مکالمات موسیٰ علیہ السلام اور فرعون ۔ چونکہ یہ ناہنجار یعنی فرعون مصر وجود باری تعالیٰ کا منکر تھا ۔ پیغام الٰہی کلیم اللہ کی زبانی سن کر وجود خالق کے انکار کے طور پر سوال کرنے لگا کہ تمہارا بھیجنے والا اور تمہارا رب کون ہے میں تو اسے نہیں جانتا نہ اسے مانتا ہوں ۔ بلکہ میری دانست میں تو تم سب کا رب میرے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شخص کو اس کا جوڑا عطا فرمایا ہے انسان کو بصورت انسان ، گدھے کو اس کی صورت پر ، بکری کو ایک علیحدہ صورت پر پیدا فرمایا ہے ۔ ہر ایک کو اس کی مخصوص صورت میں بنایا ہے ۔ ہر ایک کی پیدائش نرالی شان سے درست کر دی ہے ۔ انسانی پیدائش کا طریقہ الگ چوپائے الگ صورت میں ہیں درندے الگ وضع میں ہیں ۔ ہر ایک کے جوڑے کی ہئیت ترکیبی علیحدہ ہے ۔ کھانا پینا کھانے پینے کی چیزیں جوڑے سب الگ الگ اور ممتاز و مخصوص ہیں ۔ ہر ایک کا انداز مقرر کر کے پھر اس کی ترکیب اسے بتلا دی ہے ۔ عمل اجل رزق مقدر اور مقرر کر کے اسی پر لگا دیا ہے نظام کے ساتھ ساری مخلوق کا کارخانہ چل رہا ہے ۔ کوئی اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا ۔ خلق کا خالق تقدیروں کا مقرر کرنے والا اپنے ارادے پر مخلوق کی پیدائش کرنے والا ہی ہمارا رب ہے ۔ یہ سب سن کر اس بےسمجھ نے پوچھا کہ اچھا تو پھر ان کا کیا حال ہے جو ہم سے پہلے تھے اور اللہ کی عبادت کے منکر تھے؟ اس سوال کو اس نے اہمیت کے ساتھ بیان کیا ۔ لیکن اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے ایسا جواب دیا کہ عاجز ہو گیا ۔ فرمایا ان سب کا علم میرے رب کو ہے ۔ لوح محفوظ میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں ، جزا سزا کا دن مقرر ہے نہ وہ غلط کرے کہ کوئی چھوٹا بڑا اس کی پکڑ سے چھوٹ جائے نہ وہ بھولے کہ مجرم اس کی گرفت سے رہ جائیں ۔ اس کا علم تمام چیزوں کو اپنے میں گھیرے ہوئے ہے ۔ اسکی ذات بھول چوک سے پاک ہے ، نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر ، نہ علم کے بعد بھول جانے کا اس کا وصف ، وہ کمی علم کے نقصان سے وہ بھول کے نقصان سے پاک ہے ۔
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى : یعنی وہ کون ہے جسے تم نے مجھے چھوڑ کر رب بنا رکھا ہے ؟ واضح رہے کہ فرعون اپنے رب اعلیٰ ہونے کا دعوے دار تھا (نازعات : ٢٤) اور اپنے ” الٰہ “ یعنی معبود ہونے کا بھی۔ (قصص : ٣٨)
قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا يٰمُوْسٰى ٤٩- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔
(٤٩۔ ٥٠) یہ سن کر فرعون کہنے لگا کہ تم دونوں کا رب کون ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مطابق جوڑا عطا فرمایا، یعنی انسان اور اونٹ کو اونٹنی اور بکری کو بکرا کہ ہر ایک کا جوڑا بنادیا، پھر ان کو کھانے پینے اور ضروریات زندگی کی رہنمائی کی۔
آیت ٤٩ (قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی ) ” - ہم تو کسی ایسے رب سے واقف نہیں ہیں جس کے بارے میں تم دونوں بات کر رہے ہو۔ تمہارا ربّ ہے کون ؟
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :20 یہاں قصے کی ان تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کس طرح فرعون کے پاس پہنچے اور کس طرح اپنی دعوت اس کے سامنے پیش کی ۔ یہ تفصیلات سورہ اعراف رکوع 13 میں گزر چکی ہیں اور آگے سورہ شعراء رکوع 2 ۔ 3 ، سورہ قصص رکوع 4 ، اور سورۂ نازعات رکوع 1 میں آنے والی ہیں ۔ فرعون کے متعلق ضروری معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ86 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :21 دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحب دعوت چونکہ موسیٰ علیہ السلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ کے ضعف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو جس کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے ، فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے رب بنا بیٹھے ہو ، مصر اور اہل مصر کا رب تو میں ہوں ۔ سور نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ : اَ نَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی ، اے اہل مصر ، تمہارا رب اعلیٰ میں ہوں ۔ سورۂ زخرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے : یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ، اے قوم ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ ( آیت ۔ 51 ) ۔ سورہ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے : یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ، فَاَوْقِدْلِیْ یَا ھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحاً لَعَلِّی اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی ، اے سرداران قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے ، اے ہامان ، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے ( آیت 38 ) ۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیٰ کو ڈانٹ کر کہتا ہے :لَئِنِ اتَّخَذْ تَ الٰھاً غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ ، اگر تو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا ( آیت 29 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی ۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا ( رع یا راع ) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتا تھا ، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی ۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ واحد مرکز پرستش ہونے کا نہ تھا ، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوع انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ آ کر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے ۔ بعض لوگوں کو اس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا ۔ مگر یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ وہ عالم بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا ۔ سورہ المؤمن آیات 28 تا 34 اور سورہ زخرف آیت 53 کو غور سے دیکھیے ۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اس کو انکار نہ تھا ۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسول آ کر اس پر حکم چلائے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، القصص ، حاشیہ 53 ) ۔