تلقین سے مطمئن ہو کر صحیح راستہ اختیار کر لیتا ہے ، یا پھر برے انجام سے ڈر کر سیدھا ہو جاتا ہے ۔