50۔ 1 مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی راہ سجھائی کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔
[٣٢] فرعون کا سیدنا موسیٰ سے پہلا سوال کہ تمہارا پروردگار کون ہے :۔ جب وہ فرعون کے پاس پہنچے کر ان دونوں بھائیوں نے اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ پر اس کی دعوت پیش کی تو فرعون نے جو پہلا سوال یا اعتراض کیا وہ اس کی اپنی دکھتی رگ تھی۔ وہ خود خدائی کا دعوے دار تھا اور لوگوں کو اس نے یہی یقنی دلایا ہوا تھا کہ وہی ان کا پروردگار ہے۔ فرعون بلاشبہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین و آسمان اور موجودات کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سیاسی و قانونی حاکمیت کا وہ منکر تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے اوپر کوئی ایسی بالاتر ہستی نہیں جس کا حکم مجھ پر چلتا ہو اور مجھے اس کا حکم ماننا ضروری ہو۔ لہذا اس نے فورا ً یہ سوال کردیا کہ ایسا تمہارا پروردگار ہے کون ؟ چونکہ فرعون اللہ تعالیٰ کی توحید و ربوبیت کا قائل تھا، اس لئے سیدنا موسیٰ نے اس کا جواب ہی ایسا دیا جو ربوبیت سے تعلق رکھتا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو احسن ایک خاص ساخت عطا کی۔ پھر اس کا وظیفہ بھی اسے سمجھا دیا اور اس کی جبلت میں رکھ دیا۔ اس نے مچھلی پیدا کی تو اسے پانی میں تیرنا بھی سکھلا دیا، پرندے پیدا کئے تو انھیں اڑنا بھی سکھلا دیا۔ بچہ پیدا کیا تو اسے فورا ً ماں کے پستان سے چمٹنا اور دودھ پینے کا طریقہ بھی سکھلا دیا۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی ایسی رہنمائی نہ کرتا تو اس کے علاوہ کوئی بھی انھیں سکھلا نہیں سکتا تھا۔
قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ : یعنی صرف یہی نہیں کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، بلکہ اس نے ہر چیز کو پیدا کرتے ہوئے اسے اس کی حسب ضرورت اور حسب حال شکل و صورت عطا فرمائی۔ چلنے والے، اڑنے والے اور تیرنے والے ہر جاندار کو، ہر درخت، پہاڑ اور دریا کو اور زمین و آسمان غرض ہر مخلوق کو ایسی شکل و صورت عطا فرمائی کہ کوئی دوسرا نہ اسے بنا سکتا ہے، نہ کوئی نقص یا عیب نکال سکتا ہے اور نہ اس سے بہتر شکل پیش کرسکتا ہے۔ دیکھیے سورة سجدہ (٧) اور سورة ملک (٣) ۔- ثُمَّ هَدٰى : یعنی اس کے حسب حال شکل و صورت عطا فرما کر اسے زندگی گزارنے اور اپنی بناوٹ سے کام لینے کا راستہ بھی بتایا ہے، چناچہ پرندے کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی دانہ چگنے لگتا ہے، بطخ کا بچہ تیرنے لگتا ہے، جبکہ جانور اور انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینے لگتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نہ سکھاتا تو کون سکھا سکتا تھا ؟ الغرض اس کائنات میں ہر چیز جو بھی کام کر رہی ہے اس کی دی ہوئی ہدایت اور تعلیم ہی سے کر رہی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب تو نہیں بلکہ وہ بزرگ و برتر اللہ ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عموماً وہی دلائل پیش کیے جو ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیے تھے۔ دیکھیے سورة شعراء (٢٣ تا ٢٩)
اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى میں پہلی ہی قسم کی ہدایت مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو سب سے پہلے رب العالمین کا وہ کام بتلایا جو ساری مخلوق پر حاوی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہم نے یا کسی دوسرے انسان نے کیا ہے۔ فرعون اس کا تو کوئی جواب نہ دے سکا اب ادھر ادھر کی باتوں میں ٹلایا اور ایک سوال موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا کہ جس کا حقیقی جواب عوام سنیں تو موسیٰ (علیہ السلام) سے بدگمان ہوجائیں وہ یہ کہ پچھلے دور کی تمام امتیں اور اقوام عالم جو بتوں کی پرستش کرتے رہے آپ کے نزدیک ان کا کیا حکم ہے وہ کیسے ہیں ان کا انجام کیا ہوا ؟ مقصد یہ تھا کہ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ یہ سب وہ کیسے ہیں ان کا انجام کیا ہوا ؟ مقصد یہ تھا کہ اس کے جواب میں موسیٰ ٰعلیہ السلام فرمائیں گے کہ یہ سب گمراہ اور جہنمی ہیں تو مجھے یہ کہنے کا موقع ملے گا لو یہ ساری دنیا ہی کو بیوقوف گمراہ اور جہنمی سمجھتے ہیں اور لوگ یہ سن کر ان سے بدگمان ہوں گے تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا مگر پیغمبر خدا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا ایسا حکیمانہ جواب دیا جس سے اس کا یہ منصوبہ غلط ہوگیا۔
قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰى ٥٠- عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
آیت ٥٠ (قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ) ” - یعنی اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو ایک خاص شکل اور ہیئت کے مطابق تخلیق کیا ہے اور پھر ہر مخلوق کی خلقت کے عین مطابق اسے جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے۔ مثلاً اس نے بکری کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گوشت نہیں ہے ‘ گھاس وغیرہ ہے اور شیر کو جبلی ہدایت دی ہے کہ اس کی غذا گھاس نہیں ‘ گوشت ہے ‘ اسی طرح ہرچیز کو جبلی طور پر اس نے مخصوص عادات واطوار اور خصوصیات کا پابند کردیا ہے۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :22 یعنی ہم ہر معنی میں صرف اس کو رب مانتے ہیں ۔ پروردگار ، آقا ، مالک ، حاکم ، سب کچھ ہمارے نزدیک وہی ہے ۔ کسی معنی میں بھی اس کے سوا کوئی دوسرا رب ہمیں تسلیم نہیں ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :23 یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اسی کے بنانے سے بنی ہے ۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل و صورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے ۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی ۔ انسان ، حیوان ، نباتات ، جمادات ، ہوا ، پانی ، روشنی ، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورت خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے ۔ پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو ۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا اسی نے سکھایا ہے ۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے ۔ درخت کو پھل پھول دینے اور زمین کو نباتات اگانے کی ہدایت اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں ، ہادی اور معلم بھی ہے ۔ اس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا رب کون ہے ، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں رب ہے اور کس لیے اس کے سوا کسی اور کو رب نہیں مانا جاسکتا ۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آ گئی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجود خاص کے لیے اللہ کا ممنون احسن ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا رب ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا رب ہے ، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ مزید براں ، اسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کردی جس کے ماننے سے فرعون کو انکار تھا ۔ ان کی دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے ، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے ، اس کے عالمگیر منصب ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے ۔ اور انسان کی شعوری زندگی کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزوں نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے ۔ اس کی موزوں ترین شکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے ۔
20: یعنی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت ہے کہ جس مخلوق کے لیے جو بناوٹ مقرر کردی۔ اس کو اسی کے مطابق کائنات میں اپنی ڈیوٹی بجا لانے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ مثلاً سورج کو کائنات میں روشنی اور حرارت پیدا کرنے کے لیے ایک خاص بناوٹ عطا فرمائی تو اسے یہ طریقہ بھی سکھا دیا کہ وہ کس طرح اپنے نظام شمسی کے ساتھ گردش کرے، اسی طرح ہر جان دار کو یہ سکھا دیا کہ وہ کس طرح چلے، اور کس طرح اپنی غذا حاصل کرے۔ مچھلی کا بچہ پانی میں پیدا ہوتا ہے، اور کسی کے سکھائے بغیر تیرنا شروع کردیتا ہے۔ پرندے ہوا میں اڑنا خود بخود سیکھ لیتے ہیں غرض ہر مخلوق کو اس کی ساخت کے مناسب زندہ رہنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ ہی سکھاتے ہیں