Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ : بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں، اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ ہے، فرمایا : (وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ ) [ الحدید : ٤ ] ” اور وہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں کہیں بھی ہو۔ “ مگر یہاں اس سے مراد خاص معیت (ساتھ) ہے، یعنی میں تمہاری ہر طرح سے حفاظت و نصرت کروں گا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) سے فرمایا تھا : ( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ غور کیجیے پورے مصر کے وسائل کے مالک، بےپناہ فوج کے پہرے میں رب اور معبود ہونے کے دعوے دار کے پاس مقہور و مجبور اور غلام قوم کے دو آدمی جاتے ہیں، جن کے پاس بظاہر ایک لاٹھی کے سوا کچھ نہیں، نہ انھیں کوئی پہرے دار روک سکتا ہے اور نہ فوج کو روکنے کی جرأت ہوتی ہے۔ وہ سیدھے فرعون کے بھرے دربار میں بلاخوف و خطر جا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ اس کے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں اور اس کے ہر مغالطے کا پردہ چاک کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لاجواب ہو کر قید کی دھمکی دیتا ہے، مگر اسے نہ قید کرنے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی اور زیادتی کی، اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مظاہرہ اور کیا ہوگا ؟ - اَسْمَعُ وَاَرٰى : میں دوسرے بھیجنے والوں کی طرح نہیں جو اپنا قاصد بھیج کر نہ اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی بات سن سکتے ہیں، بلکہ میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں، تمہاری اور سب کی ہر بات سن رہا ہوں اور ہر عمل دیکھ رہا ہوں۔ ایسی کوئی بات اور ایسا کوئی کام نہ ہونے دوں گا جس کا تمہیں خوف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سب کچھ سنتا اور دیکھتا رہوں گا۔ معیت سے مراد نصرت و امداد ہے جس کی پوری حقیقت و کیفیت کا ادراک انسان کو نہیں ہو سکتا۔- موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو دعوت ایمان کے ساتھ اپنی قوم کو معاشی مصیبت سے بھی چھڑانے کی دعوت دی :- اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) جیسے خلق خدا کو ہدایت ایمان دینے کا منصب رکھتے ہیں اسی طرح اپنی امت کو دنیوی اور معاشی مصائب سے آزاد کرنا بھی ان کے منصب میں شامل ہوتا ہے اس لئے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت فرعون میں دونوں چیزیں شامل ہیں اول اللہ پر ایمان، دوسرے بنی اسرائیل کی آزادی خصوصاً اس آیت مذکورہ میں تو صرف اسی دوسرے جزء کے ذکر پر اکتفا فرمایا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور پھر ہر ایک کے وجود کے مناسب اس کو ہدایت فرمائی جس سے وہ اس کام میں لگ گئی :- تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک ہدایت جو انبیاء (علیہم السلام) کا وظیفہ اور فرض منصبی ہے وہ تو خاص ہدایت ہے جس کے مخاطب اہل عقول انسان اور جنات ہی ہوتے ہیں۔ ایک دوسری قسم کی تکوینی ہدایت بھی ہے جو مخلوقات میں ہر چیز کے لئے عام اور شامل ہے۔ آگ، پانی، مٹی اور ہوا اور ان سے مرکب ہونے والی ہر شئی کو حق تعالیٰ نے ایک خاص قسم کا ادراک و شعور دیا ہے جو اگرچہ انسان و جن کی برابر نہیں، اسی لئے احکام حلال و حرام ان چیزوں پر عائد نہیں ہوتے مگر ادراک و شعور سے خالی نہیں، اسی ادراک و شعور کے راستہ حق تعالیٰ نے ہر شئے کو اس کی ہدایت کردی کہ تو کس کام کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ تجھے کیا کرنا ہے۔ اسی تکوینی حکم اور ہدایت کے تابع زمین و آسمان اور ان کی تمام مخلوقات اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔ چاند سورج اپنا کام کر رہے ہیں اور دوسرے سیارے و ثوابت اپنے اپنے کام میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ ایک منٹ یا سیکنڈ کا بھی کبھی فرق نہیں ہوتا۔ ہوا، پانی، آگ اور مٹی اپنی اپنی منشاء پیدائش میں لگے ہوئے ان سے بغیر حکم ربانی سرمو فرق نہیں کرتے۔ ہاں جب ان کا حکم ہوتا ہے تو کبھی آگ گلزار بھی بن جاتی ہے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اور کبھی پانی آگ کا بھی کام کرنے لگتا ہے جیسے قوم نوح کے لئے اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا بچہ کو ابتداء پیدائش کے وقت جبکہ اس کو کوئی بات سکھانا کسی کے بس میں نہیں یہ کس نے سکھایا کہ ماں کی چھاتی سے اپنی غذا حاصل کرے، اس کے لئے چھاتی کو دبا کر چوسنے کا ہنر کس نے بتلایا، بھوک پیاس سردی گرمی کی تکلیف ہو تو رو پڑنا اس کی ساری ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ مگر یہ رونا کس نے سکھایا ؟ یہ وہی ہدایت ربانی ہے جو ہر مخلوق کو اسی کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق غیب سے بغیر کسی کی تعلیم کے عطا ہوتی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے ایک عام ہدایت تکوینی ہر ہر مخلوق کے لئے ہے جس کی ہر مخلوق تکوینی طور پر پابند ہے اور اس کے خلاف کرنا اس کی قدرت سے خارج ہے، دوسری ہدایت خاص اہل عقول انسان و جن کے لئے ہے یہ ہدایت تکوینی اور جبری نہیں بلکہ اختیاری ہوتی ہے، اسی اختیار کے نتیجہ میں اس پر ثواب یا عذاب مرتب ہوتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى۝ ٤٦- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani