اللہ کے سامنے اظہار بےبسی ۔ اللہ کے ان دونوں رسولوں نے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اپنی کمزوری کی شکایت رب کے سامنے کی کہ ہمیں خوف ہے کہ فرعون کہیں ہم پر کوئی ظلم نہ کرے اور بدسلوکی سے پیش نہ آئے ۔ ہماری آواز کو دبانے کے لئے جلدی سے ہمیں کسی مصیبت میں مبتلا نہ کر دے ۔ اور ہمارے ساتھ ناانصافی سے پیش نہ آئے ۔ رب العالم کی طرف سے ان کی تشفی کردی گئی ۔ ارشاد ہوا کہ اس کا کچھ خوف نہ کھاؤ میں خود تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری اور اس کی بات چیت سنتا رہوں گا اور تمہارا حال دیکھتا رہوں گا کوئی بات مجھ پر مخفی نہیں رہ سکتی اس کی چوٹی میرے ہاتھ میں ہے وہ بغیر میری اجازت کے سانس بھی تو نہیں لے سکتا ۔ میرے قبضے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا ۔ میری حفاظت و نصرت تائید و مدد تمہارے ساتھ ہے ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں دعا کی کہ مجھے وہ دعا تعلیم فرمائی جائے جو میں فرعون کے پاس جاتے ہوئے پڑھ لیا کروں تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ۔ ہیا شراھیا جس کے معنی عربی میں انا الحی قبل کل شئی والحی بعد کل شئی یعنی میں ہی ہوں سب سے پہلے زندہ اور سب سے بعد بھی زندہ ۔ پھر انہیں بتلایا گیا کہ یہ فرعون کو کیا کہیں؟ اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ گئے ، دروازے پر ٹھہرے ، اجازت مانگی ، بڑی دیر کے بعد اجازت ملی ۔ محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ دونوں پیغمبر دو سال تک روزانہ صبح شام فرعون کے ہاں جاتے رہے دربانوں سے کہتے رہے کہ ہم دونوں پیغمبروں کی آمد کی خبر بادشاہ سے کرو ۔ لیکن فرعون کے ڈر کے مارے کسی نے خبر نہ کی دو سال کے بعد ایک روز اس کے ایک بےتکلف دوست نے جو بادشاہ سے ہسنی دل لگی بھی کر لیا کرتا تھا کہا کہ آپ کے دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے اور ایک عجیب مزے کی بات کہہ رہا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ کے سوا اس کا کوئی اور رب ہے اور اس کے رب نے اسے آپ کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اس نے کہا کیا میرے دروازے پر وہ ہے اس نے کہا ہاں ۔ حکم دیا کہ اندر بلا لو چنانچہ آدمی گیا اور دونوں پیغمبر دربار میں آئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں رب العالمین کا رسول ہوں فرعون نے آپ کو پہچان لیا کہ یہ تو موسیٰ ( علیہ السلام ) ہے ۔ سدی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ آپ مصر میں اپنے ہی گھر ٹھہرے تھے ماں نے اور بھائی نے پہلے تو آپ کو پہچانا نہیں گھر میں جو پکا تھا وہ مہمان سمجھ کر ان کے پاس لا رکھا اس کے بعد پہچانا سلام کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس بادشاہ کو اللہ کی طرف بلاؤں اور تمہاری نسبت فرمان ہوا ہے کہ تم میری تائید کرو ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے فرمایا پھر بسم اللہ کیجئے ۔ رات کو دونوں صاحب بادشاہ کے ہاں گئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لکڑی سے کواڑ کھٹکھٹائے ۔ فرعون آگ بگولا ہو گیا کہ اتنا بڑا دلیر آدمی کون آگیا ؟ جو یوں بےساختہ دربار کے آداب کے خلاف اپنی لکڑی سے مجھے ہوشیار کر رہا ہے؟ درباریوں نے کہا حضرت کچھ نہیں یونہی ایک مجنوں آدمی ہے کہتا پھرتا ہے کہ میں رسول ہوں ۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے میرے سامنے پیش کرو ۔ چنانچہ حضرت ہارون علیہ السلام کو لئے ہوئے آپ اس کے پاس گئے اور اس سے فرمایا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے انہیں سزائیں نہ کر ہم رب العالمین کیطرف سے اپنی رسالت کی دلیلیں اور معجزے لے کر آئے ہیں اگر توہماری بات مان لے تو تجھ پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہوگی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو خط شاہ روم ہرقل کے نام لکھا تھا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ مضمون تھا کہ یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ روم ہرقل کے نام ہے جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو ۔ اس کے بعد یہ کہ تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عنایت فرمائے گا ۔ مسیلمہ کذاب نے صادق و مصدوق ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ خط اللہ کے رسول مسلیمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام ، آپ پر سلام ہو ، میں نے آپ کو شریک کار کر لیا ہے شہری آپ کے لئے اور دیہاتی میرے لئے ۔ یہ قریشی تو بڑے ہی ظالم لوگ ہیں ۔ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسلیمہ کذاب کے نام ہے سلام ہو ان پر جو ہدایت کی تابعداری کریں سن لے زمین اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بناتا ہے انجام کے لحاظ سے بھلے لوگ وہ ہیں جن کے دل خوف الٰہی سے پر ہوں ۔ الغرض رسول اللہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے یہی کہا کہ سلام ان پر ہے جو ہدایت کے پیرو ہوں ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہمیں بذریعہ وحی الٰہی یہ بات معلوم کرائی گئی ہے کہ عذاب کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ کے کلام کو جھٹلائیں اور اللہ کی باتوں کے ماننے سے انکار کر جائیں ۔ جیسے ارشاد ہے ( فَاَمَّا مَنْ طَغٰى 37ۙ ) 79- النازعات:37 ) جو شخص سرکشی کرے اور دنیا کی زندگانی پر مر مٹ کر اسی کو پسند کر لے اس کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ اور آیتوں میں ہے کہ میں تمہیں شعلے مارنے والی آگ جہنم سے ڈرا رہا ہوں جس میں صرف وہ بدبخت داخل ہوں گے جو جھٹلائیں اور منہ موڑ لیں اور آیتوں میں ہے کہ اس نے نہ تو مانا نہ نماز ادا کی بلکہ دل سے منکر رہا اور کام فرمان کے خلاف کئے ۔
[٣٠] فرعون کے ہاں جانے کے خدشات :۔ مصر پہنچ جانے کے بعد جن دونوں بھائی فرعون کے ہاں جانے کو تیار ہوئے اور فرعون جابر اور خود سر بادشاہ کے پاس جاکر اسے دعوت دینے کا خیال کیا تو اپنے پروردگار سے عرض کیا کہ ہم تعمیل ارشاد کو حاضر ہیں مگر اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننے پر آمادہ بھی ہوگا یا نہیں یا بات سن لینے پر غصہ سے بھڑک نہ اٹھے گا یا ہم پر بھی دست درازی کرے یا آپ کی شان میں مزید گستاخانہ باتیں کہنے لگے۔ جس سے اصل مقصد ہی فوت ہوجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن اور دیکھ رہا ہوں۔ وہ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکے گا۔
قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر پہنچ کر ہارون (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور دونوں بھائیوں نے اپنی بےسرو سامانی اور فرعون کی سرکشی، حاکمانہ تسلط اور ظلم و ستم پر غور کیا تو انسانی فطرت کے مطابق ڈرے اور اپنے رب سے اس کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ اے ہمارے رب ہم تو ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرتے ہوئے ہمیں قید یا قتل نہ کر دے، یا کوئی اور خوف نا ک سزا نہ دے، یا اس کی سرکشی اور بڑھ جائے اور وہ کفر اور گمراہی میں مزید بڑھ جائے، یا تیری ذات وصفات کے بارے میں کوئی نامناسب بات کہہ گزرے، جس سے ہمیں ہر تکلیف سے زیادہ تکلیف پہنچے۔
خلاصہ تفسیر - (جب یہ حکم دونوں صاحبوں کو پہنچ چکا تو) دونوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم تبلیغ کے لئے حاضر ہیں لیکن) ہم کو اندیشہ ہے کہ (کہیں) وہ ہم پر (تبلیغ سے پہلے ہی) زیادتی نہ کر بیٹھے (کہ تبلیغ ہی رہ جاوے) یا یہ کہ (عین تبلیغ کے وقت اپنے کفر میں) زیادہ شرارت نہ کرنے لگے کہ اپنی بک بک میں تبلیغ نہ سنے نہ سننے دے جس سے وہ عدم تبلیغ کے برابر ہوجاوے) ارشاد ہوا کہ (اس امر سے مطلق) اندیشہ نہ کرو (کیونکہ) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب سنتا دیکھتا ہوں (میں تمہاری حفاظت کروں گا اور اس کو مرعوب کردوں گا جس سے پوری تبلیغ کرسکو گے جیسا دوسری آیت میں ہے وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا) سو تم (بےخوف و خطر) اس کے پاس جاؤ اور (اس سے) کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے فرستادے ہیں (کہ ہم کو نبی بنا کر بھیجا ہے) سو (تو ہماری اطاعت کر اصلاح عقیدہ میں بھی کہ توحید کی تصدیق کر اور اصلاح اخلاق میں بھی کہ ظلم وغیرہ سے باز آ اور) بنی اسرائیل کو (جن پر تو ناحق ظلم کرتا ہے اپنے پنجہ ظلم سے رہا کر کے) ہمارے ساتھ جانے دے (کہ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں رہیں) اور ان کو تکلیفیں مت پہنچا (اور) ہم (جو دعویٰ نبوت کا کرتے ہیں تو خالی خولی نہیں بلکہ ہم) تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے (اپنی نبوت کا) نشان (یعنی معجزہ بھی) لائے ہیں اور (تصدیق اور قبول حق کا ثمرہ اس قاعدہ کلیہ سے معلوم ہوگا کہ) ایسے شخص کے لئے (عذاب الٰہی سے) سلامتی ہے جو (سیدھی) راہ پر چلے (اور تکذیب و رد حق کے باب میں) ہمارے پاس یہ حکم پہنچا ہے کہ (اللہ کا) عذاب (قہر کا) اس شخص پر ہوگا جو (حق کو) جھٹلاوے اور (اس سے) روگردانی کرے (غرض یہ سارا مضمون جا کر اس سے کہو چناچہ دونوں حضرات تشریف لے گئے اور جا کر اس سے سب کہہ دیا) وہ کہنے لگا کہ پھر (جواب میں) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا (دونوں کا بلکہ سب کا) رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب بناوٹ عطا فرمائی پھر (ان میں جو جاندار چیزیں تھیں ان کو ان کے منافع و مصالح کی طرف) رہنمائی فرمائی (چنانچہ ہر جانور اپنی مناسب غذا اور جوڑہ اور مسکن وغیرہ ڈھونڈ لیتا ہے پس وہی ہمارا بھی رب ہے۔ )- معارف ومسائل - حضرت موسیٰ کو خوف کیوں ہوا :- اِنَّنَا نَخَافُ ، حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) نے اس جگہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دو طرح کے خوف کا اظہار کیا۔ ایک اَنْ يَّفْرُطَ کے لفظ سے جس کے اصلی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ شاید فرعون ہماری بات سننے سے پہلے ہی ہم پر حملہ کردے، دوسرا خوف اَنْ يَّــطْغٰي کے لفظ سے بیان فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس سے بھی زیادہ سرکشی پر اتر آئے کہ آپ کی شان میں نامناسب کلمات بکنے لگے۔- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابتداء کلام میں جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت و رسالت عطا فرمایا گیا اور انہوں نے حضرت ہارون کو اپنے ساتھ شریک کرنے کی درخواست کی اور یہ درخواست قبول ہوئی تو اسی وقت حق تعالیٰ نے ان کو یہ بتلا دیا تھا کہ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا، نیز یہ بھی اطمینان دلا دیا گیا تھا کہ آپ کی درخواست میں جو جو چیزیں طلب کی گئی ہیں وہ سب ہم نے آپ کو دیدیں قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤ ْلَكَ يٰمُوْسٰى ان مطلوب چیزوں میں شرح صدر بھی جس کا حاصل یہی تھا کہ مخالف سے کوئی دل تنگی اور خوف و ہراس پیدا نہ ہو۔ - اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے بعد پھر یہ خوف اور اس کا اظہار کیسا ہے اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ پہلا وعدہ کہ ہم آپ کو غلبہ عطا کریں گے اور وہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے یہ ایک مبہم وعدہ ہے کہ مراد غلبہ سے حجت و دلیل کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور مادی غلبہ بھی۔ نیز یہ خیال بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر غلبہ تو جب ہوگا کہ وہ ان کے دلائل سنیں معجزات دیکھیں مگر خطرہ یہ ہے کہ وہ کلام سننے سے پہلے ہی ان پر حملہ کر بیٹھے اور شرح صدر کے لئے یہ لازم نہیں کہ طبعی خوف بھی جاتا رہے۔- دوسری بات یہ ہے کہ خوف کی چیزوں سے طبعی خوف تو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے جو وعدوں پر پورا ایمان و یقین ہونے کے باوجود بھی ہوتا ہے خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی ہی لاٹھی کے سانپ بن جانے کے بعد اس کے پکڑنے سے ڈرنے لگے تو حق تعالیٰ نے فرمایا لاَ تَخَف ڈر نہیں اور دوسرے تمام مواقع خوف میں ایسا ہی ہوتا رہا کہ طبعی اور بشری خوف لاحق ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے بشارت کے ذریعہ اس کو زائل فرمایا۔ اسی واقعہ کی آیات میں فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ اور فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَاۗىِٕفًا اور فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى کی آیات اس مضمون پر شاہد ہیں حضرت خاتم الانبیاء اور سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بشری خوف کی وجہ سے مدینہ شریف کی طرف اور کچھ صحابہ کرام نے پہلے حبشہ کی پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ غزوہ احزاب میں اسی خوف سے بچنے کے لئے خندق کھودی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ نصرت و غلبہ بار بار آ چکا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مواعید ربانی سے یقین تو ان سب کو پورا حاصل تھا مگر طبعی خوف جو بمقضائے بشریت انبیاء میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔
قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ يَّفْرُطَ عَلَيْنَآ اَوْ اَنْ يَّطْغٰي ٤٥- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - فرط - فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] . - ( ف ر ط ) فرط - یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔ - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔
(٤٥۔ ٤٦) دونوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے پہلے ہم پر ہمیں مارنے کے ساتھ زیادتی نہ کر بیٹھے یا یہ کہ ہمیں قتل ہی کر ڈالے اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اس کے مارنے اور قتل کے ساتھ زیادتی نہ کربیٹھے یا یہ کہ ہمیں قتل ہی کرڈالے اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اس کے مارنے اور قتل کرنے کا خوف مت کرو میں تمہارا مددگار ہوں جو تمہیں کو وہ جواب دے گا اس کو میں سنتا ہوں اور جو وہ تمہارے ساتھ کا رو وائی کرے گا اسے دیکھتا ہوں۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :18 ( الف ) معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ مصر پہنچ گئے اور حضرت ہارون عملاً ان کے شریک کار ہوگئے ۔ اس وقت فرعون کے پاس جانے سے پہلے دونوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ گزارش کی ہوگی ۔