Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] فرعون کا دوسرا سوال کہ پہلی امتیں کس حال میں ہیں :۔ اس پہلو سے لاجواب ہو کر فرعون نے دوسرا سوال جو کیا وہ اس کی انتہائی شرارت پر مبنی تھا۔ جس سے وہ اپنی تمام مرعیت کو ان رسولوں کے خلاف بھڑکانا اور ان میں مذہبی تعصب پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس کا سوال یہ تھا کہ اگر صورت حال یہی ہے کہ جو توحید و رسالت کی دعوت تم لے کر آئے ہو اس کو ماننے والوں کے لئے امن و سلامت ہے اور جو اس دعوت پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کو دردناک سزا ملے گا تو بتلاؤ جو ہمارے باپ دادا فوت ہوچکے ہیں وہ کس حال میں ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى : یہ سوال پوچھنے کی تین وجہیں ہوسکتی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب میں سب کا حل موجود ہے۔ پہلی وجہ شاہ عبد القادر (رض) کے الفاظ میں یہ ہے : ” فرعون شاید دہریہ مزاج تھا۔ آدمیوں کی پیدائش کو سمجھتا تھا جیسے برسات کا سبزہ، نہ اول کسی نے پیدا کیا، آپ ہی پیدا ہوگیا، نہ آخر باقی رہا، گل کر مٹی ہوگیا۔ جب سنا کہ سب کے سر پر ایک رب ہے تب یہ پوچھا کہ اگلی خلق کہاں گئی ؟ بتایا ان کا حساب لکھا ہوا موجود ہے کہ ایک ایک آدمی پھر حاضر ہوگا۔ “ (موضح) دوسری وجہ اس کے یہ پوچھنے کی کہ پھر پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ کہلوانا چاہتا تھا کہ جو لوگ سیکڑوں برس سے نسلاً بعد نسل دوسروں کو اپنا رب سمجھتے اور ان کی بندگی کرتے رہے ہیں، وہ سب گمراہ اور مستحق عذاب تھے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کو گمراہ اور مستحق عذاب قرار دیں گے تو ان کے خلاف تمام لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور وہ ان کی دعوت سے متنفر ہوجائیں گے۔ اہل حق کے خلاف اہل باطل جاہلوں کو مشتعل کرنے کا یہ ہتھکنڈا ہمیشہ سے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسے کارگر حربہ سمجھتے ہیں۔ سورة شعراء کی آیات (٢٣ تا ٢٩) کی روشنی میں یہ مطلب سب سے واضح نظر آتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس معاملے کو اللہ کے علم کے سپرد کردیا، چناچہ فرعون کا وار خالی گیا۔ - تیسری وجہ یہ کہ فرعون یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ رسول تو عالم الغیب ہوتے ہیں، اگر تم واقعی رسول ہو تو پہلے یہ بتاؤ کہ پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، ان کا حال ہمیں بتاؤ۔ مقصد یہ تھا کہ جب نہیں بتاسکیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ یہ کیسا رسول ہے جو پہلے زمانوں کے لوگوں کے احوال بھی نہیں جانتا ؟ جواب یہ دیا کہ یہ جاننا رسولوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ رب تعالیٰ کا کام ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - فرعون نے (اس پر شبہ کیا (آیت) ان العذاب علی من کذب و تولی اور) کہا کہ اچھا تو پہلے لوگوں کا کیا حال ہوا ( جو انبیاء کی تکذیب کرتے تھے ان پر کون سا عذاب نازل ہوا) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (کہ میں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عذاب موعود دنیا ہی میں آنا ضرور ہے بلکہ کبھی دنیا میں بھی آجاتا ہے اور آخرت میں ضرور ہی ہوگا چنانچہ) ان لوگوں (کی بد اعمالیوں) کا علم میرے پروردگار کے اس دفتر (اعمال) میں (محفوظ) ہے (گو ان کو دفتر کی حاجت نہیں مگر بعض حکمتوں سے ایسا ہی کیا گیا ہے غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعمال معلوم ہیں اور) میرا رب (ایسا جاننے والا ہے کہ) نہ غلطی کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے (پس ان کے اعمال کا صحیح صحیح علم اس کو حاصل ہے مگر عذاب کے لئے وقت مقرر کر رکھا ہے جب وہ وقت آوے گا وہ عذاب ان پر جاری کردیا جاوے گا۔ پس دنیا میں عذاب نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفر و تکذیب علت عذاب کی نہ ہو یہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر ہوچکی آگے اللہ تعالیٰ اپنی شان ربوبیت کی کچھ تفصیل بیان فرماتت ہیں جس کا ذکر اجمالاً موسیٰ (علیہ السلام) کے اس کلام میں تھا رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي الخ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ الخ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ الخ چناچہ ارشاد ہے کہ) وہ (رب) ایسا ہے جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو (مثل) فرش (کے) بنایا (کہ اس پر آرام کرتے ہو) اور اس (زمین) میں تمہارے (چلنے کے) واسطے رستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ سے اقسام مختلفہ کے نباتات پیدا کئے (اور تم کو اجازت دی کہ) خود (بھی) کھاؤ اور اپنے مواشی کو (بھی) چراؤ ان سب (مذکورہ) چیزوں میں اہل عقل کے (استدلال کے) واسطے (قدرت الٰہیہ کی) نشانیاں ہیں (اور جس طرح نباتات کو زمین سے نکالتے ہیں اسی طرح) ہم نے تم کو اسی زمین سے (ابتدا میں) پیدا کیا، (چنانچہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنائے گئے سو ان کے واسطے سے سب کا مادہ بعید خاک ہوئی) اور اسی میں ہم تم کو (بعد موت) لے جاویں گے (چنانچہ کوئی مردہ کسی حالت میں ہو لیکن آخر کو گو مدتوں کے بعد سہی مگر مٹی میں ضرور ملے گا) اور (قیامت کے روز) پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکال لیں گے (جیسا پہلی بار اس سے پیدا کرچکے ہیں)- اور ہم نے اس (فرعون کو اپنی (وہ) سب ہی نشانیاں دکھلائیں (جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں) سو وہ (جب بھی) جھٹلایا ہی کیا اور انکار ہی کرتا رہا (اور) کہنے لگا کہ اے موسیٰ تم ہمارے پاس (یہ دعوی لے کر) اس واسطے آئے ہو (گے) کہ ہم کو ہمارے ملک سے اپنے جادو (کے زور) سے نکال باہر کرو (اور خود عوام کو فریضہ اور تابع بنا کر رئیس بن جاؤ) سو اب ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو لاتے ہیں تو ہمارے اور اپنے درمیان میں ایک وعدہ مقرر کرلو جس کے نہ ہم خلاف کریں اور نہ تم خلاف کرو کسی ہموار میدان میں (تاکہ سب دیکھ لیں) موسیٰ (علیہ السلام نے فرمایا تمہارے (مقابلہ کے) وعدہ کا وقت وہ دن ہے جس میں (تمہارا) میلا ہوتا ہے، اور (جس میں) دن چڑھے لوگ جمع ہوتے ہیں (اور ظاہر ہے کہ میلے کا موقع اکثر ہموار ہی زمین میں ہوتا ہے اسی سے مکان سویٰ کی شرط بھی پوری ہوجاوے گی۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى۝ ٥١- بال - البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال :- قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] [ طه 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم .- ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي .- ( ب ی ل ) البال - اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ - فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١۔ ٥٢) فرعون نے اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ شبہ ظاہر کیا کہ اچھا تو پہلے لوگوں کا کیا حال ہوا اور کیسے ہلاک کیے گئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کی ہلاکت کا علم میرے رب کے پاس لوح محفوظ میں ہے میرا رب ایسا ہے کہ نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ان کا معاملہ اس سے چوک سکتا ہے اور نہ وہ ان کے معاملہ کو بھول سکتا ہے اور نہ ان کو سزا دینے سے چوک سکتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی ) ” - یعنی اگر ہم تمہارا یہ دعویٰ تسلیم کرلیں کہ تم اللہ کے رسول ہو اور تمہاری پیروی میں ہی ہدایت ہے تو پھر ہمارے آباء و اَجداد جو اس سے پہلے فوت ہوچکے ہیں ‘ ہماری کئی نسلیں جو اس دنیا سے جا چکی ہیں ‘ ان کے پاس تو کوئی رسول نہیں آیا تھا ‘ ان تک ایسی کوئی دعوت نہیں پہنچی تھی اور وہ اسی طریقے پر فوت ہوئے جسے تم گمراہی قرار دے رہے ہو۔ تو ان سب لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے ؟ ان سب کا کیا بنے گا ؟- یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا جس کا جواب بڑے حکیمانہ انداز میں دینے کی ضرورت تھی۔ ہمارے جیسا کوئی داعی ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ سب جہنمی ہیں ایسے جواب کے ردِّ عمل کے طور پر مخاطبین کی اپنے اسلاف کے بارے میں عصبیت و حمیت کو ہوا ملتی اور صورت حال بگڑ جاتی۔ بہر حال حکمت تبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت کے دوران مخاطبین کے جذبات اور مخصوص موقع محل کو مد نظر رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی منفی صورت حال پیدا نہ ہونے پائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کمال حکمت سے جواب دیا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :24 یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں ہے ، تو یہ ہم سب کے باپ دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے ؟ کیا وہ سب گمراہ تھے ؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے ؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں ؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا جواب ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں ، یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے ، اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل دربار اور عام اہل مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے ۔ اہل حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کرنے کے لیے بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے ۔ خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے زیادہ اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا ، اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل بر محل تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: اس سوال سے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں جو توحید کی قائل نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ زندہ رہیں، اور ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر توحید کے انکار سے انسان عذاب الٰہی کا مستحق ہوجاتا ہے تو ان قوموں پر عذاب کیوں نہیں آیا؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ہر شخص کا اور اس کے کیے ہوئے کاموں کا پورا پورا حال معلوم ہے۔ وہ اپنی حکمت ہی سے فیصلہ فرماتا ہے کہ حق کا انکار کرنے والوں میں سے کس کو اسی دنیا میں سزا دینی ہے، اور کس کی سزا آخرت تک موخر کرنی ہے۔ اگر کسی کافر قوم کو دنیا میں کسی عذاب کا سامنا نہیں ہوا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معاذ اللہ کوئی بھول چوک ہوگئی ہے بلکہ یہ اس کی حکمت کا فیصلہ ہے کہ اس کو دنیا کے بجائے آخرت میں عذاب دیا جائے۔