Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے ؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] استوی علی العرش کا بیان سورة اعراف آیت نمبر ٥٤ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے۔- عرش الٰہی کے متعلق جو کچھ نصوص سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پائے ہیں۔ جنہیں خاص فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور بالخصوص قیامت کے دن آٹھ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور یہ عرش سب آسمانوں کے اوپر ہے اور انھیں قبہ کی طرح گھیرے ہوئے ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى: یعنی آپ پر قرآن کا نازل کرنا اور زمین اور بلند آسمان کو پیدا کرنا جس بیحد رحم والے کی رحمت کا نتیجہ ہے وہ رحمٰن عرش پر بلند ہے۔ عرش کا لفظی معنی تخت ہے اور ” اسْتَوٰى“ کا معنی ” اِرْتَفَعَ “ (بلند ہوا) ہے۔ عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے اور پوری کائنات کی تدبیر فرما رہا ہے، فرمایا : ( ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ) [ یونس : ٣ ] ” پھر وہ عرش پر بلند ہوا، ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ “ اس آیت اور دوسری آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے، مگر یہ بات کہ وہ عرش کے اوپر کس طرح ہے ؟ کھڑا ہے یا بیٹھا ہے یا کس کیفیت میں ہے ؟ کوئی نہیں جانتا، نہ جان سکتا ہے، کیونکہ مخلوق محدود ہے اور وہ لامحدود۔ مخلوق میں سے کوئی بھی خالق کو تو کجا اس کی معلومات میں سے بھی کوئی چیز پوری طرح نہیں جان سکتا، مگر جو وہ چاہے، فرمایا : ( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ “ صحابہ کرام (رض) نے، جو انبیاء ( علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال نہیں کیا کہ وہ اپنے تخت پر کس طرح ہے ؟ اسی لیے کسی شخص نے امام مالک (رض) سے ” اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى“ کے متعلق پوچھا کہ کس طرح ؟ تو انھوں نے فرمایا : ” اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ وَالْکَیْفُ مَجْھُوْلٌ وَالسُّؤَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ“ ” یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ عرش کے اوپر ہے، مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ کس طرح ہے اور اس کے متعلق سوال بدعت ہے۔ “ مزید فرمایا : ” میں تمہیں برا آدمی خیال کرتا ہوں، اسے میرے پاس سے نکال دو ۔ “ تو سوال کرنے والا یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اے ابو عبد اللہ میں نے اس کے متعلق اہل عراق اور اہل شام سے پوچھا مگر کسی کو آپ (کے صحیح جواب) جیسی توفیق عطا نہیں ہوئی۔ (تفسیر بغوی)- خلاصہ یہ کہ جو بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بتائی ہے اس پر ایمان رکھنا فرض ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، اللہ تعالیٰ کے عرش کو قیامت کے دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (دیکھیے حاقہ : ١٧) اس کے پائے بھی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلنَّاسُ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَکُوْنُ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی آخِذٌ بِقَاءِمَۃٍ مِنْ قَوَاءِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِيْ أَفَاقَ قَبْلِيْ أَمْ جُوْزِيَ بِصَعْقَۃِ الطُّوْرِ ) ” لوگ قیامت کے دن بےہوش ہوجائیں گے تو سب سے پہلا شخص جو ہوش میں آئے گا میں ہوں گا۔ اچانک میں موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پایوں میں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہوں گے، تو میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے، یا انھیں طور کی بےہوشی کا بدلہ دیا گیا۔ “ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( وواعدنا موسیٰ ثلاثین۔۔ ) : ٣٣٩٨، عن أبي سعید الخدري۔ ] مگر اللہ کا عرش پر ہونا یا اس کی کوئی بھی صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ نہیں، فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ]” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ تمام سلف کا اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے اور دوسری صفات کے متعلق یہی عقیدہ ہے۔ خیر القرون گزرنے کے بعد جب عقیدہ و اعمال کی بدعات شروع ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کے متعلق آیات و احادیث کی بھی اپنی اپنی بدعات کے مطابق تاویل بلکہ تحریف کی جانے لگی۔ چناچہ بہت سے لوگوں نے کہا کہ عرش کے اوپر ہونے کا مطلب زمین و آسمان کی حکومت کا مالک ہونا ہے، ورنہ نہ کوئی عرش ہے اور نہ اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے۔ وہ نہ اوپر ہے نہ نیچے اور نہ کسی اور جہت میں، نہ وہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا۔ غرض تاویل کے نام پر صریح آیات و احادیث کا انکار کردیا۔ مگر اتنے بڑے بڑے علماء پر تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اتنی جرأت کے ساتھ اس عرش عظیم و کریم کا انکار کیسے کردیا کہ جس پر اپنے بلند ہونے کا ذکر خود رحمٰن نے فرمایا اور جسے قیامت کے دن تمام لوگوں کے اوپر آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے اور جس کے پایوں کا ذکر اس کے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ [ فَنَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَھْوَاءِ الْمُضِلَّۃِ وَالْعَقَاءِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ خُذْلَانِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی ] مزید دیکھیے سورة اعراف (٥٤) ، حاقہ (١٧) اور سورة فجر (٢٢) مفسر جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں : ” فلکیات کے جدید ماہرین کی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ عرش ایک حقیقی وجود ہے جس کا باقاعدہ جسم ہے، کائنات کے جتنے عالم ہیں وہ سب کا مرکز ہے، یعنی جذب، تاثیر، تدبیر اور نظام سب کا مرکز ہے (تمام کہکشائیں جن کا ایک ایک سیارہ سورج سے بھی ہزاروں گنا بڑا ہے، اسی کے گرد گردش کر رہی ہیں اور اس کے انکار یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں) ۔ “ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ” کہ ہم انصاف کے ترازو قیامت کے دن رکھیں گے “ کے متعلق جب عقل پرستوں کی عقل میں یہ بات نہ آسکی کہ اعراض کا وزن کیسے ہوگا تو انھوں نے وزن اعمال کا انکار کردیا، یا تاویل کردی۔ جب کہ جدید ایجادات میں تقریباً ہر چیز کا میٹر تیار ہوچکا ہے، بجلی، بخار، حرارت، سردی، کثافت، نمی، خشکی غرض بیشمار اعراض کے ماپنے تولنے کے پیمانے وجود میں آ چکے ہیں جن کی وجہ سے عقل پرستوں کے انکار اور تاویل کا تاروپود بکھر چکا ہے۔ - 3 اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زمین پر قرآن نازل فرمایا، اس لیے پہلے اس کا ذکر فرمایا، پھر بلند آسمان کا، پھر رحمٰن کے عرش پر ہونے کا کہ دیکھو یہ رحمت کہاں سے نازل ہوئی اور کس عظیم شخصیت پر نازل ہوئی۔ اس میں قرآن کی رفعت و عظمت کا بھی بیان ہے اور صاحب قرآن کی عظمت کا بھی۔ مزید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کی امت کو اس نعمت کی قدر کا احساس دلانا بھی ہے اور کفار کی طرف سے پیش آنے والی مزاحمت اور مصائب و تکالیف کے مقابلے میں تسلی اور خوش خبری بھی کہ اس رحمٰن کی پشت پناہی حاصل ہونے کے بعد تمہیں کس بات کی پروا ہے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر تفصیل سے کیا کہ انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کس کس طرح حاصل ہوتی ہے اور انھیں کیا کیا آزمائشیں پیش آتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى، استواء علی العرش کے متعلق صحیح بےغبار وہی بات ہے جو جمہور سلف صالحین سے منقول ہے کہ اس کی حقیقت و کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ متشابہات میں سے ہے۔ عقیدہ اتنا رکھنا ہے کہ استواء علی العرش حق ہے اس کی کیفیت اللہ جل شانہ کی شان کے مطابق و مناسب ہوگی جس کا ادراک دنیا میں کسی کو نہیں ہو سکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى۝ ٥- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خدا کا استوا علی العرش ہونا - قول باری ہے (الرحمٰن علی العرش استوی۔ وہ رحمٰن (کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے) حسن کا قول ہے کہ اپنے لطف و تدبیر کے ساتھ جلوہ فرما ہے۔ ایک قول کے مطابق غلبہ حاصل کئے ہوئے ہے۔- قول باری ہے (فانہ یعلم السرا واخفیٰ ۔ وہ چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی مخفی تر بات بھی جانتا ہے) ابن عباس کا قول ہے کہ سر اس بات کو کہتے ہیں جو بندہ چپکے چپکے دوسرے سے کہے اور اس سے زیادہ مخفی بات وہ ہے جو بندہ اپنے دل میں چھپائے رکھے اور کسی سے اس کا اظہار نہ کرے۔ سعید بن جبیر اور قتادہ کا قول ہے کہ سر اس بات کو کہتے ہیں جو بندہ اپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے اور اس سے مخفی تر بات وہ ہے جو سرے سے ہوتی نہیں اور نہ ہی کوئی شخص اپنے دل میں اسے چھپائے رکھتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) اور وہ بڑی رحمت والا عرش پر براجمان ہوا یعنی اس کا تخت شاہی سب پر بھاری ہے یا یہ کہ اس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :2 یعنی پیدا کرنے کے بعد کہیں جا کر سو نہیں گیا ہے بلکہ آپ اپنے کارخانۂ تخلیق کا سارا انتظام چلا رہا ہے ، خود اس ناپیدا کنار سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے ، خالق ہی نہیں ہے بالفعل حکمراں بھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: اس کی تشریح پیچھے سورۃ اعراف : 54 کے حاشیے میں گذر چکی ہے۔