Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ ۔۔ : توحید و رسالت اور بنی اسرائیل کو اپنے ظلم و ستم اور غلامی سے آزاد کرنے کی دعوت کے ساتھ ہی خوش خبری بھی سنائی کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا سلامت رہے گا۔ اس آیت میں ڈرانے کا فریضہ سرانجام دیا کہ ہمیں وحی کے ذریعے سے بتایا گیا ہے کہ جو جھٹلائے گا اور منہ پھیرے گا اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ اس ڈرانے میں بھی نرم سے نرم الفاظ، جو ممکن تھے، ملحوظ رکھے، یہ نہیں فرمایا کہ تم پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سلامتی اور عذاب دونوں کو عام رکھا، اس میں دنیا اور آخرت دونوں کی سلامتی اور عذاب شامل ہیں۔ یہ مضمون سورة نازعات (٣٠ تا ٣٩) اور سورة قیامہ (٣١ تا ٣٥) وغیرہ میں بھی بیان ہوا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى۝ ٤٨- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨) اور ہمارے پاس یہ حکم پہنچا ہے کہ دائمی عذاب اس شخص پر ہوگا جو کہ توحید کا منکر ہو اور ایمان سے منہ پھیرلے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ) ” - چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( (علیہ السلام) ) نے فرعون کے دربار میں پہنچ کر اللہ کا پیغام پوری تفصیل کے ساتھ اس تک پہنچا دیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :19 اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصویر پیش کی گئی ہے ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے تو حضرت موسیٰ نے جواب میں کہا میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں ۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰ کو بہت کچھ سمجھایا ، ان کی ڈھارس بندھائی ، معجزے عطا کیے ، مگر حضرت موسیٰ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ اے خداوند ، میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج ( خروج 4 ) ۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ کے درمیان سات دن تک اسی بات پر رد و کد ہوتی رہی ۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن ، مگر موسیٰ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں ۔ آخر اللہ میاں نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تو ہی نبی بن ۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ لوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے ، ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے ، اور اب اپنے خاص بچوں ( بنی اسرائیل ) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں ۔ اس پر خدا ناراض ہوگیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں ان سے یہ قصے نقل کر لیے گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani